کیا آپ کبھی تعصب کا نشانہ بنے ہیں؟
کیا آپ کبھی تعصب کا نشانہ بنے ہیں؟
”جب مَیں پہلی جماعت میں پڑھ رہی تھی تو دوسرے بچے میرا مذاق اُڑاتے تھے کیونکہ میرا قد چھوٹا تھا۔ مَیں تقریباً روزانہ روتےروتے گھر جاتی۔“—جینی، جس کے والدین فلپائن سے سپین منتقل ہوئے۔
”سکول میں میرے گورے ہمجماعت مجھے گالیاں دیتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مَیں آپے سے باہر ہو کر اُن کے ساتھ لڑ پڑوں۔ پتہ نہیں کیسے مَیں خود پر قابو رکھ پایا۔ لیکن اندر ہی اندر مَیں کٹ کر رہ جاتا تھا۔“—ٹیموتھی، ایک سیاحفام امریکی۔
”جب مَیں سات سال کا تھا تو نائیجیریا میں ایبو اور ہاؤسا کے قبیلوں کے بیچ لڑائی چھڑ گئی۔ اِس کے نتیجے میں مَیں ہاؤسا قبیلے کے لوگوں سے نفرت کرنے لگا۔ یہاں تک کہ مَیں اپنے ایک ہمجماعت کا مذاق اُڑانے لگا جو ہاؤسا قبیلے کا تھا حالانکہ وہ میرا دوست ہوا کرتا تھا۔“—جان، جو ایبو قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔
”مَیں اور میری سہیلی ایک غیر ملک میں مشنری تھے۔ ایک دن جب ہم لوگوں کو پاک صحیفوں کا پیغام سنا رہے تھے تو محلے کے بچے ہم پر پتھر برسانے لگے۔ پادریوں نے بچوں کو ایسا کرنے پر اُکسایا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ہم شہر چھوڑ کر چلے جائیں۔“—اولگا۔
کیا آپ کو بھی تعصب کا نشانہ بنایا گیا ہے؟ شاید آپ اپنے رنگ، مذہب، مالی حیثیت، جنس یا پھر عمر کی وجہ سے تعصب کا شکار رہے ہیں۔ جو لوگ اکثر تعصب کا نشانہ بنتے ہیں وہ دوسروں کے ہاتھوں بدسلوکی سہنے کے ڈر میں رہتے ہیں۔ سڑک پر چلتے وقت، کسی دکان میں داخل ہوتے وقت، سکول جاتے وقت یا پھر کسی تقریب میں شریک ہوتے وقت وہ اتنے پریشان اور خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ اُن کا دل خراب ہونے لگتا ہے۔
اِس کے علاوہ جو لوگ تعصب کا شکار ہیں اکثر اُنہیں اچھی ملازمت نہیں ملتی، اعلیٰ درجے کا علاج میسر نہیں ہوتا، اچھے سکولوں میں داخلہ نہیں ملتا، اُن کے حقوق کو نظرانداز کِیا جاتا ہے اور اُنہیں وہ سہولتیں دستیاب نہیں ہوتیں جو دوسرے لوگوں کو دستیاب ہوتی ہیں۔ اور جب سیاسی عہدہدار تعصب کو ہوا دیتے ہیں تو اِس کا انجام ہزاروں لوگوں کا قتلِعام بھی ہو سکتا ہے۔ اِس کی ایک مثال پاک صحیفوں میں آستر نامی کتاب میں پائی جاتی ہے۔ اُس موقعے پر بھی ایک پوری قوم کو نفرت اور تعصب کا نشانہ بنایا گیا تھا۔—آستر ۳:۵، ۶۔
بہتیرے ممالک میں تعصب کے خلاف قوانین عائد کئے گئے ہیں۔ لیکن اِن ممالک میں بھی کچھ لوگوں کو تعصب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اقوامِمتحدہ کی سابقہ ہائی کمیشنر برائے انسانی حقوق نے کہا: ”انسانی حقوق کا عالمی منشور آج سے ۶۰ سال پہلے منظور کِیا گیا۔ . . . لیکن ابھی بھی لوگ عالمگیر پیمانے پر برابری اور رواداری کے اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔“ یہ مسئلہ بڑی پریشانی کا باعث ہے کیونکہ ہمارے زمانے میں لاکھوں لوگ ملازمت اور پناہ کی تلاش میں دوسرے ملکوں میں جا بستے ہیں۔
توپھر کیا ایک ایسا انسانی معاشرہ جس میں سب لوگ برابر ہیں محض ایک خواب ہے؟ کیا ہم اپنے دلوں سے تعصب کو دُور کرنے کے قابل ہیں؟ اگلے دو مضامین میں اِن سوالوں کا جواب دیا جائے گا۔