مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم کس صورتحال میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں؟‏

ہم کس صورتحال میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں؟‏

پاک صحائف کی روشنی میں

ہم کس صورتحال میں اپنا دفاع کر سکتے ہیں؟‏

آدھی رات کو اچانک شور سُن کر آپ کی آنکھ کُھل جاتی ہے۔‏ آپ قدموں کی چاپ سنتے ہیں۔‏ کوئی آپ کے گھر میں گھس آیا ہے۔‏ خوف کے مارے آپ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔‏ کانپتے ہوئے آپ سوچتے ہیں کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔‏

کسی بھی شخص کو اِس قسم کی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔‏ اب جُرم‌وتشدد چند ملکوں یا بڑے شہروں تک محدود نہیں رہا۔‏ جُرم‌وتشدد کے خوف کی وجہ سے بہتیرے لوگ اسلحہ خریدنے اور کراٹے جیسے لڑائی کے دیگر طریقے سیکھنے سے اپنی حفاظت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‏ بعض حکومتوں نے ایسے قوانین وضع کر رکھے ہیں جن کے تحت شہری اپنے دفاع کے لئے کسی مُجرم کا مقابلہ کرتے وقت اُس کی جان بھی لے سکتے ہیں۔‏ لیکن اِس سلسلے میں خدا کے کلام کی تعلیم کیا ہے؟‏ کیا کوئی شخص خطرے کی صورت میں اپنا اور اپنے خاندان کا دفاع کر سکتا ہے؟‏

خدا ظلم‌وتشدد سے نفرت کرتا ہے

خدا کا کلام ظلم‌وتشدد سے منع کرتا ہے اور ایسا کرنے والے لوگوں سے دُور رہنے کی تاکید کرتا ہے۔‏ زبورنویس داؤد نے لکھا کہ ’‏ظلم دوست سے یہوواہ خدا کی رُوح کو نفرت ہے۔‏‘‏ (‏زبور ۱۱:‏۵‏)‏ خدا نے قدیم زمانے کی بہت سی قوموں کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کو بھی خونریزی اور ظلم‌وتشدد کرنے کی وجہ سے سزا دی۔‏ (‏یوایل ۳:‏۱۹؛‏ میکاہ ۶:‏۱۲؛‏ ناحوم ۳:‏۱‏)‏ اسرائیل کو دی جانے والی شریعت کے مطابق اگر کسی کی لاپرواہی کی وجہ سے کسی شخص کا خون ہو جاتا تو یہ ایک سنگین جُرم تھا۔‏—‏استثنا ۲۲:‏۸‏۔‏

خدا کا کلام نصیحت کرتا ہے کہ لڑائی‌جھگڑے سے بچنے کے لئے صلح کے طالب رہیں۔‏ عموماً غصے میں کہے جانے والے الفاظ کی وجہ سے ہاتھاپائی شروع ہو جاتی ہے۔‏ خدا کا کلام بیان کرتا ہے:‏ ”‏لکڑی کے نہ ڈالنے سے آگ بجھ جاتی ہے اور چغل‌خور کے نہ ہونے سے جھگڑا تھم جاتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۶:‏۲۰‏،‏ کیتھولک ترجمہ)‏ خاموش رہنا اکثر غصے کو ٹھنڈا کرتا اور لڑائی‌جھگڑے کو ختم کر دیتا ہے۔‏ پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏جہاں تک ممکن ہو ہر انسان کے ساتھ صلح سے رہو۔‏“‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۸‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

اگر آپ کی جان خطرے میں ہو

اگر آپ صلح کے طالب ہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو کبھی بھی جُرم‌وتشدد کا سامنا نہیں ہوگا۔‏ شروع ہی سے خدا کے وفادار پرستاروں کو ظلم‌وستم کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔‏ (‏پیدایش ۴:‏۸؛‏ ایوب ۱:‏۱۴،‏ ۱۵،‏ ۱۷‏)‏ اگر کسی شخص کو چور یا ڈاکو کا سامنا ہو تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟‏ یسوع مسیح نے ہدایت دی:‏ ”‏شریر کا مقابلہ نہ کرنا۔‏“‏ (‏متی ۵:‏۳۹‏)‏ اُس نے مزید کہا:‏ ”‏جو تیرا چوغہ لے اُس کو کُرتہ لینے سے بھی منع نہ کر۔‏“‏ (‏لوقا ۶:‏۲۹‏)‏ یسوع مسیح نے مادی چیزوں کی حفاظت کے لئے ہتھیار استعمال کرنے سے منع کِیا۔‏ اگر کوئی چور کسی کی قیمتی اشیا چھیننا چاہتا ہے تو دانشمند شخص اُسے یہ چیزیں دے دے گا۔‏ بِلاشُبہ،‏ زندگی کسی بھی چیز سے زیادہ قیمتی ہے!‏

اُس صورت میں کیا ہو اگر کوئی مُجرم کسی شخص کو جان سے مارنے کی دھمکی دے؟‏ قدیم اسرائیل کو خدا کی طرف سے دی جانے والی شریعت اِس معاملے پر روشنی ڈالتی ہے۔‏ اگر کوئی چور دن کے وقت چوری کرتے پکڑا جاتا اور اُسے قتل کر دیا جاتا تو قاتل کو سزائےموت دی جاتی تھی۔‏ قاتل کو اِس لئے سزائےموت دی جاتی تھی کیونکہ شریعت کے مطابق چوری کرنے کی سزا موت نہیں تھی اور دن کے وقت چور کی شناخت بھی ہو سکتی تھی۔‏ تاہم،‏ اگر کوئی شخص رات کو گھر میں گھس آتا اور گھر کے مالک کے ہاتھوں مارا جاتا تو شریعت کے مطابق قاتل کے ساتھ کیا کِیا جاتا تھا؟‏ ایسی صورت میں گھر کا مالک بَری ہو سکتا تھا کیونکہ اُس کے لئے رات کے اندھیرے میں یہ دیکھنا مشکل تھا کہ وہ شخص کس نیت سے گھر میں گھس آیا تھا اور کیا کر رہا تھا۔‏ چونکہ گھر کے مالک کو یہ خدشہ تھا کہ وہ شخص اُس کے خاندان کو نقصان پہنچانے آیا تھا اس لئے اُس نے یہ حفاظتی قدم اُٹھایا تھا۔‏—‏خروج ۲۲:‏۲،‏ ۳‏۔‏

پس خدا کے کلام کے مطابق اگر کسی کو جسمانی نقصان پہنچایا جائے یا اُس کی جان خطرے میں ہو تو وہ اپنا اور اپنے خاندان کا دفاع کر سکتا ہے۔‏ وہ حملہ‌آور کے حملوں کو روکنے کے لئے مختلف طریقوں سے اُس کا مقابلہ کر سکتا اور اُسے بےہوش بھی کر سکتا ہے۔‏ اِس کارروائی کا مقصد محض حملہ‌آور کے حملوں کو روکنا ہے۔‏ لیکن اگر اِس دوران حملہ‌آور کو گہری چوٹ لگ جائے یا وہ مر جائے تو اُس کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جان‌بوجھ کر اُس کی جان نہیں لی گئی۔‏

بہترین اُصول

پس ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مناسب حد تک اپنا دفاع کِیا جا سکتا ہے۔‏ اگر کوئی شخص ہم پر یا ہمارے عزیزوں پر تشدد کرتا ہے یا جان سے مارنے کی کوشش کرتا ہے تو ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم اپنا دفاع کریں۔‏ اگر ایسی صورتحال میں بھاگنے یا بچنے کا کوئی اَور راستہ نہ ہو تو خدا کے کلام میں اپنا دفاع کرنے سے منع نہیں کِیا گیا۔‏ لیکن جہاں تک ممکن ہو ہر ایسی صورتحال میں پڑنے سے گریز کریں جو آپ کیلئے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔‏—‏امثال ۱۶:‏۳۲‏۔‏

خدا کا کلام ہماری حوصلہ‌افزائی کرتا ہے کہ زندگی کے ہر حلقے میں ’‏صلح کے طالب ہوں اور اُس کی کوشش میں رہیں۔‏‘‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱۱‏)‏ واقعی یہ پُرسکون زندگی بسر کرنے کا بہترین اُصول ہے۔‏

کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ .‏ .‏ .‏

▪ ہمیں ظلم‌وتشدد سے نفرت کیوں کرنی چاہئے؟‏—‏زبور ۱۱:‏۵‏۔‏

▪ جب ایک شخص ہم سے ہماری کوئی چیز چھیننا چاہتا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‏—‏امثال ۱۶:‏۳۲؛‏ لوقا ۱۲:‏۱۵‏۔‏

▪ کونسا رویہ ہمیں لڑائی‌جھگڑے میں پڑنے سے محفوظ رکھ سکتا ہے؟‏—‏رومیوں ۱۲:‏۱۸‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۱ پر عبارت]‏

خدا کے کلام کے مطابق اگر کسی کو جسمانی نقصان پہنچایا جائے یا اُس کی جان خطرے میں ہو تو وہ اپنا اور اپنے خاندان کا دفاع کر سکتا ہے