بیکال—دُنیا کی ایک بہت بڑی جھیل
بیکال—دُنیا کی ایک بہت بڑی جھیل
روس سے جاگو! کا نامہنگار
جنوبی سائبیریا کے منگول قبائل عرصۂدراز سے اِس جھیل کو متبرک خیال کرتے ہیں۔ اگرچہ کئی جھیلوں کا رقبہ اِس جھیل سے زیادہ ہے توبھی یہ دُنیا کی گہری اور میٹھے پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، دُنیا کے میٹھے پانی کا پانچواں حصہ اِس جھیل میں پایا جاتا ہے۔ یہ جھیل بیکال کے نام سے مشہور ہے، جس کا مطلب ”زندگی سے لبریز جھیل“ یا ”ساگر“ ہے۔ کیونکہ یہ ایک ”وسیع اور موجزن“ جھیل ہے اِس لئے یہاں آنے والے ملاح اکثر یہ کہتے ہیں کہ وہ ”سمندر پر جا رہے ہیں۔“
روس کے لوگوں کو اِس جھیل سے بڑا لگاؤ ہے۔ ماسکو کی ایک سائنسدان نے اِس جھیل کو ایسی ”دلکش موسیقی سے تشبِیہ دی جو سب ہی سیکھتے ہیں۔“ موسیقی کو ترتیب دینے والے مختلف ”سُروں“ کی طرح بیکال جھیل بھی بیشمار خصوصیات کی مالک ہے۔ اِس کی مختلف خصوصیات میں دمبخود کر دینے والے ساحل، غیرمعمولی طور پر صافشفاف پانی اور ایسے جاندار بھی شامل ہیں جو دُنیا میں اَور کہیں نہیں پائے جاتے۔
اگر آپ فضا سے بیکال جھیل کا نظارہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کی لمبائی تقریباً ۳۹۵ میل (۶۳۶ کلومیٹر) اور چوڑائی ۵۰ میل (۸۰ کلومیٹر) ہے۔ اِس کا پانی نیلا اور اِس کی شکل نئے چاند کی مانند ہے۔ اِس لئے لوگ اِسے سائبیریا کی نیلی آنکھ بھی کہتے ہیں۔ اِس ایک جھیل میں شمالی امریکہ کی پانچ بڑی جھیلوں کے برابر پانی ہے۔ بیکال جھیل ایک میل (۶۰۰،۱ میٹر) گہری ہے۔ اگر یہ کبھی اچانک سے خشک ہو گئی تو دُنیا کے تمام دریاؤں میں موجود پانی کو بھی اِسے دوبارہ بھرنے میں ایک سال لگ جائے گا!
برِّاعظموں کا ٹکراؤ
ماہرِارضیات یعنی زمین کی ساخت اور اِس میں واقع ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنے والے لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ بہت عرصہ پہلے، شمال کی جانب بڑھنے والا ایک برِصغیر پوری شدت کے ساتھ برِّاعظم ایشیا سے ٹکرایا تھا۔ اِس ٹکراؤ کی وجہ سے زمین کی نچلی تہ میں موجود تحتی چٹانوں میں خم آ گیا اور یہ ایک دوسرے میں دھنس گئیں۔ اِن چٹانوں نے زمین کی سطح کو اِس حد تک اُوپر اٹھا دیا کہ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ وجود میں آ گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ برِّاعظموں کے آپس میں ٹکرانے سے سائبیریا میں بڑے بڑے شگاف یا دراڑیں پڑ گئیں۔ اِن میں سے ایک آجکل بیکال رفٹ کے نام سے مشہور ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِردگرد کے پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور مٹی نے اِس شگاف کو چار میل (تقریباً ۷ کلومیٹر) سے زیادہ گاد یا گارے سے بھر دیا۔ یوں اِس جگہ پر جمع ہونے والے پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ کناروں سے باہر بہنے لگا۔ اِس طرح سائبیریا کے اِس علاقے کا نام بیکال جھیل پڑ گیا۔ اِس وقت اِس جھیل میں ۳۰۰ سے زائد دریا اور ندیاں گرتی ہیں لیکن اِس سے صرف ایک ہی دریا نکلتا ہے جس کا نام انگرا ہے۔
دُنیا کی قدیمترین جھیلوں کے برعکس، بیکال جھیل گارے یا کیچ سے بند نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ دلدل میں تبدیل ہوئی۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اِس کی ایک وجہ جھیل کے نیچے موجود سرگرم یا فعال ٹیکٹونک پلیٹس ہیں جو ابھی تک حرکت میں ہیں اور اِس شگاف کو وسیع کر رہی ہیں۔ لہٰذا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گاد یا گارے سے بھرنے کی بجائے یہ جھیل ہر سال زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہے! یہ فعال ٹیکٹونک پلیٹس جھیل کی تہ سے گرم پانی کے نکاس کو بھی ممکن بناتی ہیں۔
بیکال جھیل کے اندر کا نظارہ
بعض لوگ بیکال جھیل کے اندر کشتی کا سفر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کیونکہ آپ کو اِس کے صافشفاف پانی میں سے ۱۵۰ فٹ نیچے تک کا منظر بالکل ایسے دکھائی دیتا ہے جیسے ایپیشورا کہلاتے ہیں جھیل کے لئے فلٹر کا کام انجام دیتے ہیں۔ یہ جاندار جھیل کو اِس میں پائی جانے والی بحری کائی اور بیکٹریا سے صاف کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ، جھیل میں موجود جھینگامچھلی بھی اِن خولدار جانوروں کی مدد کرتی ہے۔ یہ آبی مخلوق جھیل کے پانی میں موجود ایسے بیشمار جانوروں اور پودوں کو کھا جاتی ہے جو گلسٹر کر جھیل کو آلودہ کر سکتے ہیں۔ اِس لئے جھیل کا پانی اتنا صافشفاف ہے کہ تقریباً بیس سال پہلے جب لیبارٹری میں اِس جھیل کے پانی کا معائنہ کِیا گیا تو جس گلاس میں اِسے ڈالا گیا تھا اُس میں موجود جراثیم نے اِس پانی کو آلودہ کر دیا!
آپ اُوپر فضا کو دیکھ رہے ہوں! چھوٹے چھوٹے خولدار جاندار جوبیکال جھیل نہ صرف اپنے صافشفاف ہونے کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ اِس میں بڑی مقدار میں آکسیجن بھی پائی جاتی ہے۔ بعض گہری جھیلوں میں ایک خاص گہرائی پر جا کر آکسیجن ختم ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اِن میں موجود آبیمخلوق نسبتاً اُتھلے یا کم گہرے پانیوں میں رہتی ہے۔ مگر جہاں تک بیکال جھیل کا تعلق ہے تو پانی کے اُفقی اور عمودی دھارے آکسیجن کو جھیل کی تہ تک لے جاتے اور اِسے سارے پانی میں اچھی طرح ملا دیتے ہیں۔ اِس طرح ساری جھیل کا پانی آبی جانداروں کے لئے زندگی کو ممکن بناتا ہے۔
پانی کے نیچے پائی جانے والی نباتات یعنی آبی پودے بھی ٹھنڈے اور صافستھرے پانی میں خوب نشوونما پاتے ہیں۔ مونگے کی طرح دکھائی دینے والے سبز رنگ کے اسفنجنما جاندار گروہوں کی شکل میں نشوونما پاتے ہیں۔ لیکن اِن کے سائے میں بہت سے چھوٹے چھوٹے آبی جاندار بسیرا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ملجل کر رہنے والے بہت سے جاندار جھیل کے اُس حصے میں رہتے ہیں جہاں سے گرم پانی نکلتا ہے۔ اِس جھیل میں پائی جانے والی ۰۰۰،۲ سے زیادہ آبیمخلوق میں سے ۵۰۰،۱ اِسی جگہ پر رہتی ہے۔
بیکال جھیل سامن خاندان سے تعلق رکھنے والی اومل کے لئے بھی بہت مشہور ہے جوکہ قطبشمالی میں پائی جانے والی ایک نہایت لذیذ سفید مچھلی ہے۔ اِس مچھلی کو ماہیگیر بہت قیمتی خیال کرتے اور بہت پسند کرتے ہیں۔ جھیل میں اَور بھی بہت سے منفرد اور عجیبوغریب جاندار پائے جاتے ہیں۔ یہاں پائے جانے والے کینچووں کی ایک قسم ایک فٹ سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے جو مچھلیاں کھاتی ہے۔ اِس کے علاوہ، یہاں ریت کے ذرّات کے اندر یکخلوی جاندار بھی رہتے ہیں! اِس جھیل کی ایک اَور مشہور مچھلی گولومائنکا ہے۔ یہ ایک ایسی عجیبوغریب آبیمخلوق ہے جو شاید صرف یہیں پائی جاتی ہے۔
گولومائنکا شوخ سترنگی چھوٹی مچھلی ہے جس کی جلد بہت چمکتی ہے۔ یہ جھیل کی تہ میں رہتی ہے اور انڈے دینے کی بجائے مچھلیوں کو جنم دیتی ہے۔ اِس کے جسم کے ایک تہائی حصے میں چربی اور وٹامن اے کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔ جھیل کی گہرائی میں یہ ۷۰۰ سے لیکر ۶۰۰،۱ فٹ تک پانی کے شدید دباؤ کا بھی مقابلہ کر لیتی ہے مگر جب اِس کے جسم پر سورج کی روشنی پڑتی ہے تو اِس کا گوشت پگھل جاتا ہے اور صرف اِس کی ہڈیاں اور چربی باقی رہ جاتی ہے۔ گولومائنکا بیکال جھیل میں پائی جانے والی نرپا یعنی بیکال سِیل کی پسندیدہ خوراک ہے۔ نرپا واحد آبی جاندار ہے جو صرف میٹھے پانیوں میں رہتی ہے۔
جھیل کے بدلتے موسم
بیکال جھیل پر سال میں تقریباً پانچ مہینے برف جمی رہتی ہے۔ جنوری کے آخر تک برف کی تہ تین فٹ سے بھی زیادہ موٹی ہو جاتی ہے۔ برف پر بننے والی دھاریاں ایسی نظر آتی ہیں گویا کسی نے پچیکاری یا نقاشی کا کام کِیا ہو۔ سورج کی روشنی میں برف شیشے کی مانند چمکتی ہے۔ جھیل پر موجود برف اتنی صافشفاف ہوتی ہے کہ اِس پر چلنے والے لوگوں کو جھیل کی تہ میں موجود چٹانیں بھی بالکل صاف دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن یہ برف غیرمعمولی طور پر ٹھوس ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، تقریباً سو سال پہلے روس اور جاپان کے مابین ہونے والی لڑائی میں روسی فوج نے بیکال جھیل پر جمی برف کے اُوپر ریل کی پٹڑی بچھا دی اور بڑی کامیابی کے ساتھ اِس پر سے ۶۵ ریل کے انجن گزارے!
اپریل کے آخر سے لیکر جون تک برف بڑی زوردار آواز کے ساتھ ٹوٹتی ہے۔ جھیل سے متواتر آنے والی آوازیں موسم کی مناسبت سے موسیقی پیش کرتی ہیں۔ مقامی لوگ اِس سے بخوبی واقف ہیں اور بعض نے اِس کا نام ”برفانی موسیقی“ رکھ دیا ہے۔ جیسے طبیعی کائنات کا مطالعہ کرنے والے ایک برطانوی شخص نے لکھا کہ جھیل پر ٹوٹنے والی برف سے ایسی آوازیں آتی ہیں ”جیسے گھنگرؤں کی چھنچھناہٹ اور بلیوں کی خرخراہٹ۔“ جوں ہی موسم گرم ہوتا ہے تو ہوا اور پانی کی لہریں جھیل پر جمی برف کو کناروں کی طرف دھکیل دیتی ہیں۔ یوں جھیل کے کناروں پر چمکتی برف کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔
جب جھیل کا پانی پھر سے صاف نظر آنے لگتا ہے تو پرندے لوٹ آتے ہیں۔ بیکال جھیل کے علاقے میں بعض ایسے پرندے بھی بسیرا کرتے ہیں جنہیں غوطہخور پرندے کہتے ہیں۔ یہ پرندے سارا موسمِسرما بیکال جھیل کے اُس حصے میں گزار دیتے ہیں جہاں سے انگرا نامی دریا نکلتا ہے۔ کیونکہ یہ جھیل کا واحد حصہ ہے جہاں کبھی برف نہیں جمتی۔ لہٰذا اِن پرندوں کو یہاں خوراک کے لئے میٹھے پانی میں رہنے والے جھینگے، چھوٹی مچھلیاں اور کینچوے وغیرہ مل جاتے ہیں۔ مگر موسم گرم ہوتے ہی یہ پرندے بطخوں، ہنسوں، بگلوں یا سارس جیسے آبی پرندوں کے ساتھ رہنے لگتے ہیں۔
جون کے مہینے میں جھیل کا نظارہ کرنے کے لئے آنے والے لوگ جھیل کے کناروں پر گھومنے والے ریچھوں کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ریچھ یہاں کیڈس مکھی کے لاروے کا شکار کرنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ مکھی بھی آبی حشرات میں سے ایک ہے جو یہاں چٹانوں میں گروہوں کی شکل میں انڈے سینے کے لئے آتی ہیں۔ جب ریچھ کو اپنے اردگرد اُڑتے ہوئے حشرات کی بھنبھناہٹ سنائی دیتی ہے تو لپک کر اِن کا شکار کرنے میں اُسے بڑا مزا آتا ہے۔ اِس موسم میں ساحل پر گہماگہمی کی وجہ سے اَور بھی بہت سے چرندپرند یہاں کا رخ کر لیتے ہیں۔
موسمِبہار اور موسمِگرما کے شروع میں، جھیل کے اندر بہت زیادہ کائی پھوٹ نکلتی ہے جو چھوٹے چھوٹے قشری یا خولدار جانداروں کے لئے خوراک کا کام انجام دیتی ہے۔ اِسی کائی کی وجہ سے پانی کا رنگ سبز ہو جاتا ہے۔ تاہم، اگر ساحل سے دیکھا جائے تو بیکال جھیل کا پانی عام طور پر سبزی مائل ہلکا نیلا (فیروزی) لگتا ہے۔ لیکن جھیل کے اندر کے گہرے پانی کا رنگ سمندر کی طرح گہرا نیلا ہوتا ہے۔
جھیل کے ساتھ ساتھ ریت کے ٹیلے اور چٹانیں نظر آتی ہیں۔ یہاں واقع خوشنما خلیج اور راس بھی نہایت دلچسپ منظر پیش کرتے ہیں۔ اِن سے متاثر ہوکر بیکال جھیل پر کتاب لکھنے والے ایک شخص نے کہا کہ ”یہ نگینوں جیسی آبوتاب والا ایک خوبصورت اور وسیعوعریض علاقہ ہے۔“ یہ علاقہ شمال، مشرق اور جنوب میں منگولیہ کی سرحد پر واقع سیئن نامی پہاڑی سلسلے تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ پہاڑ موسمِگرما کے آخر تک برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ جیہاں، یہاں آسمان پانی سے ملکر طرح طرح کے قدرتی نظارے پیش کرتا ہے۔
سال کے آخر میں جھیل کے اندر اکثر طوفان بھی اُٹھتے ہیں۔ موسمِخزاں میں چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے بعضاوقات جھیل میں طوفانی گردباد جیسی شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ طوفانی گردباد جھیل کی پُرسکون سطح کو اتنی شدت سے ہلا دیتے ہیں کہ اِس میں ۱۵ سے ۲۰ فٹ اُونچی تندوتیز لہریں اُٹھنے لگتی ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ایسی ہوائیں سال کے دیگر اوقات میں بھی مسافروں سے بھرے بڑے بڑے بحری جہازوں اور مچھلیوں کے شکار کے لئے آنے والی کشتیوں کو پانی میں غرق کر دیتی ہیں۔
قدرتی مناظر کی سرزمین
سائبیریا میں موسموں کی شدت شاید بیکال جھیل کی بابت یہ تاثر دے کہ یہ پانی کا ایک عجیبوغریب اور الگتھلگ سا ٹکڑا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ جھیل بیکال دلچسپ مناظر کی سرزمین ہے جہاں بےشمار جنگلی جانور اور نباتات پائی جاتی ہیں۔ جھیل کے چاروں اطراف پھیلے ہوئے خوبصورت پہاڑی سلسلوں میں رینڈئیر (شمالی علاقہجات میں رہنے والا ہرن کی نسل کا پستانیہ) اور سائبیریا کی پہاڑی بکریاں رہتی ہیں جن کی نسل خطرے سے دوچار ہے۔
جب اُونچائی سے نیچے کی طرف اُتریں تو وسیع میدانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ گھاس کے اِن سرسبز میدانوں کو سائبیریا کے باغیچے کہنا غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ طرح طرح کے جنگلی پھولوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ اِن میدانوں میں پائے جانے والے نایاب پرندوں میں افریقہ کے خوبصورت سارس یا کونجیں اور ایشیا کا سب سے بڑا پرندہ جرز شامل ہے جو بڑی حد تک کلنگ اور سارس سے مشابہت رکھتا ہے۔
بیکال جھیل کے چاروں طرف پھیلا ہوا صنوبر کا گھنا جنگل بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ صنوبر کا یہ جنگل برازیل کے برساتی جنگلات سے دو گُنا بڑا ہے۔ برازیل کے برساتی جنگلات کی طرح صنوبر کے جنگلات بھی دُنیا کے موسموں اور ماحولیات کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں پرندوں کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں جن میں جنگلی مرغ (گراؤس) بھی شامل ہے۔ نر اور مادہ جنگلی مرغ کا ایک دوسرے سے ملاپ دیکھنے والا منظر ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے وہ جس انداز میں اپنے پر پھیلاتا اور مستی میں جھوم جھوم کر آوازیں نکالتا ہے وہ بھی ایک دلکش نظارہ ہوتا ہے! صفحہ ۲۵ پر نظر آنے والی خوبصورت بیکال مرغابی بھی یہاں بڑی تعداد میں نظر آتی ہے۔
بیکال جھیل کے پہاڑی سلسلے برگوزن اور اِس کے متوازی دریائے برگوزن کے درمیانی علاقے میں پایا جانے والا ایک گوشتخور ممالیا برگوزن سیبل ہے۔ اِس کی سیاہ چمکدار کھال حاصل کرنے کے لئے اِس کا شکار کِیا جاتا ہے جسے سمور کہتے ہیں۔ اِس کے بہت زیادہ شکار کئے جانے کی وجہ سے اِس کی نسل تقریباً ناپید ہونے کو تھی مگر قدرتی وسائل کا تحفظ کرنے والے اشخاص کی مدد سے اب ایک بار پھر اِن کی نسل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس خوبصورت مخلوق کو بچانے کی کوشش میں سن ۱۹۱۶ میں بیکال جھیل کے کناروں پر برگوزن نیچر ریزرو قائم کئے گئے۔ اِس وقت جھیل کے ساحلوں کے گرد تین ایسے نیچر ریزرو موجود ہیں۔ اِن کے ساتھ ہی لوگوں کے لئے تین نیشنل پارک بھی بنائے گئے ہیں۔
کائنات کی تہ تک جانا
بیکال جھیل یونیسکو ورلڈ ہیریٹج ہے اور یہ سیاحوں کا ایک پسندیدہ مقام ہے۔ ہر سال پوری دُنیا سے ۰۰۰،۰۰،۳ سے زائد سیاح یہاں آتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایک مضمون میں بیان کِیا گیا کہ ”اِس وقت بیکال جھیل نہ صرف قدرتی نباتات اور حیوانات کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کی جنت ہے بلکہ چھٹیاں گزارنے کے خواہشمند اشخاص کے لئے ایک دلکش مقام بھی ہے۔ اگر آپ خوبصورت ساحلوں کا نظارہ کرنا، چہلقدمی کرنا، پرندوں کا مطالعہ کرنا اور کشتیرانی سے لطف اُٹھانا چاہتے ہیں تو اِس کے لئے ایشیا میں بیکال جھیل سے زیادہ پُرکشش جگہ اَور کوئی نہیں۔“
واقعی، بیکال جھیل خدا کی بےپناہ حکمت اور اُس کی شاندار تخلیق پر غور کرنے کے لئے ایک بہترین جگہ ہے۔ صرف خدا ہی ایسے منفرد قدرتی اسباب پیدا کر سکتا ہے جن کی بدولت اِس حیرتانگیز جھیل میں اتنی کثرت سے مخلوقات کا زندہ رہنا ممکن ہے۔ بیکال جھیل کے ساحل پر کھڑے ہو کر آپ بےساختہ وہی الفاظ کہہ اُٹھیں گے جنہیں بائبل نویس نے رومیوں ۱۱:۳۳ میں تحریر کِیا: ”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے!“
[صفحہ ۲۴، ۲۵ پر بکس/تصویر]
میٹھے پانیوں کی سِیل
بیکال جھیل میں لاتعداد نرپا یا بیکال سِیل (گوشتخور آبیپستانیہ) پائی جاتی ہیں۔ سارا سال یہ جھیل کے گہرے پانیوں میں موجود مچھلیوں پر گزارا کرتی ہیں۔ کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ سِیل سائبیریا میں کہاں سے آئیں۔ اِس کی نسل سے تعلق رکھنے والی ایک سِیل یہاں سے تقریباً ۰۰۰،۲ میل (۲۲۰،۳ کلومیٹر) دُور رہتی ہے۔
نرپا کی بڑیبڑی آنکھیں اِس کے چپٹے چہرے پر ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتی ہیں۔ یہ دُنیا کی سب سے چھوٹی سِیل ہے جس کی لمبائی چار فٹ چھ اِنچ ہے۔ سِیل کی یہ قسم اکثر ملجل کر گروہوں کی شکل میں چھوٹیچھوٹی چٹانوں پر بیٹھی دھوپ سینکتی رہتی ہے جبکہ سِیل کی زیادہتر اِقسام آپس میں لڑتی رہتی ہیں۔ شاید نرپا سِیل ہی زمین پر سب سے زیادہ میلجول رکھنے والی سِیل ہے۔
سِیل پر تحقیق کرنے والے ایک ماہرِحیاتیات نے نرپا سِیل کے بارے میں لکھا کہ ”یہ رنگڈ سِیل سے بھی زیادہ خوشاخلاق ہوتی ہیں۔“ جب اِنہیں سائنسی تحقیق کے لئے پکڑا جاتا ہے تو یہ اُس وقت بھی نہیں کاٹتیں۔ گہرے پانیوں میں تیرنے والے غوطہخوروں کے حوالے سے ایک کتاب بیان کرتی ہے کہ جب وہ تیرتے ہوئے نیند کے نشے میں چور نرپا تک پہنچتے ہیں تو اُن کے چھونے یا اِسے اُلٹاپلٹا کرنے پر بھی وہ بیدار نہیں ہوتی۔
[تصویر کا حوالہ]
Dr. Konstantin Mikhailov/Naturfoto-Online
[صفحہ ۲۶ پر بکس/تصویر]
یہاں قیدیوں کو بھیجا جاتا تھا
سن ۱۹۵۱ سے لیکر ۱۹۶۵ تک اپنے عقائد کے سلسلے میں مصالحت نہ کرنے والے بیشمار یہوواہ کے گواہوں کو قیدی بنا کر بیکال جھیل کے علاقے میں بھیج دیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر، سن ۱۹۵۱ میں پراسکویا نامی یہوواہ کی گواہ کو ملکبدر کرکے بیکال جھیل کے سب سے بڑے جزیرے اولکن بھیج دیا گیا۔ یہاں پر قید دوسرے گواہوں کے ساتھ ملکر اُس نے گزربسر کرنے کے لئے مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں۔ ماہیگیری کے اِس کام کے ساتھ ساتھ اُس نے اولکن کے رہنے والوں کو بائبل میں سے خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنانے سے ’آدمگیری‘ کے کام کو بھی جاری رکھا۔ اِس طرح لوگوں کو خدا کی بادشاہی کی طرف متوجہ کِیا جاتا ہے۔
سن ۱۹۵۳ میں پراسکویا اور یہوواہ کے چھ دوسرے گواہوں کو منادی کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ پراسکویا کو ۲۵ سال کی سزا سنائی گئی۔ قید سے رِہائی کے بعد، اُس نے سن ۲۰۰۵ میں اپنی وفات تک یوسیلیسبرسکیو کے علاقے میں وفاداری کے ساتھ خدمت انجام دی۔ اِس وقت بیکال کے علاقے اور قریبی شہر ارکٹسک میں تقریباً ۳۰ کلیسیائیں موجود ہیں۔
[صفحہ ۲۳ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
روس
بیکال جھیل
[صفحہ ۲۴، ۲۵ پر تصویر]
بیکال جھیل اور سیئن کا پہاڑی سلسلہ
[تصویر کا حوالہ]
Eric Baccega/age fotostock ©
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
بیکال مرغابی
[تصویر کا حوالہ]
Dr. Erhard Nerger/Naturfoto-Online
[صفحہ ۲۳ پر تصویر کا حوالہ]
Dr. Konstantin Mikhailov/Naturfoto-Online
[صفحہ ۲۶ پر تصویروں کے حوالہجات]
Eric Baccega/age fotostock; Boyd Norton/Evergreen Photo ©
Alliance