مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

عالمی اُفق

عالمی اُفق

عالمی اُفق

▪ ”‏اس بات میں کوئی شک نہیں“‏ کہ زمین کا درجۂ‌حرارت بڑھ رہا ہے اور ”‏بڑا امکان ہے“‏ کہ یہ انسانوں کی کارروائیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔‏—‏ماحول میں تبدیلی کا جائزہ لینے والا بین‌الحکومتی ادارہ (‏آئی‌پی‌سی‌سی)‏۔‏

▪ ملک جرمنی میں ۱۴ لاکھ سے لے کر ۱۹ لاکھ لوگ ”‏دوائیاں لینے کی عادت میں پڑ گئے ہیں۔‏“‏ یہ عادت اتنی ہی خطرناک ہے جتنی کہ حد سے زیادہ شراب پینے کی عادت خطرناک ہوتی ہے۔‏—‏جرمنی کے ایک ٹیلی‌ویژن چینل کا خبرنامہ۔‏

▪ برطانیہ کی کُل آبادی میں سے ایسے بچے جن کی عمر ایک سال سے کم ہے دوسرے لوگوں کی نسبت قتل ہونے کے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔‏—‏برطانیہ کا اخبار دی ٹائمز۔‏

▪ امریکہ اور کینیڈا کے درمیان واقع سرحدی علاقے میں جنگلات اتنے گھنے ہیں کہ سرکاری ملازموں کو ”‏اکثر معلوم نہیں ہوتا کہ سرحد کہاں سے گزرتی ہے۔‏“‏ ایک آفیسر کا کہنا ہے کہ ”‏اگر ہم یہ نہیں جانتے کہ سرحد کہاں ہے تو ہم اس کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات بھی نہیں اُٹھا سکتے۔‏“‏—‏امریکہ کا ایک خبررساں ادارہ۔‏

جسم اپنا علاج خود کرنے کے قابل ہے

‏”‏انسان کا جسم ۶۰ تا ۷۰ فیصد بیماریوں کا خود علاج کرنے کے قابل ہے۔‏“‏ یہ ہے پروفیسر گسٹاف دوبوس کا بیان جو جرمنی کے ایک ہسپتال میں ملازمت کرتے ہیں۔‏ انسان کا جسم ۳۰ تا ۴۰ دوائیاں خود پیدا کرتا ہے،‏ مثلاً کورٹیزون اور ایسی دوائیاں جن سے گردوں میں پتھری نہ بنے۔‏ لیکن جسم اپنا علاج کیسے کرتا ہے،‏ سائنسدان آج تک اس عمل کو مکمل طور پر نہیں سمجھ پائے ہیں۔‏ صحت کے موضوع پر ایک رسالے ‏(‏وائٹل)‏ کے مطابق سائنسدانوں کو یہ معلوم ہے کہ ”‏جسم جس طریقے سے اپنا علاج کرتا ہے یہ بہت پیچیدہ ہے۔‏ اس میں نہ صرف بدن میں موجود مادے اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ ایک شخص کا مزاج اور اُس کے جذبات بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔‏“‏ اس رسالے میں آگے بیان کِیا گیا ہے کہ جب ایک شخص کو دباؤ یا مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو ”‏اُس کے بدن میں اپنا علاج کرنے کی صلاحیت مہینوں تک کمزور پڑ جاتی ہے۔‏“‏

دُنیا کی دولت کس کے ہاتھ میں؟‏

لندن کے ایک اخبار کے مطابق ”‏دُنیا میں پائی جانے والی کُل دولت میں سے ۴۰ فیصد اِس دُنیا کی کُل آبادی میں سے ایک فیصد لوگوں کے قبضے میں ہے۔‏“‏ اِس اخبار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”‏امیرترین لوگوں میں سے زیادہ‌تر یا تو بینک یا پھر انٹرنیٹ کا کاروبار چلاتے ہیں۔‏“‏ اقوامِ‌متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق دُنیا کے سب سے امیر لوگوں میں سے ۳۷ فیصد امریکہ،‏ ۲۷ فیصد جاپان اور ۶ فیصد برطانیہ میں رہتے ہیں۔‏ دُنیا کی کُل دولت کا صرف ایک فیصد دُنیا میں رہنے والے تمام لوگوں کی آدھی تعداد کے ہاتھوں میں ہے۔‏ اس سلسلے میں برطانیہ کی فلاحی تنظیم آکس‌فیم کے ایک تحقیق‌دان نے کہا کہ ”‏یہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ بھلا اِس بات کو کیسے قبول کِیا جا سکتا ہے کہ چند ہی لوگ بےتحاشا دولت کے مالک ہیں جبکہ ۸۰ کروڑ لوگ ہر رات فاقہ سونے پر مجبور ہیں۔‏“‏

چین میں مرد زیادہ اور عورتیں کم

سن ۲۰۰۵ میں ملک چین میں پیدا ہونے والے بچوں کی کُل تعداد میں سے ۱۰۰ لڑکیوں کی نسبت ۱۱۸ لڑکے پیدا ہوئے۔‏ ایک اخبار کے مطابق چین کے کچھ علاقوں میں تو ”‏سو لڑکیوں کی نسبت ۱۳۰ لڑکے پیدا ہوتے ہیں۔‏“‏ اس کی وجہ یوں بتائی گئی ہے کہ چین کی حکومت شہر میں رہنے والے لوگوں کو صرف ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت دیتی ہے۔‏ لہٰذا والدین بچے کی پیدائش سے پہلے ہی پتہ کر لیتے ہیں کہ بچہ لڑکی یا لڑکا ہوگا اور پھر لڑکی کو ضائع کروا دیتے ہیں۔‏ اخبار میں اس بات سے آگاہ کِیا گیا کہ ”‏اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ۲۰۲۰ میں شادی کی عمر رکھنے والے لوگوں کی کُل تعداد میں عورتوں کی نسبت ۳ کروڑ زائد مرد ہوں گے۔‏ اس سے چین کے معاشرے پر بُرا اثر پڑے گا۔‏“‏