مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

لندن—‏ہیضے کی لپیٹ میں

لندن—‏ہیضے کی لپیٹ میں

لندن‏—‏ہیضے کی لپیٹ میں

سن ۱۸۵۴ء میں لندن میں پھر سے ہیضے کی وبا پھیل رہی تھی۔‏ یہ بیماری بڑی بےرحمی سے لوگوں کو اپنا شکار بنا رہی تھی۔‏ کئی لوگ جو صبح کو اُٹھتے وقت بالکل صحت‌مند ہوتے،‏ وہ رات تک موت کے بستر پر سو رہے ہوتے۔‏ اِس بیماری کا کوئی علاج نہیں تھا۔‏

اُنیسویں صدی میں ہیضے کا نام سنتے ہی لوگوں کے دل دہل جاتے تھے۔‏ اِس بیماری میں مبتلا لوگوں کو اچانک ہی پیچش لگ جاتے اور اُن کے جسم میں پانی کی شدید کمی ہو جاتی جس کی وجہ سے وہ چند ہی گھنٹوں میں مر جاتے۔‏ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ بیماری کیسے لگتی ہے۔‏ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بیماری گندی اور بدبُودار ہوا میں سانس لینے سے لگتی ہے۔‏ اُس زمانے میں شہر لندن کے بیچ سے گزرنے والے دریائے ٹیمز میں سے بڑی بدبُو آتی تھی کیونکہ لندن کی آبادی کا زیادہ‌تر کوڑاکرکٹ اور فضلہ اِس میں ڈالا جاتا تھا۔‏ لیکن کیا یہ بیماری واقعی بدبُودار ہوا میں سانس لینے سے لگتی ہے؟‏

سن ۱۸۴۹ء میں ڈاکٹر جان سنو نے یہ رائے پیش کی کہ ہیضہ آلودہ ہوا سے نہیں بلکہ آلودہ پانی سے پھیلتا ہے۔‏ اور ڈاکٹر ولیم بڈ نے یہ خیال پیش کِیا کہ یہ بیماری پھپھوندی کی ایک قسم کے ذریعے لگتی ہے۔‏

اِس کے پانچ سال بعد،‏ یعنی ۱۸۵۴ء میں لندن دوبارہ سے ہیضے کی لپیٹ میں آ گیا۔‏ اِس بار ڈاکٹر جان سنو نے لندن کے علاقے سوہو میں اُن لوگوں کا جائزہ لیا جو ہیضے کی بیماری میں مبتلا تھے۔‏ ڈاکٹر جان سنو نے اِس بات پر تحقیق کی کہ اِن لوگوں کی روزمرہ زندگی میں کونسی بات ایک جیسی ہے۔‏ اُن کو پتہ چلا کہ اِس بیماری میں مبتلا تمام لوگوں نے ایک ہی کنویں کا پانی پیا تھا۔‏ اِس کنویں کا پانی انسانی فضلے سے آلودہ تھا۔‏ *

اِسی سال میں اطالوی سائنس‌دان پاچینی نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اُنہوں نے کہا کہ ہیضہ کی بیماری جراثیم سے لگتی ہے۔‏ لیکن پاچینی،‏ جان سنو اور ولیم بڈ کی تحقیق کو نظرانداز کِیا گیا اور ہیضہ کی وبا لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارتی رہی۔‏ پھر ۱۸۵۸ء میں لندن کی تاریخ میں ایک اہم موڑ آیا۔‏

ناقابلِ‌برداشت بدبُو

برطانیہ کی پارلیمنٹ کو معلوم تھا کہ دریائے ٹیمز کو صاف کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‏ اِس سلسلے میں بہت سے منصوبے پیش کئے گئے لیکن پارلیمنٹ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔‏ پھر ۱۸۵۸ء میں گرمیوں کا موسم شروع ہو گیا۔‏ گرمی اتنی شدید تھی کہ دریا سے اُٹھنے والی بدبُو ناقابلِ‌برداشت ہو گئی۔‏ دریائے ٹیمز اُن عمارتوں کے پاس سے بھی گزرتا تھا جہاں پارلیمانی اجلاس ہوتے تھے۔‏ بدبُو سے تنگ آکر سیاست‌دانوں نے کھڑکیوں پر ایسے پردے لٹکائے جن کو چُونے کے پانی میں بھگویا گیا تھا۔‏ آخرکار پارلیمنٹ کو مجبور ہو کر کچھ کرنا ہی پڑا۔‏ صرف ۱۸ دن کے اندراندر یہ فیصلہ کِیا گیا کہ گندے پانی کی نکاسی کے لئے ایک نیا نظام تعمیر کِیا جائے۔‏

پورے شہر میں زمین کے نیچے بڑےبڑے نالے تعمیر کئے گئے۔‏ اِن نالوں کے ذریعے گندا پانی دریائے ٹیمز میں بہنے کی بجائے اب سیدھا سمندر میں پہنچایا جانے لگا۔‏ اِس سے صورتحال میں فوراً بہتری آ گئی اور شہر لندن پھر کبھی ہیضے کی لپیٹ میں نہیں آیا۔‏

اب یہ بات صاف ظاہر ہو گئی کہ ہیضے کی بیماری آلودہ ہوا سے نہیں بلکہ آلودہ پانی اور آلودہ خوراک سے پھیلتی ہے۔‏ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ہیضے سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اور انسانی فضلے کو صحیح طرح سے ٹھکانے لگایا جائے۔‏

قدیم شریعت—‏آج بھی فائدہ‌مند

لندن میں ہونے والے اِن واقعات سے ہزاروں سال پہلے بنی‌اِسرائیل موسیٰ نبی کی رہنمائی میں مصر سے نکلے۔‏ اِس کے بعد وہ ۴۰ سال تک سینا کے بیابان میں ڈیروں میں رہے۔‏ لیکن وہ ہیضے جیسی وباؤں سے محفوظ رہے۔‏ یہ کیسے ممکن تھا؟‏

خدا نے بنی‌اِسرائیل کو شریعت میں یہ حکم دیا کہ وہ انسانی فضلے کو ڈیروں سے دُور ٹھکانے لگائیں تاکہ اُن کے ڈیرے صاف رہیں اور پینے کا پانی بھی آلودہ نہ ہو۔‏ یہ حکم توریت میں یوں درج ہے:‏

‏”‏لشکرگاہ کے باہر تُم ایک جگہ مقرر کر لینا جہاں اپنی حاجت رفع کرنے کے لیے جا سکو۔‏ اپنے ہتھیاروں میں کھودنے کا کوئی آلہ بھی رکھنا اور جب تُم حاجت رفع کر چکو تو ایک گڑھا کھود کر اپنے فضلہ کو ڈھانک دینا۔‏“‏—‏استثنا ۲۳:‏۱۲،‏ ۱۳‏،‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

اِس ہدایت پر عمل کرنے سے بنی‌اِسرائیل بہت سی خطرناک بیماریوں سے بچے رہے جبکہ اُن کے اِردگِرد رہنے والی قومیں اِن بیماریوں کا شکار ہوتی رہیں۔‏ آج بھی اِس ہدایت پر عمل کرنے سے بہت سے لوگوں کی جانیں بچ گئی ہیں۔‏ * آئیں،‏ اِس کی ایک مثال پر غور کریں۔‏

‏”‏کسی کو ہیضہ نہیں ہوا“‏

سن ۱۹۷۰ء کے لگ‌بھگ ملک ملاوی کی حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔‏ اِس وجہ سے ۳۰ ہزار یہوواہ کے گواہ اپنا دیس چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور ملک موزمبیق چلے گئے۔‏ وہاں اُنہیں دس پناہ‌گزین کیمپوں میں بسایا گیا۔‏ عام طور پر پناہ‌گزین کیمپوں میں آلودہ پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا بڑا خطرہ ہوتا ہے۔‏ کیا یہوواہ کے گواہوں کے کیمپوں میں بھی یہ بیماریاں پھیلنے لگیں؟‏

لیمن کبوازی سب سے بڑے پناہ‌گزین کیمپ میں رہتے تھے۔‏ اِس کیمپ میں ۱۷ ہزار یہوواہ کے گواہ تھے۔‏ لیمن کبوازی اُس وقت کے بارے میں کہتے ہیں:‏ ”‏ہم کیمپ میں صفائی کا بڑا خیال رکھتے تھے۔‏ کسی کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کیمپ کے اندر لیٹرین بنائے۔‏ ہم نے کیمپ کے باہر بڑےبڑے گڑھے کھود کر لیٹرین بنائے۔‏ اِس کے علاوہ ہم نے کوڑاکرکٹ کے لئے بھی کیمپ کے باہر گڑھے کھودے۔‏ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے ہم نے اِن گڑھوں سے دُور کنویں کھودے۔‏ سب نے کیمپ اور پینے کے پانی کو صاف رکھنے کی ذمہ‌داری نبھائی۔‏ حالانکہ جگہ کم تھی اور لوگ زیادہ،‏ پھر بھی کیمپ میں کوئی خطرناک بیماری نہیں پھیلی اور کسی کو ہیضہ نہیں ہوا کیونکہ ہم نے صفائی‌ستھرائی کے سلسلے میں خدا کے کلام میں پائی جانے والی ہدایات پر عمل کِیا۔‏“‏

افسوس کی بات ہے کہ دُنیا کے کئی علاقوں میں گندے پانی کی نکاسی کا صحیح انتظام نہیں ہے۔‏ یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے کیونکہ فضلہ سے آلودہ پانی کی وجہ سے ہر روز ۵۰۰۰ بچے مر رہے ہیں۔‏

جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے،‏ صفائی کا خیال رکھنے سے ہیضے جیسی خطرناک بیماریوں سے بچنا ممکن ہے۔‏ البتہ خدا نے وعدہ کِیا ہے کہ وہ جلد ہی تمام بیماریوں کا نام‌ونشان مٹا دے گا۔‏ پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ جب خدا کی بادشاہت حکمرانی کرے گی تو ”‏نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏ (‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏)‏ اُس وقت ”‏کوئی نہ کہے گا کہ مَیں بیمار ہوں۔‏“‏—‏یسعیاہ ۳۳:‏۲۴‏۔‏

یہ سیکھنے کے لئے کہ خدا کی بادشاہت زمین پر کیسی تبدیلیاں لائے گی،‏ کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے تیسرے اور آٹھویں باب کو دیکھیں۔‏ آپ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 سن ۱۸۵۴ء تک لندن میں فلش والے ٹائلٹ کا استعمال عام ہو گیا تھا۔‏ لیکن گندے پانی کی نکاسی کا نظام بہت ہی پُرانا تھا۔‏ گندا پانی نالیوں کے ذریعے دریائے ٹیمز میں بہہ جاتا تھا اور لوگ اِسی دریا سے پینے کا پانی حاصل کرتے تھے۔‏

^ پیراگراف 15 چونکہ ہیضے کی بیماری آلودہ پانی اور خوراک سے لگتی ہے اِس لئے اِس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کوئی آلودہ چیز مُنہ میں نہ ڈالی جائے۔‏ پینے کے پانی کو دوا یا کسی اَور طریقے سے صاف کرنا چاہئے اور کھانے کو اچھی طرح سے پکا کر کھانا چاہئے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۹ پر عبارت]‏

اُنیسویں صدی کی اِس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ لندن میں ہیضے کی وبا دریائے ٹیمز کی وجہ سے پھیل رہی تھی۔‏

‏[‏صفحہ ۳۰ پر تصویر]‏

ملک موزمبیق میں ۳۰ ہزار سے زیادہ لوگ دس پناہ‌گزین کیمپوں میں رہ رہے تھے اور اِن کیمپوں میں صفائی کا انتظام مثالی تھا۔‏

‏[‏صفحہ ۲۸ پر تصویر کا حوالہ]‏

Death on Thames: © Mary Evans Picture

Library; map: University of Texas Libraries