”یہوواہ مجھے تیری خدمت کرنے کا موقع دے“
”یہوواہ مجھے تیری خدمت کرنے کا موقع دے“
ڈینیایل ہال کی زبانی
جب مَیں چھوٹی تھی تو دادیجان ساتھ والے گھر میں رہتی تھیں۔ مَیں بڑے شوق سے اُن سے ملنے کے لئے جایا کرتی تھی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد دادیجان کچھ دیر آرام کرتیں۔ اگر مَیں اُس وقت اُن کے گھر ہوتی تو مَیں بھی اُن کے ساتھ بستر میں گھس جاتی۔ پھر وہ مجھے بائبل سے کہانیاں پڑھ کر سناتیں۔ وہ اکثر مجھ سے کہا کرتیں کہ ”ڈینیایل یہ بات کبھی نہ بھولنا کہ یہوواہ خدا تُم سے پیار کرتا ہے۔ اگر تُم بھی اُس سے محبت رکھو گی تو وہ ہمیشہ تمہاری دیکھبھال کرے گا۔“ دادیجان کی یہ بات میرے دل میں نقش ہو گئی۔
سن ۱۹۷۷ میں جب مَیں چار سال کی تھی تو دادیجان فوت ہو گئیں۔ اُس وقت ہم آسٹریلیا کے ایک چھوٹے سے شہر مو میں رہتے تھے۔ دادیجان سمیت اُس شہر میں ابو کے تمام رشتہدار یہوواہ کے گواہ تھے۔ میرے ابو امی تو اس مذہب سے تعلق نہیں رکھتے تھے لیکن ابو کو یہ مذہب پسند ضرور تھا۔ بعد میں ہم آسٹریلیا کے صوبہ نیو ساؤتھ ویلز کے ایک چھوٹے شہر میں منتقل ہو گئے۔ وہاں ابو مجھے اور میرے بڑے بھائی جیمی کو کبھیکبھار یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر لے جاتے۔
جب مَیں ۸ سال کی تھی تو میرے والدین ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے۔ ابو واپس شہر مو چلے گئے جبکہ جیمی اور مَیں امی کے ساتھ رہے۔ امی کو خدا کے کلام میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُنہوں نے ہمیں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر جانے کی اجازت نہ دی۔ مَیں اس وجہ سے بہت افسردہ تھی۔ مجھے وہ بات یاد آئی جو دادیجان نے میرے دل میں نقش کی تھی۔ مَیں دل سے یہوواہ خدا سے محبت کرتی تھی اور مَیں اُس کی عبادت
کرنا چاہتی تھی۔ اس لئے مَیں نے دُعا میں یہوواہ خدا کو بتایا کہ مَیں اُسی کی عبادت کرتی ہوں۔ کچھ یہی حال میرے بھائی جیمی کا بھی تھا۔سکول میں آزمائشوں کا سامنا
اس کے کچھ عرصہ بعد ہی سکول میں ایک اُستاد نے بچوں کے مختلف مذاہب کی فہرست تیار کی۔ اُس نے کلاس سے کہا کہ ”مَیں جس بچے کا نام لوں گا وہ اپنا مذہب بتائے۔“ جب جیمی کی باری آئی تو اُس نے اُونچی آواز میں کہا: ”مَیں یہوواہ کا گواہ ہوں۔“ اس پر اُستاد چونکا اور اُس نے جیمی سے دوبارہ سے پوچھا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ جب جیمی نے پھر سے وہی جواب دیا تو اُستاد نے کہا: ”میرے خیال میں تُم غلطی پر ہو۔ بہرحال مَیں بعد میں تُم سے بات کروں گا۔“ پھر جب میری باری آئی تو مَیں نے بھی اُونچی آواز میں کہا: ”مَیں یہوواہ کی گواہ ہوں۔“ اس پر اُستاد نے پریشان ہو کر سکول کے پرنسپل کو کلاس میں آنے کی درخواست کی۔
پرنسپل صاحب نے ہم سے کہا: ”تمہارے کاغذات میرے پاس ہیں۔ تمہارے والدین نے سکول میں تمہارا داخلہ کراتے وقت ان میں یہ تو نہیں لکھوایا کہ تُم یہوواہ کے گواہ ہو۔“ ہم دونوں نے بڑے احترام سے کہا: ”لیکن ہم اِس مذہب کے مطابق خدا کی عبادت کرتے ہیں۔“ اس کے بعد کسی نے دوبارہ سے ہم سے اس موضوع پر بات نہیں کی۔
سکول میں مَیں اسی کوشش میں رہتی کہ مَیں دوسروں کو بھی وہ باتیں بتاؤں جو مَیں نے خدا کے کلام سے سیکھی تھیں۔ مَیں بائبل کہانیوں کی میری کتاب ساتھ لے جاتی اور کبھیکبھار ایک لڑکی کو اس میں سے پڑھ کر سناتی۔ * چونکہ مَیں خدا کے حکموں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتی اس لئے زیادہتر بچے مجھ سے دوستی نہیں کرتے۔ کبھیکبھار تو مَیں خود کو بہت ہی تنہا محسوس کرتی۔
مَیں یہوواہ خدا سے اکثر دُعا کرتی۔ وہ ہی میرا سب سے اچھا دوست تھا۔ ہر روز سکول سے گھر آ کر مَیں بستر پر بیٹھ کر یہوواہ خدا کو بڑی تفصیل سے بتاتی کہ اُس دن کیا کیا ہوا تھا۔ اکثر مَیں رو پڑتی۔ روتے روتے مَیں یہوواہ خدا سے التجا کرتی کہ ”یہوواہ مجھے تیرے خادموں کے ساتھ ملکر تیری خدمت کرنے کا موقع دے۔“ دُعا کرنے کے بعد میرے دل کا بار ہلکا ہو جاتا۔
ایک خاص خط
جب مَیں دس سال کی تھی تو جیمی ابو کے ساتھ رہنے کے لئے شہر مو چلا گیا۔ اب تو مَیں خود کو اَور بھی تنہا محسوس کرنے لگی کیونکہ یہوواہ کی عبادت کرنے میں جیمی ہی تو میرا ساتھ دیتا تھا۔ پھر ایک دن جب مَیں ایک پڑوسی کے گھر گئی تو اتفاق سے مجھے وہاں کچھ رسالے ملے جو یہوواہ کے گواہوں نے شائع کئے تھے۔ ان پر یہوواہ کے گواہوں کے مقامی دفتر کا پتا دیا گیا تھا۔ مَیں نے اسے یاد کر لیا اور پھر بھاگی بھاگی گھر گئی اور اسے لکھ لیا۔ پھر مَیں نے اس پتے پر ایک خط لکھا جس میں مَیں نے اپنے بارے میں بتایا۔ مَیں نے یہ درخواست بھی کی کہ خدا کے نزدیک جانے میں میری مدد کی جائے۔ اس پر مجھے دو صفحوں پر مشتمل ایک خط وصول ہوا جس کو پڑھ کر میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ خط میری ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے خاص میرے لئے لکھا گیا تھا۔ اس سے مَیں جان گئی کہ یہوواہ خدا مجھ سے واقعی محبت کرتا ہے۔
خط میں مجھے بنی اسرائیل کی اُس چھوٹی لڑکی کی طرح بننے کی حوصلہافزائی کی گئی جسے اسیر کرکے ملک ارام لے جایا گیا تھا۔ وہاں اُسے ارام کے لشکر کے سردار نعمان کی خدمت کرنی پڑی۔ وہ اپنے دیس سے دُور ایک اجنبی ملک میں غلام تھی لیکن اس کے باوجود وہ یہوواہ خدا کے نزدیک رہی۔ یہ لڑکی بِلاجھجھک لوگوں کو یہوواہ خدا کے بارے میں بتاتی اور یوں اُس نے ثابت کِیا کہ وہ واقعی یہوواہ کی گواہ ہے۔—۲-سلاطین ۵:۱-۴۔
خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ ”آپ ابھی چھوٹی ہیں۔ اس لئے اپنے والدین کی فرمانبردار رہیں اور دل لگا کر پڑھائی کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے دُعا کِیا کریں اور خدا کے کلام کا مطالعہ بھی کرتی رہیں تاکہ آپ یہوواہ خدا کے نزدیک رہ سکیں۔“ آخر میں خط میں یوں لکھا تھا: ”ڈینیایل، ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ جہاں کہیں بھی ہوں گی یہوواہ خدا آپ کے نزدیک رہے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ کو اس بات کا پکا یقین ہے۔“ (رومیوں ۸:۳۵-۳۹) اِس خط کو آئے بہت سال گزر گئے ہیں لیکن مَیں نے اسے آج تک اپنی بائبل میں سنبھال کر رکھا ہے۔ مَیں اسے اَنگنت بار پڑھ چکی ہوں لیکن جب بھی مَیں اسے پڑھتی ہوں میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی مجھے ایک اَور خط وصول ہوا۔ اس میں مجھے اطلاع کی گئی کہ میرے ابو نے میرے لئے باقاعدگی سے جاگو! اور مینارِنگہبانی کے رسالے بھجوانے کا بندوبست کِیا ہے۔ مَیں بہت ہی خوش ہوئی کیونکہ ان رسالوں کے ذریعے مَیں خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں مزید سیکھ سکتی تھی۔ جونہی یہ رسالے آتے مَیں ان کو پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک پڑھتی۔ مَیں نے ان رسالوں کو آج تک سنبھال کر رکھا ہے۔ جب مجھے یہ خط ملا تھا تقریباً اسی وقت مقامی کلیسیا کا ایک بزرگ مجھ سے ملنے کے لئے آنے لگا۔ وہ چند ہی لمحے مجھ سے بات کرتا لیکن میرے لئے اُس کی ملاقاتیں ایک نعمت سے کم نہ تھیں۔
بدلتے حالات
حالانکہ اب خدا کے نزدیک آنے میں میری مدد کی جا رہی تھی لیکن مَیں اب بھی یہوواہ خدا کی اس طرح سے عبادت نہیں کر سکتی تھی جیسے مَیں کرنا چاہتی تھی۔ مجھے امی سے بےحد پیار تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرے دل میں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی خواہش ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ اس لئے جب مَیں ۱۳ سال کی ہوئی تو مَیں امی سے اجازت لے کر ابو کے ساتھ شہر مو میں رہنے لگی۔ وہاں مَیں نے مقامی کلیسیا کی مدد سے خدا کے کلام کی سچائیوں کا مطالعہ شروع کر دیا۔ ابو نے مجھے اور جیمی کو عبادت کے لئے باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونے کی اجازت بھی دے دی۔ ہمارے مسیحی بہنبھائیوں نے ہماری بہت مدد کی۔ جیمی اور مَیں نے جلد ترقی کی اور یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔ آخرکار خدا نے میری وہ دُعا سُن لی جو مَیں نے بچپن میں کی تھی اور مَیں یہوواہ کے خادموں کے ساتھ ملکر اُس کی خدمت کرنے لگی۔
میری پھپھی اور پھپھا بھی مو کی کلیسیا کے رُکن تھے۔ وہ میرے ساتھ بیٹیوں جیسا سلوک کرتے تھے۔ مَیں ان کے بہت ہی قریب ہو گئی۔ بعد میں وہ مو کو چھوڑ کر پاپوآنیوگنی کے ایک جزیرے پر جا کر رہنے لگے کیونکہ وہاں کم ہی یہوواہ کے گواہ تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔ ابو اور امی نے مجھے اُن کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی حالانکہ اُس وقت مَیں صرف ۱۵ سال کی تھی۔ مَیں بہت ہی خوش تھی۔
اس جزیرے پر مَیں نے خطوط کے ذریعے اپنی پڑھائی جاری رکھی۔ سکول کے کام سے فارغ ہوتے ہی مَیں تبلیغی کام میں حصہ لیتی۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ مَیں مشنری اور کُل وقتی مُنادوں کے ساتھ اس اہم کام میں حصہ لے سکتی تھی۔ اُس جزیرے کے باشندوں کی عاجزی دیکھنے والی تھی اور اُنہیں بائبل کے بارے میں سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔
افسوس کی بات ہے کہ اُسی سال اُس جزیرے پر سیاسی جماعتوں کے درمیان فسادات ہونے لگے۔ اب میرے لئے وہاں رہنا ممکن نہ تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس خوبصورت جزیرے اور اُس کے پیارے باشندوں کو چھوڑ کر جانے سے میرا دل ٹوٹ جائے گا۔ ہوائی جہاز کی کھڑکی میں سے جھانکتے ہوئے مَیں نے اپنے پھپھا کو سڑک پر کھڑے دیکھا جو مجھے خداحافظ کہہ رہے تھے۔ اس پر مَیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مَیں نے دل ہی دل میں یہوواہ خدا سے التجا کی کہ ”مجھے کسی دُوردراز ملک میں مشنری کے طور پر تیری خدمت کرنے کا موقع دے۔“
میری دُعائیں قبول ہوتی ہیں
آسٹریلیا واپس پہنچنے پر مَیں نے اپنی پڑھائی مکمل کی اور پھر آفس کا کام کرنے کی تربیت حاصل کرنے لگی۔ ابو نے دوسری شادی کر لی تھی اور اب میرے بہت سے سوتیلے بہنبھائی بھی تھے۔ جیمی امی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ کچھ عرصے تک مَیں کبھی امی کے ساتھ رہتی اور کبھی ابو کے ساتھ۔ مَیں خوش نہ تھی۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ میرا کوئی ٹھکانا اور کوئی منزل نہیں ہے۔ آخرکار ۱۹۹۴ میں مَیں نے شہر مو میں رہنے اور پائنیر بننے یعنی کُل وقتی طور پر تبلیغی کام میں حصہ لینے کا فیصلہ کِیا۔
اس فیصلے پر عمل کرنے سے مَیں ایک بار پھر خوش اور مطمئن ہو گئی۔ مَیں نے کلیسیا کے اُن نوجوانوں کے ساتھ دوستی کر لی جو دل سے خدا کی خدمت کر رہے تھے۔ اُنہوں نے اس خدمت میں میرا ساتھ دیا۔ سن ۱۹۹۶ میں مَیں نے اُن میں سے ایک سے شادی کر لی۔ میرا شوہر وِل بہت ہی نرم مزاج اور مہربان ہے۔ مَیں یہوواہ خدا کی شکرگزار ہوں کہ اُس نے مجھے اتنا اچھا بیاہتا ساتھی دیا ہے۔
زندگی خوشی خوشی گزر رہی تھی۔ ایک دن جب وِل سفری نگہبان کے ساتھ تبلیغی کام میں حصہ لینے کے بعد گھر آئے تو اُنہوں نے مجھ سے پوچھا: ”کیا آپ اپنی کلیسیا کو چھوڑ کر ایک دوسری کلیسیا کی مدد کرنے کو تیار ہیں؟“ دل ہی دل میں مَیں نے فوراً ایسا کرنے کی حامی بھر لی لیکن مَیں نے مذاق کرتے ہوئے پوچھا: ”آپ کس کلیسیا کو منتقل ہونے کی بات کر رہے ہیں؟“ اور پھر مَیں نے چند دُوردراز علاقوں کا ذکر کِیا۔ اس پر وِل نے کہا: ”مَیں مورویل کی کلیسیا کی بات کر رہا ہوں۔“ یہ سُن کر میرے مُنہ سے بےساختہ نکلا: ”مورویل؟ لیکن یہ تو ہمارے ساتھ والی کلیسیا ہے!“ پھر ہم دونوں ہنس پڑے اور ہم نے فیصلہ کِیا کہ ہم اِس کلیسیا میں منتقل ہو کر وہاں اپنی کُل وقتی خدمت کو جاری رکھیں گے۔
اگلے تین سال تک ہم نے مورویل کی کلیسیا میں خدمت کی۔ پھر ہمیں آسٹریلیا میں یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر سے ایک خط وصول ہوا۔ اس میں ہمیں مشرقی ٹیمور جانے اور وہاں خاص پائنیروں کے طور پر خدمت کرنے کی دعوت دی گئی۔ مشرقی ٹیمور ایک چھوٹا سا ملک ہے جو انڈونیشیا کے پاس ہی واقع ہے۔ جب مجھے اس دعوت کی اطلاع ملی تو میری آنکھیں بھر آئیں۔ واقعی، یہوواہ خدا نے میری تمام دُعائیں قبول کر لی تھیں۔ مَیں نہ صرف اُس کے خادموں کے ساتھ ملکر اُس کی خدمت کر رہی تھی بلکہ اب تو مجھے اور وِل کو ایک دُوردراز ملک میں خدمت کرنے کے لئے بھی بھیجا جا رہا تھا۔
دُوردراز ملک میں خدمت
ہم سن ۲۰۰۳ میں جولائی کے مہینے میں مشرقی ٹیمور کے دارالحکومت ڈیلی پہنچے۔ ملک میں صرف ایک ہی کلیسیا تھی اور وہ ڈیلی ہی میں واقع تھی۔ اس کلیسیا میں آسٹریلیا کے ۱۳ یہوواہ کے گواہ خاص پائنیر کے طور پر خدمت انجام دے رہے تھے اور باقی بہنبھائی مشرقی ٹیمور کے باشندے تھے۔ یہ بہنبھائی بہت مکاشفہ ۲:۸، ۹۔
ہی غریب تھے۔ دراصل اس ملک میں ۲۴ سال تک یعنی ۱۹۹۹ تک خانہجنگی رہی تھی جس کی وجہ سے زیادہتر بہنبھائی اپنا سب کچھ کھو بیٹھے تھے۔ اس کے علاوہ جب اُنہوں نے یہوواہ خدا کی عبادت کرنا شروع کی تھی تو ان میں سے بہت کو اپنے خاندان کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان سب مصیبتوں کے باوجود یہ بہنبھائی روحانی طور پر دولتمند اور خوش تھے۔—مشرقی ٹیمور کے باشندے خدا پر اور بائبل پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمیں جلد ہی ڈھیر سارے لوگ مل گئے جو خدا کے کلام کی سچائیوں کے بارے میں سیکھنے کو بےتاب تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان میں سے بعض نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا اور ہمارے ساتھ تبلیغی کام میں مصروف ہو گئے۔ ان کی ترقی دیکھ کر ہمیں دلی خوشی ملتی ہے۔
پھر سن ۲۰۰۶ میں ڈیلی میں اچانک اُودھم مچ گیا۔ ملک میں دوبارہ سے خونریزی اور فسادات ہونے لگے۔ ہر طرف لُوٹمار ہو رہی تھی اور بہت سے گھر جلا کر راکھ کر دئے گئے۔ جو بہنبھائی مشرقی ٹیمور کے باشندے تھے اُنہوں نے آسٹریلیا سے آئے ہوئے خاص پائنیروں کے گھر پناہ لی۔ ہمارا گھر اور صحن ایک پناہگزین کیمپ بن گیا۔ ایک بار تو ہمارے ہاں تقریباً ۱۰۰ بہنبھائی رہ رہے تھے۔ چونکہ ہمارا گیراج کافی بڑا تھا اس لئے یہ کبھیکبھار باورچیخانے کے طور پر استعمال ہوتا اور کبھیکبھار عبادتگاہ کے طور پر۔
حالانکہ آسپاس گرینیڈ پھٹ رہے تھے اور متواتر فائرنگ ہو رہی تھی لیکن ہمارے گھر کی فضا پُرامن تھی۔ یہوواہ خدا نے ہماری حفاظت کی۔ صبح کو اُٹھ کر سب ملکر خدا کے کلام سے ایک آیت پر باتچیت کرتے۔ ہمارے گھر میں تمام ہفتہوار اجلاس منعقد ہوتے اور لوگ خدا کے کلام کے بارے میں سیکھنے کے لئے بھی آتے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات واضح ہو گئی کہ جو بہنبھائی ملک کے مشرقی علاقے سے تھے ان کے لئے ڈیلی میں رہنا خطرناک تھا۔ لہٰذا کلیسیا کے بزرگوں نے فیصلہ کِیا کہ شہر باؤکاؤ میں یہوواہ کے گواہوں کا گروہ قائم کِیا جائے۔ یہ شہر، ڈیلی کی مشرقی سمت میں واقع ہے اور وہاں سے تقریباً تین گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔ وِل اور مجھے اس شہر میں جا کر خدمت کرنے کو کہا گیا۔
مشرقی ٹیمور آنے کے ٹھیک تین سال بعد جولائی ۲۰۰۶ میں ہم باؤکاؤ پہنچے۔ ہمارے چھوٹے سے گروہ میں چار خاص پائنیروں کے علاوہ چھ ایسے بہنبھائی بھی شامل تھے جو مشرقی ٹیمور کے باشندے ہیں۔ اپنی جان بچانے کی خاطر یہ بہنبھائی اپنا سب کچھ ڈیلی میں چھوڑ آئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ افسردہ نہیں تھے۔ اُن کی ہمت اور وفاداری کو دیکھ کر ہمارے دل میں اُن کا احترام بڑھ گیا۔
وِل اور مَیں ابھی بھی باؤکاؤ ہی میں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اس شرف کے لئے ہم یہوواہ خدا کے نہایت ہی شکرگزار ہیں۔ ہم یہاں پر بہت خوش ہیں۔ جب مَیں بیتے ہوئی سالوں کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ دادیجان ٹھیک ہی تو کہتی تھیں، یہوواہ خدا نے واقعی میری دیکھبھال کی ہے۔ مَیں روزانہ اُس کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اُس نے مجھے اپنے خادموں کے ساتھ ملکر اُس کی خدمت کرنے دی ہے۔ مَیں بڑی بےتابی سے اس وقت کی منتظر ہوں جب خدا دادیجان کو زمینی فردوس پر زندہ کرے گا اور مَیں اُن سے مل سکوں گی۔ تب مَیں اُن کا شکریہ ادا کروں گی کہ اُنہوں نے مجھے ایسی باتیں سکھائی تھیں جن کی وجہ سے مجھے بہت سی خوشیاں حاصل ہوئیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 9 یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
مَیں دادیجان کے ساتھ
[صفحہ ۲۰ ،۲۱ پر تصویر]
مَیں اپنے شوہر وِل کے ساتھ