مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

خدا دُعاؤں کو شمار کرنے کے آلات کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

خدا دُعاؤں کو شمار کرنے کے آلات کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

پاک صحائف کی روشنی میں

خدا دُعاؤں کو شمار کرنے کے آلات کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

بہت سے مذاہب میں دُعاؤں کو شمار کرنے کے لئے آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔‏ لوگوں کا خیال ہے کہ اِن آلات کی مدد سے وہ خدا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں اور اُس کی برکت پا سکتے ہیں۔‏ اِس سلسلے میں پاک صحائف کی تعلیم کیا ہے؟‏

دُعاؤں کو شمار کرنے کے لئے آلات کا استعمال بہت ہی قدیم رواج ہے۔‏ مثال کے طور پر قدیم شہر نینوہ کے کھنڈرات میں ”‏دو ایسی عورتوں کے مجسّمے [‏دریافت ہوئے]‏ جو ایک مقدس درخت کے سامنے دُعائیہ انداز میں کھڑی ہیں۔‏ اُن کے بائیں ہاتھ میں ایک مالا یا روزری ہے۔‏“‏—‏دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا۔‏

لوگ روزری،‏ مالا یا تسبیح کیوں استعمال کرتے ہیں؟‏ دی کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں اِس کا جواب یوں دیا گیا ہے:‏ ”‏جب ایک دُعا کو بار بار دہرایا جاتا ہے تو اسے اُنگلیوں پر گننے کی بجائے ایک آلے کے ذریعے گننا زیادہ آسان ہوتا ہے۔‏“‏

بعض مذاہب میں پرچیوں پر منتر لکھ کر اِنہیں گول ڈبوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔‏ پھر چاہے یہ ڈبا ہاتھ،‏ ہوا،‏ پانی یا بجلی سے گھمایا جائے یہ ایک دُعا کے برابر خیال کِیا جاتا ہے۔‏ خدا دُعا کے سلسلے میں ایسے آلات کے استعمال کو کیسا خیال کرتا ہے؟‏

‏”‏رٹےرٹائے جملے ہی نہ دہراتے رہا کرو“‏

بہت سے غیرمسیحی یسوع مسیح کو خدا کے نبی کے طور پر خیال کرتے ہیں۔‏ یسوع مسیح نے دُعا کے سلسلے میں خدا کا نظریہ یوں بیان کِیا:‏ ”‏جب تُم دُعا کرو تو .‏ .‏ .‏ محض رٹےرٹائے جملے ہی نہ دہراتے رہا کرو۔‏ .‏ .‏ .‏ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے بہت بولنے کے باعث اُن کی سنی جائے گی۔‏“‏—‏متی ۶:‏۷‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏ *

اگر خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم دُعا کرتے وقت ’‏رٹےرٹائے جملے دہرائیں‘‏ تو پھر کیا وہ ایسے آلات کو پسند کرے گا جو دُعاؤں کو دہرانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں؟‏ خدا کے کلام میں کوئی ایسا حوالہ نہیں پایا جاتا جس سے یہ ظاہر ہو کہ خدا کے کسی بھی خادم نے دُعا کرنے کے لئے کوئی آلہ استعمال کِیا ہو۔‏ اُنہوں نے ایسا کیوں نہیں کِیا؟‏ اِس سوال کے جواب کے لئے آئیں دیکھیں کہ خدا نے ہمیں دُعا کرنے کا شرف کیوں عطا کِیا ہے۔‏

ایسی دُعائیں جن کو خدا قبول کرتا ہے

جب یسوع مسیح نے دُعا کرنے کا نمونہ دیا تو اُس نے ہمارے خالق کو ”‏اَے ہمارے باپ“‏ کہہ کر مخاطب کِیا۔‏ ہمارا خالق ایسی لاتعلق اور بےحس ہستی نہیں ہے جس تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ہمیں منتر،‏ رسومات اور آلات کی ضرورت ہو۔‏ اِس کے برعکس خدا ایک شفیق باپ کی طرح ہے۔‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم اسے اپنا باپ خیال کریں اور اُس سے محبت رکھیں۔‏ اِس لئے یسوع مسیح نے کہا کہ ”‏مَیں باپ سے محبت رکھتا ہوں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۴:‏۳۱‏)‏ اِس کے علاوہ بنی‌اسرائیل کے ایک نبی نے کہا:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏!‏ تُو ہمارا باپ ہے۔‏“‏—‏یسعیاہ ۶۴:‏۸‏۔‏

ہم یہوواہ خدا کے نزدیک کیسے جا سکتے ہیں؟‏ (‏یعقوب ۴:‏۸‏)‏ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہم دُعا میں اُس کو اپنے دل کی باتیں بتا سکتے ہیں۔‏ خدا اپنے کلام کے ذریعے ہمیں اپنے خیالات،‏ اپنی شخصیت اور کارروائیوں سے آگاہ کرتا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶‏)‏ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہمیں صرف رسم ادا کرنے کے لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں خلوص‌دلی سے دُعا کرنی چاہئے۔‏

ذرا سوچیں کہ عام طور پر بچے اپنے والدین سے کیسے بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ کیا وہ بات کرتے وقت رٹےرٹائے جملے دہراتے ہیں اور اِن کو شمار کرنے کے لئے ایک آلہ استعمال کرتے ہیں؟‏ ہرگز نہیں۔‏ اِس کی بجائے وہ بڑے احترام سے اپنے والدین کو اپنے دل کی باتیں بتاتے ہیں۔‏

اسی طرح ہم بھی دُعا کرتے وقت خدا کو اپنے دل کی ہر بات بتا سکتے ہیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور مِنت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔‏ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھے گا۔‏“‏ (‏فلپیوں ۴:‏۶،‏ ۷‏)‏ ظاہری بات ہے کہ اگر ہم کسی معاملے کے بارے میں پریشان ہیں تو ہم اِس کے بارے میں بار بار دُعا کر سکتے ہیں۔‏ ایسی دُعائیں رٹےرٹائے جملے دہرانے سے فرق ہیں۔‏—‏متی ۷:‏۷-‏۱۱‏۔‏

پاک صحائف میں بہت سی ایسی دُعاؤں کا ذکر ہے جن کو خدا نے قبول کِیا۔‏ اِن کی چند مثالیں زبور میں پائی جاتی ہیں۔‏ * اِس کے علاوہ انجیل میں یسوع مسیح کی چند دُعائیں بھی درج کی گئی ہیں۔‏ (‏زبور ۱۷ اور ۸۶ کی تمہید؛‏ لوقا ۱۰:‏۲۱،‏ ۲۲؛‏ ۲۲:‏۴۰-‏۴۴‏)‏ اِس سلسلے میں یوحنا ۱۷ باب میں درج یسوع مسیح کی دُعا کو پڑھیں۔‏ غور کریں کہ یسوع مسیح دل کی گہرائیوں سے خدا سے دُعا کر رہا تھا۔‏ اُس نے صرف اپنے معاملوں کے بارے میں دُعا نہیں کی بلکہ اپنے شاگردوں کی خاطر بھی دُعا کی۔‏ اُس نے اُن کے لئے اپنی محبت ظاہر کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏اَے قدوس باپ!‏ .‏ .‏ .‏ شریر سے ان کی حفاظت کر۔‏“‏—‏یوحنا ۱۷:‏۱۱،‏ ۱۵‏۔‏

کیا یسوع مسیح نے اِس دُعا میں رٹےرٹائے جملے دہرائے؟‏ جی‌نہیں۔‏ اُس نے دُعا کے سلسلے میں کیا ہی عمدہ مثال قائم کی!‏ جو لوگ سچے خدا کی قربت حاصل کرنا چاہتے ہیں اُنہیں اُس کے بارے میں علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ ایسا کرنے سے اُن کے دل میں خدا کے لئے محبت پیدا ہوگی جس کی بِنا پر وہ ایسے رسم‌ورواج کو ترک کر سکیں گے جنہیں خدا ناپسند کرتا ہے۔‏ ایسے خلوص‌دل لوگوں سے خدا کہتا ہے:‏ ”‏مَیں تُم کو قبول کر لوں گا۔‏ اور تمہارا باپ ہوں گا اور تُم میرے بیٹے بیٹیاں ہوگے۔‏“‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 8 جب یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھایا تو اُس نے یہ نہیں کہا کہ ”‏تُم یہ دُعا کِیا کرو“‏ کیونکہ ایسا کہنے سے وہ متی ۶:‏۷ میں اپنے بیان کی نفی کر رہا ہوتا۔‏ اِس کی بجائے اُس نے کہا:‏ ”‏تُم اِس طرح دُعا کِیا کرو۔‏“‏ (‏متی ۶:‏۹-‏۱۳‏)‏ دُعا کے سلسلے میں ایک نمونہ فراہم کرنے سے یسوع مسیح نے یہ سکھایا کہ ہمیں دُعا کرتے وقت ایسے موضوعات کو زیادہ اہمیت دینی چاہئے جن کا تعلق خدا کی مرضی اور اُس کی عبادت سے ہے۔‏

^ پیراگراف 15 حالانکہ زبور حمد کے گیتوں پر مشتمل ہے جو مختلف موقعوں پر گائے جاتے تھے تو بھی اِن گیتوں کو منتر کی طرح دہرایا نہیں جاتا تھا۔‏ اور نہ ہی اِن کو گاتے وقت روزری یا تسبیح جیسے آلات استعمال کئے جاتے تھے۔‏

کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ .‏ .‏ .‏

▪ رٹی رٹائی دُعائیں نہ دہرانے کی ہدایت سے ہم دُعاؤں کو شمار کرنے کے آلات کے استعمال کے بارے میں کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟‏—‏متی ۶:‏۷‏۔‏

▪ اپنی دُعاؤں میں ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم خدا کے بہت قریب ہیں؟‏—‏یسعیاہ ۶۴:‏۸‏۔‏

▪ جب ہم ایسے رسم‌ورواج ترک کرتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں ہیں تو خدا ہمیں کیسا خیال کرتا ہے؟‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۶:‏۱۷،‏ ۱۸‏۔‏