مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہیپاٹائٹس بی—‏چپکے سے حملہ کرنے والا وائرس

ہیپاٹائٹس بی—‏چپکے سے حملہ کرنے والا وائرس

ہیپاٹائٹس بی‏—‏چپکے سے حملہ کرنے والا وائرس

‏”‏مَیں ۲۷ سال کا تھا اور میری نئی‌نئی شادی ہوئی تھی۔‏ ملازمت کی جگہ پر مجھ سے بہت سی توقعات کی جا رہی تھیں۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا میں میری بڑی ذمہ‌داریاں تھیں۔‏ دیکھنے میں تو مَیں صحت‌مند لگتا تھا لیکن دراصل ہیپاٹائٹس بی کا وائرس میرے جگر کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔‏“‏—‏ڈُک‌یون۔‏

جگر خون کو صاف کرنے کے ساتھ‌ساتھ جسم میں تقریباً ۵۰۰ دوسرے اہم کام بھی انجام دیتا ہے۔‏ اِس وجہ سے جگر کی سوجن سے انسان کی صحت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔‏ جگر کی سوجن کو ہیپاٹائٹس کہتے ہیں۔‏ ہیپاٹائٹس کی بیماری حد سے زیادہ شراب پینے سے یا پھر مختلف قسم کے زہر سے لگ سکتی ہے۔‏ لیکن عام طور پر یہ بیماری وائرس کے ذریعے لگتی ہے۔‏ سائنس‌دانوں نے پانچ ایسے وائرس دریافت کئے ہیں جن سے یہ بیماری لگ سکتی ہے اور اُن کا خیال ہے کہ مزید تین وائرس موجود ہیں جو اِس بیماری کا سبب بن سکتے ہیں۔‏—‏ نیچے دئے گئے بکس کو دیکھیں‏۔‏

اِن پانچ وائرس میں سے ایک کا نام ہیپاٹائٹس بی ہے۔‏ اِس سے ہر سال تقریباً ۶ لاکھ لوگ مرتے ہیں۔‏ یہ تقریباً اتنے ہی لوگ ہیں جتنے کہ ہر سال ملیریا کی وجہ سے مرتے ہیں۔‏ دُنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی دو ارب سے زیادہ لوگ اِس بیماری کا شکار ہوئے ہیں لیکن اِن میں سے زیادہ‌تر کچھ مہینوں کے اندراندر صحت‌یاب ہو گئے۔‏ البتہ ۳۵ کروڑ لوگ مستقل طور پر اِس مرض میں مبتلا رہے ہیں۔‏ چاہے اُن میں اِس مرض کی علامات ظاہر ہوں یا نہیں،‏ یہ خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ دوسرے لوگوں کو اُن سے یہ بیماری لگ جائے۔‏ *

جو لوگ مستقل طور پر اِس بیماری کا شکار ہیں،‏ اُن کو جلدازجلد اپنا علاج کروانا چاہئے تاکہ اُن کے جگر کو مزید نقصان نہ پہنچے۔‏ لیکن زیادہ‌تر لوگوں کو اِس بات کا پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اُنہیں ہیپاٹائٹس کی بیماری لگ گئی ہے کیونکہ اِس بیماری کی تشخیص خون کے ایک خاص ٹیسٹ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔‏ یہاں تک کہ اکثر جگر کے عام ٹیسٹوں کے ذریعے بھی اِس بیماری کا پتہ نہیں چلتا۔‏ اکثر اِس بیماری کی علامات کئی سال بعد ہی ظاہر ہوتی ہیں۔‏ اُس وقت تک جگر بڑی حد تک گل چُکا ہوتا ہے یا پھر جگر کا کینسر ہو گیا ہوتا ہے۔‏ اِس وجہ سے ہیپاٹائٹس بی کے چار مریضوں میں سے ایک مر جاتا ہے۔‏ لہٰذا ہیپاٹائٹس بی کا وائرس بڑی خاموشی سے انسان کے جگر پر حملہ کرتا ہے اور بعد میں سانپ کی طرح ڈستا ہے۔‏

ہیپاٹائٹس بی کا وائرس کیسے لگ جاتا ہے؟‏

ڈُک‌یون کہتے ہیں:‏ ”‏جب مَیں ۳۰ سال کا تھا تو مجھے پیچش لگ گئی۔‏ مَیں نے ڈاکٹر سے علاج کروایا لیکن اِس سے میری حالت میں بہتری نہیں آئی۔‏ پھر مَیں نے ایک حکیم سے علاج کروایا جس نے مجھے پیٹ اور انتڑیوں کی دوائی دی،‏ پر اِس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔‏ * اِس لئے مَیں دوبارہ سے پہلے والے ڈاکٹر کے پاس گیا۔‏ جب اُس نے میرے پیٹ کی دائیں طرف دبایا تو مجھے درد ہوا۔‏ اِس پر ڈاکٹر نے میرے خون کا ٹیسٹ کروایا جس سے پتہ چلا کہ مجھے ہیپاٹائٹس بی ہے۔‏ یہ سُن کر مجھے سخت دھچکا لگا کیونکہ مَیں نے تو کبھی خون نہیں چڑھوایا تھا اور نہ ہی اپنی بیوی سے بےوفائی کی تھی۔‏“‏

جب ڈُک‌یون کو پتہ چلا کہ اُن کو ہیپاٹائٹس بی ہے تو اُن کی بیوی،‏ اُن کے والدین اور اُن کے بہن‌بھائیوں نے بھی خون کا ٹیسٹ کروایا۔‏ اِس ٹیسٹ سے ظاہر ہوا کہ اُن سب کے جسم میں بھی ہیپاٹائٹس بی کا وائرس داخل ہوا تھا لیکن اُن کے نظامِ‌دفاع نے اِسے ختم کر دیا تھا۔‏ کیا ڈُک‌یون کو اُن میں سے کسی ایک سے یہ بیماری لگی تھی؟‏ یا پھر کیا اُن سب کے جسم میں یہ وائرس کسی اَور ذریعے سے داخل ہوا تھا؟‏ اِس بات کو دریافت کرنا مشکل ہے۔‏ ہیپاٹائٹس بی کے تقریباً ۳۵ فیصد مریضوں کے بارے میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ اُنہیں یہ وائرس کیسے لگا۔‏ سائنس‌دانوں کے مطابق ہیپاٹائٹس بی نہ تو موروثی بیماری ہے اور نہ ہی چُھوت کی بیماری۔‏ ہیپاٹائٹس بی کا وائرس دراصل اِس بیماری میں مبتلا لوگوں کے خون اور مختلف اعضا کی رطوبتوں میں پایا جاتا ہے،‏ مثلاً جنسی اعضا سے نکلنے والے مادوں میں۔‏ جب یہ آلودہ خون اور رطوبتیں کسی خراش،‏ زخم یا پھر آنکھوں،‏ ناک،‏ مُنہ وغیرہ کے ذریعے کسی دوسرے شخص کے نظامِ‌خون میں داخل ہوتی ہیں تو اُس کو بھی ہیپاٹائٹس بی لگ سکتا ہے۔‏

ہیپاٹائٹس بی کا انفیکشن آلودہ خون چڑھوانے سے بھی ہو سکتا ہے۔‏ خاص طور پر ایسے ممالک میں بہت سے لوگ اِس بیماری کا شکار ہوتے ہیں جہاں خون کے عطیات کو ہیپاٹائٹس بی کی بیماری کے لئے ٹیسٹ نہیں کِیا جاتا۔‏ ایڈز کی نسبت ہیپاٹائٹس بی کے لگنے کا ۱۰۰ گُنا زیادہ امکان ہوتا ہے۔‏ ہیپاٹائٹس بی آلودہ خون کے چھوٹے سے قطرے سے بھی لگ سکتا ہے،‏ جیسے کہ بلیڈ یا اُسترے پر آلودہ خون کا قطرہ۔‏ یہاں تک کہ جمے ہوئے خون میں بھی ایک ہفتے تک ہیپاٹائٹس بی کا وائرس موجود رہتا ہے۔‏ *

ہیپاٹائٹس بی کے بارے میں غلط‌فہمیاں

ڈُک‌یون کہتے ہیں:‏ ”‏جب میرے مینیجر کو پتہ چلا کہ مجھے ہیپاٹائٹس بی ہے تو اُنہوں نے مجھے دوسروں سے الگ ایک چھوٹے سے آفس میں کام کرنے کو کہا۔‏“‏ ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں سے اکثر ایسا سلوک کِیا جاتا ہے کیونکہ لوگ صحیح طور پر نہیں سمجھتے کہ یہ وائرس کیسے پھیلتا ہے۔‏ یہاں تک کہ کئی پڑھےلکھے لوگوں کا بھی خیال ہے کہ ہیپاٹائٹس بی کا وائرس اِسی طرح سے پھیلتا ہے جیسے ہیپاٹائٹس اے کا وائرس،‏ جو آسانی سے لگتا ہے لیکن عام طور پر جان‌لیوا نہیں ہوتا۔‏ چونکہ ہیپاٹائٹس بی جنسی عمل کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اِس لئے جب کوئی اِس مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو بعض اوقات لوگ اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں اور اُس کے بارے میں باتیں بنانا شروع کر دیتے ہیں۔‏

اِن غلط‌فہمیوں کی وجہ سے بہت سے مسئلے کھڑے ہو جاتے ہیں۔‏ بہت سے ملکوں میں ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں سے بُرا سلوک کِیا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں ملازمت نہیں دی جاتی اور لوگ اُن سے دُوردُور رہتے ہیں۔‏ اگر بچے اِس مرض میں مبتلا ہیں تو اُن کو سکولوں میں داخلہ نہیں ملتا اور پڑوسی اُن کو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتے۔‏ چونکہ ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں سے تعصب برتا جاتا ہے اِس لئے اکثر لوگ اِس بیماری کا ٹیسٹ نہیں کراتے یا پھر اِس بات کو چھپاتے ہیں کہ وہ اِس مرض میں مبتلا ہیں۔‏ کئی لوگ تو اپنا علاج تک نہیں کراتے اور اپنے اور اپنے گھر والوں کی صحت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔‏ یوں یہ جان‌لیوا بیماری اُن کی کئی پُشتوں کو اپنے جال میں جکڑے رکھتی ہے۔‏

آرام کرنے کی اہمیت

ڈُک‌یون کہتے ہیں:‏ ”‏جب میری بیماری کا پتہ چلا تو ڈاکٹر نے مجھے مکمل طور پر آرام کرنے کے لئے کہا لیکن دو مہینوں کے بعد مَیں نے پھر سے کام پر جانا شروع کر دیا۔‏ مختلف ٹیسٹ کروانے سے مجھے پتہ چلا کہ میرا جگر بُری طرح متاثر نہیں ہے اِس لئے مَیں نے سوچا کہ مجھے اتنا آرام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏“‏ تین سال کے بعد ڈُک‌یون کی ٹرانسفر ایک بڑے شہر میں ہو گئی جہاں اُن پر کام کا دباؤ بڑھ گیا۔‏ اُنہیں گھر کے اخراجات پورے کرنے تھے اِس لئے اُنہوں نے ملازمت جاری رکھی۔‏

چند مہینوں کے اندراندر ڈُک‌یون کے خون میں وائرس کی تعداد بڑی حد تک بڑھ گئی اور وہ بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس کرنے لگے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے ملازمت چھوڑنی پڑی اور اب مَیں پچھتاتا ہوں کہ مَیں نے ڈاکٹر کی بات پر عمل کیوں نہیں کِیا۔‏ اگر مَیں پہلے ہی آرام کر لیتا تو میری بیماری اِس حد تک نہ بڑھتی۔‏“‏ ڈُک‌یون نے ایک اہم سبق سیکھا۔‏ وہ ایک ایسی ملازمت کرنے لگے جس میں اُنہیں کم گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور اُنہوں نے اپنے اخراجات بھی کم کر دئے۔‏ اِس سلسلے میں اُن کے گھر والوں نے اُن کا ساتھ دیا اور اُن کی بیوی گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لئے کچھ گھنٹے کام کرنے لگیں۔‏

ہمت نہ ہاریں

کچھ عرصے تک ڈُک‌یون کی صحت مزید نہیں بگڑی۔‏ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ‌ساتھ اُن کے جگر کی سوجن بڑھتی گئی اور اِس میں خون کی گردش کم ہوتی گئی جس کی وجہ سے اُن کا بی‌پی بڑھ گیا۔‏ پھر ۱۱ سال کے بعد اُن کی کھانے کی نالی میں ایک رگ پھٹ گئی اور اُن کے حلق سے خون بہنے لگا۔‏ اِس کی وجہ سے اُنہیں ایک ہفتے تک ہسپتال میں رہنا پڑا۔‏ اِس کے چار سال بعد وہ ذہنی اُلجھن کا شکار ہو گئے۔‏ اُن کا جگر خون میں سے امونیا کو صاف کرنے کے قابل نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے یہ اُن کے دماغ میں ذخیرہ ہو رہا تھا۔‏ البتہ علاج کروانے سے وہ چند ہی دنوں میں ٹھیک ہو گئے۔‏

اب ڈُک‌یون ۵۴ سال کے ہیں۔‏ اگر اُن کی حالت مزید بگڑ جائے گی تو اِس بات کا کم ہی امکان ہے کہ اُن کا علاج ہو سکے۔‏ دراصل وائرس کو ختم کرنے والی دوائیاں ہیپاٹائٹس بی کے وائرس کو جسم میں مکمل طور پر ختم نہیں کرتیں اور اکثر اِن سے بھی صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔‏ جب ایک شخص کا جگر بہت ہی زیادہ گل جاتا ہے تو اِس کا آخری علاج یہ ہوتا ہے کہ اُس کا آپریشن کرکے ایک نیا جگر پیوند کر دیا جائے۔‏ لیکن ایسے آپریشن کے لئے دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ جگر کا عطیہ دینے والے لوگوں کی نسبت اُن لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جن کو جگر کے عطیے کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ ڈُک‌یون کہتے ہیں:‏ ”‏مجھے لگتا ہے کہ میرے اندر ایک ایسا بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔‏ لیکن سارا وقت اِس کے بارے میں سوچنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‏ مَیں زندہ ہوں،‏ میرے بیوی بچے میرے ساتھ ہیں اور میری ضروریاتِ‌زندگی پوری ہو رہی ہیں۔‏ ایک طرح سے تو میری بیماری میرے اور میرے گھروالوں کے لئے فائدہ‌مند رہی ہے۔‏ پہلے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا تھا لیکن اب مَیں اپنے بیوی‌بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکتا ہوں۔‏ اِس کے علاوہ مجھے پاک صحیفوں کا مطالعہ کرنے کے لئے بھی کافی وقت ملتا ہے۔‏ ایسا کرنے سے میرے دل سے مرنے کا خوف مٹ گیا ہے اور مجھے اِس خیال سے بڑی تسلی ملتی ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے جب مَیں اپنی بیماری سے مکمل طور پر شفا پاؤں گا۔‏“‏ *

ڈُک‌یون نے اپنی بیماری کی وجہ سے ہمت نہیں ہاری۔‏ اِس لئے اُن کے بیوی بچے بھی خوش رہتے ہیں اور وہ سب مل کر کُل‌وقتی طور پر خدا کی خدمت کر رہے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 4 ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اگر مریض کا نظامِ‌دفاع ہیپاٹائٹس کے وائرس کو چھ مہینوں کے اندراندر ختم نہ کرے تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ اِس مرض میں مستقل طور پر مبتلا ہے۔‏

^ پیراگراف 7 جاگو!‏ میں کسی قسم کے علاج کی سفارش نہیں کی جاتی۔‏

^ پیراگراف 9 جن لوگوں کو ہیپاٹائٹس بی ہے،‏ اگر اُن کے خون کی چھینٹیں کہیں پڑ جائیں تو اِنہیں فوراً اچھی طرح سے صاف کرنا چاہئے۔‏ ایسا کرنے کے لئے ربڑ کے دستانے پہنیں اور دس حصے پانی اور ایک حصہ بلیچ کو ملا کر استعمال کریں۔‏

^ پیراگراف 18 اگر آپ اُس وقت کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں جب بیماریوں کا نام‌ونشان نہ رہے گا تو پاک صحیفوں میں مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴ کو پڑھیں اور کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کو دیکھیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر عبارت]‏

ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کو جلدازجلد اپنا علاج کروانا چاہئے تاکہ اُن کے جگر کو مزید نقصان نہ پہنچے

‏[‏صفحہ ۲۲ پر عبارت]‏

ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں سے اکثر تعصب برتا جاتا ہے اِس لئے بہت سے لوگ اِس بیماری کا ٹیسٹ نہیں کراتے یا پھر اِس بات کو چھپاتے ہیں کہ وہ اِس مرض میں مبتلا ہیں

‏[‏صفحہ ۲۰،‏ ۲۱ پر بکس]‏

 ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام

ہیپاٹائٹس کا مرض پانچ مختلف وائرس کے ذریعے لگتا ہے۔‏ اِن میں سے تین زیادہ عام ہیں اور اِنہیں ہیپاٹائٹس اے،‏ ہیپاٹائٹس بی اور ہیپاٹائٹس سی کا نام دیا گیا ہے۔‏ خیال کِیا جاتا ہے کہ اِن کے علاوہ اَور بھی وائرس موجود ہیں جن سے یہ مرض لگتا ہے۔‏ ہیپاٹائٹس کی علامات اکثر فلو کی علامات کی طرح ہوتی ہیں۔‏ جن لوگوں کو ہیپاٹائٹس ہوتا ہے،‏ اُن کو اکثر پیلیا بھی ہو جاتا ہے۔‏ بہت سے لوگوں اور خاص طور پر بچوں میں ہیپاٹائٹس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔‏ ہیپاٹائٹس بی یا ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا لوگوں میں اکثر تب ہی علامات ظاہر ہوتی ہیں جب اُن کے جگر کو بہت زیادہ نقصان پہنچ چُکا ہوتا ہے۔‏

ہیپاٹائٹس اے

ہیپاٹائٹس اے کا وائرس اُن لوگوں کے فضلے میں موجود ہوتا ہے جو اِس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔‏ یہ وائرس تازہ اور نمکین پانی اور جمی ہوئی برف میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔‏ ہیپاٹائٹس اے کا وائرس انسانوں کو اِن طریقوں سے لگ سکتا ہے:‏

آلودہ پانی پینے سے یا پھر ایسی کچی مچھلی،‏ جھینگے وغیرہ کھانے سے جو انسانی فضلے سے آلودہ پانی میں پکڑے گئے ہوں۔‏

ہیپاٹائٹس اے میں مبتلا مریض کو چُھونے سے،‏ اُس کا جُوٹھا کھانے یا پینے سے اور اُس کے جُوٹھے برتن استعمال کرنے سے۔‏

کھانا پکانے سے پہلے،‏ بیت‌الخلا سے فارغ ہونے کے بعد یا پھر بچے کا ڈائپر بدلنے کے بعد اچھی طرح ہاتھ نہ دھونے سے۔‏

عام طور پر ہیپاٹائٹس اے کا وائرس چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد جسم میں ختم ہو جاتا ہے۔‏ لہٰذا ایک شخص مستقل طور پر اِس بیماری کا شکار نہیں رہتا۔‏ اِس بیماری کا سب سے اچھا علاج یہ ہے کہ خوب آرام کریں اور اچھی خوراک کھائیں۔‏ جب تک ڈاکٹر آپ کو یہ نہ بتائے کہ آپ کا جگر مکمل طور پر ٹھیک ہو گیا ہے،‏ اُس وقت تک نہ تو شراب پئیں اور نہ ہی کوئی ایسی دوائی لیں جس میں اسیٹامینوفین (‏acetaminophen‏)‏ ہو۔‏ یہ اکثر سردرد یا بخار کی گولیوں میں پایا جاتا ہے۔‏ جس شخص کو ایک مرتبہ ہیپاٹائٹس اے ہو چُکا ہو،‏ اُسے عام طور پر یہ بیماری دوبارہ نہیں لگتی۔‏ البتہ وہ ہیپاٹائٹس کی دوسری اقسام میں مبتلا ہو سکتا ہے۔‏ ہیپاٹائٹس اے کی ویکسین لگوانے سے اِس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔‏

ہیپاٹائٹس بی

ہیپاٹائٹس بی کا وائرس اُن لوگوں کے خون اور جنسی اعضا سے نکلنے والے مادوں میں پایا جاتا ہے جو اِس مرض میں مبتلا ہیں۔‏ اگر یہ آلودہ خون یا مادہ کسی ایسے شخص کے جسم میں داخل ہوتا ہے جس کا نظامِ‌دفاع اِس وائرس کے خلاف نہیں لڑ سکتا تو وہ ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‏ ہیپاٹائٹس بی کا وائرس اِن طریقوں سے لگ سکتا ہے:‏

اگر ماں اِس مرض میں مبتلا ہو تو پیدائش کے وقت بچے کو یہ مرض لگ سکتا ہے۔‏

طبی معائنہ،‏ دانتوں کا معائنہ،‏ ٹیٹو گُدوانے یا پھر کان،‏ ناک وغیرہ چھدوانے کے لئے استعمال ہونے والے آلات سے جن کو سٹیریلائز یعنی اچھی طرح سے صاف نہ کِیا گیا ہو۔‏

جب تھوڑا سا بھی آلودہ خون کسی خراش یا زخم کے ذریعے دوسرے شخص کے جسم میں داخل ہو۔‏ یہ ایسی چیزوں سے ہو سکتا ہے:‏ استعمال‌شُدہ سرنج،‏ بلیڈ،‏ اُسترے،‏ دانتوں کے برش،‏ نیل‌کٹر اور فائل وغیرہ۔‏

جنسی عمل۔‏

ماہرینِ‌صحت کا کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس بی کھانسنے،‏ ہاتھ ملانے،‏ گلے ملنے،‏ گال چومنے،‏ کیڑےمکوڑوں اور ماں کے دودھ کے ذریعے نہیں لگتا۔‏ بالغ لوگ عموماً کچھ عرصے کے لئے ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہونے کے بعد صحت‌یاب ہو جاتے ہیں اور پھر اُنہیں یہ بیماری دوبارہ سے نہیں لگتی۔‏ لیکن جب یہ بیماری چھوٹے بچوں کو لگتی ہے تو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ مستقل طور پر اِس مرض میں مبتلا رہیں۔‏ جو شخص مستقل طور پر ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہے،‏ اُسے اپنا علاج کروانا چاہئے،‏ نہیں تو ہو سکتا ہے کہ اُس کا جگر کام کرنا بند کر دے اور وہ مر جائے۔‏ ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین لگوانے سے اِس بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔‏

ہیپاٹائٹس سی

ہیپاٹائٹس سی اُنہی طریقوں سے لگ سکتا ہے جن سے ہیپاٹائٹس بی لگتا ہے۔‏ لیکن اکثر یہ مرض دوسرے لوگوں کی استعمال‌شُدہ سرنجوں سے لگتا ہے۔‏ ہیپاٹائٹس سی کے لئے کوئی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔‏ *

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 46 عالمی ادارۂصحت نے ہیپاٹائٹس کے بارے میں مختلف زبانوں میں اِس ویب‌سائٹ پر معلومات فراہم کی ہیں:‏ www.who.int

‏[‏صفحہ ۲۲ پر بکس]‏

ہیپاٹائٹس بی کی روک‌تھام

ہیپاٹائٹس بی کا مرض دُنیا کے تمام ممالک میں پایا جاتا ہے۔‏ لیکن جو لوگ اِس مرض میں مستقل طور پر مبتلا ہیں،‏ اُن میں سے ۷۸ فیصد ایشیائی ممالک میں اور بحرالکاہل کے جزیروں میں رہتے ہیں۔‏ اِن علاقوں میں ہیپاٹائٹس بی کا وائرس ہر دسویں شخص میں موجود ہے۔‏ زیادہ‌تر لوگوں کو یہ بیماری پیدائش کے وقت اپنی ماں سے یا پھر بچپن میں دوسرے بچوں کے آلودہ خون سے لگتی ہے۔‏ ایک ایسی ویکسین دستیاب ہے جو ننھے بچوں کو اور ایسے لوگوں کو دی جاتی ہے جو اِس مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے میں ہیں۔‏ یہ ویکسین ہیپاٹائٹس بی کو روکنے میں بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے۔‏ *

‏[‏صفحہ ۲۲ پر فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 51 بعض ممالک میں ہیپاٹائٹس کی ویکسین خون کے اجزا سے تیار کی جاتی ہے۔‏ اگر آپ اِس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رسالہ مینارِنگہبانی جون ۱۵،‏ ۲۰۰۰ کے ‏”‏سوالات از قارئین“‏ اور کتاب خدا کی محبت میں قائم رہیں کے صفحہ ۲۱۵ کو پڑھیں۔‏ اِس رسالے اور کتاب کو یہوواہ کے گواہوں نے شائع کِیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ڈُک‌یون اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ

‏[‏صفحہ ۲۰ پر تصویر کا حوالہ]‏

Sebastian Kaulitzki/Alamy ©