کیا اپنے دشمنوں سے محبت رکھنا ممکن ہے؟
پاک صحائف کی روشنی میں
کیا اپنے دشمنوں سے محبت رکھنا ممکن ہے؟
یسوع مسیح نے فرمایا: ”مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔ تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔“—متی ۵:۴۴، ۴۵۔
آپ کے خیال میں کیا مذہب محبت اور امن کو یاپھر نفرت اور تشدد کو فروغ دیتا ہے؟ آجکل بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ مذہب نفرت اور تشدد کو فروغ دیتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب مذہب میں سیاست، نسلپرستی اور قومپرستی جیسی باتیں شامل ہوں۔ مگر یسوع مسیح کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’خدا کے بیٹے‘ یعنی خدا کے سچے خادم اپنے آسمانی باپ کی محبت کی نقل کرتے ہوئے اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھیں گے۔
خدا کے ایک اَور خادم نے بیان کِیا: ”اگر تیرا دشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا . . . بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“ (رومیوں ۱۲:۲۰، ۲۱) لیکن کیا اِس دُنیا میں جہاں لوگوں کے درمیان نفرت پائی جاتی ہے ایسی محبت دکھانا ممکن ہے؟ جیہاں، یہوواہ کے گواہ ایسی محبت ظاہر کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں یسوع مسیح اور اُس کے ابتدائی پیروکاروں کی مثال پر غور کریں۔
اُنہوں نے اپنے دشمنوں سے محبت رکھی
یسوع مسیح نے لوگوں کو خدا کے بارے میں سچائی کی تعلیم دی جسے بہتیروں نے خوشی سے قبول کِیا۔ لیکن دیگر نے یسوع کی مخالفت کی اور اُس کی تعلیم کو رد کر دیا۔ (یوحنا ۷:۱۲، ۱۳؛ اعمال ۲:۳۶-۳۸؛ ۳:۱۵، ۱۷) تاہم، یسوع مسیح تمام لوگوں حتیٰ کہ اپنے دشمنوں کو بھی ہمیشہ کی زندگی کا پیغام سناتا رہا۔ (مرقس ۱۲:۱۳-۳۴) اُس نے ایسا کیوں کِیا؟ وہ جانتا تھا کہ اُن میں سے بعض لوگ اپنے طرزِزندگی کو تبدیل کرنے، اُسے مسیحا کے طور پر قبول کرنے اور خدا کے کلام میں پائی جانے والی سچائیوں پر توجہ دینے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔—یوحنا ۷:۱، ۳۷-۴۶؛ ۱۷:۱۷۔
متی ۲۶:۴۸-۵۲؛ یوحنا ۱۸:۱۰، ۱۱) اِس کے تقریباً ۳۰ سال بعد پطرس رسول نے لکھا: ”مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تاکہ اُس کے نقشِقدم پر چلو۔ نہ وہ . . . دُکھ پا کر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے [خدا] کے سپرد کرتا تھا۔“ (۱-پطرس ۲:۲۱، ۲۳) یقیناً پطرس یہ سمجھ گیا تھا کہ مسیح کے سچے پیروکاروں کو دوسروں سے انتقام لینے کی بجائے اُن سے محبت رکھنی چاہئے۔—متی ۵:۹۔
جس رات یسوع مسیح کو گرفتار کِیا گیا اُس رات بھی اُس نے اپنے دشمنوں کے لئے محبت ظاہر کی۔ کیونکہ جب پطرس رسول نے ایک سپاہی کا کان اُڑا دیا تو یسوع نے اُسے ٹھیک کر دیا۔ اُس موقع پر یسوع مسیح نے ایک اہم اصول بیان کِیا جو آج بھی اُس کے خادموں کی راہنمائی کرتا ہے۔ اُس نے کہا: ”جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“ (’یسوع کے نقشِقدم پر چلنے والے‘ سب لوگ اُس کی طرح محبت اور مہربانی ظاہر کرتے ہیں۔ دوسرا تیمتھیس ۲:۲۴ کہتی ہے: ”مناسب نہیں کہ خداوند کا بندہ جھگڑا کرے بلکہ سب کے ساتھ نرمی کرے . . . اور بُردبار ہو۔“ جب ایک مسیحی میلملاپ اور صلح کے ساتھ رہتا ہے تو اُس کی زندگی سے یہ تمام خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں۔
مسیح کے صلحپسند ایلچی
پولس رسول نے اپنے ساتھی مسیحیوں کو لکھا: ”پس ہم مسیح کے ایلچی ہیں۔ . . . ہم مسیح کی طرف سے مِنت کرتے ہیں کہ خدا سے میلملاپ کر لو۔“ (۲-کرنتھیوں ۵:۲۰) جب کوئی حکومت کسی ملک میں اپنے ایلچی بھیجتی ہے تو وہ وہاں کے سیاسی اور عسکری معاملات میں دخلاندازی نہیں کرتے بلکہ غیرجانبدار رہتے ہیں۔ اُن کا کام اپنے ملک کی نمائندگی اور حمایت کرنا ہوتا ہے۔
مسیح کے ایلچیوں اور سفیروں کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے۔ وہ یسوع کو اپنا بادشاہ سمجھتے اور بڑے پُرسکون طریقے سے خوشخبری کی منادی کرنے سے اُس کی آسمانی بادشاہت کی حمایت کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۱۴؛ یوحنا ۱۸:۳۶) پولس رسول نے بھی اپنے زمانے کے مسیحیوں کو لکھا: ”ہم . . . جسم کے طور پر لڑتے نہیں اِس لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں۔ . . . تصورات اور ہر ایک اُونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اُٹھائے ہوئے ہے۔“—۲-کرنتھیوں ۱۰:۳-۵؛ افسیوں ۶:۱۳-۲۰۔
جب پولس رسول نے یہ الفاظ لکھے تو اُس وقت بہت سے ممالک میں مسیحیوں کو اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اگرچہ وہ سرکشی یا بغاوت کر سکتے تھے توبھی اُنہوں نے اپنے دشمنوں سے محبت رکھی اور اُن لوگوں کو صلح کا پیغام سناتے رہے جو خوشخبری کی طرف مائل تھے۔ دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ وار بیان کرتا ہے: ”یسوع مسیح کے ابتدائی پیروکاروں نے جنگ میں حصہ لینے اور فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ وہ اِسے تمام انسانوں یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھنے کے حکم کی خلافورزی سمجھتے تھے۔“ *
ابتدائی مسیحیوں کی طرح یہوواہ کے گواہ بھی یسوع مسیح کو خدا کی آسمانی بادشاہت کا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بادشاہت بہت جلد زمین پر امنوسلامتی لائے گی۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ متی ۶:۹، ۱۰) لہٰذا، وہ ایلچیوں اور سفیروں کی طرح بادشاہت کی برکات کے متعلق لوگوں کو بتاتے ہیں۔ اِس کے ساتھساتھ وہ جس مُلک میں بھی رہتے ہیں وہاں کی حکومت کے قوانین کی پابندی کرنے اور ٹیکس ادا کرنے سے اچھے شہری بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ وہ ایسے قوانین کی پابندی نہیں کرتے جو خدا کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔—اعمال ۵:۲۹؛ رومیوں ۱۳:۱، ۷۔
تاہم، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابتدائی مسیحیوں کی طرح بعضاوقات یہوواہ کے گواہوں کو بھی غلط سمجھا جاتا، اُن پر جھوٹے الزامات لگائے جاتے اور اُنہیں اذیت دی جاتی ہے۔ اِس کے باوجود، وہ بغاوت نہیں کرتے بلکہ ”سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ“ یعنی صلح سے رہتے ہیں۔ اُنہیں اُمید ہے کہ اُن کے بعض مخالفین ”خدا سے میلملاپ“ کر کے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔ *—رومیوں ۱۲:۱۸؛ یوحنا ۱۷:۳۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 دی انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ وار بیان کرتا ہے: ”روم کے شہنشاہ قسطنطین [۳۰۶-۳۳۷ عیسوی] سے پہلے کے سب مسیحی مصنفوں نے جنگ میں قتلوغارت کی مذمت کی تھی۔“ لوگوں کے رویے میں تبدیلی اُس وقت آئی جب بائبل میں بیانکردہ برگشتگی نے زور پکڑا۔—اعمال ۲۰:۲۹، ۳۰؛ ۱-تیمتھیس ۴:۱۔
^ پیراگراف 15 پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح یہوواہ کے گواہ بھی ضرورت پڑنے پر اپنی مذہبی آزادی کا دفاع کرنے کے لئے قانون کا سہارا لیتے ہیں۔—اعمال ۲۵:۱۱؛ فلپیوں ۱:۷۔
کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ . . .
▪ سچے مسیحیوں کو اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسے پیش آنا چاہئے؟—متی ۵:۴۳-۴۵؛ رومیوں ۱۲:۲۰، ۲۱۔
▪ جب یسوع کو اذیت دی گئی تو اُس نے کیسا ردِعمل دکھایا؟—۱-پطرس ۲:۲۱، ۲۳۔
▪ ابتدائی مسیحی جنگوں یا لڑائیجھگڑوں میں کیوں حصہ نہیں لیتے تھے؟—۲-کرنتھیوں ۵:۲۰؛ ۱۰:۳-۵۔