مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہکلانے کے مرض کی وجوہات اور علاج

ہکلانے کے مرض کی وجوہات اور علاج

ہکلانے کے مرض کی وجوہات اور علاج

‏”‏جب مَیں ہکلانے لگتا ہوں تو مَیں اتنا پریشان ہو جاتا ہوں کہ مَیں اَور زیادہ ہکلاتا ہوں۔‏ مجھے یوں لگتا ہے کہ مَیں کسی دلدل میں دھنستا جا رہا ہوں۔‏ ایک بار مَیں نے ماہِرنفسیات سے مشورہ لیا۔‏ اُس نے کہا کہ مجھے کسی لڑکی سے افیر چلانا چاہئے تاکہ مجھ میں اعتماد بڑھ جائے۔‏ ظاہر ہے کہ مَیں نے اُس کے مشورے پر عمل نہیں کِیا۔‏ مَیں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے اِسی طرح پسند کریں جیسا مَیں ہوں۔‏“‏—‏رفائیل،‏ عمر ۳۲ سال۔‏

ذراہکلانے والوں کی مشکل کا تصور کریں۔‏ کسی چیز کی قیمت پوچھتے وقت اُن کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں اور بولتے وقت وہ اکثر پہلے ہی لفظ پر اٹک جاتے ہیں۔‏ کیا آپ اُن کی پریشانی کو سمجھ سکتے ہیں؟‏ دراصل دُنیا میں ۶ کروڑ لوگ ہکلاتے ہیں یعنی ۱۰۰ میں سے ایک شخص۔‏ * اکثر اِن لوگوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے اور اِن سے تعصب برتتا جاتا ہے۔‏ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہکلانے والے اشخاص ذہین نہیں ہوتے کیونکہ وہ مشکل الفاظ کی بجائے ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جنہیں وہ آسانی سے بول سکتے ہیں۔‏

ہکلا کر بولنے کے مرض کی کیا وجوہات ہیں؟‏ کیا اِس کا علاج کِیا جا سکتا ہے؟‏ ہکلا کر بولنے والا اپنی حالت میں بہتری لانے کے لئے کیا کر سکتا ہے؟‏ دوسرے لوگ اُس کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟‏

ہکلاہٹ کی وجوہات کیا ہیں؟‏

قدیم زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ ہکلانے والوں پر جنِ‌بھوت کا سایہ ہے۔‏ اِس لئے وہ جنِ‌بھوت کو نکالنے کے لئے عمل کرتے تھے۔‏ پھر لوگ خیال کرنے لگے کہ اِس بیماری کی اصل وجہ زبان میں کوئی نہ کوئی نقص ہے۔‏ اِس وجہ سے وہ اِس کا علاج زبان پر گرم لوہا اور مرچیں لگانے سے کرتے تھے۔‏ وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ ڈاکٹروں نے علاج کے نئے طریقے آزمائے،‏ مثلاً وہ زبان کے اعصاب اور پٹھوں کو کاٹ دیتے تھے یا پھر گلے کی گلٹی کو نکال دیتے تھے۔‏ لیکن اِن طریقۂ‌علاج میں سے کوئی مؤثر نہیں تھا۔‏

جدید تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ہکلاہٹ کی صرف ایک وجہ نہیں بلکہ مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔‏ مثال کے طور پر کئی لوگ ٹینشن لینے کی وجہ سے ہکلاتے ہیں۔‏ اِس بیماری کو موروثی بیماری بھی قرار دیا گیا ہے کیونکہ تقریباً ۶۰ فیصد ہکلانے والوں کے کچھ قریبی رشتہ‌دار بھی ہکلاتے ہیں۔‏ اِس کے علاوہ تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ اِس بیماری میں مبتلا لوگوں کا دماغ اُن کے بات کرنے کے اعضا سے صحیح طور پر رابطہ نہیں کرتا ہے۔‏ ڈاکٹر ناتھن لاوید ہکلانے کے مرض کے بارے میں اپنی کتاب میں کہتے ہیں کہ عام طور پر دماغ بولنے کے اعضا کو الفاظ کی ادائیگی کے سلسلے میں بڑی تیزی سے ہدایات دیتا ہے۔‏ لیکن ہکلانے والے لوگ ”‏جب بولنا شروع کرتے ہیں تو اُن کا دماغ یہ ہدایات کچھ وقفے کے بعد دیتا ہے۔‏“‏ *

ہکلانے کی بیماری کو نفسیاتی بیماری سمجھا جاتا تھا لیکن دراصل ایسا نہیں ہے۔‏ ہکلاہٹ کے طریقۂ‌علاج * نامی کتاب میں لکھا ہے:‏ ”‏چونکہ یہ نفسیاتی بیماری نہیں ہے اِس لئے اِس کا علاج محض یہ نہیں کہ ہکلانے والے کو یقین دلایا جائے کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔‏“‏ البتہ ہکلانے والے لوگ اکثر اپنی بیماری کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہ فون پر یا پھر لوگوں کے سامنے بات کرنے سے گھبراتے ہیں۔‏

ہکلاہٹ کے طریقۂ‌علاج

دلچسپی کی بات ہے کہ ہکلانے والے لوگ عموماً اُس وقت بولنے میں دقت محسوس نہیں کرتے جب وہ گانا گاتے ہیں،‏ کھسرپھسر کرتے ہیں،‏ پالتو جانوروں سے بات کرتے ہیں،‏ خودکلامی کرتے ہیں،‏ دوسروں کی نقل اُتارتے ہیں یا دوسروں کے ساتھ مل کر ایک بات کو دہراتے ہیں۔‏ ہکلانے والے چھوٹے بچوں میں ۸۰ فیصد کی زبان علاج کے بغیر صاف ہو جاتی ہے جبکہ ۲۰ فیصد بچوں کا علاج کروانا پڑتا ہے۔‏ اِن بچوں کی حالت میں کس حد تک بہتری آ سکتی ہے؟‏

آجکل جدید طریقۂ‌علاج سے ہکلاہٹ کے مرض میں بہتری آ سکتی ہے۔‏ مثال کے طور پر مریضوں کو پیٹ سے سانس لینا اور جبڑوں،‏ ہونٹوں اور زبان کے تناؤ کو ختم کرنا سکھایا جاتا ہے۔‏ اُنہیں بولنے سے پہلے پیٹ سے ہلکے سانس لینا اور پھر تھوڑی سانس نکال کر لفظ ادا کرنا بھی سکھایا جاتا ہے۔‏ اِس کے علاوہ اُن کو چند حروف کو لمبا کرکے بولنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔‏ جوں‌جوں مریض کی بولنے کی صلاحیت میں بہتری آتی ہے،‏ لفظوں کی ادائیگی میں بھی روانی آ جاتی ہے۔‏

زبان میں بہتری لانے کے اِن طریقوں کو چند ہی گھنٹوں میں سیکھا جا سکتا ہے۔‏ لیکن ٹینشن لیتے وقت اِنہیں عمل میں لانا آسان نہیں ہوتا۔‏ اِس سلسلے میں بڑی کوشش درکار ہے۔‏

ہکلاہٹ کا علاج کس عمر میں شروع کرنا چاہئے؟‏ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ جو بچے پانچ سال کے اندر اندر بذاتِ‌خود ٹھیک نہیں ہوتے اُن میں سے صرف ۲۰ فیصد اِس کے بعد علاج کے بغیر ٹھیک ہوتے ہیں۔‏ کتاب ہکلاہٹ کے طریقۂ‌علاج میں بتایا گیا ہے کہ ”‏جب ہکلانے والا بچہ چھ سال کا ہو جاتا ہے تو اِس کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ اُس کی زبان علاج کے بغیر صاف ہو جائے گی۔‏“‏ اِس لئے کتاب میں آگے مشورہ دیا گیا ہے کہ ”‏ہکلانے والے بچوں کا علاج جلدازجلد شروع کروانا چاہئے۔‏“‏ جن بچوں کی زبان بذاتِ‌خود صاف نہیں ہوتی،‏ اِن میں سے ۶۰ تا ۸۰ فیصد کی زبان میں علاج کروانے پر بہتری آ جاتی ہے۔‏ *

اپنی کوششیں جاری رکھیں

ہکلاہٹ کا علاج کرنے والے ڈاکٹر رابرٹ کیسال خود بھی اِس مرض کا شکار ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں کہ ہمیشہ اور ہر صورتحال میں ہکلائے بغیر بولنا زیادہ‌تر مریضوں کی پہنچ میں نہیں ہے۔‏ رفائیل جن کا ذکر مضمون کے شروع میں ہوا ہے،‏ وہ ابھی بھی وقتاًفوقتاً ہکلاتے ہیں لیکن اُن کی زبان کافی حد تک صاف ہو گئی ہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏عام طور پر مَیں اُس وقت ہکلانے لگتا ہوں جب مجھے لوگوں کے سامنے پڑھنا یا تقریر پیش کرنی پڑتی ہے یا پھر جب مَیں کسی خوبصورت لڑکی سے بات کرتا ہوں۔‏ ماضی میں جب بھی مَیں ہکلانے لگتا تھا تو مجھے بڑی شرمندگی ہوتی تھی کیونکہ لوگ میرا مذاق اُڑاتے تھے۔‏ لیکن اب میری کوشش ہے کہ مَیں نہ تو خود کو کم‌تر خیال کروں اور نہ ہی اپنی بیماری پر حد سے زیادہ توجہ دوں۔‏ جب مَیں ہکلانے لگتا ہوں تو مَیں زیادہ پریشان نہیں ہوتا بلکہ خود بھی ہنسنے لگتا ہوں اور پھر اپنی بات کو جاری رکھتا ہوں۔‏“‏

رفائیل نے جو بات کہی تھی،‏ اِس کی تصدیق ہکلانے والوں کی مدد کرنے والے ایک امریکی ادارے نے یوں کی:‏ ”‏ہکلاہٹ پر قابو پانے کی کوشش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی بہت اہم ہے کہ مریض ایسی صورتحال سے نہ گھبرائے جن میں وہ شاید ہکلانے لگے۔‏“‏

بہت سے لوگ جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں،‏ اِس بیماری کے باوجود کامیاب زندگی گزار رہے ہیں۔‏ یہاں تک کہ ہکلانے والے لوگوں میں سے بعض نے شہرت بھی حاصل کی ہے۔‏ اِن میں سائنس‌دان سر آئزک نیوٹن،‏ سابقہ برطانوی وزیرِاعظم ونسٹن چرچل اور امریکی اداکار جیمز سٹورٹ بھی شامل ہیں۔‏ کئی ہکلانے والے لوگوں نے ایسی مہارتیں حاصل کی ہیں جن میں بولنے کی ضرورت نہیں ہوتی،‏ مثلاً کوئی ساز بجانا،‏ مصوری کرنا،‏ اشاروں کی زبان سیکھنا،‏ وغیرہ۔‏ اگر ہمیں ہکلاہٹ کی بیماری نہیں ہے تو ہمیں اُن لوگوں کی مشکل کو سمجھنا چاہئے جو اِس مرض میں مبتلا ہیں۔‏ ہمیں اُن کی کوششوں کی قدر کرنی چاہئے اور اُن کی حوصلہ‌افزائی بھی کرنی چاہئے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 3 ہکلانے والے لوگوں میں ۸۰ فیصد جنسِ‌نر کے ہوتے ہیں۔‏

^ پیراگراف 7 ہکلاہٹ کی وجوہات اور اِس کے علاج کے سلسلے میں بہت سی مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔‏ جاگو!‏ میں کسی قسم کے علاج کی سفارش نہیں کی جاتی۔‏

^ پیراگراف 8 انگریزی میں دستیاب۔‏

^ پیراگراف 13 کبھی‌کبھار ڈاکٹر ایسے آلات استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جن کے ذریعے مریض بولتے وقت اپنی آواز تھوڑے وقفے کے بعد سنتا ہے یا پھر وہ مریض کو ٹینشن کم کرنے کے لئے دوائی دیتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۱۹ پر بکس/‏تصویر]‏

کسی ہکلانے والے شخص سے بات کرتے وقت .‏ .‏ .‏

اُسے یہ تاثر نہ دیں کہ آپ جلدی میں ہیں۔‏ زندگی کی بھاگدوڑ اور مصروفیت کی وجہ سے ہکلانے والوں پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔‏

تیزی سے بات نہ کریں۔‏ اُس کی بات کو غور سے سنیں۔‏ نہ تو اُس کی بات کاٹیں اور نہ ہی اُس کے جملے مکمل کریں۔‏ تھوڑا سا وقفہ دے کر جواب دیں۔‏

اُس کی تنقید یا دُرستی نہ کریں۔‏ اُس کی طرف متوجہ رہیں۔‏ اپنے اشاروں،‏ چہرے کے تاثرات اور باتوں سے ظاہر کریں کہ آپ کا دھیان اُس کی بات پر ہے نہ کہ اُس کے بات کرنے کے انداز پر۔‏

اُس کے سامنے ہکلانے کی بیماری کا ذکر کرنے سے نہ ہچکچائیں۔‏ اگر آپ مسکرا کر کچھ یوں کہیں کہ ”‏پریشان نہ ہوں۔‏ ہم سب کو بات کرتے وقت کبھی‌کبھار دقت پیش آتی ہے“‏ تو اُس کی گھبراہٹ کم ہو جائے گی۔‏

اُسے اِس بات کا یقین دلائیں کہ آپ اُسے کم‌تر خیال نہیں کرتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۰ پر بکس/‏تصویر]‏

‏”‏آہستہ‌آہستہ میری زبان صاف ہوتی گئی“‏

جب وِکٹر کے گھروالوں کو بڑے مسائل کا سامنا تھا تو وہ ٹینشن لینے لگے۔‏ اِس کے نتیجے میں وہ ہکلانے لگے۔‏ لیکن وہ علاج کروائے بغیر ٹھیک ہو گئے۔‏ وِکٹر یہوواہ کے ایک گواہ ہیں اور مسیحی خدمتی سکول میں حصہ لیتے ہیں جو یہوواہ کے گواہوں کی تمام کلیسیاؤں میں ہفتہ‌وار منعقد کِیا جاتا ہے۔‏ اِس سکول میں تقریریں پیش کرنا اور لوگوں کے سامنے اعتماد سے بولنا سکھایا جاتا ہے۔‏ اِن مہارتوں کو حاصل کرنے سے ہکلانے والے لوگ بھی اپنی بولنے کی صلاحیت میں بہتری لا سکتے ہیں۔‏

مسیحی خدمتی سکول میں جو درسی کتاب استعمال کی جاتی ہے اِس میں ہکلانے کی بیماری سے نپٹنے کے لئے یہ تجاویز دی گئی ہیں:‏ ”‏اپنی بولنے کی صلاحیت میں بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں۔‏ .‏ .‏ .‏ تقریر پیش کرنے سے پہلے اچھی طرح سے تیاری کریں۔‏ تقریر پیش کرتے وقت بولنے کے انداز پر زیادہ توجہ نہ دیں بلکہ اِس بات پر دھیان دیں کہ آپ لوگوں کو کیا بتانا چاہتے ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ اگر آپ تقریر کے دوران ہکلانے لگیں تو ٹینشن نہ لیں اور کوشش کریں کہ آپ کے جبڑوں اور آواز میں تناؤ پیدا نہ ہو۔‏ چھوٹےچھوٹے جملے استعمال کریں اور روانی کو برقرار رکھنے کے لئے جملوں کے بیچ میں ’‏جو ہے‘‏ یا ’‏ہے نا‘‏ جیسی اصطلاحیں استعمال نہ کریں۔‏“‏‏—‏بینیفٹ فرام تھیوکریٹک منسٹری سکول ایجوکیشن۔‏

وِکٹر کو مسیحی خدمتی سکول سے کیا فائدہ ہوا؟‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں تقریر پیش کرنے کے انداز پر توجہ دینے کی بجائے اِس بات پر زیادہ دھیان دینے لگا کہ مَیں لوگوں کو کیا بتانا چاہتا ہوں۔‏ اِس طرح مجھے تقریر کے دوران یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ مَیں ہکلاتا ہوں۔‏ اِس کے علاوہ مَیں تقریر کی باربار مشق کرتا تھا۔‏ آہستہ‌آہستہ میری زبان صاف ہوتی گئی۔‏“‏