تھائیرائڈ—آپ کے جسم کا ایک اہم حصہ
تھائیرائڈ—آپ کے جسم کا ایک اہم حصہ
برازیل سے جاگو! کا نامہنگار
سارہ تین ماہ کا حمل ضائع ہو جانے پر بہت غمزدہ تھی۔ تقریباً ایک سال بعد، اُسے دوبارہ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے ٹیسٹ کروانے کے بعد بھی مسئلے کی اصل وجہ معلوم نہ ہو سکی۔ اگرچہ سارہ اپنی خوراک کا بہت خیال رکھتی اور باقاعدہ ورزش بھی کرتی تھی مگر چند سال کے اندراندر اُس کا وزن بڑھنے لگا۔ اُسے بہت زیادہ سردی لگتی تھی اور ٹانگوں میں کھچاؤ بھی محسوس ہوتا تھا۔ آخرکار، خون کے ٹیسٹ اور تھائیرائڈ گلینڈ (درقی غدود) کے الٹراساؤنڈ سے پتہ چلا کہ سارہ کو ہیشیمونو کا مرض ہے جو کہ شاید اُس کے اسقاطِحمل کا سبب بن رہا تھا۔ *
بیشتر لوگوں کی طرح سارہ نے بھی تھائیرائڈ کے مسئلے پر کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ لیکن اُس کی بگڑتی صحت نے یہ ثابت کر دیا کہ اِس غدود کی ہمارے جسم میں کیا اہمیت ہے۔
درقیہ یا تھائیرائڈ غدود
تھائیرائڈ ایک چھوٹا سا تتلی نما غدود ہے جو کہ گلے کے اگلے حصے میں کنٹھ کے بالکل نیچے پایا جاتا ہے۔ دو حصوں پر مشتمل یہ غدود ہوا کی نالی کے گرد لپٹے ہوتے ہیں۔ اِس پورے غدود کا وزن ایک اونس سے بھی کم ہوتا ہے۔ یہ غدود جسم کے ہارمونی نظام (اینڈوکرائن سسٹم) کا حصہ ہے جوکہ مختلف عضو اور بافتوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کا کام ہارمونز یا کیمیائی مرکبات کو تیار کرنا، جمع کرنا اور اُنہیں براہِراست خون میں منتقل کرنا ہے۔
تھائیرائڈ چھوٹیچھوٹی بےشمار گلٹینما غدودوں پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ گاڑھی رطوبت سے بھری ہوتی ہیں جن میں تھائیرائڈ ہارمونز ہوتے ہیں۔ اِن ہارمونز میں وافر مقدار میں آیوڈین موجود ہوتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ ہمارے جسم میں موجود آیوڈین کی ۸۰ فیصد مقدار تھائیرائڈ میں پائی جاتی ہے۔ غذا میں آیوڈین کی کمی تھائیرائڈ کے بڑھنے یعنی گلہڑ کا سبب بنتی ہے۔ بچوں میں آیوڈین کی کمی ہارمون کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہے۔ اُنہیں عدمِنمو(کریٹینیزم) کی بیماری ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اُن کا جسمانی، ذہنی اور جنسی نظام پوری طرح نشوونما نہیں پاتا۔
تھائیرائڈ یا درقی ہارمونز کی کارکردگی
تھائیرائڈ ہارمونز کو T3، RT3 (ریورسT3) اور T4 کا نام دیا گیا ہے۔ * T3 اور RT3 دونوں ہارمون، T4 ہارمون سے حاصل کئے جاتے ہیں۔ ہارمونز کی یہ منتقلی بنیادی طور پر تھائیرائڈ سے باہر جسم کے بافتوں میں واقع ہوتی ہے۔ اِس لئے جب ہمارے جسم کو تھائیرائڈ ہارمونز کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو تھائیرائڈ گلینڈ خون میں T4ہارمون خارج کرتا ہے۔ اِس طرح T4 اور اِس سے بننے والے دیگر ہارمون جسم کے مختلف خلیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
جس طرح ایکسلریٹر گاڑی کے انجن کی رفتار کو قابو میں رکھتا ہے اُسی طرح تھائیرائڈ ہارمونز بھی انسانی بدن میں تحول (میٹابولزم) یعنی خلیوں میں پیدا ہونے والے کیمیائی ردِعمل کی شرح کو برقرار رکھتے ہیں۔ یہ ایک مسلسل کیمیائی عمل ہے جس کے ذریعے غذا نہ صرف توانائی میں بلکہ نئے بافتوں میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ تھائیرائڈ ہارمونز بافتوں کی تعمیر کرتے، پرانے بافتوں کی مرمت کرتے، دل کی دھڑکن پر اثر انداز ہوتے، پٹھوں میں توانائی اور جسم میں حرارت کی پیداوار کو برقرار رکھتے ہیں۔
تھائیرائڈ ہارمونز ہمارے جسم میں دیگر اہم کام بھی انجام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ جگر کو خون کی رطوبت میں سے ٹرائیگلیسرائیڈ کی وافر مقدار اور شحمیلحمیہ یعنی لیپوپروٹین(ایلڈیایل) کو جسے خراب کولیسٹرول کہا جاتا ہے خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔ کولیسٹرول پہلے صفرا (بائل) میں منتقل ہوتا ہے اور اِس کے بعد فضلے میں شامل ہو جاتا ہے۔ تاہم، تھائیرائڈ ہارمون کی بہت ہی کم مقدار خراب کولیسٹرول (ایلڈیایل) میں اضافے اور اچھے کولیسٹرول (ایچڈیایل) میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔
تھائیرائڈ ہارمونز غذائی نالی میں ہاضم رسوں کے اخراج کو تیز کرتے اور خوراک کی نالی کے عضلاتی ریشوں میں ہونے والی حرکتِدودی (پیریسٹالسس) یعنی غیرارادی موجنما حرکتوں کو بڑھاتے ہیں۔ لہٰذا، تھائیرائڈ ہارمونز کی زیادتی انتڑیوں کے مسلسل حرکت کرنے کی وجہ سے دست لگنے اور اِن کی کمی قبض کا باعث بنتی ہے۔
تھائیرائڈ کو قابو میں رکھنے کا عمل
تھائیرائد کو قابو میں رکھنے کا عمل دماغ کے پچھلے حصے زیرعرشہ (ہائپوتھیلامس) سے شروع ہوتا ہے۔ جب زیرعرشہ کو پتہ چلتا ہے کہ خون میں تھائیرائڈ ہارمونز کی ضرورت ہے تو یہ دماغ کے اساس اور بالائی حصے میں واقع غدہنخامیہ (پچوئٹری گلینڈ) کو پیغام پہنچاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں نخامیہ، محرک درقیہ (ٹیایسایچ) یعنی تھائیرائڈ کو تحریک دینے والے ہارمونز کو دورانِخون میں خارج کرتا ہے اور یوں تھائیرائڈ کو اپنا کام جاری رکھنے کا اشارہ دیتا ہے۔
پس، ڈاکٹر ٹیایسایچ اور تھائیرائڈ ہارمونز میں خون کی سطح کو ناپنے سے اِس بات کی تشخیص کرنے کے قابل ہوتے ہیں کہ آیا تھائیرائڈ صحیح طریقے سے کام کر رہا ہے یا نہیں۔ ایسا اِس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اِس سے تھائیرائڈ میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
تھائیرائڈ کی ناقص کارکردگی
غذا میں آیوڈین کی کمی، جسمانی اور ذہنی دباؤ، موروثی نقائص، وبائی امراض اور جسم کے مدافعتی نظام کو سُست کرنے والی بیماری تھائیرائڈ کی کارکردگی کو متاثر کر سکتی ہیں۔ نیز، مختلف ادویات کے مضر اثرات بھی تھائیرائڈ میں خرابی کا سبب بنتے ہیں۔ * اِس کے علاوہ، بڑھا ہوا تھائیرائڈ یا گلہڑ بیماری کی علامت ہو سکتا ہے۔ تھائیرائڈ کا یہ نقص پورے غدود میں پھیل جاتا ہے یا پھر چھوٹیچھوٹی گلٹیوں کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ عموماً بےضرر گلہڑ پر بھی توجہ دی جانی چاہئے کیونکہ یہ کینسر جیسی سنگین بیماری کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔ *
عام طور پر، جن تھائیرائڈز میں نقص ہوتا ہے وہ یا تو معمول سے زیادہ یا معمول سے کم مقدار میں ہارمون بناتے ہیں۔ ہارمونز کا ضرورت سے زیادہ پیدا ہونا بیشدرقیت (ہائپرتھائیرائڈازم) کہلاتا ہے اور ہارمونز کی پیداوار میں کمی ناقصدرقیت (ہائپوتھائیرائڈازم) کہلاتی ہے۔ تھائیرائڈ کا مرض اتنا آہستہآہستہ بڑھتا ہے کہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ دیگر بیماروں کی طرح اِس کی بروقت تشخیص سے بھی مرض پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
تھائیرائڈ کے عام امراض میں ہیشیمونو کا مرض اور گریوز ڈزیز شامل ہیں۔ یہ دونوں مرض اُس صورت میں لاحق ہوتے ہیں جب کسی شخص کا مدافعتی نظام اُس کے اپنے اعضا پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ہیشیمونو کا مرض آدمیوں کی نسبت عورتوں کو چھ گنا زیادہ متاثر کرتا ہے اور یہ عام طور پر ہائپوتھائیرائڈازم کا باعث بنتا ہے۔ گریوز ڈزیز عورتوں میں آٹھ گنا زیادہ ہوتی ہے اور عام طور پر ہائپرتھائیرائڈازم کا سبب بنتی ہے۔
لوگ اِس سلسلے میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ تھائیرائڈ کے مرض کی تشخیص کے لئے کتنی دیر کے بعد ٹیسٹ کرانا چاہئے۔ تاہم، نوزائیدہ بچے کے لئے اِس ٹیسٹ کو بہت اہم قرار دیا جاتا ہے۔ (بکس ”نوزائیدہ بچوں کے لئے ایک ضروری ٹیسٹ“ کو دیکھیں۔) اگر طبّی معائنہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ تھائیرائڈ کی کارکردگی ناقص ہے تو عام طور پر اینٹیباڈیز یعنی خون کے مائع حصے یا سیرم میں پائی جانے والی پروٹین کا ٹیسٹ کِیا جاتا ہے جوکہ درقی غدود (تھائیرائڈ گلینڈ) پر حملہ کرتی ہیں۔ لیکن اگر اِس ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ درقی ہارمون کی افزائش زیادہ ہو رہی ہے تو عموماً تھائیرائڈ سکیننگ کرائی جاتی ہے۔ البتہ حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین یہ ٹیسٹ نہیں کرا سکتیں۔ تھائیرائڈ میں چھوٹیچھوٹی گلٹیوں کی موجودگی کی صورت میں گلٹی میں سے مواد لے کر اِس کا ٹیسٹ (بائیاوپسی) کرانا بہت ضروری ہے تاکہ یہ معلوم کِیا جا سکے کہ آیا یہ گلٹی خطرناک یا مُہلک تو نہیں۔
جب علاج ضروری ہوتا ہے
ادویات کی مدد سے بیشدرقیت (ہائپرتھائیرائڈازم) کی علامات یعنی دل کی تیز دھڑکن، عضلاتی کمزوری اور گھبراہٹ یا بے چینی کو قدرے کم کِیا جا سکتا ہے۔ اِس کےعلاوہ، غدود میں ہارمونز کی پیداوار کو کم کرنے کے لئے تھائیرائڈ کے خلیوں کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار آپریشن کے ذریعے تھائیرائڈ گلینڈ کو نکالا بھی جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عموماً ناقصدرقیت (ہائپوتھائیرائڈازم) کے مریضوں یا اُن لوگوں کو جن کا تھائیرائڈ نکال دیا گیا ہے روزانہ T4 ہارمون لینے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اِس ہارمون کی صحیح مقدار کا تعیّن کرنے کے لئے ڈاکٹر زیرِعلاج مریضوں کا اچھی طرح معائنہ کرتے ہیں۔ تھائیرائڈ کے کینسر کا مختلف طریقوں سے علاج کِیا جا سکتا ہے جس میں ادویات، سرجری، کیموتھراپی اور ریڈیوایکٹو آیوڈین شامل ہیں۔
سارہ کا T4 ہارمون کے ذریعے کامیابی سے علاج کِیا جا رہا ہے۔ غذا کی ایک ماہر ڈاکٹر اُسے متوازن غذا لینے میں مدد دے رہی ہے۔ اِس کے بہت ہی عمدہ نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ سارہ جیسے دیگر لوگوں نے بھی یہ جان لیا ہے کہ تھائیرائڈ خواہ سائز میں چھوٹا ہی کیوں نہ ہو اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ پس اپنی صحت کا خاص خیال رکھیں اور ایسی خوراک استعمال کریں جس میں آیوڈین کی کافی مقدار ہو۔ اِس کےعلاوہ، ذہنی دباؤ سے بچیں اور تندرستوتوانا رہنے کی بھرپور کوشش کریں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 اگرچہ تھائیرائڈ کے پوری طرح کام نہ کرنے سے حمل کے دوران پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں توبھی اِس مرض میں مبتلا بہت سی عورتیں صحتمند بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ تاہم، پیچیدگی کی صورت میں ماں کے لئے ہارمونی علاج کرانا اشد ضروری ہے کیونکہ رحم میں موجود بچہ بنیادی طور پر اپنی ماں کے ذریعے ہی تھائیرائڈ ہارمون حاصل کرتا ہے۔
^ پیراگراف 9 ٹرائیآیوڈوتھائیرونین T3 اور تھائیراکسین T4 ہے۔ اِس میں ۳ اور ۴ کا عدد ہارمون میں موجود آیوڈین کے ایٹموں کی تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ تھائیرائڈ میں کیلسیٹونن کا ہارمون بھی پیدا ہوتا ہے جو کہ خون میں کیلشیم کی سطح کو قابو میں رکھتا ہے۔
^ پیراگراف 17 جاگو! رسالہ کسی خاص علاج کی سفارش نہیں کرتا۔ لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو تھائیرائڈ کا کوئی مسئلہ درپیش ہے تو کسی ایسے ڈاکٹر سے مشورہ کریں جو تھائیرائڈ کے امراض کا ماہر ہے۔
^ پیراگراف 17 تھائیرائڈ کے کینسر کا زیادہ خطرہ اُن لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سر اور گردن کے لئے شعاعوں کے ذریعے علاج (ریڈیوتھراپی) کرایا ہے، جنہیں کسی قسم کا کینسر ہے یا جن کے رشتہداروں کو تھائیرائڈ کا کینسر ہے۔
[صفحہ ۱۱ پر عبارت]
جس طرح ایکسیلریٹر گاڑی کے انجن کی رفتار کو قابو میں رکھتا ہے اُسی طرح تھائیرائڈ ہارمونز بھی انسانی بدن میں تحول (میٹابولزم) یعنی خلیوں میں پیدا ہونے والے کیمیائی ردِعمل کی شرح کو برقرار رکھتے ہیں
[صفحہ ۱۳ پر عبارت]
تھائیرائڈ کا مرض اتنا آہستہآہستہ بڑھتا ہے کہ انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کتنے سال سے اِس مرض میں مبتلا ہے
[صفحہ ۱۲ پر بکس/تصویر]
اِس مرض کی عام علامات
بیشدرقیت یعنی ہائپرتھائیرائڈازم: اِس کی علامات میں گھبراہٹ یا بے چینی میں اضافہ، وزن کا تیزی سے گرنا، دل کی دھڑکن کا تیز ہونا، اکثر دست رہنا، ماہواری میں بےقاعدگی، چڑچڑاپن، بےچینی، مزاج میں غیرمعمولی اُتارچڑھاؤ، آنکھوں کا اُبھر آنا، عضلاتی کمزوری، نیند کی کمی اور بالوں کا ٹوٹنا یا کم ہو جانا شامل ہے۔ *
ناقصدرقیت یعنی ہائپوتھائیرائڈازم: اِس کی علامات میں جسمانی اور دماغی نشوونما کا سُست پڑ جانا، وزن میں غیرمعمولی اضافہ، بالوں کا گرنا، قبض رہنا، بہت زیادہ سردی لگنا، ماہواری میں بےقاعدگی، ڈپریشن یا افسردگی، آواز میں تبدیلی، یادداشت کا کمزور ہو جانا اور جسم میں مستقل تھکن کی کیفیت رہنا شامل ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 36 بعض علامات کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اِس لئے طبیعت میں غیرمعمولی تبدیلی کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
[صفحہ ۱۲ پر بکس]
نوزائیدہ بچوں کے لئے ایک ضروری ٹیسٹ
نوزائیدہ بچے کے جسم سے لئے جانے والے خون کے چند قطرے یہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ آیا بچے میں تھائیرائڈ کی کارکردگی ناقص ہے یا نہیں۔ اگر طبّی معائنہ ظاہر کرتا ہے کہ تھائیرائڈ کی کارکردگی ناقص ہے تو ڈاکٹر ضروری اقدام اُٹھا سکتا ہے۔ تھائیرائڈ ہارمونز کی کمی بچے کے جسمانی اور دماغی طور پر کمزور ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ اِس حالت کو عدمِنمو یعنی کریٹینیزم کہتے ہیں۔ عموماً بچوں کا یہ ٹیسٹ پیدائش کے چند دن بعد کِیا جاتا ہے۔
[صفحہ ۱۳ پر بکس/تصویر]
کیا آپ متوازن غذا لے رہے ہیں؟
مناسب خوراک کا استعمال آپ کو تھائیرائڈ کے مسائل سے بچنے میں مدد دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، کیا آپ کے کھانوں میں آیوڈین کی مناسب مقدار شامل ہے جو کہ درقی یعنی تھائیرائڈ ہارمونز کی افزائش کے لئے بہت ضروری ہے؟ آبیحیات یعنی مچھلی، جھینگے اور کیکڑے وغیرہ میں ہماری خوراک کا یہ اہم جُزو یعنی آیوڈین کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ سبزیوں اور گوشت میں آیوڈین کی مقدار کا انحصار بڑی حد تک کسی علاقے کی مٹی پر ہوتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ دُنیا کے بعض علاقوں کی مٹی میں آیوڈین کی مقدار زیادہ جبکہ دیگر میں کم ہوتی ہے۔ خوراک میں اِس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بعض حکومتیں اِس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ کھانے کے نمک میں آیوڈین ملائی جائے۔
تھائیرائڈ کے لئے درکار ایک اَور اہم جُزو سلینیم ہے۔ کم مقدار میں پایا جانے والا یہ عنصر اُس خامرے کا ایک حصہ ہے جو ہارمون T4 کو T3 میں تبدیل کرتا ہے۔ یوں کہہ لیں کہ سبزیوں، گوشت اور دودھ میں سلینیم کی مقدار کا انحصار بھی کسی علاقے کی مٹی پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، سیفوڈ اور برازیل کے میوہجات سلینیم حاصل کرنے کے اہم ذرائع ہیں۔ اگر آپ کو خدشہ ہے کہ آپ تھائیرائڈ کے کسی مرض میں مبتلا ہیں تو اپنا علاج خود کرنے کی بجائے جلدازجلد ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
[صفحہ ۱۲ پر ڈائیگرام]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
سانس کی نالی
حنجرہ (کنٹھ)
تھائیرائڈ
سانس کی نالی