عالمی اُفق
عالمی اُفق
▪ شمالی بحر اوقیانوس کی تہ سے ملنے والے ایک گھونگے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ”سب سے لمبی عمر پانے والی ایک آبی مخلوق ہے۔“ سائنسدان گھونگے کے خول کی مختلف پرتوں کو گننے کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اِس گھونگے کی عمر ۴۰۵ سال ہے۔ —سنڈے ٹائمز، برطانیہ۔
▪ ”معاشی بحران ارب پتی لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ایسی صورتحال کا سامنا کرتے وقت وہ بھی اتنے پریشان ہو جاتے ہیں کہ اُنہیں ماہرِنفسیات کی طرف رُجوع کرنا پڑتا ہے۔“ —دی نیو یارک ٹائمز، یو.ایس.اے.
ٹیوی جنسی خواہشات پر اثرانداز ہوتا ہے
ایک رسالے میں شائع ہونے والے مضمون میں بیان کِیا گیا کہ ”اِس بات کا واضح ثبوت موجود ہے کہ ٹیوی پر جنس کے بارے میں پروگرام دیکھنا نوجوانوں کے رویوں اور خواہشات پر اثرانداز ہوتا ہے۔“ ایک سروے کے مطابق ایسے پروگراموں کو کم دیکھنے والی نوجوان لڑکیوں کی نسبت زیادہ دیکھنے والی لڑکیوں میں ”حاملہ ہونے کا امکان دُگنا ہے۔“ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ٹیوی اُن کے اندر یہ سوچ پیدا کر دیتا ہے کہ جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں کوئی خطرہ نہیں۔ نیز، ٹیوی پر اَن چاہے حمل اور جنسی طور پر لگنے والی بیماریوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ٹیوی اُن مختلف ذرائع میں سے محض ایک ہے جو نوجوانوں کے اندر جنسی خواہشات کو بڑھاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رسالوں، انٹرنیٹ اور موسیقی پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ چیزیں بھی جنس کی بابت نوجوانوں کے رویوں اور خواہشات پر اثرانداز ہوتی ہیں۔
کوڑھ کے نئے مریض
امریکہ میں کوڑھ کے تین ہزار مریض زیرِعلاج ہیں۔ اِسے ہینسن کا مرض بھی کہتے ہیں۔ ہر سال اِس مرض کے تقریباً ۱۵۰ نئے مریضوں کی نشاندہی ہو رہی ہے۔ اِن میں سے بیشتر مریضوں کا تعلق دوسرے ممالک سے ہے۔ تاہم، امریکہ میں سائنسدانوں کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ لوزیانا کی ریاست میں بیٹن روج کے شہر میں قائم نیشنل ہینسن ڈیزیز پروگرام کے مطابق ”جنوبی لوزیانا اور ٹیکساس کے ساحلی علاقے کے باشندوں میں ہر سال تقریباً تیس اشخاص اِس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ جبکہ یہ لوگ امریکہ ہی میں پیدا ہوئے ہیں اور اُنہوں نے کسی ایسے ملک کا سفر بھی نہیں کِیا جہاں کوڑھ کا مرض عام ہے۔“ پس ماہرین ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے۔ اگر کوڑھ کے مرض کا بہت شروع میں پتہ چل جائے تو اِس کا مکمل علاج ہو سکتا ہے۔ تاہم، اگر یہ بیماری پرانی ہو جائے تو پھر اعصابی نظام کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ممکن نہیں۔
تابکاری اشیا کی چوریاں
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سربراہ محمد البرادی کہتے ہیں ”دہشتگردوں کے جوہری مادے یا دیگر تابکاری عناصر کو چرانے کا خطرہ ابھی تک باقی ہے۔ ایجنسی کو جوہری مادے کی چوری کے سلسلے میں جن واقعات کی رپورٹ دی گئی ہے اُن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ سن ۲۰۰۸ کے دوران جنوری سے لے کر جون تک تقریباً ۲۵۰ ایسے واقعات رونما ہوئے۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بہت پریشانکُن ہے کہ چوری ہو جانے والے تابکاری عناصر کی بڑی مقدار ابھی تک برآمد نہیں ہو سکی۔“ تاہم، ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ جوہری مادے کی چوری کے واقعات میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟ آیا یہ مختلف امریکی ریاستوں کا اِن کی دُرست رپورٹ درج کروانا ہے یا پھر جوہری مادے کی زیادہ ضرورت ہے۔
اسرائیل سے ملنے والا ایک قدیم کتبہ
آثارِقدیمہ کے اسرائیلی ماہرین کو ایک ایسا قدیم کتبہ ملا ہے جو بحرِمُردار سے ملنے والے طوماروں سے تقریباً ایک ہزار سال پُرانا ہے۔ پانچ سطروں پر مشتمل یہ تحریر سیاہی کے ساتھ مٹی کے برتن کے ایک ٹکڑے پر لکھی ہوئی ہے۔ یہ کتبہ اُس وقت دریافت ہوا جب اسرائیل میں خربت قائفا کے مقام پر واقع دسویں صدی قبلازمسیح کے ایک یہودی قلعے کی کھدائی کی گئی۔ یروشلیم میں ہیبرو یونیورسٹی کی طرف سے جاریکردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ ماہرین ابھی تک اِس تحریر کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکے تو بھی ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک قانونی دستاویز ہے کیونکہ اِس میں کسی خوشخط کاتب نے ایسے الفاظ لکھے ہیں جو ”’جج،‘ ’غلام،‘ اور ’بادشاہ‘ کا مفہوم پیش کرتے ہیں۔“
[صفحہ ۳۰ پر تصویر کا حوالہ]
Gabi Laron/Institute of
Archaeology/Hebrew University © Yosef Garfinkel