مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا موت انسان کے وجود کا خاتمہ ہے؟‏

کیا موت انسان کے وجود کا خاتمہ ہے؟‏

کیا موت انسان کے وجود کا خاتمہ ہے؟‏

موت کے بعد انسان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟‏ یہ ایک ایسا سوال ہے جو بار بار پوچھا گیا ہے۔‏ ہزاروں سال سے ہر تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس سوال کے بارے میں سوچا ہے۔‏ سائنس‌دانوں اور فلاسفروں نے اس موضوع کے بارے میں مختلف نظریے پیش کئے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی اُلجھنوں نے جنم لیا ہے۔‏

پاک صحائف میں موت کے بارے میں کیا بتایا جاتا ہے؟‏ کئی لوگ شاید یہ اعتراض کریں کہ پاک صحائف میں موت کے بارے میں جو سکھایا جاتا ہے یہ بھی اُلجھنوں کا باعث بن سکتا ہے۔‏ لیکن سچ تو یہ ہے کہ خدا کے کلام میں جو تعلیمات پائی جاتی ہیں وہ صاف شفاف پانی کی طرح واضح ہیں۔‏ البتہ اکثراوقات مختلف مذاہب ان تعلیمات کو گڑھی ہوئی کہانیوں کے ساتھ ملا کر اُلجھنیں پیدا کر دیتے ہیں۔‏ ذرا افسانوں،‏ گڑھی ہوئی کہانیوں اور روایات کو نظرانداز کرکے اس بات پر غور کریں کہ پاک صحائف میں موت کے بارے میں کیا سکھایا جاتا ہے۔‏ اس طرح آپ ایک ایسے عقیدے کے بارے میں جان جائیں گے جو سچ پر مبنی ہے اور جس سے آپ ایک شاندار اُمید بھی پا سکتے ہیں۔‏

پیدا ہونے سے پہلے آپ کہاں تھے؟‏

یاد کریں کہ پچھلے مضمون میں آپ نے بادشاہ سلیمان کے یہ الفاظ پڑھے کہ مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاک صحائف کے مطابق مرنے کے بعد ایک شخص نہ تو کچھ کر سکتا ہے،‏ نہ کچھ محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اُس کی سوچنے کی صلاحیت رہتی ہے۔‏—‏واعظ ۹:‏۵،‏ ۶،‏ ۱۰‏۔‏

کیا اس بات پر یقین کرنا آپ کے لئے مشکل ہے؟‏ ذرا اس بات پر غور کریں:‏ پیدا ہونے سے پہلے آپ کہاں تھے؟‏ اگر انسان میں ایک ایسی شے ہے جو مرنے کے بعد زندہ رہتی ہے تو حمل ٹھہرنے سے پہلے یہ شے کہاں پر ہوتی ہے؟‏ سچ تو یہ ہے کہ انسان کے طور پر زندہ ہونے سے پہلے آپ کا کوئی وجود نہیں تھا۔‏ جی‌ہاں،‏ حمل ٹھہرنے سے پہلے آپ کسی اَور روپ میں موجود نہیں تھے۔‏

اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح زندہ ہونے سے پہلے ہمارا وجود نہیں ہوتا اور ہم ہر بات سے بےخبر ہوتے ہیں اسی طرح مرنے کے بعد بھی ہمارا وجود نہیں ہوتا اور ہمیں کسی بات کی خبر نہیں ہوتی۔‏ جب آدم نے خدا کی نافرمانی کی تو خدا نے اُس سے کہا:‏ ”‏تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‏“‏ (‏پیدایش ۳:‏۱۹‏)‏ اس لحاظ سے انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں ہے۔‏ خدا کے کلام میں مُردوں کی حالت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”‏انسان کو حیوان پر کچھ فوقیت نہیں۔‏“‏—‏واعظ ۳:‏۱۹،‏ ۲۰‏۔‏

کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان کی زندگی محض کچھ سال کی ہوتی ہے اور جب وہ مر جاتا ہے تو اُس کا وجود ہمیشہ تک مٹ جاتا ہے؟‏ یا پھر کیا مُردوں کے لئے اُمید ہے؟‏

ہمیشہ تک جینے کی تمنا

موت ایک ایسا موضوع ہے جو تقریباً ہر شخص کو ناگوار گزرتا ہے۔‏ بہتیرے لوگ اپنی موت کے بارے میں نہ تو سوچنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اس پر بات کرنا پسند کرتے ہیں۔‏ لیکن وہ ٹیلی‌ویژن پر اور فلموں میں ہر قسم کی موت کو ہوتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ خبرناموں اور اخبارات وغیرہ میں بھی لوگوں کے مرنے کی خبریں اور تصویریں چھاپی جاتی ہیں۔‏

اجنبیوں کی موت کے بارے میں سُن کر شاید ہم اسے ایک قدرتی عمل خیال کریں۔‏ لیکن جب ہمارا کوئی عزیز یا ہم خود موت کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو ہم اِسے ایک قدرتی عمل کے طور پر قبول نہیں کر سکتے ہیں۔‏ یہ اس لئے ہے کیونکہ انسان زندہ رہنے کی گہری خواہش رکھتا ہے۔‏ اس کے علاوہ ہم وقت اور ابدیت کا احساس رکھتے ہیں۔‏ بادشاہ سلیمان نے لکھا تھا کہ خدا نے ”‏ابدیت کو بھی [‏انسان]‏ کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۳:‏۱۱‏)‏ اگر ہماری زندگی خوشگوار گزر رہی ہے تو ہم مرنا نہیں چاہتے۔‏ ہم ایک ایسی زندگی کی خواہش رکھتے ہیں جس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔‏ لیکن انسان کے برعکس جانور نہ تو ہمیشہ تک جینے کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ ہی اُن کو مستقبل کا احساس ہے۔‏

انسانی دماغ کی گنجائش

انسان نہ صرف ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے کی آرزو رکھتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ تک مختلف کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔‏ ایسا لگتا ہے کہ انسان کے سیکھنے کی صلاحیت لامحدود ہے۔‏ کہا گیا ہے کہ انسان کا دماغ اتنا پیچیدہ ہے کہ کسی اَور چیز سے اس کا موازنہ نہیں کِیا جا سکتا۔‏ حیوانوں کے برعکس انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ انسانی دماغ کتنا کچھ کرنے کی گنجائش رکھتا ہے،‏ اس کے بارے میں سائنس‌دانوں کو بہت کم معلومات حاصل ہیں۔‏

جب ہماری عمر بڑھتی ہے تو بھی ہمارے دماغ کی سیکھنے کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔‏ دماغ پر تحقیق کرنے والے ماہروں نے دیکھا ہے کہ حالانکہ ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے اور ہم بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ جاتے ہیں لیکن اس کا ہمارے دماغ پر منفی اثر نہیں پڑتا۔‏ وہ بتاتے ہیں کہ ”‏انسان کا دماغ زندگی‌بھر خود میں تبدیلیاں لانے کے قابل ہے۔‏ یہاں تک کہ بڑھاپے میں بھی دماغ میں نئے خلیے بنتے رہتے ہیں۔‏ ذہنی قابلیت صرف اُس وقت بُری طرح سے متاثر ہوتی ہے جب ایک شخص بیماری کا شکار ہوتا ہے۔‏ لیکن یادداشت کا کمزور پڑ جانا یا کسی خاص کام کو انجام نہ دے پانا اکثر اس لئے ہوتا ہے کیونکہ بڑھاپے میں لوگ ایسے کاموں میں مشغول نہیں رہتے جن کے لئے ذہن کو استعمال کِیا جاتا ہے۔‏“‏

اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم صحتمند ہیں اور اپنے ذہن کو استعمال کرتے رہیں گے تو ہمارا دماغ ہمیشہ تک کام کرنے کے قابل رہے گا۔‏ انسانی ڈی‌این‌اے کو دریافت کرنے والے سائنسدان جیمز واٹسن بتاتے ہیں کہ ”‏کائنات میں پائی جانے والی سب سے پیچیدہ چیز ہمارا دماغ ہے۔‏“‏ ایک کتاب میں بتایا جاتا ہے کہ ”‏اگر دماغ کا اتنا چھوٹا حصہ لیا جائے جوکہ ماچس کی تیلی کے سر جتنا بڑا ہے تو اس میں پائے جانے والے خلیوں کے بیچ اربوں جوڑ موجود ہوتے ہیں۔‏ اور یہ جوڑ اتنی تعداد میں ایک دوسرے سے جڑ سکتے ہیں کہ اس کا تصور کرنا ناممکن ہے۔‏“‏

اگر انسانی دماغ اتنا کچھ کرنے کی گنجائش کے ساتھ خلق کِیا گیا ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ انسان صرف تھوڑے ہی عرصے تک زندہ رہتا ہے؟‏ یہ اتنا ہی نامعقول ہوتا جتنا کہ اگر ریت کے ایک دانے کو دو اِنچ کے فاصلے تک پہنچانے کے لئے ریل‌گاڑی کو استعمال کِیا جائے۔‏ تو پھر سوال یہ اُٹھتا ہے کہ انسان کا دماغ سوچنے سمجھنے اور نئی باتیں سیکھنے کی بےتحاشا گنجائش کیوں رکھتا ہے؟‏ کیا یہ ممکن ہے کہ حیوان کے برعکس انسان ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لئے خلق کِیا گیا تھا؟‏

خالق اُمید بخشتا ہے

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ انسان ہمیشہ تک جینے کی خواہش رکھتا ہے اور اُس کا دماغ ہمیشہ تک سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‏ انسان کو جس طرح سے ترتیب دیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے محض ۷۰ یا ۸۰ سال تک نہیں زندہ رہنا تھا۔‏ ظاہر ہے کہ جہاں ترتیب ہوتی ہے وہاں ترتیب دینے والا بھی ہوتا ہے۔‏ اس کے علاوہ ہماری کائنات کے لاتبدیل قدرتی قوانین اور پیچیدہ نظام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ اس کے پیچھے خالق کا ہاتھ ہے۔‏

اگر خدا نے ہمیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کے لئے خلق کِیا تھا تو پھر ہم مرتے کیوں ہیں؟‏ موت کے بعد ہمارے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے؟‏ کیا خدا مُردوں کو زندہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟‏ خدا نے ہمیں ان سوالوں کے جواب دئے ہیں۔‏ آئیں ہم ان پر غور کرتے ہیں:‏

خدا نے انسان کو اس مقصد کے لئے نہیں خلق کِیا تھا کہ وہ کچھ سال جیئے اور پھر مر جائے۔‏ خدا کے کلام میں موت کا ذکر پہلی بار پیدایش کی کتاب میں آتا ہے۔‏ جو کچھ وہاں بتایا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا نے انسان کو مرنے کے لئے خلق نہیں کِیا تھا۔‏ غور کریں کہ اِس کتاب میں بتایا جاتا ہے کہ آدم اور حوا کو ایک آسان سے امتحان کے ذریعے خدا کے لئے اپنی محبت اور وفاداری ثابت کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔‏ امتحان یہ تھا کہ آدم اور حوا کو ایک درخت کے پھل کو کھانے سے منع کِیا گیا تھا۔‏ خدا نے آدم سے کہا:‏ ”‏جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔‏“‏ (‏پیدایش ۲:‏۱۷‏)‏ یہ بات بالکل واضح ہے کہ آدم اور حوا کو صرف اُس صورت میں مرنا تھا اگر وہ بغاوت کرکے درخت کا پھل کھا لیتے۔‏ خدا کے کلام میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اُنہوں نے خدا کی نافرمانی کی اور اس لئے اُنہیں مرنا پڑا۔‏ اس طرح اُن کی اولاد کو بھی گُناہ کا داغ لگ گیا اور اُنہوں نے ورثے میں موت پائی۔‏

پاک صحائف میں موت کا موازنہ نیند کے ساتھ کِیا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر زبور ۱۳:‏۳ میں ”‏موت کی نیند“‏ کا ذکر کِیا گیا ہے۔‏ جب یسوع مسیح کا دوست لعزر فوت ہو گیا تو یسوع نے اپنے رسولوں سے کہا:‏ ”‏ہمارا دوست لعزؔر سو گیا ہے لیکن مَیں اُسے جگانے جاتا ہوں۔‏“‏ اور یسوع نے بالکل ایسا ہی کِیا۔‏ خدا کے کلام میں لعزر کے بارے میں لکھا ہے کہ ’‏جو مر گیا تھا وہ کفن سے نکل آیا۔‏‘‏—‏یوحنا ۱۱:‏۱۱،‏ ۳۸-‏۴۴‏۔‏

یسوع مسیح نے موت کا موازنہ نیند سے اس لئے کِیا کیونکہ سوتے وقت ایک شخص بےحس‌وحرکت ہوتا ہے۔‏ ایک سوتے شخص کو وقت کے گزرنے اور اپنے اِردگِرد کے ماحول کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔‏ گہری نیند سوتا شخص نہ تو درد محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اُسے کوئی تکلیف ہوتی ہے۔‏ اسی طرح مرنے کے بعد ایک شخص ہر بات سے بےخبر ہوتا ہے۔‏ لیکن موت اور نیند ایک اَور بات میں بھی ایک جیسے ہیں۔‏ سونے کے بعد ایک شخص جاگ اُٹھتا ہے اور خدا کے کلام میں بتایا جاتا ہے کہ مُردے جی اُٹھیں گے۔‏

ہمارا خالق وعدہ کرتا ہے:‏ ”‏مَیں اُن کو پاتال کے قابو سے نجات دُونگا مَیں اُن کو موت سے چھڑاؤں گا۔‏ اَے موت تیری وبا کہاں ہے؟‏ اَے پاتال تیری ہلاکت کہاں ہے؟‏“‏ (‏ہوسیع ۱۳:‏۱۴‏)‏ ایک اَور پیشینگوئی میں بتایا جاتا ہے کہ خدا ”‏موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کرے گا اور [‏یہوواہ]‏ خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالے گا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۲۵:‏۸‏)‏ اِن حوالوں میں بتایا گیا ہے کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا۔‏

جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو وہ کہاں رہیں گے؟‏ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں انسان ہمیشہ تک زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے۔‏ اگر آپ کو ہمیشہ تک زندہ رہنے کا موقع ملے تو آپ کہاں رہنے کی خواہش کریں گے؟‏ کیا آپ یہ چاہیں گے کہ آپ کی روح کائنات میں کہیں بھٹکتی رہے؟‏ کیا آپ ایک مختلف ہستی کے طور پر دوبارہ جنم لینا چاہیں گے جسے اپنا ماضی یاد نہ ہو؟‏ کیا آپ ایک درخت یا ایک جانور کے طور پر زندگی جاری رکھنا چاہیں گے؟‏ کیا آپ واقعی ایک ایسی حالت میں زندگی گزارنا چاہیں گے جس میں آپ ہر انسانی خوشی سے محروم ہوں؟‏

یا پھر کیا آپ زمین پر ایک فردوس میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے؟‏ خدا کے کلام میں یہ وعدہ پایا جاتا ہے کہ انسان ہمیشہ تک فردوس میں رہ سکیں گے۔‏ خدا نے زمین کو اسی مقصد کے لئے خلق کِیا تھا کہ ایسے لوگ جو اُس سے محبت رکھتے اور اُس کی خدمت کرتے ہیں وہ ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھا سکیں۔‏ اس لئے خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔‏“‏—‏زبور ۳۷:‏۲۹؛‏ یسعیاہ ۴۵:‏۱۸؛‏ ۶۵:‏۲۱-‏۲۴‏۔‏

مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟‏ موت کا موازنہ نیند سے کِیا گیا ہے۔‏ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مُردوں کو مرنے کے فوراً بعد نہیں زندہ کِیا جائے گا۔‏ ایک شخص کی موت اور اس کے زندہ کئے جانے کے درمیان وہ گہری نیند جیسی حالت میں ہوتا ہے۔‏ پاک صحائف میں خدا کے بندے ایوب نے یہ سوال کِیا تھا:‏ ”‏اگر آدمی مر جائے تو کیا وہ پھر جئے گا؟‏“‏ پھر اُس نے یہوواہ خدا سے کہا:‏ ”‏تُو مجھے پکارے گا اور مَیں تجھے جواب دُونگا۔‏ تجھے اپنے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیز کی دلی آرزو ہوگی۔‏“‏ (‏ایوب ۱۴:‏۱۴،‏ ۱۵‏،‏ نیو ورلڈ ٹرانسلیشن‏)‏ یہ کتنی خوشی کا وقت ہوگا جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا اور وہ پھر سے اپنے عزیزوں کے پاس ہوں گے۔‏

خوف نہ کھائیں

جب ایک شخص سیکھتا ہے کہ خدا کے کلام میں مُردوں کے لئے اُمید پائی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُسے موت کا خوف بالکل ہی نہیں رہتا۔‏ جو تکلیف اور درد موت کے ساتھ منسلک ہیں ان کے بارے میں فکر کرنا فطری بات ہے۔‏ شاید آپ کو اس بات کا خوف ہے کہ آپ کا کوئی عزیز موت کی وجہ سے آپ سے بچھڑ جائے۔‏ یا پھر شاید آپ کو اس بات کا ڈر ہے کہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ کے بعد آپ کے عزیزوں پر کیا گزرے گی۔‏ ایسی سوچ فطری ہے۔‏

لیکن جو کچھ خدا کے کلام میں سکھایا جاتا ہے اس سے ہماری یہ اُلجھن دُور ہو جاتی ہے کہ مُردے کس حالت میں ہیں۔‏ ہم جان جاتے ہیں کہ کسی کو جہنم میں نہیں تڑپایا جائے گا اس لئے ہم اس خوف سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں۔‏ ہم اس بات سے بھی پریشان نہیں ہیں کہ ہم ایک اَن‌دیکھی ہستی کے طور پر کائنات میں کہیں بھٹکتے رہیں گے۔‏ اور آپ کو اِس بات کا خوف بھی نہیں رہے گا کہ مرنے پر آپ کا وجود ہمیشہ کے لئے مِٹ جائے گا۔‏ کیوں؟‏ اس لئے کہ یہوواہ خدا کی یادداشت لامحدود ہے اور وہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ ہر اُس مُردے کو زمین پر زندہ کرے گا جو اُس کی یادداشت میں محفوظ ہے۔‏ پاک صحائف اِس بات کی تصدیق یوں کرتے ہیں:‏ ”‏خدا ہمارے لئے چھڑانے والا خدا ہے اور موت سے بچنے کی راہیں بھی [‏یہوواہ]‏ خدا کی ہیں۔‏“‏—‏زبور ۶۸:‏۲۰‏۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر عبارت]‏

‏”‏تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا۔‏“‏—‏پیدایش ۳:‏۱۹

‏[‏صفحہ ۶ پر عبارت]‏

‏”‏[‏خدا]‏ نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔‏“‏—‏واعظ ۳:‏۱۱‏۔‏

‏[‏صفحہ ۸ پر بکس/‏تصویر]‏

موت کے سلسلے میں سوال

اِن مضامین میں موت کے سلسلے میں ہر ایک سوال کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔‏ بہتیرے لوگوں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ پاک صحائف کا مطالعہ کرنے سے اس موضوع پر اپنے ہر سوال کا جواب پایا ہے۔‏ آپ بھی اُن کے ساتھ پاک صحائف کا مطالعہ کرنے سے اپنے سوالوں کے جواب حاصل کر سکتے ہیں۔‏ نیچے کچھ ایسے سوالوں کی مثالیں دی گئی ہیں۔‏

▪ خدا کے کلام میں ”‏جہنم“‏ اور ”‏آگ کی جھیل“‏ کا ذکر ہے۔‏ اِن سے کیا مُراد ہے؟‏

▪ اگر بُرے لوگوں کو جہنم کی آگ میں تڑپایا نہیں جائے گا تو پھر اُنہیں کیسی سزا دی جائے گی؟‏

▪ کیا پاک صحائف میں یہ بتایا جاتا ہے کہ مرنے پر جسم سے روح نکل جاتی ہے؟‏

▪ بعض لوگ کیوں کہتے ہیں کہ وہ اپنے مُردہ عزیزوں سے رابطہ کر سکتے ہیں؟‏

▪ خدا کے کلام میں اصطلاح ”‏روح“‏ کا کیا مطلب ہے؟‏

▪ مُردوں کو کب زندہ کِیا جائے گا؟‏

▪ کیا تمام مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا؟‏

یہ جاننے کے لئے کہ آپ ان سوالوں کے جواب کیسے حاصل کر سکتے ہیں مہربانی سے اس رسالے کے آخری صفحہ کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

یسوع نے کہا کہ وہ لعزرکو ’‏جگانے کے لئے جائے گا۔‏‘‏

‏[‏صفحہ ۸‏،‏ ۹ پر تصویر]‏

یہ کتنی خوشی کا وقت ہوگا جب ہمارے عزیز موت کی گرفت سے آزاد کئے جائیں گے