مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کوریا کے بدلتے حالات اور مَیں

کوریا کے بدلتے حالات اور مَیں

کوریا کے بدلتے حالات اور مَیں

از چانگ‌اِل پارک

‏”‏بزدل!‏ تُم اگلی صفوں میں مرنے سے ڈرتے ہو۔‏ تُم فوج سے فرار حاصل کرنے کے لئے مذہب کا سہارا لے رہے ہو۔‏“‏ تقریباً ۵۵ سال پہلے جون ۱۹۵۳ میں فوج کے سراغ‌رساں ادارے (‏سی‌آئی‌سی)‏ کے کیپٹن نے مجھ پر یہ الزام لگایا تھا۔‏

یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب کوریا جنگ کی لپیٹ میں تھا۔‏ کیپٹن نے پستول نکال کر اپنے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا:‏ ”‏اب تُم اگلی صفوں کی بجائے یہیں مرو گے۔‏ ایک بار پھر سوچ لو۔‏“‏

مَیں نے جواب دیا:‏ ”‏مَیں اپنے فیصلے پر قائم ہوں۔‏“‏ اِس پر کیپٹن نے ایک افسر کو حکم دیا کہ مجھے سزا دینے کی تیاری کرے۔‏

مَیں اِس صورتحال کو اِسلئے پہنچا کیونکہ مَیں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔‏ افسر کے جانے کے بعد مَیں نے کیپٹن کو بتایا کہ مَیں پہلے ہی اپنی زندگی خدا کی خدمت کرنے کیلئے وقف کر چکا ہوں۔‏ اِس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر مَیں خدا کی خدمت کو چھوڑ کر اپنی زندگی کسی اَور کام کیلئے قربان کر دیتا ہوں تو یہ غلط ہوگا۔‏ چند لمحوں تک ہم دونوں خاموش رہے۔‏ جلد ہی افسر واپس آ گیا اور کیپٹن کو بتایا کہ مجھے سزا دینے کے تمام انتظامات مکمل ہوگئے ہیں۔‏

اُس وقت شمالی کوریا میں لوگ یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔‏ اِس لئے اُن کا یہ جاننا تو بہت دُور کی بات تھی کہ ہم مذہبی وجوہات کی بِنا پر فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔‏ آپ کو یہ بتانے سے پہلے کہ اِس کے بعد مجھ پر کیا بیتی مَیں آپ کو یہ بتانا چاہوں گا کہ مَیں نے فوج میں بھرتی نہ ہونے کا فیصلہ کیوں کِیا تھا۔‏

میری زندگی کے ابتدائی سال

مَیں اکتوبر ۱۹۳۰ میں کوریا کے دارالحکومت سیول میں پیدا ہوا۔‏ مَیں اپنے خاندان میں پہلا بیٹا تھا۔‏ میرے دادا کنفیوشس کے پیرو تھے اور اُنہوں نے مجھے بھی اُس کا پیرو بننے کی تعلیم دی۔‏ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ مَیں کسی سکول میں جاؤں۔‏ اِس لئے اُن کے وفات پانے کے بعد ہی مَیں نے سکول جانا شروع کِیا۔‏ اُس وقت میری عمر ۱۰ سال تھی۔‏ سن ۱۹۴۱ میں جاپان اور امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں شریک ممالک کی حمایت کرنا شروع کر دی۔‏

کوریا چونکہ جاپانی حکومت کے ماتحت تھا اِس لئے ہم طالبعلموں کو ہر صبح جاپانی حکمران کو تعظیم دینے کے لئے ادا کی جانے والی رسومات میں حصہ لینا پڑتا تھا۔‏ میری پھوپھو اور پھوپھا یہوواہ کے گواہ بن چکے تھے۔‏ اپنے مذہبی اعتقادات کی وجہ سے اُنہوں نے جنگی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا اِس لئے دوسری عالمی جنگ کے دوران وہ کوریا میں قید تھے۔‏ جاپان کے لوگ یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ اتنا بُرا سلوک کرتے تھے کہ اُن میں سے بعض تو اُن کے ظلم کے ہاتھوں وفات پا گئے جن میں میرے پھوپھا بھی شامل تھے۔‏ بعدازاں میری پھوپھو نے ہمارے ساتھ رہنا شروع کر دیا۔‏

کوریا ۱۹۴۵ میں جاپان سے آزاد ہو گیا۔‏ اپنی پھوپھو اور قید سے رِہائی پانے والے دیگر یہوواہ کے گواہوں کی مدد سے مَیں نے سنجیدگی کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا اور ۱۹۴۷ میں بپتسمہ لے لیا۔‏ اگست ۱۹۴۹ میں ڈان اور ایرلین سٹیل مُنادی کرنے کے لئے کوریا کے شہر سیول پہنچے۔‏ وہ واچ‌ٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ سے تربیت حاصل کرنے والے پہلے مشنریوں میں شامل تھے۔‏ چند مہینوں کے اندراندر دوسرے مشنری بھی اُن کی مدد کے لئے یہاں پہنچ گئے۔‏

یکم جنوری ۱۹۵۰ میں،‏ مَیں نے تین دیگر مقامی گواہوں کے ساتھ پائنیر کے طور پر خدمت شروع کر دی۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے کُل‌وقتی مُنادوں کو پائنیر کہتے ہیں۔‏ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے پہلے ہم چاروں نے کوریا میں پائنیر خدمت کا آغاز کِیا۔‏

کوریا میں جنگ کے دوران

سن ۱۹۵۰ میں،‏ ۲۵ جون بروز اتوار شمالی اور جنوبی کوریا کے مابین جنگ چھڑ گئی۔‏ اُس وقت پورے ملک میں یہوواہ کے گواہوں کی صرف ایک ہی کلیسیا تھی۔‏ سیول میں قائم یہ کلیسیا ۶۱ مبشروں پر مشتمل تھی۔‏ امریکی سفارت‌خانے نے مشنریوں کے تحفظ کے پیشِ‌نظر اُنہیں کوریا کو چھوڑنے کے لئے کہا۔‏ بیشتر مقامی گواہ بھی سیول کو چھوڑ کر ملک کے جنوبی حصوں میں منتقل ہو گئے۔‏

تاہم،‏ جنوبی کوریا کی حکومت نے اُن نوجوانوں کو سیول چھوڑنے کی اجازت نہ دی جو فوج میں بھرتی ہونے کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔‏ مَیں بھی اِن نوجوانوں میں شامل تھا۔‏ اچانک کمیونسٹ فوجیں شہر میں داخل ہو گئیں اور سیول پر قبضہ کر لیا۔‏ یہاں تک کہ مجھے تین مہینوں کے لئے ایک چھوٹے سے کمر ے میں چھپنا پڑا۔‏ اِس دوران بھی مَیں نے لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں گواہی دینا جاری رکھا۔‏ مثال کے طور پر،‏ ایک سکول ٹیچر میرے ساتھ آکر رہنے لگا وہ بھی کمیونسٹ افسروں سے چھپ رہا تھا۔‏ مَیں ہر روز اُس کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرتا تھا۔‏ ایک وقت آیا کہ اُس نے بھی یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏

آخرکار،‏ شمالی کوریا کے کمیونسٹ افسروں نے ہمیں ڈھونڈ نکالا۔‏ ہم نے بائبل طالبعلموں کے طور پر اپنی شناخت کرائی اور اُنہیں بائبل سے خدا کی بادشاہت کے بارے میں بتایا۔‏ ہمارے لئے یہ بات بڑی حیران‌کُن تھی کہ اُنہوں نے ہمیں گرفتار کرنے کی بجائے بائبل کے پیغام میں دلچسپی ظاہر کی۔‏ اُن میں سے بعض تو خدا کی بادشاہت کے بارے میں مزید جاننے کے لئے کئی بار ہمارے پاس آئے۔‏ اِس تجربے سے یہوواہ خدا پر ہمارا ایمان اَور زیادہ مضبوط ہوگیا کہ وہ اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔‏

اقوامِ‌متحدہ کی فوجوں کے سیول پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد مارچ ۱۹۵۱ میں مجھے ٹیگو کے شہر جانے کی خصوصی اجازت مل گئی۔‏ وہاں مَیں کئی مہینوں تک ساتھی گواہوں کے ساتھ مل کر مُنادی کرنے کے قابل ہوا۔‏ نومبر ۱۹۵۱ میں،‏ جنگ کے ختم ہونے سے پہلے ہی بھائی ڈان سٹیل کوریا واپس آ گئے۔‏

مَیں نے مُنادی کے کام کو دوبارہ سے منظم کرنے میں اُن کی مدد کی۔‏ مینارِنگہبانی کے علاوہ انفارمنٹ کا بھی کورین زبان میں ترجمہ کرنے،‏ چھاپنے اور نقل کرنے کی ضرورت تھی۔‏ انفارمنٹ میں گواہوں کو مُنادی کے کام کے سلسلے میں ہدایات دی جاتی تھیں۔‏ اِس مواد کو مختلف شہروں میں قائم کلیسیاؤں کو بھیجا جاتا تھا۔‏ اکثراوقات ڈان اور مَیں مختلف کلیسیاؤں میں بہن‌بھائیوں کی حوصلہ‌افزائی کرنے کے لئے اکٹھے سفر کرتے تھے۔‏

جنوری ۱۹۵۳ میں،‏ جب مجھے نیویارک میں گلئیڈ سکول میں مشنری کے طور پر تربیت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔‏ تاہم،‏ میری سیٹ بُک ہونے کے بعد مجھے کوریا کی حکومت کی طرف سے ایک نوٹس ملا جس میں مجھے فوری طور پر فوج میں بھرتی ہونے کا حکم دیا گیا۔‏

زندگی اور موت کی کشمکش میں

فوج میں بھرتی کے سینٹر پہنچ کر مَیں نے وہاں پر موجود افسر کو بتایا کہ مَیں سیاست میں حصہ نہیں لیتا اور فوج میں ملازمت نہیں کر سکتا۔‏ اِس پر اُس نے مجھے سی‌آئی‌سی کے حوالے کر دیا تاکہ وہ یہ تحقیق کریں کہ کہیں مَیں کمیونسٹ تو نہیں ہوں۔‏ اِسی صورتحال کا مَیں نے شروع میں ذکر کِیا تھا جب مَیں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔‏ مجھے گولی مارنے کی بجائے کیپٹن اچانک کھڑا ہو گیا،‏ ایک افسر کے ہاتھ میں چھڑی پکڑائی اور مجھے مارنے کا حکم دیا۔‏ اگرچہ مجھے بہت زیادہ تکلیف ہو رہی تھی توبھی مَیں یہ سب کچھ برداشت کر کے خوش تھا۔‏

سی‌آئی‌سی نے مجھے فوج میں بھرتی کے سینٹر واپس بھیج دیا۔‏ وہاں افسروں نے میرے اعتقادات کو نظرانداز کرتے ہوئے زبردستی مجھے ایک شناختی نمبر الاٹ کر دیا اور کوریا کے نزدیک چی‌جو کے جزیرے پر واقع فوجی تربیتی مرکز میں منتقل کر دیا۔‏ اگلے دن ہم سب نئے بھرتی ہونے والوں کو فوجیوں کے طور پر حلف اُٹھانا تھا۔‏ مَیں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔‏ اِس کے نتیجے میں،‏ میرا کورٹ‌مارشل کِیا گیا اور مجھے تین سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔‏

وفادار رہنے والے ہزاروں گواہ

جیل میں ایک دن مَیں نے ایک جہاز کو اپنے اُوپر سے پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔‏ یہ وہی دن تھا جب مجھے مشنری تربیت کے لئے جانا تھا اور اِسی جہاز میں سفر کرنا تھا۔‏ مَیں گلئیڈ سکول نہ جا پانے کی وجہ سے دل‌برداشتہ نہیں تھا کیونکہ مجھے اطمینان تھا کہ مَیں یہوواہ خدا کے لئے اپنی راستی پر تو قائم ہوں۔‏ کوریا میں صرف مَیں نے ہی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار نہیں کِیا تھا۔‏ آئندہ چند سالوں میں ۰۰۰،‏۱۳ سے زائد یہوواہ کے گواہوں نے میری طرح فوج میں بھرتی نہ ہونے کا فیصلہ کِیا۔‏ مجموعی طور پر گواہوں نے تقریباً ۰۰۰،‏۲۶ سال کوریا کی جیلوں میں گزارے ہیں۔‏

میری تین سالہ قید کے دو سال پورے ہونے کے بعد ۱۹۵۵ میں مجھے مثالی قیدی ہونے کی وجہ سے سزا معاف کر کے رِہا کر دیا گیا۔‏ مَیں نے دوبارہ سے اپنی کُل‌وقتی خدمت شروع کر دی۔‏ بعدازاں،‏ اکتوبر ۱۹۵۶ میں مجھے جنوبی کوریا میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں خدمت کرنے کے لئے بلا لیا گیا۔‏ اِس کے بعد ۱۹۵۸ میں،‏ ایک بار پھر مجھے گلئیڈ سکول میں شرکت کی دعوت دی گئی۔‏ میری گریجویشن کے بعد مجھے کوریا ہی میں خدمت کرنے کے لئے بھیج دیا گیا۔‏

کوریا واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد میری ملاقات یہوواہ کی ایک وفادار گواہ ان‌ہین سنگ سے ہوئی اور مئی ۱۹۶۲ میں ہماری شادی ہو گئی۔‏ میری بیوی نے ایک بدھسٹ گھرانے میں پرورش پائی تھی اور اُس کی ایک ہم‌جماعت نے اُسے گواہوں کے بارے میں بتایا تھا۔‏ شادی کے ابتدائی تین سال تک ہم نے بہن‌بھائیوں کو روحانی طور پر مضبوط کرنے کے لئے ہر ہفتے کوریا کی مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کِیا۔‏ سن ۱۹۶۵ سے ہم یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت کر رہے ہیں جو اِس وقت سیول سے تقریباً ۶۰ کلومیٹر (‏۴۰ میل)‏ کے فاصلے پر واقع ہے۔‏

کوریا میں رُونما ہونے والی تبدیلیاں

جب مَیں ماضی پر نگاہ ڈالتا ہوں تو یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہوں کہ اِس ملک میں سب کچھ کتنا بدل گیا ہے۔‏ دوسری عالمی جنگ اور شمالی کوریا کے ساتھ جنگ کے بعد جنوبی کوریا تقریباً تباہ ہو چکا تھا۔‏ اِس کے شہر ویران اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں۔‏ بجلی اور گیس کی سپلائی بہت کم تھی اور ملکی معیشت بالکل تباہ ہو چکی تھی۔‏ اگلے ۵۰ سال میں جنوبی کوریا نے حیران‌کُن حد تک ترقی کی ہے۔‏

آجکل جنوبی کوریا معیشت کے اعتبار سے دُنیا کا گیارھواں بڑا ملک ہے۔‏ یہ اپنے جدید شہروں،‏ تیزرفتار ریلوے نظام،‏ برقی آلات اور گاڑیاں بنانے کے لئے مشہور ہے۔‏ اِس وقت جنوبی کوریا کاریں بنانے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے۔‏ لیکن جنوبی کوریا نے اپنے شہریوں کے حقوق کے سلسلے میں جو ترقی کی ہے وہ میرے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔‏

جب ۱۹۵۳ میں میرا کورٹ مارشل ہوا تو کوریا کی حکومت یہ نہیں سمجھ پائی تھی کہ مذہب کی وجہ سے بھی کوئی شخص فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر سکتا ہے۔‏ ہم میں سے بعض پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگایا گیا اور ہمارے بعض ساتھی گواہوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔‏ مذہب کی وجہ سے فوج میں بھرتی نہ ہونے والے بہت سے نوجوانوں نے بعدازاں اپنے بیٹوں،‏ پوتوں اور نواسوں کو بھی اِسی جُرم میں سزا پاتے اور قید ہوتے دیکھا۔‏

گزشتہ کئی سال سے میڈیا نے مذہبی عقائد کی بِنا پر فوج میں بھرتی نہ ہونے والے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی مثبت انداز میں تشہیر کی ہے۔‏ فوج میں بھرتی نہ ہونے والے ایک یہوواہ کے گواہ پر مقدمہ چلانے والے وکیل نے بھی اپنے کئے پر ندامت کے اظہار میں خط لکھا جسے ایک مشہور رسالے میں شائع کِیا گیا تھا۔‏

مجھے اُمید ہے کہ دیگر ممالک کی طرح جنوبی کوریا میں بھی ہمارے مذہبی عقائد کی بِنا پر فیصلہ کرنے کے حق کا احترام کِیا جائے گا۔‏ میری دُعا ہے کہ جنوبی کوریا کے اعلیٰ حکام میرے جیسے عقائد رکھنے والے اور فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے والے نوجوانوں کو جیل نہیں بھیجیں گے تاکہ ہم ”‏امن‌وامان کے ساتھ زندگی گزاریں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۱،‏ ۲‏۔‏

یہوواہ خدا کے خادموں کے طور پر اُس کی حاکمیت کی حمایت کرنا ہمارے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔‏ (‏اعمال ۵:‏۲۹‏)‏ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم خدا کے وفادار رہیں اور اُس کے دل کو شاد کریں۔‏ (‏امثال ۲۷:‏۱۱‏)‏ مَیں بہت خوش ہوں کہ مجھے ’‏سارے دل سے یہوواہ پر توکل کرنے اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کرنے‘‏ والے لاکھوں لوگوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے۔‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر کی عبارت]‏

‏”‏ہمارے لئے یہ بات بڑی حیران‌کُن تھی کہ اُنہوں نے ہمیں گرفتار کرنے کی بجائے بائبل کے پیغام میں دلچسپی ظاہر کی“‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر تصویر کی عبارت]‏

فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے کی وجہ سے مجموعی طور پر کوریا کے گواہوں نے تقریباً ۰۰۰،‏۲۶ سال جیلوں میں گزارے ہیں

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۳ میں جیل میں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۲ میں جنگ کے دوران ڈان سٹیل کے ساتھ کلیسیاؤں کا دورہ کرتے وقت

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سن ۱۹۶۱ میں ہماری شادی سے پہلے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

سن ۱۹۵۶ میں سفری نگہبان کا ترجمہ کرتے ہوئے

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ان‌ہینگ سنگ کے ساتھ