عالمی اُفق
عالمی اُفق
”امریکہ کے مسیحیوں نے اپنے خدا سے مُنہ تو نہیں موڑا لیکن اب وہ سیاسی معاملوں اور معاشرتی اقدار کے سلسلے میں اُس کے حکموں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی کہ وہ پہلے دیا کرتے تھے۔“—امریکہ کا ہفتہوار جریدہ نیوز ویک۔
”معاشی بحران اور مالی مشکلات کی وجہ سے ایک انوکھا مسئلہ کھڑا ہوا ہے: طلاق لینا مہنگا پڑتا ہے اِس لئے بہت سے شادیشُدہ جوڑے طلاق نہیں لے رہے ہیں، چاہے وہ ایک دوسرے سے کتنی ہی نفرت کیوں نہ کریں۔“—امریکہ کا اخبار دی وال سٹریٹ جرنل۔
ایک جائزے کے مطابق جرمنی میں ۳ ماؤں میں سے ایک نے کہا کہ وہ اپنی بیٹی سے سیکھتی ہے۔ یہ مائیں اپنی بیٹیوں سے فیشن کرنا، دوستیاں کرنا، ٹینشن نہ لینا اور خوداعتمادی سیکھتی ہیں۔—جرمنی کا اخبار برلینر مورگن پوسٹ۔
مدافعتی نظام کی حیرانکن صلاحیت
حال ہی میں ایک بینالاقوامی اخبار میں ۱۹۱۸ میں پھیلنے والی فلو کی وبا کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی: ”جو لوگ نوے سال پہلے اِس بیماری میں مبتلا ہوئے تھے اِن میں آج تک اِس جانلیوا بیماری کے جراثیم کو ختم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام کتنا مضبوط ہے۔“ (انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون) جب سائنسدانوں نے اُن لوگوں کے خون کا معائنہ کِیا جو نوے سال پہلے اِس بیماری کے مریض تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے خون میں ”ابھی تک اِس فلو کے جراثیم کو ختم کرنے کا مادہ [یعنی اینٹیباڈیز] موجود ہے۔“ سائنسدانوں نے اِس مادے کے ذریعے ایک ٹیکہ تیار کِیا اور چوہوں پر اِس کا تجربہ کِیا۔ اُنہوں نے پہلے تو چوہوں میں ۱۹۱۸ کے فلو کے جراثیم ڈالے اور پھر اُنہیں یہ ٹیکہ لگایا۔ اِس ٹیکے کی بدولت چوہوں میں فلو کے جراثیم ختم ہو گئے۔ سائنسدان یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے کہ جسم کا مدافعتی نظام نوے سال کے بعد بھی ایک بیماری کے جراثیم کو پہچاننے اور پھر اِن کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک سائنسدان نے کہا کہ ”ہمارے رب نے ہمیں اینٹیباڈیز عطا کئے ہیں جو زندگیبھر ہمارے جسم میں رہتے ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری لگنے سے انسان کا مدافعتی نظام زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔“
اگر آپ خدا سے سوال کر سکتے تو آپ کیا پوچھتے؟
سویڈن کے ایک اخبار (ڈوگن) کے مطابق جب یہ سوال اُس ملک کے کالج کے طالبعلموں سے کِیا گیا تو زیادہتر نے سب سے پہلے کہا: ”مَیں یہ پوچھتا کہ اگر تیری ذات واقعی محبت ہے تو دُنیا میں دُکھ اور تکلیف کیوں ہے؟“ ایک جائزے کے مطابق طالبعلم اپنے رب سے یہ بھی پوچھتے کہ ”تُو نے انسان کو کس مقصد کے لئے خلق کِیا؟“ اور ”مرنے کے بعد کیا واقع ہوگا؟“ دراصل سویڈن میں قدراً کم لوگ مذہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن مسیحی طالبعلموں کی ایک تنظیم کے نمائندے کا کہنا ہے کہ اِس کے باوجود ”سویڈن کے باشندوں کے ذہن میں ایسے سوال اُٹھتے ہیں۔ . . . جوان لوگ اِن سوالوں کے بارے میں بہت غوروفکر کرتے ہیں۔“
معذوری کا ازدواجی زندگی پر اثر
تحقیقدانوں کے مطابق ”ہر عمر کے مرد اور عورتوں نے کہا کہ جسمانی طور پر معذور ہو جانے کے بعد اُن کی ازدواجی زندگی زیادہ خوشگوار ہوگئی۔“ یہ سچ ہے کہ جب ایک شخص اپنے کامکاج خود نہیں کر پاتا تو یہ اُس کے لئے بہت تکلیفدہ ہوتا ہے لیکن اِس سے میاںبیوی کا بندھن اکثر زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر ادھیڑ عمر مردوں نے کہا کہ وہ معذوری کی وجہ سے اپنی بیوی کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتے ہیں۔ کیرن روبرٹو جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں بڑھاپے پر تحقیق کرتی ہیں، اُنہوں نے کہا: ”جب شوہر اپنی بیوی کی تیمارداری کرتے ہیں یا پھر اُنہیں اپنی بیوی کی معذوری کی وجہ سے نئی ذمہداریاں اُٹھانی پڑتی ہیں تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگتے ہیں اور اُس کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔“