”فکر نہ کرنا“
”فکر نہ کرنا“
”ہماری ساری جمعپونجی ختم ہو گئی تھی۔ ہم نے اپنے بچوں کے نام سے جو پیسے جمع کرائے تھے، وہ بھی خرچ ہو گئے۔ کئی مہینے تک ہمارے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔“
● مَیں انڈیا کے ایک دیہات میں سکول چلا رہا تھا۔ اِس سے ہمارا اچھا خاصا گزارا ہو رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب میرے سکول میں تقریباً ۵۰۰ طالبعلم تھے۔ لیکن پھر شہر کے ایک مشہور سکول نے اپنی بسیں ہمارے علاقے میں بھیجنا شروع کر دیں اور اُس نے اپنے سکول میں داخلہ لینے کو بھی آسان بنا دیا۔ اِس وجہ سے میرے بہت سے طالبعلم اُس سکول میں چلے گئے۔ اِس کے نتیجے میں میرے سکول میں طالبعلموں کی تعداد گھٹ کر صرف ۶۰ رہ گئی۔ سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ ایک شخص جس نے مجھ سے پیسے اُدھار لئے تھے اُس نے وہ واپس نہیں کئے۔ چونکہ مجھے سکول کے عملے کی تنخواہ دینی تھی اِس لئے مَیں مصیبت میں پڑ گیا۔
ہم سب گھروالوں نے بیٹھ کر اِس مسئلے پر بات کی۔ ہم نے یسوع مسیح کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کی کہ ”تیری آنکھ درست ہو“ یعنی اپنی زندگی کو سادہ رکھو۔ (متی ۶:۲۲، ۲۵) اِس لئے ہم نے اپنے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کِیا۔ مثال کے طور پر ہم نے گاڑی کی بجائے سکوٹر استعمال کِیا تاکہ پٹرول کی بچت ہو سکے۔ اِس کے علاوہ ہم نے کھانےپینے کی چیزیں شام کے وقت خریدنا شروع کیں جب اُن کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں۔ اور ہم نے کھانے کے لئے بہت زیادہ اہتمام کرنے کی بجائے سادہ کھانے پر گزارا کِیا۔
ہم یہوواہ کے گواہ ہیں اور اِس بات سے واقف ہیں کہ باقاعدگی سے عبادت کے لئے جمع ہونا بہت اہم ہے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۵) اگرچہ ہماری مالی حالت اتنی اچھی نہیں تھی توبھی ہم اپنی کلیسیا کے تمام مذہبی اجتماعوں پر جاتے تھے۔ کبھی کبھار اِس کے لئے ہمیں کافی سفر کرنا پڑتا تھا۔ لوگوں کو خدا کے کلام سے تعلیم دینے کے لئے بھی ہمیں کافی دُور جانا ہوتا تھا۔ اِس کے لئے ہم گاڑی پر جانے کی بجائے سکوٹر استعمال کرتے تھے۔ البتہ سکوٹر پر صرف دو لوگ جا سکتے تھے اور ہم چار تھے۔
لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم لوگوں کو خدا کے کلام سے تعلیم دینے میں کم وقت صرف کرنے لگے۔ میری بیوی اور بیٹی خدا کے کلام سے تعلیم دینے کے لئے بعض اوقات تقریباً ۵ میل [۶ تا ۸ کلومیٹر] تک پیدل چلتی تھیں۔ مَیں اور میرا بیٹا بھی لوگوں کو خدا کے کلام کے بارے میں سکھانے میں پہلے سے زیادہ وقت صرف کرنے لگے۔
اب ہماری مالی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے۔ اُس مشکل وقت سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ ہمیں مالودولت اور آسائشوں کو زندگی میں زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئے اور حد سے زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں زبور ۵۵:۲۲ سے بڑی تسلی ملی ہے جس میں بیان کِیا گیا ہے کہ ”اپنا بوجھ [یہوواہ خدا] پر ڈال دے۔ وہ تجھے سنبھالے گا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دے گا۔“ اُس مشکل وقت کے دوران یہ آیت ہمارے بارے میں سو فیصد سچ ثابت ہوئی۔