مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آئیں افغان ایکسپریس میں آسٹریلیا کی سیر کریں

آئیں افغان ایکسپریس میں آسٹریلیا کی سیر کریں

آئیں افغان ایکسپریس میں آسٹریلیا کی سیر کریں

آسٹریلیا سے جاگو!‏ کا نامہ‌نگار

فروری ۳،‏ ۲۰۰۴ کو ملک آسٹریلیا کی شمالی ریاست کے شہر ڈاروِن کے ریلوے سٹیشن پر بڑی گھما گھمی تھی۔‏ ہزاروں لوگ افغان ایکسپریس کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔‏ اِس تقریباً ۱ کلومیڑ لمبی ریل گاڑی نے اپنا سفر ۲ دن پہلے آسٹریلیا کے جنوب میں شروع کِیا تھا اور ڈاروِن تک پہنچتے پہنچتے ۹۷۹،‏۲ کلومیٹر [‏۸۵۰،‏۱ میل]‏ طے کئے تھے۔‏ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ افغان ایکسپریس نے اِس برِّاعظم کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک سفر کِیا تھا۔‏

اِس روز ڈاروِن کے ریلوے سٹیشن پر ۰۰۰،‏۲ سے زیادہ لوگ ہاتھ میں کیمرہ لئے افغان ایکسپریس کے استقبال کو کھڑے تھے۔‏ اِس ہجوم کی وجہ سے ٹرین کو سٹیشن میں داخل ہونے کے لئے اپنی رفتار کم کرنی پڑی جس کی وجہ سے وہ آدھا گھنٹا دیر سے پہنچی۔‏ لیکن کسی نے اِس بات پر اعتراض نہیں کِیا۔‏ دراصل آسٹریلیا کے باشندے تقریباً ایک صدی سے اِس دن کے منتظر تھے۔‏ جی‌ہاں،‏ شہر ایڈلیڈ سے لے کر ڈاروِن تک اِس ریل کی پٹری کو تعمیر کرنے میں ۱۲۶ سال لگے تھے۔‏ یہ پٹری دُنیا کے سب سے خشک،‏ گرم اور ویران علاقوں سے گزرتی ہے۔‏

ایک بڑا خواب

سن ۱۸۷۵ کے لگ‌بھگ آسٹریلیا کے جنوبی ساحل پر واقع ایڈلیڈ نامی قصبے کے لوگوں نے ایک بہت بڑا خواب دیکھا۔‏ وہ اپنی مالی حالت میں بہتری لانے کے لئے برِّاعظم کے شمالی علاقوں کے ساتھ تجارت کرنے کی راہ ہموار کرنا چاہتے تھے۔‏ سن ۱۸۶۹ میں امریکہ میں ایک ایسی ریل کی پٹری کی تعمیر مکمل ہوئی جو امریکہ کے مشرقی ساحل کو مغربی ساحل سے ملاتی تھی۔‏ ایڈلیڈ کے باشندوں نے بھی کچھ ایسی ہی پٹری تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔‏ اِس پٹری کے ذریعے اُن کے قصبے کو ڈاروِن کی بندرگاہ سے ملایا جاتا جو آسٹریلیا کے شمالی ساحل پر واقع ہے۔‏ اس طرح لوگوں کو ملک کے اندرونی علاقوں تک زیادہ آسانی سے رسائی حاصل ہوتی اور اس کے ساتھ ساتھ ایشیا اور یورپ کا سفر قدراً جلد طے کِیا جا سکتا۔‏

ایک ایسی ریل کی پٹری کا خواب دیکھنا تو بہت آسان تھا لیکن اسے عملی جامہ پہنانا اتنا آسان نہیں تھا۔‏ دراصل اِس کو تعمیر کرنے کے لئے مزدوروں کو بڑی بڑی چٹانوں اور پہاڑی سلسلوں،‏ جھاڑی‌دار بیابانوں اور تپتی ریگستانوں میں پٹریاں بچھانی تھیں۔‏ بارش ہونے پر بعض علاقوں میں سخت سیلاب آتے اور ریگستان دلدل میں تبدیل ہو جاتا۔‏ آسٹریلیا کے مشہور تحقیق‌دان جان اسٹورٹ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس علاقے کو پار کرنے کی تین بار کوشش کی۔‏ ایسا کرتے وقت وہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے موت کے گھاٹ اُترنے سے بال بال بچے رہے۔‏ آخرکار ۱۸۶۲ میں اُن کی کوشش رنگ لائی اور وہ اِس ویران اور سنسان علاقے کو پار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‏

شدید گرمی،‏ جھکڑ اور سیلاب

اِن تمام مشکلات کے باوجود ایڈلیڈ کے باشندوں نے ۱۸۷۸ میں اِس ریل کی پٹری کو پورٹ اگسٹا نامی شہر سے تعمیر کرنے کا کام شروع کِیا۔‏ اُس زمانے میں یہ کام مشینوں کی مدد سے نہیں بلکہ گھوڑوں اور اُونٹوں کی مدد سے کِیا جاتا تھا۔‏ بھالیں اور بیلچے استعمال کرتے ہوئے ۹۰۰ مزدور فلنڈرز نامی ایک پہاڑی سلسلے تک پٹری بچھانے میں کامیاب رہے۔‏ پٹری کو اُنہی قدیم راستوں پر بچھایا گیا جنہیں آسٹریلیا کے اصلی باشندے (‏جنہیں ابورجنی کہا جاتا ہے)‏ سفر کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔‏ اُس زمانے میں ریل گاڑی کو بھاپ کے اِنجن سے چلایا جاتا تھا جسے پانی کی ضرورت تھی۔‏ اس لئے اِس ویران علاقے میں پٹری بچھاتے وقت اِس بات کا خیال رکھا گیا کہ اُن تمام جگہوں کو ملایا جائے جہاں پانی دستیاب تھا۔‏

مزدوروں نے ڈھائی سال کے اندر اندر ۱۰۰ کلومیٹر [‏۶۰ میل]‏ کے فاصلے تک پٹری بچھا لی۔‏ موسمِ‌گرما میں اِس علاقے میں درجۂ‌حرارت ۵۰ ڈگری سینٹی‌گریڈ تک بڑھ جاتا۔‏ اِس خشک گرم موسم کی وجہ سے ناخن ٹوٹنے لگتے،‏ قلم کو کاغذ تک لاتے لاتے سیاہی نوک پر سوکھ جاتی،‏ پٹری ٹیڑھی ہو جاتی اور بوگیاں پٹری سے اُتر جاتیں۔‏ جھکڑ کے بعد پٹری پر ریت کے ڈھیر لگ جاتے جن میں سے کچھ ۲ میٹر [‏۶ فٹ]‏ اُونچے ہوتے۔‏ مزدور اِن کو ہٹانے کے لئے سخت مشقت کرتے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ سے جھکڑ آتا اور اُن کی ساری محنت ضائع ہو جاتی۔‏

پھر بارشیں شروع ہو گئیں۔‏ لمحوں میں خشک نالے،‏ تُند طوفانی دریاؤں میں تبدیل ہو گئے۔‏ سیلاب کے پانی میں پٹری بہہ گئی اور یوں مہینوں کی محنت ضائع ہو گئی۔‏ پٹری بہہ جانے کی وجہ سے ریل گاڑی کے مسافر اکثر اِس غیرآباد علاقے میں پھنس جاتے۔‏ بھوک کے مارے اُن کا بُرا حال ہوتا۔‏ ایک بار تو ریل گاڑی کے ڈرائیور نے جنگلی بکریوں کا شکار کرکے مسافروں کو موت کے مُنہ سے بچا لیا۔‏ اور کئی سال بعد کے ایک واقعے میں مسافروں کو ہوائی جہاز کے ذریعے خوراک پہنچائی گئی۔‏

بارشوں کے بعد ریگستان میں طرح طرح کی جڑی‌بُوٹیاں اُگنے لگتیں جس کی وجہ سے ٹڈیوں کے غول اِس علاقے پر چڑھ آتے۔‏ ایک بار لاکھوں ٹڈیاں پٹری پر آ گئیں جس سے وہ اتنی پھسلنی ہو گئی کہ ریل گاڑی کو چلانے کے لئے ایک مزید اِنجن کی ضرورت پڑی۔‏ اس کے علاوہ اِس علاقے پر چُوہے ہزاروں کی تعداد میں دھاوا بول دیتے۔‏ چُوہے جو چیز سامنے آتی اِسے کھا جاتے مثلاً مزدوروں کا سازوسامان،‏ اُن کے بُوٹ،‏ خیموں کی ٹاٹ وغیرہ۔‏ پٹری کے نزدیک ایک قبرستان بھی ہے۔‏ اِس میں اُن مزدوروں کو دفنایا گیا جو ٹائی‌فائیڈ کا شکار بن گئے تھے۔‏ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شروع شروع میں مزدوروں کے ڈیروں میں صفائی کا انتظام نہیں تھا۔‏

اِس لمبے سفر پر افغان ایکسپریس کا عملہ ہنسی مذاق کرنے کے انوکھے طریقے اپناتا۔‏ آسٹریلیا کے وسطی علاقے میں خرگوش اکثر بلا کی طرح پھیل جاتے ہیں۔‏ ایک بار جب ٹرین اِس علاقے سے گزر رہی تھی تو ریل کے عملے نے بوگیوں میں خرگوش چھپا دئے۔‏ ایک کتاب میں اِس واقعے کے بارے میں بتایا گیا کہ صبح کو جب مسافر ناشتہ کرنے کے لئے اُٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بوگیوں میں ”‏لاتعداد خرگوش پھدک رہے ہیں۔‏“‏ ایک اَور سفر پر ایک شخص کنگرو کے بچے کو مسافروں کی بوگیوں میں لے آیا۔‏

اِس ویران علاقے میں ابورجنی لوگ آباد ہیں۔‏ شروع شروع میں جب افغان ایکسپریس نے چلنا شروع کِیا تو یہ لوگ اِس سے ڈرتے تھے۔‏ جب وہ دُور سے کھڑے ریل گاڑی کو دیکھتے تو اُنہیں اِس میں لوگ دکھائی دیتے تھے۔‏ اُن کا خیال تھا کہ ریل گاڑی ایک ”‏شیطانی اژدہا“‏ ہے جس نے لوگوں کو نگل لیا ہے۔‏

پٹری پر کام بند ہو جاتا ہے

تیرہ سال کی محنت مشقت کے بعد پٹری آسٹریلیا کے وسط میں ایک ایسی جگہ تک تعمیر ہو چکی تھی جو شہر ایلس سپرِنگز سے ۴۷۰ کلومیٹر [‏۲۹۰ میل]‏ دُور تھی۔‏ لیکن پھر ایڈلیڈ کے باشندوں کے پاس اِسے مکمل کرنے کے لئے پیسہ نہ رہا۔‏ آسٹریلیا کے ایک رسالے کے مطابق ”‏یہ اتنا بڑا کام تھا کہ .‏ .‏ .‏ اِسے مکمل کرنا اِن لوگوں کی پہنچ سے باہر تھا۔‏“‏ پھر ۱۹۱۱ میں حکومت نے اِس کام کا خرچہ اُٹھانے کا فیصلہ کِیا اور یوں پٹری ایلس سپرِنگز تک بچھائی گئی۔‏ لیکن اِس کے بعد کام کو روک دیا گیا۔‏ ایڈلیڈ کے باشندوں کے خواب کی تکمیل کے لئے پٹری کو مزید ۴۲۰،‏۱ کلومیٹر [‏۸۸۰ میل]‏ آگے شہر ڈاروِن تک پہنچانے کا کام ابھی باقی تھا۔‏

جب ۱۹۲۹ میں افغان ایکسپریس پہلی مرتبہ ایلس سپرِنگز کے سٹیشن پر پہنچی تو وہاں کی کُل آبادی یعنی ۲۰۰ لوگ اِس تاریخی واقعے کو دیکھنے آئے۔‏ وہ ٹرین کے ریسٹورنٹ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔‏ لیکن اُن کے لئے سب سے انوکھی بات ٹرین کا غسل‌خانہ تھا چونکہ اُس زمانے میں ٹرین پر مسافروں کے لئے عام طور پر غسل کرنے کی کوئی سہولت نہیں ہوتی تھی۔‏ سن ۱۹۹۷ تک افغان ایکسپریس پورٹ اگسٹا سے لے کر ایلس سپرِنگز تک ہی چلائی گئی۔‏ لیکن پھر آسٹریلیا کی حکومت نے اِس پٹری کو ڈاروِن تک پہنچانے کا فیصلہ کِیا اور یہ کام سن ۲۰۰۱ میں شروع ہوا۔‏

اِس مرتبہ پٹری بڑی بڑی مشینوں کے ذریعے بچھائی گئی۔‏ یہ مشینیں روزانہ تقریباً ۲ کلومیٹر [‏ایک میل]‏ کے فاصلے تک پٹری بچھاتیں۔‏ اِس کام پر ایک ارب ڈالر خرچ ہوئے۔‏ پٹری کے لئے ۹۰ خاص پُل تعمیر کئے گئے جو سیلاب میں تباہ نہیں ہو سکتے۔‏ اِن ۴۲۰،‏۱ کلومیٹر [‏۸۸۰ میل]‏ کے فاصلے پر پٹری بچھانے کے کام کو ”‏آسٹریلیا میں فنِ‌تعمیر کا سب سے بڑا منصوبہ“‏ قرار دیا گیا۔‏ جب اکتوبر ۲۰۰۳ میں پٹری کی تعمیر مکمل ہوئی تو اِس پر اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوا تھا اور اتنا وقت بھی نہیں لگا تھا جتنا کہ شروع میں خیال کِیا گیا تھا۔‏

ویران علاقے کی کشش

افغان ایکسپریس سہ‌پہر کے وقت شہر ایڈلیڈ سے اپنے لمبے سفر پر روانہ ہوتی ہے۔‏ اِس ٹرین کے دو اِنجن اور ۴۰ بوگیاں ہیں۔‏ اپنے سفر کے آغاز میں یہ ایسے کھیتوں سے گزرتی ہے جن میں گندم لہرا رہی ہوتی ہے۔‏ لیکن جب یہ ۳۰۰ کلومیٹر [‏۱۹۰ میل]‏ دُور پورٹ اگسٹا کو جا پہنچتی ہے تو منظر اچانک بالکل بدل جاتا ہے۔‏ پورٹ اگسٹا کے بعد اُفق تک صرف ریت،‏ جھاڑیاں اور اُونٹ‌کٹارے دکھائی دیتے ہیں۔‏

آجکل ریل گاڑی پورٹ اگسٹا سے آگے ایک نئی پٹری پر چلتی ہے جو پرانی پٹری سے ۲۵۰ کلومیٹر [‏۱۵۰ میل]‏ دُور مغرب کی طرف بنائی گئی ہے۔‏ پُرانی پٹری کی نسبت اِس پٹری کو ہر موسم میں استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ رات پڑنے کے بعد ریل گاڑی ایسی جھیلوں کے پاس سے گزرتی ہے جن میں صرف کبھی‌کبھار ہی پانی ہوتا ہے۔‏ اِن کی سطح پر نمک جم جاتی ہے۔‏ پھر جب بارش پڑتی ہے تو یہ جھیلیں چاندنی میں چمکتی ہیں۔‏ آسمان پر لاتعداد ستارے جگمگ‌جگمگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔‏ جب ریل گاڑی پٹری پر سے گزرتی ہے تو گاڑیوں کی دھدھک دھدھک نہیں سننے میں آتی کیونکہ آجکل پٹری کے حصوں کو یوں ایک ساتھ جوڑا جاتا ہے کہ جوڑوں کا پتہ ہی نہیں چلتا۔‏ ایسا کرنے سے پٹری کو اچھی حالت میں رکھنا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔‏

صبح تک ریل گاڑی ایلس سپرِنگز کے نزدیک پہنچ جاتی ہے۔‏ پَو پھٹنے پر یوں لگتا ہے کہ ریگستان نے سنہرے اور سرخ رنگ کی چادر اوڑھ لی ہو۔‏ ایک مسافر اِس منظر کے بارے میں کہتا ہے:‏ ”‏مَیں بالکل دَنگ رہ گیا۔‏ حالانکہ مَیں ٹرین میں بیٹھا تھا لیکن پھر بھی مَیں سورج کی قوت کو محسوس کر رہا تھا۔‏ سورج اچانک ہی طلوع ہو کر اِس ویران اور سنسان مگر نہایت ہی حسین اور رنگین علاقے پر راج کرنے لگا۔‏ ایسے منظر کو دیکھ کر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اُس کی اوقات کیا ہے۔‏“‏

آسٹریلیا کے جنوب سے لے کر شمال تک

افغان ایکسپریس ایلس سپرِنگز کے سٹیشن پر کچھ دیر رُکتی ہے اور پھر دوپہر کو اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔‏ شہر کیتھرین سے گزر کر یہ آخرکار شہر ڈاروِن کے سٹیشن پہنچ جاتی ہے۔‏ یہاں کی آب‌وہوا آسٹریلیا کے جنوبی اور وسطی علاقوں سے بالکل فرق ہے کیونکہ یہاں شدید گرمی پڑنے کے ساتھ ساتھ ہوا میں بہت نمی پائی جاتی ہے۔‏ لیکن مسافروں کو اِس تبدیلی کا احساس ٹرین سے نکل کر ہی ہوتا ہے کیونکہ ٹرین اے سی کوچ ہے۔‏ افغان ایکسپریس کے مینیجر کا کہنا ہے کہ ”‏ہم مسافروں کو تمام‌تر آسائشیں مہیا کرتے ہیں۔‏“‏ جب مسافر ٹرین کی کھڑکیوں سے باہر کے مناظر کو گزرتے دیکھتے ہیں تو وہ اُن مشکلات اور مصیبتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے جن کا اُن مزدوروں کو سامنا تھا جنہوں نے اِس پٹری کو تعمیر کرنا شروع کِیا۔‏

جی‌ہاں،‏ افغان ایکسپریس کی وجہ سے آسٹریلیا کے باشندوں کو تجارت اور کاروبار کرنے کے بہت سے نئے موقعے فراہم ہوئے ہیں۔‏ بہت سے سیاح اِس پر سفر کرکے آسٹریلیا کی سیر کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ اِس ٹرین کی وجہ سے آسٹریلیا کے غیرآباد علاقوں میں بھی جدید ٹیکنالوجی کی سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں۔‏ فروری ۲۰۰۴ میں جب افغان ایکسپریس نے پہلی مرتبہ آسٹریلیا کے جنوب سے لے کر شہر ڈاروِن تک سفر کِیا تو ایک ۱۹ سالہ ابورجنی لڑکی نے کہا:‏ ”‏مَیں نے پہلے کبھی ٹرین نہیں دیکھی۔‏ یہ تو بڑی خوبصورت شے ہے۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر بکس/‏تصویر]‏

ریل گاڑی کا نام افغان ایکسپریس کیوں رکھا گیا؟‏

افغان ایکسپریس کو دی غان کا لقب بھی دیا جاتا ہے۔‏ اِس ریل گاڑی کا نام اُن افغان اُونٹ‌سواروں کی یاد میں رکھا گیا جن کی اَن‌تھک محنت کی وجہ سے آسٹریلیا کے اندرونی علاقوں تک رسائی ممکن ہوئی۔‏ حالانکہ یہ لوگ انڈیا کی شمالی علاقوں،‏ ایران،‏ پاکستان،‏ تُرکی اور مصر سے آسٹریلیا آئے تھے لیکن اِن کو مجموعی طور پر افغان کہا جاتا ہے۔‏

آسٹریلیا کے غیرآباد علاقوں کو آباد کرنے کے لئے اِن لوگوں کے اُونٹ بڑے کام آئے۔‏ افغان لوگ اِن اونٹوں پر مال لادتے اور پھر ”‏ہُوشتا“‏ کا نعرہ لگاتے جس پر اُونٹ اُٹھ کر اپنا سفر شروع کر دیتے۔‏ ایک قافلے میں تقریباً ۷۰ اُونٹ ہوتے تھے اور یہ گھنٹے میں ۶ کلومیٹر [‏۴ میل]‏ کا فاصلہ طے کرتے تھے۔‏ بعد میں جب مال کو ریل گاڑی اور موٹرکار کے ذریعے مختلف علاقوں میں پہنچایا جانے لگا تو اُونٹوں کی ضرورت ختم ہو گئی اور اُن کے آقاؤں نے ان کو آزاد چھوڑ دیا۔‏ اس وجہ سے آج آسٹریلیا کے وسط میں جنگلی اُونٹ لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵۱ پر تصویر کا حوالہ]‏

573 Northern Territory Archives Service, Joe DAVIS, NTRS

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویر کا حوالہ]‏

Train photos: Great Southern Railway