مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

چمپانزی—‏جنگل کا شرارتی باسی

چمپانزی—‏جنگل کا شرارتی باسی

چمپانزی‏—‏جنگل کا شرارتی باسی

ہم افریقہ کے ایک جنگل میں گھوم رہے تھے۔‏ ہمارے اِردگِرد اُونچے اُونچے درخت تھے جن میں سے کئی ۵۵ میٹر [‏۱۸۰ فٹ]‏ بلند تھے۔‏ درختوں کی شاخوں اور پتوں سے سورج کی روشنی چھن‌چھن کر آ رہی تھی۔‏ کہیں دُور سے جھینگروں کی آواز آ رہی تھی۔‏ اچانک ہمیں ہُو ہُو اور تیز سانسوں کی آواز سنائی دی۔‏ یہ آوازیں اُونچی ہوتی گئیں اور پھر اچانک بند ہو گئیں۔‏ آخرکار ہمیں چمپانزیوں کا ایک گروہ مل ہی گیا تھا۔‏

چمپانزی ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کے لئے ہُو ہُو کی آوازیں نکالتے ہیں،‏ چیختےچلاتے ہیں اور کبھی‌کبھار درختوں کے تنے بجاتے ہیں۔‏ ہم نے جو آوازیں سنی تھیں اُن کی وجہ یہ تھی کہ کچھ چمپانزیوں کو انجیر کے درخت نظر آئے تھے اور وہ اپنے ساتھیوں کو اِن کے بارے میں بتانا چاہ رہے تھے۔‏ جب ہم نے سر اُٹھا کر اُوپر دیکھا تو ہمیں ایک انجیر کے درخت پر ۲۰ یا ۳۰ چمپانزی مزے سے انجیر کھاتے نظر آئے۔‏ سورج کی روشنی میں اُن کے کالےکالے بال چمک رہے تھے۔‏ ایک چمپانزی نے ہماری طرف ایک ٹہنی پھینکی۔‏ اُس کو دیکھ کر باقی چمپانزیوں نے بھی ہم پر ٹہنیوں کی بوچھاڑ کر دی۔‏ وہ اپنے انجیر ہمیں دینے کو تیار نہیں تھے۔‏

چمپانزی عام طور پر پھلوں کے موسم میں زیادہ آسانی سے دکھائی دیتے ہیں۔‏ دوسرے موسموں میں وہ مشکل سے نظر آتے ہیں کیونکہ اِس دوران وہ چھوٹےچھوٹے گروہوں میں مختلف جگہوں پر رہتے ہیں۔‏ جنگلوں میں رہنے والے چمپانزی کھانے کی تلاش میں دن‌بھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔‏ وہ سارا دن کچھ نہ کچھ کھاتے رہتے ہیں۔‏ پھلوں کے علاوہ وہ پرندوں کے انڈے،‏ پتے،‏ بیج،‏ تنے،‏ چیونٹیاں اور دیمک کھاتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ کبھی‌کبھار چھوٹے جانوروں اور بندروں کو مار کر بھی کھاتے ہیں۔‏

بارہ بجنے والے تھے اور دھوپ تیز ہوتی جا رہی تھی۔‏ اِس لئے چمپانزی ایک ایک کرکے درخت سے نیچے اُتر کر جھاڑیوں میں جانے لگے۔‏ ایک شرارتی چمپانزی ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جھولتے ہوئے ہمیں قریب سے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔‏ اِس چھوٹے چمپانزی کی شرارت اور تجسّس کو دیکھ کر ہم سب مسکرانے لگے۔‏

چمپانزیوں کی چند دلچسپ خصوصیات

جب ہم واپس جا رہے تھے تو ہمارے گروہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ ”‏ذرا پیچھے مڑ کر دیکھو۔‏“‏ ہم نے دیکھا کہ ایک چمپانزی چوری چوری ہمیں دیکھ رہا ہے۔‏ وہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا تھا اور تقریباً ایک میٹر [‏چار فٹ]‏ لمبا تھا۔‏ جب ہم نے اُسے دیکھا تو وہ درخت کے پیچھے چھپ گیا اور کچھ لمحوں بعد پھر سے ہمیں دیکھنے لگا۔‏ ہمیں اُس کی یہ حرکتیں بڑی اچھی لگیں۔‏ چمپانزی اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر صرف تھوڑی دیر کے لئے چل سکتا ہے۔‏ زیادہ‌تر وقت وہ چلنےپھرنے کے لئے اپنے بازو اور ٹانگیں دونوں استعمال کرتا ہے۔‏ انسان کے برعکس چمپانزی کی ریڑھ کی ہڈی کا نچلا حصہ سیدھا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر تک سیدھا کھڑا نہیں رہ سکتا۔‏ چمپانزی کی پیٹھ کے نیچے والے حصے کے پٹھے زیادہ مضبوط نہیں ہوتے اور اُس کے بازو اُس کی ٹانگوں سے زیادہ لمبے اور مضبوط ہوتے ہیں۔‏ اِس وجہ سے وہ عموماً اپنے بازوؤں اور ٹانگوں پر چلتا پھرتا ہے اور شاخوں پر جھولتا ہے۔‏

جب چمپانزی ایسی شاخوں پر پھل دیکھتے ہیں جو اُن کا وزن برداشت نہیں کر سکتیں تو وہ پھل توڑنے کے لئے اپنے لمبے بازوؤں کو استعمال کرتے ہیں۔‏ اُن کے ہاتھوں اور پاؤں کی بناوٹ ایسی ہے کہ وہ شاخوں کو مضبوطی سے پکڑ سکتے ہیں۔‏ چمپانزی اپنے پاؤں کے انگوٹھے کی مدد سے درختوں پر چڑھ سکتے ہیں اور پاؤں کے ساتھ مختلف چیزوں کو بڑی آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔‏ اُن کے ہاتھوں اور پاؤں کی یہ بناوٹ اُس وقت بھی کام آتی ہے جب وہ شام کے وقت اپنے گھونسلے تیار کرتے ہیں۔‏ کچھ منٹ تک وہ درختوں کی شاخوں اور پتوں کو سنوارتے ہیں اور یوں اپنے لئے ایک آرام‌دہ بستر بنا لیتے ہیں۔‏

یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ چمپانزیوں اور انسانوں کی بناوٹ اور رویوں میں مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔‏ لیکن کئی لوگ چمپانزیوں میں محض اِس لئے دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انسان چمپانزیوں کی ارتقائی شکل ہیں۔‏ اِس نظریے کی وجہ سے کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ انسان اور چمپانزی کس حد تک ایک دوسرے سے فرق ہیں؟‏ جانوروں کے برعکس انسان کس لحاظ سے ”‏خدا کی صورت پر“‏ بنائے گئے ہیں؟‏—‏پیدایش ۱:‏۲۷‏۔‏

ایک یادگار سیر

جنگل میں چمپانزی عام طور پر انسانوں کو دیکھ کر چھپ جاتے ہیں۔‏ لیکن چونکہ چمپانزی ناپید ہونے کے خطرے میں ہیں اِس لئے سائنس‌دان اُن کی نسل کو بچانے کے لئے اُن کے کچھ گروہوں کو انسانوں کے عادی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏

حالانکہ ہم نے جنگل میں چمپانزیوں کو بس تھوڑی دیر کے لئے ہی دیکھا تھا لیکن یہ ہماری زندگی کا ایک یادگار واقعہ ہے۔‏ جنگل میں چمپانزیوں کو دیکھ کر ہم کسی حد تک یہ جان گئے کہ وہ اصل میں کیسے ہوتے ہیں۔‏ اُن کی زندگی چڑیاگھر یا لیبارٹری میں رہنے والے چمپانزیوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔‏ چمپانزی اُن ’‏جنگلی جانوروں‘‏ میں سے ہیں جنہیں دیکھ کر خدا نے کہا تھا کہ اچھا ہے۔‏ واقعی خدا نے چمپانزیوں کو ایسی خصوصیات کے ساتھ خلق کِیا ہے جو جنگل میں رہنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔‏—‏پیدایش ۱:‏۲۴،‏ ۲۵‏۔‏

‏[‏صفحہ ۱۴،‏ ۱۵ پر بکس/‏تصویر]‏

چمپانزی اور انسان

جین گوڈل ایک مشہور ماہرِحیوانیات ہیں۔‏ اُنہوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ”‏جب ۱۹۶۰ کے دہے میں مَیں نے یہ دریافت کِیا کہ چمپانزی انسانوں کی طرح اوزار بناتے ہیں تو کچھ سائنس‌دانوں نے سوچا کہ اُنہیں نئے سرے سے اِس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ انسان کس لحاظ سے جانوروں سے فرق ہیں۔‏“‏ (‏انسان کے سایے میں،‏ انگریزی میں دستیاب۔‏)‏ چمپانزی پتوں کو سپنج کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور پتھروں اور شاخوں کے ذریعے گری‌دار میوؤں کو توڑتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ وہ پتلی پتلی ٹہنیوں سے پتے اُتارتے ہیں اور پھر اِن ٹہنیوں کو چھوٹےچھوٹے ٹیلوں کے اندر گھسا کر دیمک کا شکار کرتے ہیں۔‏ چمپانزیوں کا اِس طرح سے اوزار بنانا واقعی حیران‌کُن ہے۔‏ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کئی دوسرے جانور بھی اوزار بنا سکتے ہیں۔‏ مصنف ڈاکٹر باربر نے بیان کِیا:‏ ”‏جن جانوروں پر اب تک تحقیق کی گئی ہے اِن سب میں ایک حد تک ذہانت پائی جاتی ہے۔‏ اِن میں نہ صرف ڈولفن اور بندر بلکہ چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں بھی شامل ہیں۔‏“‏

لیکن اِن باتوں سے یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ انسان سب جانداروں سے منفرد ہیں۔‏ اِس سلسلے میں پروفیسر ڈیوڈ پری‌میک نے لکھا:‏ ”‏انسان جو زبانیں بولتے ہیں اِن کی ساخت اور اِن کے قواعد دوسرے جانداروں کی زبانوں سے اعلیٰ ہیں۔‏“‏ جی‌ہاں،‏ انسانوں کی زبان اور اُن کی تہذیب اُن کو دوسرے جانداروں سے منفرد بناتی ہے۔‏

جین گوڈل نے کئی سال تک جنگلوں میں رہنے والے چمپانزیوں پر تحقیق کی ہے۔‏ اُنہوں نے لکھا:‏ ”‏انسان ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں،‏ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں،‏ ایک دوسرے کا لحاظ رکھتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ شفقت اور رحم‌دلی سے پیش آتے ہیں۔‏ لیکن چمپانزیوں کے سلسلے میں یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اِن خوبیوں کو اِس حد تک ظاہر کریں جیسے انسان کرتے ہیں۔‏“‏ اُنہوں نے یہ بھی لکھا:‏ ”‏انسان کو نہ صرف اِس بات کا احساس ہے کہ وہ ایک زندہ مخلوق ہے بلکہ وہ اپنے بارے میں،‏ اپنے اِردگِرد کی دُنیا کے بارے میں اور کائنات کے بارے میں جاننے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔‏“‏

خدا کا کلام انسانوں اور جانوروں کے درمیان ایک اہم فرق کو بیان کرتا ہے۔‏ اِس میں لکھا ہے کہ انسان ”‏خدا کی صورت پر“‏ بنائے گئے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۱:‏۲۷‏)‏ جانوروں کے برعکس انسان خدا کی صفات کی عکاسی کر سکتا ہے۔‏ اِن صفات میں محبت سب سے نمایاں ہے۔‏ انسان زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کے قابل ہے اور وہ جانوروں سے زیادہ عقلمند بھی ہے۔‏ جانور جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ اپنی فطرت کے مطابق کرتے ہیں جبکہ انسان کو یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی گئی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کونسی راہ اختیار کرے گا۔‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

چمپانزی فطری طور پر شرارتی اور متجسس ہوتے ہیں

‏[‏تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

‏;Jane Goodall: © Martin Engelmann/age fotostock lower left and right: SuperStock RF/SuperStock; Chimpanzees, top right: Corbis/Punchstock/Getty Images

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر کا حوالہ]‏

Photononstop/SuperStock ©