مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہم میں بحث‌وتکرار کیوں ہوتی رہتی ہے؟‏

ہم میں بحث‌وتکرار کیوں ہوتی رہتی ہے؟‏

نوجوانوں کا سوال

ہم میں بحث‌وتکرار کیوں ہوتی رہتی ہے؟‏

نیچے دئے گئے واقعے پر غور کریں۔‏ اِس میں راخل نے کن ۳ طریقوں سے جھگڑے کو ہوا دی؟‏ اپنے جواب نیچے دی گئی لائنوں پر لکھیں اور پھر اُن کا موازنہ اُن جوابوں سے کریں جو اِس مضمون کے آخر میں بکس میں درج ہیں۔‏

بدھ کی شام ہے۔‏ سترہ سالہ راخل اپنے سارے کام‌کاج سے فارغ ہو گئی ہے۔‏ اب وہ ٹی‌وی لگا کر آرام سے صوفے پر براجمان ہے۔‏

ایک دم سے اُس کی ماں کمرے میں داخل ہوتی ہیں۔‏ اُن کے چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ آثار کچھ اچھے نہیں ہیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏راخل تُم پھر سے ٹی‌وی دیکھنے بیٹھ گئی ہو!‏ تمہارے کانوں میں روئی بھری ہے کیا؟‏ مَیں نے تو تُم سے کہا تھا کہ اپنی بہن کو ہوم‌ورک کرواؤ۔‏“‏

راخل بڑبڑاتی ہے:‏ ”‏لو پھر سے شروع ہو گئیں۔‏“‏

اُس کی ماں آگے کو جھک کر کہتی ہیں:‏ ”‏کیا کہا تُم نے؟‏“‏

راخل کندھے اُچکا کر کہتی ہے:‏ ”‏کچھ نہیں۔‏“‏

اُس کی ماں کو بڑا غصہ آتا ہے اور وہ کہتی ہیں:‏ ”‏بدتمیز!‏ ماں سے ایسے بات کرتے ہیں کیا؟‏“‏

راخل فٹ سے جواب دیتی ہے:‏ ”‏آپ بھی تو بات‌بات پر میرے پیچھے پڑ جاتی ہیں۔‏“‏

اور یوں ماں‌بیٹی میں جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔‏

۱.‏ ․․․․․‏

۲.‏ ․․․․․‏

۳.‏ ․․․․․‏

کیا آپ کو بھی اِس قسم کی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے؟‏ کیا آپ اور آپ کے والدین میں بھی سارا وقت بحث اور تکرار ہوتی ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو اِس سوال پر غور کریں:‏ وہ کونسے معاملے ہیں جن کے بارے میں آپ میں سب سے زیادہ بحث ہوتی ہے؟‏ پھر ساتھ دی گئی فہرست میں اِن پر نشان لگائیں۔‏ اگر اِن کے علاوہ آپ میں کسی اَور معاملے پر بحث ہوتی ہے تو اِسے اُس جگہ پر لکھیں جہاں ”‏دیگر“‏ لکھا ہے۔‏

◯ رویہ

◯ گھر کے کام‌کاج

◯ کپڑوں کا سٹائل

◯ گھر پہنچنے کا وقت

◯ تفریح

◯ دوستوں کا انتخاب

◯ مخالف جنس سے دوستی

◯ دیگر

سچ تو یہ ہے کہ جب آپ اور آپ کے والدین میں بحث‌و تکرار ہوتی ہے تو گھر کا ماحول بگڑ جاتا ہے۔‏ شاید آپ سوچیں کہ ”‏اِس سے بہتر تو یہ ہے کہ مَیں کچھ بھی نہ کہوں اور بس امی‌ابو کی ہاں میں ہاں ملاؤں حالانکہ مَیں اُن سے اتفاق نہیں کرتا۔‏“‏ لیکن کیا یہوواہ خدا آپ سے ایسا کرنے کی توقع رکھتا ہے؟‏ جی‌نہیں۔‏ یہ درست ہے کہ خدا کے کلام میں ہمیں ”‏اپنے باپ کی اور ماں کی عزت“‏ کرنے کو کہا گیا ہے۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۲،‏ ۳‏)‏ لیکن اِس کے ساتھ‌ساتھ خدا یہ بھی چاہتا ہے کہ آپ ’‏حکمت حاصل کریں اور فہم کی باتوں کا امتیاز کرنا سیکھیں۔‏‘‏ (‏امثال ۱:‏۱-‏۴‏)‏ جب آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ ایک معاملے کے بارے میں سوچ‌بچار کر کے خود اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ کی رائے آپ کے والدین کی رائے سے فرق ہو۔‏ لیکن جب والدین اور بچے پاک صحائف کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں تو گھر کا ماحول اُس وقت بھی خوشگوار رہتا ہے جب وہ ایک معاملے کے بارے میں متفق نہیں ہوتے۔‏—‏کلسیوں ۳:‏۱۳‏۔‏

کیا جب بھی آپ والدین سے بات کرتے ہیں تو آپ ایک دوسرے پر برس پڑتے ہیں؟‏ اِس صورتحال میں بہتری لانے کے لئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ”‏غلطی تو امی‌ابو کی ہے۔‏ وہ ہمیشہ میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔‏“‏ لیکن ذرا سوچیں کہ کیا آپ دوسروں کے رویے میں تبدیلی لا سکتے ہیں؟‏ سچ تو یہ ہے کہ آپ صرف اپنے رویے میں بہتری لا سکتے ہیں۔‏ اور اگر آپ ایسا کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کے والدین بھی آپ کی بات کو سننے کے لئے تیار ہوں۔‏

آئیں اب دیکھیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ اور آپ کے والدین میں جھگڑا نہ ہو۔‏ اگر آپ نیچے دئے گئے مشوروں پر عمل کریں گے تو آپ کے گھر میں میدانِ‌جنگ کا سماں نہیں ہوگا بلکہ آپ کے گھر کا ماحول پُرسکون ہو جائے گا۔‏

‏(‏اُن مشوروں پر نشان لگائیں جن پر آپ کو عمل کرنے کی ضرورت ہے۔‏)‏

سوچ‌سمجھ کر بات کریں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے:‏ ”‏صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۵:‏۲۸‏)‏ جب آپ کے والدین آپ کو ٹوکتے ہیں تو جو بات دل میں آتی ہے وہ فوراً نہ کہہ ڈالیں۔‏ فرض کریں کہ آپ کی ماں آپ سے یہ کہتی ہیں:‏ ”‏تُم نے ابھی تک برتن کیوں نہیں صاف کئے۔‏ تُم کبھی میرا کہنا نہیں مانتی ہو۔‏“‏ اِس پر شاید آپ یہ جواب دینا چاہیں:‏ ”‏بس مَیں ہی آپ کو ملی ہوں ٹوکنے کے لئے۔‏“‏ لیکن جواب دینے سے پہلے حکمت کو کام میں لائیں۔‏ اِس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ کی ماں نے ایسا کیوں کہا ہے۔‏ کیا وہ واقعی یہ کہنا چاہتی ہیں کہ آپ کبھی اُن کا کہنا نہیں مانتیں۔‏ جی‌نہیں۔‏ دراصل آپ کی ماں کی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ کچھ اَور ہے۔‏ آئیں دیکھیں کہ اصلی معاملہ کیا ہو سکتا ہے۔‏

شاید آپ کی ماں کو لگ رہا ہے کہ وہ گھر کے کام‌کاج کے بوجھ تلے دبی جا رہی ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ آپ اُن کا ہاتھ بٹائیں۔‏ یا پھر شاید آپ واقعی گھر کے کام‌کاج سے جان چھڑاتی ہیں۔‏ بہرحال اپنی ماں کو کرخت جواب دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‏ اِس لئے اُن کے ساتھ بحث کرنے کی بجائے اُن کو تسلی دیں۔‏ مثال کے طور پر آپ اُن سے کہہ سکتی ہیں کہ ”‏امی ناراض مت ہوں۔‏ مَیں ابھی جا کر برتن صاف کرتی ہوں۔‏“‏ اِس بات کا خیال رکھیں کہ طنزیہ انداز میں جواب نہ دیں۔‏ اگر آپ اپنی ماں کو احساس دلائیں گی کہ آپ اُن کی پریشانی کو سمجھتی ہیں تو آپ کے درمیان بدمزگی نہیں رہے گی۔‏

نیچے لائن پر ایک ایسی بات لکھیں جو آپ کے امی‌ابو آپ سے کہتے ہیں اور جس پر آپ کو غصہ آتا ہے۔‏

‏․․․․․‏

اب سوچیں کہ آپ اُن کو کیا جواب دے سکتے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ آپ اُن کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔‏

‏․․․․․‏

احترام سے بات کریں۔‏ مشل کہتی ہے کہ ”‏مَیں نے دیکھا ہے کہ جب میرے اور امی کے بیچ میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو اِس کی اصل وجہ یہی ہوتی ہے کہ امی کو میرے بات کرنے کا انداز پسند نہیں تھا۔‏“‏ کیا یہ آپ کے بارے میں بھی سچ ہے؟‏ اگر ایسا ہے تو اِس بات کا خیال رکھیں کہ آپ ماں‌باپ سے بات کرتے وقت اُونچی آواز میں بات نہ کریں اور اپنے چہرے کے تاثرات یا کسی اَور حرکت سے اپنی خفگی کا اظہار نہ کریں۔‏ (‏امثال ۳۰:‏۱۷‏)‏ اگر ایسی صورتحال میں آپ کو خود کو قابو میں رکھنا مشکل لگتا ہے تو دل میں مختصر سی دُعا مانگیں۔‏ (‏نحمیاہ ۲:‏۴‏)‏ آپ کو اِس بات کی دُعا نہیں کرنی چاہئے کہ آپ کے والدین آپ کو ٹوکنا چھوڑ دیں بلکہ یہ کہ آپ اپنے احساسات پر قابو پائیں اور اُن کے غصے کو مزید نہ بھڑکائیں۔‏—‏یعقوب ۱:‏۲۶‏۔‏

نیچے دی گئی لائنوں پر کچھ ایسی باتیں اور حرکتیں لکھیں جن سے آپ کے والدین کو چڑ ہے اور جو آپ آئندہ نہیں کریں گے۔‏

باتیں:‏

‏․․․․․‏

حرکتیں:‏

‏․․․․․‏

والدین کی بات سنیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏کلام کی کثرت خطا سے خالی نہیں لیکن ہونٹوں کو قابو میں رکھنے والا دانا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۹‏)‏ جب آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ کے والدین آپ سے کسی بات پر خفا ہیں تو پہلے اُن کی بات کو سنیں۔‏ اگر آپ گانے سُن رہے ہیں یا کتاب پڑھ رہے ہیں تو گانوں کو بند کر دیں اور کتاب کو رکھ دیں اور اپنے والدین کی بات توجہ سے سنیں۔‏ اُن کی بات کاٹ کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش نہ کریں۔‏ جب وہ اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں تو آپ اُن سے سوال پوچھ سکتے ہیں یا پھر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔‏ اگر آپ اُن کی بات سنے بغیر ہٹ‌دھرمی سے اپنی ہی بات پر اٹکے رہیں گے تو صورتحال بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔‏ ہو سکتا ہے کہ آپ اِس معاملے کے بارے میں اپنے والدین کو اَور بھی بہت کچھ کہنا چاہتے ہوں لیکن کبھی‌کبھار ’‏چپ رہنے کا وقت‘‏ ہوتا ہے۔‏—‏واعظ ۳:‏۷‏۔‏

معافی مانگنے کو تیار رہیں۔‏ اگر آپ کی کسی بات یا حرکت کی وجہ سے جھگڑا شروع ہو گیا ہے تو آپ کو معافی مانگنی چاہئے۔‏ (‏رومیوں ۱۴:‏۱۹‏)‏ آپ اِس بات پر بھی افسوس ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ اور آپ کے والدین میں بحث‌وتکرار ہوئی ہے۔‏ اگر آپ کو امی‌ابو سے براہِ‌راست معافی مانگنا مشکل لگتا ہے تو ایک کارڈ لکھ کر معافی مانگیں۔‏ پھر اپنے رویے میں تبدیلی لانے کی ہر ممکن کوشش کریں۔‏ مثال کے طور پر اگر آپ کے والدین کے ساتھ آپ کا جھگڑا اِس لئے ہوا تھا کیونکہ آپ نے کمرہ نہیں صاف کِیا تھا تو آئندہ اُن کے کہے بغیر ہی یہ کام کر لیں۔‏ شاید یہ کام آپ کو پسند نہیں ہے لیکن ذرا سوچیں کہ اِس کو نہ کرنے کے کونسے نتیجے ہوں گے۔‏ یقیناً آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ اور آپ کے امی‌ابو کے درمیان کشیدگی ہو۔‏—‏متی ۲۱:‏۲۸-‏۳۱‏۔‏

آپ کی یہی کوشش ہونی چاہئے کہ آپ اور آپ کے والدین میں بحث‌وتکرار شروع ہی نہ ہو اور اگر جھگڑا ہو بھی جائے تو اِسے جلد ختم کرنے کی کوشش کریں۔‏ یوں آپ کی زندگی زیادہ پُرسکون ہو جائے گی۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏رحمدل اپنی جان کے ساتھ نیکی کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۱:‏۱۷‏)‏ لہٰذا اگر آپ اپنے والدین کو ناراض ہونے کا موقع ہی نہیں دیں گے تو اِس میں آپ ہی کا فائدہ ہوگا۔‏

دراصل اُن گھروں میں بھی اختلافات ہوتے ہیں جہاں گھر کا ماحول خوشگوار ہوتا ہے۔‏ لیکن اِن گھروں کے افراد نے اختلافات کو پُرامن طریقے سے ختم کرنا سیکھ لیا ہے۔‏ اگر آپ اِس مضمون میں دئے گئے مشوروں پر عمل کریں گے تو آپ اپنے والدین کے ساتھ کسی بھی معاملے کے بارے میں کُھل کر بات کر سکیں گے۔‏ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ آپ میں بحث‌وتکرار نہیں ہوگی۔‏

‏”‏نوجوانوں کا سوال“‏ کے سلسلے میں مزید مضامین ویب سائٹ www.watchtower.org/ype پر مل سکتے ہیں۔‏

ذرا سوچیں

آپ کے ہم‌عمر اِس بات پر فخر کیوں کرتے ہیں کہ وہ بحث کرنے میں ماہر ہیں؟‏

یہوواہ خدا کے نزدیک جھگڑالو شخص احمق کیوں ہے؟‏‏—‏امثال ۲۰:‏۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر بکس/‏تصویریں]‏

آپ کے ہم‌عمروں کی رائے

”‏مَیں نوکری کرتا ہوں اور اپنا خرچہ خود پورا کرتا ہوں۔‏ لیکن چونکہ مَیں اپنی امی کے ساتھ رہتا ہوں اِس لئے میرا فرض ہے کہ مَیں اُن کا کہنا مانوں۔‏ وہ اتنے سال سے میری دیکھ‌بھال کر رہی ہیں۔‏ اِس لئے جب وہ کوئی پابندی عائد کرتی ہیں تو مَیں اُن کے ساتھ تعاون کرتا ہوں۔‏ “‏

”‏جب میرے والدین اور مَیں کسی معاملے کے بارے میں متفق نہیں ہوتے تو ہم اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے خدا سے دُعا مانگتے ہیں،‏ اِس معاملے کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں اور پھر مل کر اِس پر بات‌چیت کرتے ہیں۔‏ یہوواہ خدا کے اصولوں پر عمل کرنے سے تمام اختلافات ختم ہو جاتے ہیں۔‏ “‏

‏[‏تصویریں]‏

ڈینئل

کیمرون

‏[‏صفحہ ۲۹ پر بکس]‏

جواب

۱.‏ بڑبڑانے سے (‏”‏لو پھر سے شروع ہو گئیں“‏)‏ راخل نے اپنی ماں کو غصہ دلایا۔‏

۲.‏ راخل نے کندھے اُچکائے۔‏ اِس حرکت سے معاملہ مزید بگڑ گیا۔‏

۳.‏ راخل نے بدتمیزی سے جواب دیا (‏”‏آپ بھی تو بات‌بات پر میرے پیچھے پڑ جاتی ہیں“‏)‏ جس سے جھگڑے کو ہوا ملی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر بکس]‏

والدین کی توجہ کے لئے

اِس مضمون کے آغاز میں جس واقعے کا ذکر ہوا ہے اِس پر غور کریں۔‏ راخل کی ماں نے ایسی کونسی باتیں کیں جن سے جھگڑے کو ہوا ملی؟‏ آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ نوجوان بیٹے یا بیٹی کے ساتھ بات کرتے وقت آپ بحث میں نہ پڑیں؟‏ اِس سلسلے میں نیچے چند مشورے دئے گئے ہیں جن کو آپ کام میں لا سکتے ہیں۔‏

جب آپ کو اپنے نوجوان بیٹے یا بیٹی پر غصہ آتا ہے تو اِس قسم کے باتیں نہ کہیں کہ ”‏تُم ہمیشہ ایسے ہی کرتے ہو“‏ یا ”‏تُم کبھی میری بات نہیں مانتی ہو۔‏“‏ ایسی باتیں سنتے ہی آپ کے بچے کا پارہ چڑھ جائے گا۔‏ سچ تو یہ ہے کہ ”‏ہمیشہ“‏ اور ”‏کبھی نہیں“‏ جیسے الفاظ استعمال کرنے سے آپ بات کو بڑھاچڑھا کر بیان کر رہے ہیں اور آپ کے بچے کو بھی اِس بات کا علم ہے۔‏ وہ جانتا ہے کہ آپ ایسے بیانات سے اُس پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔‏

بجائے اپنے بچے پر یہ الزام لگانے کے کہ ”‏تُم نے فلاں کام نہیں کِیا“‏ اُسے بتائیں کہ اُس کی نافرمانی کے نتیجے میں آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔‏ مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ”‏جب تُم فلاں کام نہیں کرتے ہو تو مجھ پر بوجھ بڑھ جاتا ہے اور مجھے دُکھ ہوتا ہے۔‏“‏ یقین کریں کہ آپ کے نوجوان بیٹے یا بیٹی کو آپ کے احساسات کی فکر ہے۔‏ جب آپ اُس کو بتاتے ہیں کہ اُس کی حرکت کا آپ پر کیا اثر ہوا ہے تو اِس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ آپ کے ساتھ تعاون کرے گا۔‏

جب تک آپ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہو جائے اپنے بچے کے ساتھ مسئلے پر بات نہ کریں۔‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۹‏)‏ شاید مسئلہ اِس لئے کھڑا ہوا ہے کہ بچے نے وہ کام نہیں کئے جو اُس کے ذمے ہیں۔‏ اِس صورت میں اُسے ایک پرچی پر لکھ کر دیں کہ اُس کو کونسے کام کرنے ہیں۔‏ اگر ضرورت پڑے تو اُسے بتائیں کہ اگر وہ آپ کا کہنا نہیں مانے گا تو اِس کے کیا نتائج ہوں گے۔‏ چاہے آپ اُس سے اتفاق کرتے ہوں یا نہیں اپنے نوجوان بیٹے یا بیٹی کی بات سننے کو تیار ہوں۔‏ تقریر جھاڑنے کی بجائے اگر آپ اپنے بچے کی بات کو سنیں گے تو اِس کا زیادہ امکان ہے کہ وہ آپ کا کہنا مانے گا۔‏

جب آپ کا نوجوان بیٹا یا بیٹی آپ سے بحث کرتا ہے تو یہ نہ سوچیں کہ وہ بگڑ گیا ہے۔‏ اِس عمر میں یہ نوجوانوں کا فطری عمل ہوتا ہے جس سے وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب وہ بڑے ہو رہے ہیں۔‏ اِس لئے اگر آپ کا بچہ آپ کو غصہ دلائے بھی تو اُس کے ساتھ بحث میں پڑنے سے گریز کریں۔‏ اگر آپ اُس کے ساتھ صبروتحمل سے پیش آئیں گے تو وہ آپ کی اچھی مثال سے سیکھے گا۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر]‏

جب آپ اپنے والدین کے ساتھ بحث‌وتکرار کرتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ آپ کسی جگہ پر پہنچنے کے لئے ورزش کی مشین پر دوڑنے لگیں۔‏ چاہے آپ کتنی ہی کوشش کر لیں آپ کو منزل حاصل نہیں ہوگی