مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

سلطان ابراہیم جویا کے کارنامے

سلطان ابراہیم جویا کے کارنامے

سلطان ابراہیم جویا کے کارنامے

کیمرون سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

مغربی کیمرون کی وادیوں میں باموم نامی قوم آباد ہے۔‏ اس قوم پر چودھویں صدی عیسوی سے سلطانوں کا ایک سلسلہ حکومت کرتا آ رہا ہے۔‏ سلطان ابراہیم جویا اس شاہی سلسلے کا سترھواں بادشاہ تھا۔‏ (‏ساتھ میں دئے گئے چارٹ کو دیکھیں۔‏)‏ اُس نے ۱۸۸۹ سے لے کر ۱۹۳۳ تک حکومت کی۔‏ سلطان جویا کی حکومت کے دوران جرمنی اور فرانس کے لوگ مغربی کیمرون پر قبضہ جمانے کی کوشش میں تھے۔‏

سلطان جویا بچپن ہی سے بڑا سمجھ‌دار اور عقل‌مند تھا۔‏ اُس کے دربار سے بہت سے روشن‌خیال علما اور دانشور وابستہ تھے۔‏ سلطان جویا فنِ‌تعمیر کا ماہر تھا۔‏ یہ اُس شاندار محل سے ظاہر ہوتا ہے جسے اُس نے تعمیر کروایا تھا۔‏ (‏نیچے دی گئی تصویر کو دیکھیں۔‏)‏ اُس نے مکئی کے دانوں کو پیسنے کی ایک خاص چکی بھی ایجاد کی جس کی تصویر ساتھ میں دی گئی ہے۔‏ لیکن اُس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اُس نے باموم کی قومی زبان کو لکھنے کا ایک طریقہ ایجاد کِیا۔‏

نئی تحریر کو شکل دی جاتی ہے

جس زمانے میں سلطان جویا نے حکومت سنبھالی،‏ بامومی قوم کی تاریخ ایک نسل سے دوسری نسل کو زبانی بتائی جاتی تھی لیکن اسے تحریر نہیں کِیا جاتا۔‏ سلطان جویا کو اس بات کا خدشہ تھا کہ یوں باموم کی تاریخ کے اہم پہلو یا تو بھلا دئے جائیں گے یا پھر انہیں غلط بیان کِیا جائے گا۔‏ وہ اپنے علاقے سے گزرنے والے تاجروں سے عربی زبان کی کئی کتابیں وصول کر چکا تھا۔‏ لہٰذا وہ عربی زبان سے واقف تھا۔‏ ہو سکتا ہے کہ وہ وائی نامی ایک تحریر سے بھی واقف تھا جو ملک لائبیریا میں استعمال ہو رہی تھی۔‏ سلطان جویا نے اپنی قوم کی زبان کو تحریری شکل دینے کا عزم بنا لیا۔‏

اس کام کا آغاز کرتے ہوئے سلطان جویا نے کئی سو تصویریں اور علامتیں تجویز کیں۔‏ اُس کی عوام کو ان تمام تصویروں اور اُن کے مطلب کو زبانی یاد کرنا پڑا۔‏ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سلطان جویا اور اُس کے درباری ساتھیوں نے اس تحریر کو زیادہ آسان بنا دیا۔‏ اُنہوں نے تصویروں اور علامتوں کی تعداد کم کر دی اور اِنہیں حروف میں تبدیل کر دیا۔‏ ان حروف کو ملانے سے مختلف لفظ بنتے ہیں۔‏ اس طرح پڑھنے والے کو قدراً کم حروف ذہن‌نشین کرنے پڑے۔‏ جب اِس تحریری زبان پر کام مکمل ہو گیا تو یہ ۷۰ حروف پر مشتمل تھی۔‏ اس زبان کا نام آکا اُوکو رکھا گیا۔‏

سلطان جویا نے اس تحریر کو اپنی عوام میں فروغ دینے کے لئے اسے سکولوں میں پڑھانے کا حکم دیا۔‏ اس کے علاوہ اس تحریر کو سرکاری دفتروں میں بھی استعمال کِیا جانے لگا۔‏ سلطان جویا نے اپنی سلطنت اور اپنی قوم کی تاریخ کو اس تحریر میں درج کروایا۔‏ یوں اُس کی عوام اپنی قومی زبان میں اپنی روایتوں اور اپنے قوانین کے بارے میں پڑھ سکی۔‏ سلطان جویا نے دوائیوں کی تراکیب بھی اس تحریر میں درج کروائیں۔‏ ان تمام دستاویزات میں سے ۰۰۰،‏۸ سے زیادہ آج تک اُس کے محل میں محفوظ ہیں۔‏

اِس تحریری زبان کا بامومی قوم کو بڑا فائدہ رہا۔‏ سن ۱۹۰۲ میں جرمنی نے باموم کے علاقے پر قبضہ جما لیا۔‏ سلطان جویا کو جرمنی کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے سے مالی فائدہ ہوا۔‏ البتہ ایسی بھی باتیں تھیں جن میں وہ اس حکومت سے تعاون کرنے کو تیار نہیں تھا۔‏ لہٰذا سلطان جویا نے اس بات کا فائدہ اُٹھایا کہ جرمن لوگ باموم کی تحریری زبان کو نہیں پڑھ سکتے تھے۔‏ آئیں اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تحریر کب تک استعمال میں رہی۔‏

پہلی عالمی جنگ (‏سن ۱۹۱۴ تا ۱۹۱۸)‏ کے دوران بامومی قوم کا علاقہ جرمن حکومت کے ہاتھ سے چُھوٹ گیا۔‏ پھر جب جمعیت‌الاقوام کو قائم کِیا گیا تو اِس نے باموم کی قوم کا علاقہ فرانس کی حکومت کے سپرد کر دیا۔‏ حالانکہ سلطان جویا نئے طورطریقوں کو اپنانے کا شوقین تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی روایتوں اور ثقافت کو بھی ترک نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ لہٰذا اُس نے فرانس کی حکومت کی خلافورزی کی۔‏ اس وجہ سے فرانس کی حکومت نے اُسے ۱۹۳۱ میں جلاوطن کر دیا۔‏ اس کے دو سال بعد ہی سلطان جویا اپنے دیس سے دُور جلاوطنی میں فوت ہو گیا۔‏

فرانس کی حکومت نے اِس بات کی اجازت نہ دی کہ سکولوں میں بامومی قوم کی تحریر سکھائی جائے۔‏ یوں بامومی قوم میں سے زیادہ‌تر لوگ اس زبان کو لکھنے اور پڑھنے کے طریقے کو بھول گئے۔‏ پھر جب مسیحی مشنری اس علاقے میں تبلیغ کرنے کے لئے آئے تو اُنہوں نے بامومی زبان کا مطالعہ کِیا اور اِس کے قواعد کے بارے میں ایک کتاب شائع کی جسے سکولوں میں استعمال کِیا جانے لگا۔‏ لیکن اس زبان کو تحریری شکل دینے کے لئے اُنہوں نے سلطان جویا کے بنائے ہوئے حروف کی بجائے رومن حروف کا سہارا لیا۔‏

حال ہی میں سلطان جویا کی بنائی ہوئی تحریر کو دوبارہ سے استعمال میں لانے کی کوششیں کی جانے لگی ہیں۔‏ بامومی قوم کے حالیہ سلطان ابراہیم بومبو جویا نے اپنے دادا کے محل میں ایک سکول کھولا ہے۔‏ اس سکول میں بچوں کو وہ تحریر سکھائی جا رہی ہے جسے سلطان جویا نے شکل دی تھی۔‏ اُمید ہے کہ ان کوششوں کی وجہ سے یہ تحریر بامومی قوم کی اگلی نسلوں میں بھی استعمال میں رہے گی۔‏

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

ایک تختی جس پر بامومی قوم کی شاہی نسل کا سلسلہ چودھویں صدی سے لے کر آج تک درج ہے۔‏ بائیں ہاتھ پر رومن حروف اور دائیں ہاتھ پر بامومی حروف استعمال ہوئے ہیں

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر کا حوالہ]‏

All photos: Courtesy and permission of

Sultan Ibrahim Mbombo

Njoya, Foumban, Cameroon