مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مکئی—‏قدرت کا شاہکار

مکئی—‏قدرت کا شاہکار

مکئی‏—‏قدرت کا شاہکار

امریکہ کی ریاست نیویارک میں رہنے والے ہارلن مکئی کی کاشت کِیا کرتے تھے۔‏ وہ اکثر اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو مکئی کے بارے میں دلچسپ باتیں بتاتے ہیں۔‏ حال ہی میں جاگو!‏ کے ناشرین نے ہارلن کا انٹرویو لیا۔‏ آئیں دیکھیں کہ ہارلن نے مکئی کے پودے کے بارے میں کونسی معلومات فراہم کی۔‏ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ مکئی کا پودا کس علاقے میں دریافت ہوا اور دُنیا کے دوسرے علاقوں تک کیسے پہنچایا گیا۔‏ اس کے علاوہ ہم اِس کے استعمال پر بھی غور کریں گے۔‏ لیکن آئیں پہلے ہم ہارلن کی زبانی مکئی کے پودے کی خصوصیات کے بارے میں سنتے ہیں۔‏

ذہین پودا

‏”‏میرے خیال میں تو مکئی قدرت کا ایک شاہکار ہے۔‏ پتوں سے لے کر مکئی کے دانوں تک،‏ اِس پودے کے تمام حصوں کو بڑے سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔‏ جوں‌جوں پودا اُگتا ہے وہ کسان کو اپنی حالت کے بارے میں بتاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر جب اُسے پانی یا غذا کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ کسان سے شکایت کرتا ہے۔‏ جس طرح ایک بچہ رونے سے والدین کو اپنی ضروریات کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اِسی طرح مکئی کا پودا پتوں کے رنگ اور ان کی شکل کے ذریعے کسان کو اپنی حالت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔‏ یہ بہت اہم ہے کہ کسان اِن باتوں کی پہچان رکھے۔‏“‏

‏”‏جب پتوں کا رنگ سُرخ یا ارغوانی ہو جاتا ہے تو یہ فاسفیٹ کی کمی کی علامت ہوتی ہے۔‏ پودے میں مگنیشیم،‏ نائٹروجن اور پوٹاشیئم کی کمی دوسری علامات سے ظاہر ہوتی ہے۔‏ مکئی کا پودا دیکھتے ہی کسان کو پتہ چل جاتا ہے کہ آیا اِسے کوئی بیماری ہے یا اِسے کسی کیمیائی مادے کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔‏“‏

‏”‏دوسرے کسانوں کی طرح مَیں بھی مکئی کے بیج بہار کے موسم میں بوتا تھا۔‏ جوں‌جوں مٹی کی گرمائش بڑھتی ہے،‏ بیج پھوٹنے لگتے ہیں۔‏ چار تا چھ مہینے بعد جب فصل پک جاتی ہے تو مکئی کے پودوں کا قد تقریباً ۲ میٹر [‏۶ فٹ]‏ ہوتا ہے۔‏“‏

‏”‏جب مکئی کا پودا اُگتا ہے تو اس کے پتوں کو گننے سے اِس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس مرحلے میں ہے۔‏ جب اس کے پانچ پتے ہوتے ہیں تو اِس کی جڑیں اِس بات کا اندازہ لگاتی ہیں کہ مٹی میں کس قسم کی غذا موجود ہے اور یہ کتنی مقدار میں موجود ہے۔‏ اِس کے مطابق پودا یہ طے کرتا ہے کہ اُس کے تکے کتنے چوڑے ہوں گے یعنی اِن پر دانوں کی کتنی قطاریں ہوں گی۔‏ پھر جب پودے پر ۱۲ تا ۱۷ پتے ہوتے ہیں تو وہ دوبارہ سے مٹی کا جائزہ لیتا ہے اور اِس کے مطابق یہ طے کرتا ہے کہ ہر قطار میں کتنے دانے ہوں گے۔‏ اس طرح ہر پودا اِس بات کا اندازہ لگا لیتا ہے کہ وہ مٹی میں موجود غذا کا بہترین فائدہ کیسے اُٹھا سکتا ہے۔‏ واقعی مکئی کا پودا خالق کی کاریگری کا ایک شاہکار ہے۔‏ یہ بات اِس پودے کے باروری کے عمل سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔‏“‏

مکئی کی باروری کا عمل

‏”‏مکئی کا پودا دو جنسی ہوتا ہے یعنی اِس میں نر اور مادہ پھول دونوں ہوتے ہیں۔‏ نر پھول،‏ پودے کے تنے کے اُوپر والے حصے پر پائے جاتے ہیں۔‏ ہر ایک نر پھول میں تقریباً ۰۰۰،‏۶ زردان ہوتے ہیں۔‏ اور ہر زردان سے لاکھوں زیرے خارج ہوتے ہیں۔‏ یہ ہوا کے ذریعے مادہ پھول تک پہنچتے ہیں جو اُس جگہ واقع ہوتے ہیں جہاں بعد میں بھٹے اُگتے ہیں۔‏ البتہ مادہ پھول بھٹے کے چھلکے کے اندر چھپے ہوتے ہیں۔‏“‏

‏”‏تو پھر زیرے مادہ پھول تک کیسے پہنچتے ہیں؟‏ یہ بھٹے کے اُوپر والے حصے پر موجود سنہرے بالوں کے ذریعے ہوتا ہے۔‏ ہر بھٹے کے سینکڑوں ایسے بال ہوتے ہیں۔‏ ہر ایک بال چھلکے کے اندر موجود ایک بیج سے جڑا ہوتا ہے۔‏ ہر ایک بیج ایک مکئی کے دانے کو جنم دیتا ہے۔‏“‏

‏”‏بھٹے کے بالوں پر چھوٹےچھوٹے ریشے ہوتے ہیں۔‏ جب بال ہوا میں ہلتے ہیں تو ہوا میں موجود زیرے اِن سے چپک جاتے ہیں۔‏ جونہی ایک زیرہ بال سے چپک جاتا ہے وہ پھوٹتا ہے اور ایک جڑ پیدا کرتا ہے۔‏ یہ جڑ بال کے ذریعے چھلکے میں موجود بیج سے جڑ جاتی ہے۔‏ اس کے نتیجے میں بیج بارور ہو جاتا ہے۔‏“‏

‏”‏اگر بھٹے پر کچھ دانے کم ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ بیج بارور نہیں ہوئے،‏ شاید اِس لئے کہ اِن کے بال وقت پر نہیں اُگے۔‏ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مٹی بہت خشک تھی۔‏ جو کسان اِس بات کی پہچان رکھتا ہے وہ اِس مسئلے کو حل کرکے اپنی پیداوار بڑھا سکتا ہے۔‏ اگر وہ موجودہ فصل میں بہتری نہیں لا سکتا تو وہ اگلی فصل میں بہتری ضرور لا سکتا ہے۔‏ مَیں اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک سال مکئی اور دوسرے سال سویابین کی فصل لگاتا تھا۔‏ سویابین کے پودے مٹی کو نائٹروجن فراہم کرتے ہیں۔‏ اس کے علاوہ جو کیڑے مکئی کی فصل کو نقصان پہنچاتے ہیں وہ سویابین نہیں کھا سکتے۔‏“‏

‏”‏جب مَیں زمین کے ایک ٹکڑے کو ایک ہرےبھرے کھیت میں تبدیل ہوتا دیکھتا ہوں تو میرا دل خوش ہو جاتا ہے۔‏ یہ سب کچھ شور اور آلودگی کے بغیر بڑی خوبصورتی سے انجام پاتا ہے۔‏ مَیں مکئی کے پودے کی پیچیدگیوں کو مکمل طور پر نہیں سمجھتا ہوں۔‏ لیکن مجھے اِس بات کا پکا یقین ہے کہ دوسرے پودوں کی طرح مکئی کا پودا بھی خالق کی کاریگری ہے۔‏“‏

کیا ہارلن کی اِن باتوں کو پڑھ کر آپ مکئی کے پودے کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں؟‏ آئیں اب اِس پودے کی تاریخ اور اِس کے استعمال کے بارے میں چند دلچسپ معلومات پر غور کریں۔‏

مکئی کا سفر

مکئی کی کاشت سب سے پہلے امریکہ میں شروع ہوئی،‏ غالباً میکسیکو میں۔‏ وہاں سے وہ پورے براعظم میں پھیل گئی۔‏ قدیم زمانے میں ملک پیرو کے باشندے مکئی کی دیوی کی پوجا کرتے تھے جس کے سر پر مکئی کے بھٹوں کا بنا ہوا تاج ہوتا۔‏ مصنف جوزف کیسٹنر امریکہ کے اصلی باشندوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ”‏اُن کے خیال میں مکئی دیوتاؤں کا تحفہ تھا اور انسان خود بھی مکئی کے مادے سے بنا تھا۔‏ .‏ .‏ .‏ مکئی کی کاشت میں خرچہ کم ہوتا جبکہ ایک پودے سے ایک آدمی کو ایک دن کی خوراک فراہم ہوتی۔‏“‏ البتہ امریکہ کے اصلی باشندے مکئی ہی پر گزارہ نہیں کرتے بلکہ وہ ساتھ میں پھلیاں بھی کھاتے تھے۔‏ یہ رواج جنوبی اور وسطیٰ امریکہ میں آج تک قائم ہے۔‏

مکئی کا پودا ۱۴۹۲ عیسوی کے بعد یورپ پہنچا۔‏ اِس سال میں کرسٹوفر کولمبس نے کریبیئن جزائر کو دریافت کِیا۔‏ کولمبس کے بیٹے فرڈیننڈ نے لکھا کہ اُس کے والد نے وہاں ایک ایسا اناج دیکھا ”‏جسے لوگ ’‏میز‘‏ کہتے ہیں۔‏ وہ اسے اُبال کر،‏ بھون کر یاپھر پیس کر کھاتے ہیں۔‏ یہ بہت ہی لذیذ ہوتا ہے۔‏“‏ واپسی پر کولمبس اِس اناج کو سپین لے گیا۔‏ مصنف کیسٹنر نے لکھا کہ ”‏سن ۱۵۵۰ء کے لگ‌بھگ نہ صرف سپین میں بلکہ بلغاریہ اور تُرکی میں بھی مکئی کی کاشت ہونے لگی۔‏ غلاموں کی تجارت کرنے والوں نے اِسے افریقہ پہنچایا۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏سپین کے بحری مہم‌جو فرڈیننڈ]‏ ماگیلان نے میکسیکو میں مکئی کے دانے حاصل کئے اور انہیں فلپائن اور ایشیا پہنچا دیا۔‏“‏ یوں مکئی کی کاشت پوری دُنیا میں پھیل گئی۔‏

آجکل اناج کی کُل عالمی پیداوار میں گندم پہلے نمبر پر ہے جبکہ مکئی دوسرے نمبر پر اور چاول تیسرے نمبر پر ہے۔‏ زیادہ‌تر انسانوں اور مویشیوں کی بنیادی خوراک اِن تین اناج میں سے کسی ایک پر مشتمل ہے۔‏

مکئی کی بہت سی مختلف اقسام ہیں۔‏ ریاستہائے متحدہ امریکہ میں مکئی کی ۰۰۰،‏۱ سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔‏ اِن کا قد ۶۰ سینٹی‌میٹر [‏۲ فٹ]‏ سے لے کر ۶ میٹر [‏۲۰ فٹ]‏ تک ہوتا ہے۔‏ بعض اقسام کے بھٹے صرف ۵ سینٹی‌میٹر [‏۲ انچ]‏ لمبے ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کی لمبائی ۶۰ سینٹی‌میٹر [‏۲ فٹ]‏ ہوتی ہے۔‏ پکوان کی ایک کتاب کے مطابق ”‏جنوبی امریکہ میں پائے جانے والی مکئی کی بعض اقسام کے بھٹے فٹ‌بال جتنے بڑے ہوتے ہیں اور اِن کے چپکے دانے ایک انچ بڑے ہوتے ہیں۔‏“‏

مکئی کے مختلف رنگ بھی ہوتے ہیں،‏ مثلاً پیلا،‏ سفید،‏ لال،‏ نیلا،‏ گلابی اور کالا۔‏ یہاں تک کہ کئی بھٹوں پر طرح‌طرح کے رنگوں کے دانے ہوتے ہیں۔‏ اس وجہ سے اُن پر مختلف ڈیزائن نظر آتے ہیں۔‏ اکثر ایسے بھٹے پکائے نہیں جاتے بلکہ گھر کی آرائش کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔‏

مکئی کا استعمال

مکئی کی ہزاروں اقسام کو چھ بنیادی اقسام میں تقسیم کِیا جاتا ہے:‏ ڈینٹ کارن جس کے دانے اندر کی طرف دھنسے ہوتے ہیں،‏ فلنٹ کارن جس کے دانے بہت سخت ہوتے ہیں،‏ فلاور کارن جس کے دانوں کو آسانی سے پیسا جا سکتا ہے،‏ ویکسی کارن جس میں شکر کی نسبت نشاستوں کی مقدار زیادہ ہوتی ہے،‏ پاپ کارن جس کے دانے تلنے پر پھٹ جاتے ہیں اور سویٹ کارن یعنی دودھیا مکئی۔‏ دودھیا مکئی کی کاشت نسبتاً کم کی جاتی ہے۔‏ اِس کا ذائقہ اس لئے میٹھا ہوتا ہے کیونکہ اِس میں شکر زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے۔‏ مکئی کی کُل عالمی پیداوار میں سے ۶۰ فیصد چارے کے طور پر استعمال ہوتی ہے جبکہ ۲۰ فیصد انسانوں کی خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔‏ باقی ۲۰ فیصد یا تو مختلف صنعتوں میں یاپھر بیج کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔‏

مکئی کو طرح‌طرح کی صنعتوں میں استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اِسے گوند،‏ میونیز اور بیئر وغیرہ کی تیاری میں استعمال کِیا جاتا ہے۔‏ یہاں تک کہ اس سے الکحل (‏ایتھانول)‏ بھی تیار کِیا جاتا ہے جسے ایندھن کے طور پر استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ یقیناً قدرت کے اِس شاہکار کو استعمال کرنے کے اَور بھی بہت سے طریقے ہیں جو اب تک دریافت نہیں ہوئے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۷ پر بکس]‏

مصنوعی بیج

بہت سے ممالک میں کسان فصل کی پیداوار بڑھانے کے لئے مکئی کے مصنوعی بیج (‏ہائبرڈ بیج)‏ استعمال کرتے ہیں۔‏ یہ بیج مکئی کی مختلف اقسام کو ملانے سے پیدا ہوتے ہیں۔‏ اِن اقسام کو اُن کی خصوصیات کے مطابق چنا اور ملایا جاتا ہے تاکہ اِن سے پیدا ہونے والے بیج میں بھی یہی خصوصیات نمایاں ہوں۔‏ البتہ جو کسان مصنوعی بیج استعمال کرتے ہیں اُن کو ہر فصل کے لئے دوبارہ سے بیج خریدنے پڑتے ہیں۔‏ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مصنوعی بیج سے حاصل کی جانے والی فصل کو دوبارہ سے بویا جائے تو اگلی پیداوار کم ہوتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

دُنیابھر میں مکئی کی ہزاروں مختلف اقسام پائی جاتی ہیں

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

Courtesy Sam Fentress

Courtesy Jenny Mealing/​flickr.com