مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

نازی افسر سے یہوواہ خدا کا خادم بننے تک میرا سفر

نازی افسر سے یہوواہ خدا کا خادم بننے تک میرا سفر

نازی افسر سے یہوواہ خدا کا خادم بننے تک میرا سفر

گٹ‌لیب برن‌ہارٹ کی زبانی

مَیں ہٹلر کے حفاظتی سکواڈ ایس‌ایس کا ایک افسر تھا اور میری پوسٹنگ ویولزبُرگ قلعے میں تھی۔‏ اُس قلعے کے قریب ایک قیدی کیمپ تھا۔‏ اپریل ۱۹۴۵ میں مجھے اِس کیمپ کے کچھ ایسے قیدیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا جو یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ ایس‌ایس کا افسر ہونے کے ناطے مجھے اِس حکم کو ہر صورت میں ماننا تھا۔‏ مَیں اِس کشمکش میں پڑ گیا کہ کیا کروں۔‏ اِس حکم پر عمل کروں یا پھر اپنے ضمیر کی آواز سنوں؟‏

مَیں سن ۱۹۲۲ میں جرمنی میں دریائےرائن کے نزدیک ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔‏ اِس علاقے میں زیادہ‌تر لوگ رومن کیتھولک تھے۔‏ لیکن میرا خاندان پائےٹسٹ فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔‏ یہ ایک ایسی مسیحی تحریک ہے جس کا آغاز سترھویں صدی میں ہوا تھا۔‏ سن ۱۹۳۳ میں جب مَیں ۱۱ سال کا تھا،‏ ایڈولف ہٹلر نے جرمنی میں اختیار سنبھالا۔‏ چونکہ مَیں پڑھائی اور کھیل میں بہت ہوشیار تھا اِس لئے مجھے چند سال بعد ایک اکیڈمی میں داخلہ ملا جو میرے گھر سے سینکڑوں میل دُور تھی۔‏ اِس میں مجھے نازیوں کے نظریات کی تعلیم دی گئی۔‏ یہاں طالبعلموں کو دوسروں کی عزت کرنا،‏ محنت اور لگن سے کام کرنا،‏ ملک کے وفادار رہنا،‏ حکموں کی پابندی کرنا اور جرمن ثقافت کو فروغ دینا سکھایا جاتا تھا۔‏

ایس‌ایس افسر کے طور پر میری زندگی

سن ۱۹۳۹ میں جب دوسری جنگِ‌عظیم شروع ہوئی تو مَیں ہٹلر کے محافظ دستے میں بھرتی ہو گیا۔‏ یہ ایس‌ایس کا ایک خاص دستہ تھا جو براہِ‌راست ہٹلر کی کمانڈ میں تھا۔‏ یہ دستہ سرکاری افسروں اور اہلکاروں کی حفاظت کرتا تھا اور اسے خاص فوجی آپریشن کرنے کے لئے بھی استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ مَیں بیلجیئم،‏ فرانس،‏ نیدرلینڈز،‏ رومانیہ،‏ بلغاریہ اور یونان میں کئے جانے والے آپریشن میں شامل تھا۔‏ بلغاریہ میں مَیں ایک عبادت میں شامل ہوا جس میں فوج کے ایک پادری نے فوجیوں کو برکت دی۔‏ مَیں نے سوچا:‏ ”‏کیا دُشمن کی فوج بھی ایسی ہی عبادتیں کرتی ہے؟‏ کیا خدا جنگ سے راضی ہے؟‏ کیا وہ ایک قوم کو دوسری پر ترجیح دیتا ہے؟‏“‏

کچھ عرصہ بعد مجھے ایک فوجی اکیڈمی کے لئے منتخب کِیا گیا جس میں جوان افسروں کو اعلیٰ عہدوں کے لئے تیار کِیا جاتا تھا۔‏ اِس کے بعد مجھے اُس دستے میں شامل کِیا گیا جو شہر برلن میں ہٹلر کے ہیڈکوارٹر کی حفاظت کرتا تھا۔‏ وہاں مَیں نے ایک مرتبہ ہٹلر کو ایک نامور سیاستدان پر بُری طرح چلّاتے دیکھا۔‏ مَیں نے سوچا کہ ”‏یہ تو بدتمیزی ہے۔‏“‏ لیکن مجھ میں یہ کہنے کی جُرأت نہیں تھی۔‏

برلن میں میری ملاقات اِنگے نامی ایک لڑکی سے ہوئی۔‏ وہ بھی وہاں ہیڈکوارٹر میں کام کرتی تھی۔‏ سن ۱۹۴۱ میں ہماری شادی ہونے والی تھی کہ میرے دستے کو روس بھیج دیا گیا۔‏ سردی کا موسم تھا اور ہمیں گرم کپڑے بھی نہیں دئے گئے تھے حالانکہ درجۂ‌حرارت منفی ۳۰ ڈگری تھا۔‏ وہاں مجھے جُرأت کا تمغہ دیا گیا۔‏ بعد میں مَیں بُری طرح سے زخمی ہو گیا اور مجھے واپس جرمنی بھیج دیا گیا۔‏ سن ۱۹۴۳ میں میری اور اِنگے کی شادی ہو گئی۔‏

جنوبی جرمنی کے پہاڑوں میں ہٹلر کا ایک اَور ہیڈکوارٹر تھا۔‏ میری اگلی پوسٹنگ وہیں پر تھی۔‏ ایس‌ایس کے سربراہ ہائن‌رِخ ہیم‌لر کا وہاں بہت آنا جانا تھا۔‏ اُنہوں نے اپنے ذاتی ڈاکٹر فیلکس کیرسٹن سے میرا علاج کروایا۔‏ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ برلن کے نزدیک ڈاکٹر کیرسٹن کی زمینیں تھیں۔‏ اِن زمینوں کے قریب ایک قیدی کیمپ بھی تھا۔‏ ڈاکٹر کیرسٹن نے ہیم‌لر سے اجازت لے کر کیمپ میں سے یہوواہ کے گواہوں کو اپنی زمینوں پر کام پر لگایا۔‏ اُنہوں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کِیا۔‏ وہ اکثر سویڈن جاتے تھے۔‏ وہاں ایک یہوواہ کی گواہ اُن کے لئے کام کرتی تھی۔‏ وہ ڈاکٹر کیرسٹن کے سوٹ‌کیس میں یہوواہ کے گواہوں کے رسالے رکھا کرتی تھی۔‏ جب ڈاکٹر کیرسٹن واپس جرمنی پہنچتے تو وہاں ایک اَور گواہ اُن کے سوٹ‌کیس کو خالی کرتی تھی۔‏ اِس طرح یہ رسالے جرمنی میں یہوواہ کے گواہوں تک پہنچتے تھے۔‏

یہوواہ کے گواہوں سے ملاقات

سن ۱۹۴۴ کے آخر میں مجھے اُس جنرل کا ذاتی ایجوٹینٹ بنایا گیا جو ویولزبُرگ قلعے کا کمانڈر تھا۔‏ یہ قلعہ تقریباً ۴۰۰ سال پُرانا تھا اور ہیم‌لر اُسے ایک ایسا مرکز بنانا چاہتے تھے جہاں لوگوں کو نازیوں کے نظریات کی تعلیم دی جانی تھی۔‏ اِس قلعے کے قریب ایک چھوٹا سا قیدی کیمپ تھا جس میں بہت سے یہوواہ کے گواہ قید تھے۔‏

ایک قیدی جس کا نام ایرنسٹ شپیخٹ تھا میرا علاج کرنے کے لئے آتا تھا۔‏ ہٹلر کا حکم تھا کہ ہر شخص سلام کے طور پر ”‏ہائل ہٹلر“‏ کہے جس کا مطلب ہے:‏ ”‏ہٹلر نجات دلائے۔‏“‏ لیکن وہ قیدی ہر صبح آ کر مجھے ہائل ہٹلر کہنے کی بجائے صبح‌بخیر کہا کرتا تھا۔‏

ایک دن مَیں نے اُس سے پوچھا:‏ ”‏تُم مجھے ہائل ہٹلر کہہ کر سلام کیوں نہیں کرتے؟‏“‏

اُس نے کہا:‏ ”‏کیا آپ مسیحی ہیں؟‏“‏

مَیں نے کہا:‏ ”‏ہاں میں پائےٹسٹ ہوں۔‏“‏

اُس نے کہا:‏ ”‏توپھر آپ کو معلوم ہوگا کہ بائبل میں کہا گیا ہے کہ صرف یسوع مسیح ہمیں نجات دلا سکتا ہے۔‏ اِس لئے مَیں ہائل ہٹلر نہیں کہہ سکتا۔‏“‏

مَیں یہ سُن کر حیران ہو گیا اور پوچھا:‏ ”‏تُم قید میں کیوں ہو؟‏“‏

اُس نے جواب دیا:‏ ”‏کیونکہ مَیں یہوواہ کا گواہ ہوں۔‏“‏

ایرنسٹ شپیخٹ کے علاوہ ایک اَور یہوواہ کے گواہ ایرِخ نیکولائزگ سے بھی میری بات‌چیت ہوتی رہتی تھی جو حجام کے طور پر کام کرتا تھا۔‏ اُن دونوں کی باتیں میرے دل کو لگتی تھیں۔‏ لیکن مذہب کے بارے میں قیدیوں کے ساتھ بات کرنا منع تھا۔‏ کمانڈنگ افسر نے اِس کی وجہ سے مجھے وارننگ بھی دی۔‏ مگر جب مَیں نے اُن یہوواہ کے گواہوں کی باتوں پر غور کِیا تو مَیں نے سوچا کہ جرمنی میں زیادہ‌تر لوگ مسیحی ہیں اور لاکھوں لوگ باقاعدگی سے چرچ بھی جاتے ہیں۔‏ اگر وہ سب یہوواہ کے گواہوں کی طرح ہوتے تو یہ جنگ نہ ہوتی۔‏ میرا خیال تھا کہ یہوواہ کے گواہوں کو خراج‌تحسین پیش کِیا جانا چاہئے نہ کہ اُنہیں اذیت دی جانی چاہئے۔‏

اِس دوران ایک بیوہ عورت نے مجھے فون کرکے یہ درخواست کی کہ اُس کے بیٹے کو ہسپتال پہنچایا جائے۔‏ اُس کے بیٹے کو فوراً اپنڈکس کے آپریشن کی ضرورت تھی۔‏ مَیں نے اُس کے لئے سواری کا بندوبست کرنے کا حکم دیا۔‏ لیکن کمانڈنگ افسر نے میرے حکم کو منسوخ کر دیا۔‏ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس عورت کا شوہر اُس گروہ میں شامل تھا جس نے جولائی ۱۹۴۴ میں ہٹلر کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔‏ اُس کے شوہر کو سزائےموت دی گئی تھی۔‏ چونکہ مَیں اُس لڑکے کو ہسپتال پہنچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکا اِس لئے وہ مر گیا۔‏ اِس وجہ سے آج تک میرے ضمیر پر بوجھ ہے۔‏

مَیں جوان ہی تھا پر مَیں نے اپنی زندگی میں جو کچھ دیکھا تھا اُس سے مَیں جان گیا کہ نازیوں کے نظریات کتنے غلط ہیں۔‏ اِس کے ساتھ‌ساتھ یہوواہ کے گواہوں اور اُن کی تعلیمات کے لئے میری قدر بڑھ گئی۔‏ اِس کے نتیجے میں مَیں نے ایک بہت اہم فیصلہ کِیا جس سے میری زندگی بالکل بدل گئی۔‏

اپریل ۱۹۴۵ میں اتحادی فوجیں ہمارے علاقے میں پہنچنے والی تھیں۔‏ یہ خبر سُن کر میرا کمانڈنگ افسر وہاں سے بھاگ گیا۔‏ پھر ہیم‌لر کی طرف سے یہ حکم آیا کہ ویولزبُرگ قلعے کو تباہ کر دیا جائے اور قیدیوں کو ہلاک کر دیا جائے۔‏ قیدی کیمپ کے کمانڈر نے مجھے قیدیوں کی ایک فہرست دی اور مجھے کہا کہ ”‏اِن کو قتل کر دو۔‏“‏ وہ سب قیدی یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ نازیوں نے بہت سی قیمتی تصویریں اور مجسّمے وغیرہ لُوٹے تھے اور اِنہیں ویولزبُرگ قلعے میں چھپا دیا تھا۔‏ یہوواہ کے گواہ اُس قلعے میں کام کرتے تھے اور وہ اِس لُوٹ کے مال کے بارے میں جانتے تھے۔‏ اِس لئے ہیم‌لر نے اُنہیں قتل کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ راز فاش نہ ہو۔‏ اب مَیں اِس کشمکش میں پڑ گیا کہ کیا کروں۔‏

مَیں قیدی کیمپ کے کمانڈر کے پاس گیا اور اُس سے کہا:‏ ”‏امریکی فوجیں سر پر آ گئی ہیں۔‏ کیا آپ اور آپ کے سپاہیوں کے لئے بہتر نہیں ہوگا کہ یہاں سے نکل جائیں؟‏“‏ اُسے تو وہاں سے نکلنے کا بہانہ ہی چاہئے تھا اِس لئے اُس نے فوراً میری تجویز قبول کر لی۔‏ پھر مَیں نے وہ کِیا جو ایک ایس‌ایس افسر کبھی نہ کرتا۔‏ مَیں نے حکم‌عدولی کی اور اُن گواہوں کو زندہ چھوڑ دیا۔‏

مَیں اُن کا بھائی بن گیا

جنگ کے بعد مَیں نے اور اِنگے نے یہوواہ کے گواہوں سے رابطہ کِیا اور اُن میں سے ایک نے ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کِیا۔‏ جنگ میں زخمی ہونے کی وجہ سے میری صحت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔‏ اِس کے علاوہ جنگ کے بعد جرمنی میں حالات بہت خراب تھے۔‏ اِن مشکلات کے باوجود ہم دونوں نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کی۔‏ مَیں نے ۱۹۴۸ میں اور اِنگے نے ۱۹۴۹ میں بپتسمہ لیا۔‏

جنگ کے کچھ سال بعد کئی ایسے یہوواہ کے گواہ جو ویولزبُرگ قلعے میں قید تھے ایک دوسرے سے ملنے کے لئے وہاں پھر سے جمع ہوئے۔‏ اِن میں ایرنسٹ شپیخٹ،‏ ایرِخ نیکولائزگ اور میکس ہول‌ویگ شامل تھے۔‏ میرے لئے یہ بڑے فخر کی بات تھی کہ اب وہ مجھے بھائی کہہ کر بلا رہے تھے۔‏ مَیں اُن کا بڑا شکرگزار تھا کہ اُنہوں نے مجھ سے خدا کے کلام کے بارے میں بات کرنے کی خاطر اپنی جان تک خطرے میں ڈالی تھی۔‏ اُس موقعے پر مرتھا نیمان بھی آئی ہوئی تھیں جو نازیوں کے زمانے میں ویولزبُرگ میں سیکرٹری کے طور پر کام کِیا کرتی تھیں۔‏ وہ بھی یہوواہ کے گواہوں کے چال‌چلن سے اِتنی متاثر ہوئی تھیں کہ وہ خود بھی یہوواہ کی گواہ بن گئیں۔‏

جب مَیں گزرے ہوئے سالوں پر غور کرتا ہوں تو مَیں اِس بات کا ثبوت دیکھتا ہوں کہ ”‏ساری دُنیا اُس شریر [‏یعنی شیطان]‏ کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ مَیں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ہٹلر کی حکومت کے تحت کام کرنے اور یہوواہ خدا کی خدمت کرنے میں بڑا فرق ہے۔‏ ہٹلر چاہتا تھا کہ اُس کا حکم سوال کئے بغیر مانا جائے۔‏ اِس کے برعکس یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کے بارے میں علم حاصل کریں،‏ اُس کی مرضی جانیں اور پھر محبت کی بِنا پر اُس کی خدمت کریں۔‏ (‏لوقا ۱۰:‏۲۷؛‏ یوحنا ۱۷:‏۳‏)‏ مَیں نے عزم کِیا کہ مَیں مرتے دَم تک یہوواہ خدا کی خدمت کروں گا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

ہماری شادی کی تصویر،‏ فروری ۱۹۴۳

‏[‏صفحہ ۱۹ پر تصویر]‏

ویولزبُرگ قلعہ جو نازیوں کا ایک اہم مرکز تھا

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر]‏

اِنگے اور میری حالیہ تصویر