بحیرۂمُردار—ایک انوکھی جھیل
بحیرۂمُردار—ایک انوکھی جھیل
اسرائیل سے جاگو! کا نامہنگار
بحیرۂمُردار۔ یہ دُنیا کی سب سے نمکین جھیل ہے اور ہماری زمین کی سب سے نچلی جگہ پر واقع ہے۔ اِس جھیل کو مُردہ کہا جاتا ہے کیونکہ اِس میں مچھلیاں اور پودے وغیرہ نہیں پائے جاتے ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دُنیا کی سب سے صحتبخش جھیل ہے۔ اِسے بدبُودار سمندر، شیطانی سمندر اور رال کی جھیل بھی کہا گیا ہے۔ خدا کے کلام میں اِسے دریایِشور کہا جاتا ہے۔ (پیدایش ۱۴:۳؛ یشوع ۳:۱۶) کئی علما کا کہنا ہے کہ اِس کی تہہ میں سدوم اور عمورہ کے قدیم شہروں کے کھنڈرات واقع ہیں۔ خدا کے خادم لوط نے اِن شہروں کو تباہ ہوتے دیکھا تھا۔ اس لئے بحیرۂمُردار کو سدوم کا سمندر اور لوط کا سمندر بھی کہا گیا ہے۔—۲-پطرس ۲:۶، ۷۔
بحیرۂمُردار کے مختلف نام سُن کر آپ کو شاید ایسا لگے کہ یہ کوئی پُرکشش جگہ تو نہیں ہے۔ لیکن ہر سال ہزاروں سیاح اِس نمکین جھیل کی سیر کو آتے ہیں۔ اِس کا پانی اِتنا نمکین کیوں ہے؟ کیا یہ واقعی مُردہ ہے؟ کیا اِس کا پانی واقعی صحتبخش ہے؟
دُنیا کی نمکینترین جھیل
بحیرۂمُردار وادیِشگاف میں واقع ہے جو مشرقی افریقہ سے لے کر مشرقِوسطیٰ تک پھیلی ہے۔ اِسے گریٹ رِفٹ ویلی کہا جاتا ہے۔ اِس وادی کے شمال میں دریائےیردن کا سرچشمہ ہے۔ یہ دریا بحیرۂمُردار میں ختم ہوتا ہے جو سطحِسمندر سے ۴۱۸ میٹر [۳۷۰،۱ فٹ] نیچے واقع ہے۔ اس کے گِرداگِرد پہاڑ ہیں۔ مغرب کی سمت میں یہوداہ کا پہاڑی علاقہ ہے اور مشرق کی سمت میں موآب کا پہاڑی علاقہ جو مُلک اردن میں واقع ہے۔
بحیرۂمُردار کے پانی میں نمک اتنی بڑی مقدار میں کیوں پایا جاتا ہے؟ دریائےیردن اور دوسرے چھوٹے دریاؤں اور چشموں کے ذریعے مگنیشیمکلورائیڈ، سوڈیمکلورائیڈ اور کیلسیمکلورائیڈ جیسی نمکیات بڑی مقدار میں بحیرۂمُردار تک پہنچائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بحیرۂمُردار میں ہر سال دریائےیردن ہی کے ذریعے ۰۰۰،۵۰،۸ ٹن نمک پہنچتے ہیں۔ چونکہ یہ جھیل زمین کے سب سے نچلے مقام پر واقع ہے اس لئے اِس کا پانی آگے نہیں بہہ سکتا۔ وہ صرف بھاپ بن کر ہی جھیل سے نکل سکتا ہے۔ گرمی کے موسم میں ایک ہی دن میں پانی کے ۷۰ لاکھ ٹن بھاپ بن کر اُڑ جاتے ہیں۔ اِس وجہ سے جھیل میں پانی کی مقدار میں اضافہ نہیں ہوتا ہے۔ پانی تو اُڑ جاتا ہے لیکن نمک اور معدنیات جھیل ہی میں رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بحیرۂمُردار دُنیا کی سب سے نمکین جھیل ہے۔ اس کے پانی میں نمک کی مقدار تقریباً ۳۰ فیصد ہے جو عام سمندر کے پانی سے کئی گُنا زیادہ ہے۔
لوگ عرصۂقدیم سے اِس انوکھی جھیل میں دلچسپی لیتے آ رہے ہیں۔ قدیم یونان کے فلاسفر ارسطو کے کانوں تک یہ خبر پہنچی کہ بحیرۂمُردار کا پانی ”اتنا کڑوا اور نمکین ہے کہ اِس میں مچھلیاں زندہ نہیں رہ سکتیں۔“ نمک کی بڑی مقدار کی وجہ سے لوگ اِس جھیل میں ڈوب نہیں سکتے۔ یہودی مؤرخ فلاویس یوسیفس کے مطابق رومی سپہسالار وسپاسین نے اِس بات کو آزمانے کے لئے قیدیوں کو جھیل میں پھینکوایا۔
آپ شاید پوچھیں کہ یہ جھیل مُردہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحتبخش کیسے ہو سکتی ہے؟
صحتبخش جھیل
قرونِوسطیٰ میں مسافر ایک ایسی جھیل کے بارے میں قصے سناتے جس میں نہ تو مچھلیاں اور نہ ہی پودے یا پرندے پائے جاتے۔ اِن کا خیال تھا کہ جھیل سے آنے والی بدبُو جانلیوا ہے۔ ایسے قصوں کی وجہ سے اِس جھیل کو ایک بدبُودار اور مُردہ سمندر خیال کِیا جانے لگا۔ یہ بات سچ ہے کہ جراثیم کی چند اقسام کے علاوہ اِس میں کوئی زندہ شے نہیں پائی جاتی ہے۔ اور جب بھی دریائےیردن سے مچھلیاں اِس میں بہہ آتی ہیں تو وہ جلد مر جاتی ہیں۔
لیکن جھیل کے اِردگِرد کا علاقہ ہرگز مُردہ نہیں۔ اِس بنجر زمین میں جگہ جگہ نخلستان ہیں جن میں خوبصورت آبشار، سرسبز پودے اور درخت پائے جاتے ہیں۔ اِس علاقے میں بہت سے جانور بھی رہتے ہیں۔ جھیل کے اِردگِرد دودھ پلانے والے جانوروں کی ۲۴ اقسام رہتی ہیں۔ اِن میں جنگلی بِلّیاں، بھیڑیے اور پہاڑی بکرے شامل ہیں۔ میٹھے پانی کے چشموں میں جلتھلیوں، رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں کی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ پرندے اپنا سالانہ سفر کرتے وقت بحیرۂمُردار کے علاقے سے گزرتے ہیں۔ لہٰذا یہاں پرندوں کی
۹۰ اقسام دیکھنے میں آئی ہیں۔ اِن میں کالا اور سفید لقلق، اور گدھ کی کئی مختلف اقسام شامل ہیں۔بحیرۂمُردار کو دُنیا کی سب سے صحتبخش جھیل کیوں قرار دیا گیا ہے؟ پُرانے زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ اِس کے پانی کو پینے سے صحت پر اچھا اثر ہوتا ہے۔ آجکل ہم جانتے ہیں کہ ایسا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن اِس میں کوئی شک نہیں کہ نمکین پانی میں غوطہ لگانے سے جِلد صافستھری ہو جاتی ہے۔ اِس علاقے کی آبوہوا کا بھی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ نشیب میں واقع ہے اس لئے ہوا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ہوا میں برومائیڈ کی بڑی مقدار بھی پائی جاتی ہے جس سے جسم تروتازہ ہو جاتا ہے۔ جھیل کی کیچڑ اور گرم چشموں میں نہانے سے جِلد کی بیماریوں اور جوڑوں کے درد میں مبتلا لوگوں کو آرام ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اِس علاقے میں بلسان کے درخت بھی اُگتے ہیں جن سے میکاپ کا سامان اور مرہم تیار کِیا جاتا ہے۔
رال کی جھیل
بحیرۂمُردار کی سب سے انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ اکثر اِس کی سطح پر تارکول (رال) کے بڑے تودے بہتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ * سن ۱۹۰۵ میں رسالے دی بِبلیکل ورلڈ میں بتایا گیا کہ ۱۸۳۴ میں بحیرۂمُردار کے کنارے پر تارکول کا ایک ایسا بڑا تودہ ملا جس کا وزن ۷۰۰،۲ کلوگرام [۰۰۰،۶ پونڈ] تھا۔ سعودی ارامکو ورلڈ کے مطابق تارکول ”مٹی کی تیل کی بنی ہوئی وہ پہلی چیز تھی جسے انسان نے استعمال کِیا۔“ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ جھیل کی تہہ پر موجود تارکول کے ٹکڑے زلزلوں کی وجہ سے پانی کی سطح پر آ جاتے ہیں۔ لیکن اِس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تارکول زمین کی تہہ میں موجود شگافوں کے ذریعے جھیل میں پہنچتا ہے اور نمک کے ٹکڑوں سے جڑ جاتا ہے۔ پھر جب نمک پانی میں گھل جاتا ہے تو تارکول پانی کی سطح پر اُبھر آتا ہے۔
تارکول بہت صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ اِسے کشتیوں پر لگایا جاتا ہے تاکہ پانی اندر نہ آئے۔ اِسے تعمیراتی کام میں اور مچھروں سے آرام پانے کے لئے بھی استعمال کِیا جاتا ہے۔ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ چوتھی صدی قبلِمسیح سے مصریوں نے لاشوں کو سڑنے سے بچانے کے لئے تارکول استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اُس وقت نباطی نامی ایک خانہبدوش قبیلہ بحیرۂمُردار کے علاقے میں آباد ہو گیا۔ وہ تارکول کو جھیل کے کنارے تک پہنچاتے اور پھر اِس کے ٹکڑے کرکے اِسے مصر پہنچاتے۔
بحیرۂمُردار واقعی انوکھا سمندر ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ دُنیا کی سب سے نمکین، سب سے نچلی اور شاید سب سے صحتبخش جھیل ہے۔ بہرحال یہ دُنیا کی سب سے دلچسپ جھیلوں میں سے ایک ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 15 رال اور تارکول دو ایسے مادے ہیں جو مٹی کے تیل سے بنتے ہیں۔ جب انہیں ریت اور بجری سے ملایا جاتا ہے تو اِس مرکب کو اسفالٹ کہا جاتا ہے جسے سڑک بنانے کے لئے استعمال کِیا جاتا ہے۔
[صفحہ ۲۷ پر بکس/تصویر]
قدیم لنگر
تاریخدانوں کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں بحیرۂمُردار پر مال کی بڑی آمدورفت ہوتی تھی۔ حال ہی میں وہاں دو لکڑی کے لنگر دریافت ہوئے جس سے اِس بات کی تصدیق ہوئی۔
یہ لنگر بحیرۂمُردار کے کنارے پر اُس جگہ کے نزدیک دریافت ہوئے جہاں قدیم شہر عینجدی کی بندرگاہ واقع تھی۔ ماہرین کے مطابق اِن میں سے ایک لنگر ۵۰۰،۲ سال پُرانا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بحیرۂمُردار کے علاقے میں دریافت ہونے والا سب سے پُرانا لنگر ہے۔ دوسرا لنگر تقریباً ۰۰۰،۲ سال پُرانا ہے۔ یہ اُس زمانے کے رومیوں کی دستکاری کا عمدہ نمونہ ہے۔
لکڑی کے لنگر عموماً پانی میں جلدی گل جاتے ہیں جبکہ دھات کے لنگر کافی عرصے تک محفوظ رہتے ہیں۔ لیکن چونکہ بحیرۂمُردار کا پانی بہت نمکین ہے اور اِس میں آکسیجن کی مقدار بہت کم ہے اس وجہ سے اِن لنگروں کی لکڑی اور اِن پر بندھی رسیاں بہت اچھی حالت میں ہیں۔
[تصویر]
لکڑی کا لنگر جو تقریباً ۵۰۰،۲ سال پُرانا ہے
[تصویر کا حوالہ]
Photograph © Israel Museum, Courtesy of Israel
Antiquities Authority
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
پہاڑی بکرا
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
گرم چشمے کا آبشار
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
بحیرۂمُردار میں تیرتے وقت آپ اخبار پڑھ سکتے ہیں