کیا آپ پیسوں کے غلام ہیں؟
کیا آپ پیسوں کے غلام ہیں؟
دُنیابھر میں بہت سے لوگ اِس حد تک پیسوں کی فکر میں رہتے ہیں کہ وہ ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اِس بیماری کی علامات کیا ہیں؟
اِس بیماری میں مبتلا لوگوں کو سانس لینے میں دقت ہوتی ہے، سر میں درد ہوتا ہے، بھوک نہیں لگتی، بِلاوجہ غصہ آتا ہے اور بےچینی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ اُن کا دِل متلانے لگتا ہے، اُن کے جسم میں خارش ہوتی ہے اور وہ منفی سوچ رکھنے لگتے ہیں۔ نفسیاتی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر راجر ہینڈرسن نے اِس بیماری کو ”پیسوں کی فکر کا مرض“ کا نام دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”جن لوگوں کو مالی مسائل کا سامنا ہے اُن کی اکثریت دباؤ اور ٹینشن کا شکار ہوتے ہیں۔“
پچھلے چند مہینوں میں دُنیابھر میں اُن لوگوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جو پیسوں کی فکر کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ حیرانگی کی بات نہیں کیونکہ حال ہی میں دُنیا مالیاتی بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ اِس وجہ سے بےروزگاری بڑھ رہی ہے اور لوگ اپنے گھروں اور اپنی جمعپونجی سے محروم ہو رہے ہیں، یہاں تک کہ بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ دُنیا کے امیرترین ممالک بھی معاشی تباہی سے بچنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ترقیپذیر ممالک میں لوگ مہنگائی اور زندگی کی بنیادی اشیا کے بحران کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔
البتہ جب دُنیا کو مالیاتی مشکلات کا سامنا نہیں تھا تب بھی لوگ پیسوں کی فکر کرتے تھے۔ پچھلے چند سالوں میں بہت سے ممالک میں لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اِس کے باوجود اِن ممالک میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی تھی جو مالی مشکلات کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہو رہے تھے۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کے ایک اخبار میں لکھا تھا: ”ضرورت سے زیادہ کھانےپینے کی عادت، منافع کمانے کا جنون اور دولتمند بننے کی خواہش [افریقہ میں] وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔“ اخبار میں آگے بتایا گیا کہ اِس وجہ سے لوگوں میں پریشانی، حسد اور افسردگی بڑھ رہی تھی۔ وہ حد سے زیادہ کام کرنے، قرض لینے اور غیرضروری چیزوں پر پیسہ ضائع کرنے کی عادت میں پھنستے جا رہے تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں بہت سے لوگ اس لئے غیرمطمئن رہنے لگے ہیں کیونکہ اُن کا دھیان دولت کمانے پر لگا رہتا ہے۔
عالمی مالیاتی بحران سے پہلے بھارت میں خوب معاشی ترقی ہو رہی تھی جس کی وجہ سے وہاں مسائل بھی بڑھ رہے تھے۔ ایک بھارتی رسالے کے مطابق ۲۰۰۷ میں ”لوگوں نے پہلے سے کہیں زیادہ پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔“ وہاں کی حکومت کو خدشہ تھا کہ اِس معاشی ترقی کی وجہ سے ملک میں فسادات ہوں گے۔
اسی طرح گزشتہ سالوں میں امریکا میں زیادہتر جوان لوگ طرح طرح کی آسائشوں اور قیمتی اشیا خریدنے کے لئے پیسے کو پانی کی طرح بہا رہے تھے۔ لیکن ایسا کرنے سے اُن کو خوشی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ تحقیقدانوں کا کہنا تھا کہ امریکا میں جو لوگ دولتمند ہیں اُن میں حد سے زیادہ شراب پینے، خودکشی کرنے اور افسردگی میں پڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مالودولت کی کثرت کے باوجود ”تین امریکیوں میں سے صرف ایک“ نے اِس بات کا دعویٰ کِیا کہ وہ ”بہت خوش ہے۔“
ایسے لوگ جو پیسوں کے غلام نہیں ہیں
اِس کے برعکس بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو چاہے وہ امیر ہوں یا غریب، چاہے بہتات ہو یا مالیاتی بحران، اُنہیں پیسوں کی فکر نہیں ستاتی۔ ایسا کیوں ہے؟
پیسوں کی اہمیت کے بارے میں ایک رپورٹ کے مطابق بعض لوگ ”مالودولت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور اِس کی جستجو میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ پریشانی اور نفسیاتی بیماری کا شکار بننے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔“
اسی رپورٹ میں آگے کہا گیا ہے کہ اِن کے برعکس ”ایسے لوگ جو حساب لگا کر اپنی آمدنی کو خرچ کرتے ہیں وہ مطمئن رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُن کے حالات اُن کے قابو میں ہیں۔ وہ پیسوں کے غلام نہیں ہیں۔ . . . ایسے لوگ قدراً کم دباؤ کا شکار ہوتے ہیں اور اِن کا بیمار ہونے کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔“آپ پیسوں کو کتنا اہم خیال کرتے ہیں؟ کیا آپ پیسوں کے غلام ہیں؟ کیا آپ بھی مالیاتی بحران کی وجہ سے فکرمند ہیں؟ چاہے آپ امیر ہوں یا غریب، ہر شخص کسی حد تک پیسوں کی فکر کرتا ہے۔ آئیں دیکھیں کہ آپ آمدنی کے مطابق خرچ کرنا کیسے سیکھ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ پُرسکون ہوں گے اور خوشی حاصل کریں گے۔
[صفحہ ۴ پر بکس/تصویر]
پیسوں کے غلام کی نشاندہی اِن باتوں سے کی جا سکتی ہے:
□ وہ اپنے اخراجات کے بارے میں باتچیت نہیں کرتے کیونکہ یہ اُن کے لئے پریشانی کا باعث ہوتا ہے
□ وہ اکثر اپنے گھروالوں کے ساتھ پیسوں کے متعلق جھگڑا کرتے ہیں
□ اُنہیں بِلاسوچےسمجھے پیسے خرچ کرنے کی عادت ہوتی ہے
□ وہ اِس بات کی فکر میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے بِل کیسے ادا کریں گے
□ اُن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مہینے میں کتنی رقم کماتے ہیں
□ اُن کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مہینے میں کتنے پیسے خرچ کرتے ہیں
□ وہ نہیں جانتے کہ اُن پر کتنے پیسوں کا قرض ہے
□ اُن کے بِل اکثر اُن کے اندازے سے بڑے ہوتے ہیں
□ وہ اکثر اپنے بِل وقت پر ادا نہیں کر پاتے
□ وہ کریڈٹ کارڈ کے بِل صرف چھوٹی چھوٹی قسطوں میں ادا کر پاتے ہیں
□ وہ اپنے بِل اُس رقم سے ادا کرتے ہیں جسے اُنہوں نے دوسری چیزوں کے لئے بچا رکھا تھا
□ وہ اپنے بِل ادا کرنے کے لئے اوورٹائم یا پھر دو دو نوکریاں کرتے ہیں
□ اُن کو قرض ادا کرنے کے لئے مزید پیسے اُدھار لینے پڑتے ہیں
□ اُن کو اپنے بِل ادا کرنے کے لئے اپنی جمعپونجی استعمال کرنی پڑتی ہے
□ اُن کو اپنی تنخواہ میں پورا مہینہ نکالنا مشکل لگتا ہے
□ وہ زیادہ سے زیادہ پیسا جمع کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں
□ وہ مالی مسائل کی وجہ سے جسمانی تکلیف اور نفسیاتی بیماری میں مبتلا رہتے ہیں
[تصویر کا حوالہ]
یہ نکات ڈاکٹر راجر ہینڈرسن کی کتاب ”پیسوں کی فکر کا مرض“ سے لئے گئے ہیں (یہ کتاب انگریزی میں دستیاب ہے)