خدا میرا سہارا بنا
خدا میرا سہارا بنا
وزیر آسانوو کی زبانی
مَیں جلدی سے اپنے بستر سے اُٹھا۔ مَیں نے بائبل کو اپنی کمر سے باندھ لیا اور کپڑے پہن لئے۔ پھر مَیں نے اپنے کچھ کپڑے بستر پر رکھ لئے اور اِن پر لحاف ڈال دیا تاکہ ایسا لگے جیسے مَیں لیٹا سو رہا ہوں۔ اِس کے بعد مَیں نے کھڑکی سے چھلانگ ماری اور عبادتگاہ کی طرف بھاگنے لگا۔ اِس دوران مَیں دُعا کرتا رہا: ”اَے یہوواہ خدا میری مدد کر۔“ یہ واقعہ ۱۹۹۱ میں پیش آیا جب مَیں ۱۴ سال کا تھا۔
مَیں سوویت یونین کے اُس علاقے میں پیدا ہوا جو آج قازقستان کہلاتا ہے۔ میرے والدین کُرد ہیں۔ میرے والدین اور رشتہداروں نے میرے دل میں بچپن سے ہی یہ خواہش پیدا کی کہ مَیں بڑا ہو کر سیاسی راہنما بنوں اور اپنی قوم کو اپنے دُشمنوں سے نجات دلاؤں۔ مَیں کُرد قوم کے دُشمنوں سے اتنی نفرت کرتا تھا کہ مَیں اُن کو جان سے مارنے کو تیار تھا۔
سن ۱۹۹۰ سے کچھ عرصہ پہلے میری ماں، میرا چھوٹا بھائی اور مَیں ہم تینوں یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ پاک صحائف کا مطالعہ کرنے لگے۔ لیکن میرے والد نے ہمیں اِن لوگوں کے ساتھ کسی قسم کا تعلق رکھنے سے منع کر دیا۔ اِس کے باوجود مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ مطالعہ کرنا جاری رکھا۔ کُرد خاندانوں میں والد کی نافرمانی نہیں کی جاتی۔ مجھے اپنے والد سے بڑا پیار تھا لیکن مَیں اُن سچائیوں کی بھی بڑی قدر کرتا تھا جن کے بارے میں مَیں پاک صحائف سے سیکھ رہا تھا۔
سخت مخالفت کا سامنا
ایک موقعے پر میرے اُستاد نے میرے بستے میں مینارِنگہبانی کا رسالہ دیکھ لیا۔ اُنہوں نے یہ بات میرے والدین کو بتا دی۔ میرے والد کو اتنا غصہ آیا کہ اُنہوں نے میرے مُنہ پر طمانچہ مارا جس کے نتیجے میں میری ناک سے خون بہنے لگا۔ وہ چلائے: ”کیا تُم اب بھی اُس مذہب کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہو؟“
اِس کے بعد میرے والد نے اعلان کِیا کہ وہ مجھے بیٹے کے طور پر قبول نہیں کرتے۔ یہ سُن کر مجھے بہت دُکھ ہوا۔ سکول میں میرے ہمجماعت مجھ سے کنارہ کرنے لگے اور کئی تو کُھلےعام مجھے ذلیل کرنے لگے۔ میرے اُستاد مجھے اچھے نمبر نہ دیتے اور میرے مذہب کا مذاق اُڑاتے۔ وہ چاہتے تھے کہ مَیں بھی اُن کی طرح خدا کے وجود سے انکار کروں۔
اتنی مخالفت کے باوجود بھی میری یہی کوشش تھی کہ مَیں عبادت کیلئے اجلاسوں پر حاضر ہوں اور دوسروں کے ساتھ اُن سچائیوں کے بارے میں بات کروں جو مَیں سیکھ رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد میرے والد کو پتہ چلا کہ مَیں یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہوتا ہوں اور بائبل پڑھتا ہوں۔ ایک بار اتوار کے دن مَیں اجلاس پر حاضر ہونے کے لئے گھر سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا۔ میرے والد نے فوراً مجھ سے کہا: ”میرا حکم ہے کہ آج سے تُم ہر اتوار کو اِس وقت کے دوران اپنے بستر میں ہو۔“ اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر مَیں اُن کی حکمعدولی کروں تو انجام بہت ہی بُرا ہوگا۔ مَیں جانتا تھا کہ اگر مَیں نے اُن کی نافرمانی کی تو اُنہوں نے جو کہا تھا اُسے کر دکھائیں گے۔
نم آنکھوں سے مَیں نے یہوواہ خدا سے التجا کی کہ وہ میرے والد کے دل میں نرمی پیدا کرے لیکن میرے والد کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اُن کا رویہ دیکھ کر مجھے خدا کے کلام میں درج وہ واقعہ یاد آیا جب بنیاسرائیل ملکِمصر خروج ۵:۱، ۲۔
میں غلام تھے۔ فرعون کی طرح میرے والد بھی مجھے یہوواہ خدا کی عبادت کرنے سے روک رہے تھے۔—فیصلے کی گھڑی
ایک اتوار کو مَیں نے فیصلہ کِیا کہ آج مَیں ضرور اجلاس پر حاضر ہوں گا۔ مَیں اپنے بستر میں لیٹا یہوواہ خدا سے مدد کی التجا کر رہا تھا۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جب میرے والدین میرے کمرے میں آئے تو مَیں سوتا بن گیا۔ میرے والد نے بڑے فخر سے کہا: ”دیکھا میرا بیٹا کتنا فرمانبردار ہے!“ پھر اُنہوں نے مجھے چُوما اور چپکے سے کمرے سے باہر نکل گئے۔ مَیں دلہیدل میں دُعا مانگتا رہا۔
جب میرے والدین کمرے سے چلے گئے تو مَیں نے تھوڑی دیر انتظار کِیا اور پھر وہی کِیا جس کے بارے میں مَیں نے اِس مضمون کے آغاز میں بتایا ہے۔ مَیں جلدی سے اُٹھا اور بستر کے نیچے سے جُوتے نکالے اور کھڑکی سے کود گیا۔ اجلاس پر دو گھنٹے بہت جلد گزر گئے۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ گھر پہنچنے پر ناجانے کیا ہوگا۔ ماں نے دیکھ لیا تھا کہ بستر میں مَیں نہیں بلکہ میرے کپڑے پڑے ہیں لیکن اُس نے میرے والد سے کچھ نہ کہا۔ البتہ ماں نے مجھ سے کہا کہ ”اگر تُم نے پھر کبھی ایسی حرکت کی تو مَیں اِسے تمہارے والد سے نہیں چھپاؤں گی۔“
سن ۱۹۹۲ میں مَیں نے اپنے والدین سے کہا کہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک خاص تقریب میں شریک ہونے کی دعوت دی ہے۔ دراصل یہ خاص تقریب یہوواہ کے گواہوں کی ایک اسمبلی تھی جو شہر تاراز میں منعقد ہو رہی تھی۔ یہ شہر ہمارے شہر کرتاؤ سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر [۶۵ میل] دُور تھا۔ اسمبلی پر مَیں یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لینا چاہتا تھا۔ مَیں نے ماں سے پوچھا کہ ”کیا مَیں کھتے سے ایک بالٹی سورجمکھی کے بیج لے سکتا ہوں؟“ پھر مَیں نے ان کو بھون کر بازار میں بیچ دئے۔ اِس طرح مَیں نے اسمبلی تک پہنچنے کے اخراجات پورے کئے۔
جب مَیں گھر واپس لوٹا تو میرے والد نے پوچھا: ”تمہارے دوست کی دعوت کیسی رہی؟“ مَیں نے کہا: ”اچھی رہی۔“ مَیں نے محسوس کِیا کہ یہوواہ خدا نے میری مدد کی ہے کیونکہ میرے والد نے مجھ سے اَور کوئی سوال نہیں کئے۔ مجھے پاک صحائف میں درج یہ الفاظ یاد آئے: ”سارے دل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کرے گا۔“—امثال ۳:۵، ۶۔
مَیں خدا سے دُور ہو جاتا ہوں
میرے بپتسمہ کے بعد بھی میرے والد نے میری مخالفت کرنا جاری رکھی۔ مَیں یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ خدا کی عبادت کرتا رہا۔ اس کے نتیجے میں میرے والد مجھے اکیلے میں اور دوسروں کے سامنے بھی خوب پیٹتے۔ تقریباً ہر دن مجھے ذلیل کِیا جاتا اور مجھ پر اِس مذہب سے تعلق توڑنے کا دباؤ ڈالا جاتا۔ مَیں اکثر آنسو بہاتا۔ اُس وقت قازقستان نے روس سے آزادی حاصل کی اور میرے والدین اور رشتہدار چاہتے تھے کہ مَیں سیاست کے میدان میں اپنی قوم کے لئے جدوجہد کروں۔ اُن کے خیال میں مَیں ایک بہت اچھے موقعے کو ہاتھ سے نکلنے دے رہا تھا۔
میرے بڑے بھائی نے کھلاڑی کے طور پر شہرت حاصل کی اور میرے والد مجھ سے کہتے کہ ”تُم اپنے بھائی کی طرح بنو۔“ سن ۱۹۹۴ میں مَیں نے بھی جمناسٹک اور فٹبال جیسے کھیلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ چونکہ مَیں اچھا کھلاڑی تھا اس لئے جلد ہی مَیں کھیلوں میں سبقت حاصل کرنے لگا اور میری بڑی تعریفیں کی جانے لگیں۔ اس کے علاوہ مَیں وکالت پڑھنے لگا تاکہ مَیں اپنی قوم کی خوشحالی کے لئے کام کر سکوں۔ یہاں تک کہ مَیں سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگا اور کُرد نوجوانوں کی ایک سیاسی پارٹی قائم کرنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب میرے والد میری تعریفیں کرنے لگے۔
”ابو آپ جیت گئے“
مَیں خدا سے بہت دُور ہو گیا تھا اور مَیں نے بائبل پڑھنا اور یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر حاضر ہونا بھی چھوڑ دیا تھا۔ مَیں خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ مَیں بالغ ہو کر یہوواہ خدا کی خدمت کروں گا۔ ایک مرتبہ میرے والد نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تُم اب بھی یہوواہ کے گواہوں سے ملتے ہو؟“ مَیں نے کہا: ”نہیں ابو۔ آپ جیت گئے۔ اب تو آپ خوش ہیں نہ؟“ یہ سُن کر میرے والد بہت خوش ہوئے۔ اُنہوں نے بڑے فخر سے کہا: ”تُم نے خود کو واقعی میرا بیٹا ثابت کِیا ہے۔“
دو سال تک مَیں عبادت کے لئے اجلاسوں پر حاضر نہیں ہوا حالانکہ کبھیکبھار میرا دل بہت چاہتا تھا کہ مَیں جاؤں۔ لیکن دو سال کی غیرحاضری کی وجہ سے
مَیں بہت شرمندہ تھا اور اس لئے مَیں عبادتگاہ جانے سے ہچکچاتا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا کہ کلیسیا کے بہنبھائی میری صورتحال کو نہیں سمجھ سکیں گے۔مجھے اِس بات پر پورا یقین تھا کہ یہوواہ خدا کی خدمت ہی زندگی کی بہترین راہ ہے۔ مَیں اکثر دلہیدل میں اِس بات کو تسلیم کرتا کہ مجھے یہوواہ خدا سے گہری محبت ہے۔ میرے والد چاہتے تھے کہ مَیں یونیورسٹی جا کر اپنی پڑھائی مکمل کروں اور وہ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کرنے لگے۔ آخرکار مَیں نے اُن کی بات مان لی اور اُن سے یہ وعدہ بھی کِیا کہ مَیں اچھے نمبر لے کر پاس ہوں گا۔ یونیورسٹی جنوبی قازقستان کے ایک بہت بڑے شہر آلمااتا میں واقع تھی۔ دلہیدل میں مَیں سوچ رہا تھا کہ ”کاش وہاں پہنچ کر میری ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہو جائے۔“
صورتحال میں خوشکُن تبدیلیاں
مجھے یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میری ملاقات دو یہوواہ کے گواہوں سے ہوئی جو سڑک پر چلتے لوگوں کے ساتھ پاک صحائف کے بارے میں باتچیت کر رہے تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے یہ سوال کِیا: ”آپ کے خیال میں دُنیا پر کون حکمرانی کرتا ہے؟“
مَیں نے جواب دیا: ”شیطان جو کہ یہوواہ خدا اور تمام انسانوں کا دُشمن ہے۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۳، ۴) پھر مَیں نے اُن کو بتایا کہ مَیں بھی یہوواہ کا گواہ ہوں لیکن مَیں نے اجلاسوں پر حاضر ہونا بند کر دیا ہے۔
سن ۱۹۹۶ میں مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ پھر سے پاک صحائف کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ اِس کے کچھ عرصہ بعد میرے دل میں دوبارہ سے یہ خواہش اُبھرنے لگی کہ مَیں دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کروں۔ لہٰذا مَیں بڑے جوشوخروش سے ایسا کرنے لگا۔ پھر ستمبر ۱۹۹۷ میں مَیں آلمااتا میں کُلوقتی طور پر دوسروں کو پاک صحائف کی تعلیم دینے لگا۔
ایک سال بعد میرے والد مجھ سے ملنے کے لئے آلمااتا آئے۔ مَیں اُن کی طرف بڑھا اور اُنہیں گلے سے لگا لیا۔ اُنہوں نے مجھ سے کہا: ”اتنے سال سے مَیں تُم پر اذیت ڈھاتا رہا، بیٹا مجھے معاف کر دو۔“ پھر اُنہوں نے کہا کہ وہ مجھے سمجھ نہیں پائے تھے اور وہ میرے مذہب کے بارے میں غلطفہمی میں مبتلا تھے۔ مَیں نے کہا: ”ابو مجھے آپ سے بہت پیار ہے۔“
جب میرے والد نے بائبل پر مبنی کچھ کتابیں اور رسالے قبول کر لئے تو مَیں بہت ہی خوش ہوا۔ اُنہوں نے مجھ سے بائبل کی درخواست کی اور کہا کہ وہ اِسے صفحہ اوّل سے صفحہ آخر تک پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایک سال بعد وہ ماں کو لے کر دوبارہ مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ وہ میرے ساتھ اجلاس پر حاضر ہوئے۔ وہاں پر موجود مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے یہوواہ کے گواہوں نے اُن کا بڑی گرمجوشی سے خیرمقدم کِیا۔ اِس سے میرے والد بہت متاثر ہوئے اور وہ یہوواہ کے گواہوں کے رسالوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھنے لگے۔
میری زندگی خوشیوں سے بھر گئی
ستمبر ۲۰۰۱ میں مَیں نے ایک بہت ہی پیاری روسی لڑکی یلینا سے شادی کرلی۔ اُس نے ۱۹۹۷ میں یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا تھا اور مئی ۲۰۰۳ میں کُلوقتی طور پر پاک صحائف کی تعلیم دینا شروع کر دی تھی۔ ہمیں یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ میرے والدین نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ پاک صحائف کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ دراصل جب تک مَیں نے یہ بات اپنے والد کے مُنہ سے نہ سنی مجھے اِس پر یقین نہ آیا۔ اُنہوں نے مجھ سے فون پر کہا: ”واقعی یہوواہ خدا سچا خدا ہے۔“
مجھے اِس بات کی بڑی خوشی ہے کہ آلمااتا میں مجھے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ پاک صحائف کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ہے، مثلاً چین، ایران، پاکستان، شام، تُرکی وغیرہ۔ حال ہی میں ایران سے تعلق رکھنے والے ایک پادری نے مجھ سے درخواست کی کہ مَیں اُس کی مادری زبان فارسی میں اُس کے ساتھ پاک صحائف کا مطالعہ کروں۔ مجھے شام سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو خدا کے بارے میں سکھانے کا شرف ملا جو میری مادری زبان کُردستانی بولتا ہے۔ اس کے علاوہ مَیں نے قزاقستانی اور روسی زبان میں بھی لوگوں کو پاک صحائف کی تعلیم دی اور افغانستان سے تعلق رکھنے والا ایک سابقہ جنرل یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھ کر بہت متاثر ہوا۔
آلمااتا میں ۳۵ کلیسیائیں ہیں اور یلینا اور مَیں اِن میں سے ایک میں خدمت کر رہے ہیں۔ اِس کلیسیا میں پروگرام قزاقستانی زبان میں منعقد ہوتا ہے۔ پچھلے سال یلینا اور مجھے آلمااتا کے قریب واقع یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں کچھ عرصے کے لئے خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
ایک ایسا وقت تھا جب مجھے دوسروں سے نفرت کرنے کا درس دیا گیا تھا لیکن یہوواہ خدا نے مجھے تمام لوگوں سے محبت کرنا سکھایا۔ مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ چاہے ہمارے عزیز کچھ بھی کہیں یا کریں، ہمیں یہوواہ خدا کی خدمت کو جاری رکھنا چاہئے۔ (گلتیوں ۶:۹) مَیں اور میری بیوی بہت خوش ہیں کہ ہم دونوں کو ’سرگرمی سے خداوند کی خدمت کرنے‘ کا شرف حاصل ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
[صفحہ ۱۳ پر عبارت]
ماں نے کہا کہ اگر مَیں نے پھر کبھی ایسی حرکت کی تو وہ اِسے میرے والد سے چھپائے نہ رکھے گی
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
شہر کرتاو میں وہ عبادتگاہ جہاں مَیں اجلاسوں پر حاضر ہوتا تھا
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
میرے والدین
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
یلینا اور مَیں، اپنی شادی کے موقعے پر
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
یلینا اور مَیں، آلمااتا کے برانچ دفتر کے سامنے