مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

کیا کسی پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟‏

کیا کسی پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟‏

کیا کسی پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟‏

اِس ڈاکٹر کو درد کے علاج کا بہت بڑا ماہر مانا جاتا تھا۔‏ اِس کی تحقیقات کے نتائج مشہور طبی رسالوں میں شائع ہوتے تھے۔‏ پھر یہ انکشاف ہوا کہ اِس ڈاکٹر نے ۱۹۹۶ء سے لے کر تقریباً ۲۰۰۷ء تک جھوٹے نتائج پیش کئے تھے۔‏

ڈاکٹر سٹیون شافر نے اِس ڈاکٹر کے بارے میں کہا:‏ ”‏میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟‏“‏—‏طبی اخبار اینستھیزیالوجی نیوز۔‏

سوال یہ اُٹھتا ہے کہ معاشرے کے نامور لوگ دوسروں کو اِتنے سنگین دھوکے کیوں دیتے ہیں؟‏ آئیں،‏ اِس کی چار وجوہات پر غور کریں۔‏

لالچ۔‏ ڈاکٹر جیروم‌کسیرر نے اخبار نیو یارک ٹائمز میں لکھا:‏ ”‏جب تحقیق‌دانوں کو دوائیاں بنانے والی کمپنیوں سے تنخواہ ملتی ہے تو اِس کا بڑا امکان ہوتا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کے نتائج میں کمی‌بیشی کریں گے۔‏“‏

وہ ہر قیمت پر کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔‏ جرمنی میں اُن لوگوں کو بہت ہی کامیاب خیال کِیا جاتا ہے جن کو ڈاکٹر کا خطاب حاصل ہو۔‏ اِس لئے اِس ملک میں سائنس کے بہت سے طالبعلموں نے اپنے اساتذہ کو ہزاروں یورو رشوت دے کر اپنے لئے ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔‏ نیو یارک ٹائمز کے مطابق جب ایسے طالبعلموں کا جائزہ لیا گیا تو بہت سے طالبعلموں نے کہا کہ ”‏ہمارا ارادہ تھا کہ ہم ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ قدروں کی پابندی کریں گے۔‏“‏

معاشرے میں اچھی مثالوں کی کمی۔‏ ایک پروفیسر نے طالبعلموں کے بارے میں کہا:‏ ”‏ہم شاید کہیں کہ طالبعلم اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں .‏ .‏ .‏ لیکن اصل میں ہمیں کہنا چاہئے کہ اِن کے اساتذہ اور رہنماؤں نے اِن کو اچھے اور بُرے میں تمیز کرنے کا درس ہی نہیں دیا۔‏“‏—‏نیو یارک ٹائمز۔‏

لوگ اچھی قدروں پر عمل نہیں کرتے۔‏ جب ۳۰ ہزار طالبعلموں کا جائزہ لیا گیا تو ۹۸ فیصد نے کہا کہ دوستوں اور رشتہ‌داروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئے دیانتدار اور ایماندار ہونا ضروری ہے۔‏ لیکن دس میں سے آٹھ طالبعلموں نے اعتراف کِیا کہ اُنہوں نے اپنے والدین سے کئی موقعوں پر جھوٹ بولا ہے۔‏ اور ۶۴ فیصد نے کہا کہ اُنہوں نے پچھلے سال کے امتحان میں نقل کی تھی۔‏

اعلیٰ اصول

جیسا کہ اِس صفحے پر دئے گئے بکس میں بتایا گیا ہے،‏ انسان میں ایک دوسرے پر بھروسا کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔‏ لیکن خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”‏انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔‏“‏ (‏پیدایش ۸:‏۲۱‏)‏ اِس کا مطلب ہے کہ ہم سب بچپن سے ہی غلط کام کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏ آج‌کل دُنیا میں بددیانتی کا راج ہے۔‏ تو پھر ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہم دیانتداری کی راہ پر چلتے رہیں؟‏ خدا کے کلام میں ایسے اصول پائے جاتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہم دیانتدار اور ایماندار رہ سکتے ہیں۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے کچھ اصولوں پر غور کریں۔‏

‏”‏اپنے ہمسایہ کے خلاف بُرائی کا منصوبہ نہ باندھنا۔‏ جس حال کہ وہ تیرے پڑوس میں بےکھٹکے رہتا ہے۔‏“‏—‏امثال ۳:‏۲۹‏۔‏

اگر ہم دوسروں سے محبت رکھتے ہیں تو ہم اُن کو دھوکا نہیں دیں گے بلکہ اُن کی بھلائی کا سوچیں گے۔‏ اگر لوگ اِس اصول پر عمل کرتے تو وہ منافع کمانے کی غرض سے دوسروں کی مجبوریوں کا فائدہ نہیں اُٹھاتے۔‏ اور ایسے کاروبار نہ ہوتے جن سے دوسروں کو نقصان پہنچتا،‏ مثلاً جعلی دوائیوں کا کاروبار وغیرہ۔‏

‏”‏سچے ہونٹ ہمیشہ تک قائم رہیں گے لیکن جھوٹی زبان صرف دَم‌بھر کی ہے۔‏“‏‏—‏‏—‏امثال ۱۲:‏۱۹

آج‌کل بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ”‏دیانتدار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اِس میں نقصان ہی نقصان ہے۔‏“‏ لیکن ذرا سوچیں کہ آپ کو کس بات سے زیادہ فائدہ ہوگا؟‏ غلط طریقوں سے فوراً اپنی آرزو پوری کرنے سے یا پھر محنت کرکے منزل تک پہنچنے سے؟‏ جو طالبعلم امتحان میں نقل کرکے پاس ہو جاتے ہیں،‏ وہ دوسروں کو اِس دھوکے میں رکھتے ہیں کہ وہ بڑے عقلمند اور ہنرمند ہیں۔‏ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ جب اُن کو ملازمت ملے گی تو پھر وہ کیا کریں گے؟‏ یہ تو گھاٹے کا سودا کرنے کے برابر ہے۔‏

‏”‏راست‌باز آدمی نیک زندگی گزارتا ہے؛‏ اُس کے بعد اُس کے بچے مبارک ہوتے ہیں۔‏“‏—‏امثال ۲۰:‏۷‏،‏ ”‏نیو اُردو بائبل ورشن۔‏“‏

اگر آپ کے بچے ہیں تو ’‏نیک زندگی گزارنے‘‏ سے اُن کے لئے اچھی مثال قائم کریں۔‏ اُنہیں بتائیں کہ آپ کو اچھی قدروں پر عمل کرنے سے کون‌کون سے فائدے ہوئے ہیں۔‏ جب بچے دیکھتے ہیں کہ اُن کے والدین سیدھی راہ پر چل رہے ہیں تو عموماً وہ بھی سیدھی راہ اختیار کرتے ہیں۔‏—‏امثال ۲۲:‏۶‏۔‏

کیا اُن لوگوں کو واقعی فائدہ ہوتا ہے جو اُوپر دئے گئے اصولوں پر عمل کرتے ہیں؟‏ کیا معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جن پر بھروسا کِیا جا سکتا ہے؟‏

‏[‏صفحہ ۴ پر عبارت]‏

اخبار لے فی‌گارو کے مطابق فرانس میں اُن لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جو کہتے ہیں کہ ”‏اگر معاشرے کی مُعزز شخصیتیں جیسے کہ سیاست‌دان،‏ سرمایہ‌کار،‏ فنکار اور اُونچے طبقے کے لوگ،‏ اعلیٰ اصولوں کی پابندی نہیں کرتے تو ہم اِن اصولوں پر کیوں عمل کریں؟‏“‏

‏[‏صفحہ ۵ پر بکس]‏

انسانی فطرت کا بنیادی عنصر

مائیکل کوس‌فیلڈ جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے پروفیسر ہیں۔‏ اُنہوں نے کئی تجربوں سے دریافت کِیا کہ بھروسا کرنا ”‏ایک ایسا عمل ہے جو جسم میں کیمیائی مادوں سے پیدا ہوتا ہے۔‏ بھروسا کرنے کی صلاحیت انسانی فطرت کا ایک بنیادی عنصر ہے۔‏“‏ پروفیسر کوس‌فیلڈ نے دیکھا کہ جب دو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے ہیں تو دماغ میں آکسی‌ٹوسن نامی ہارمون پیدا ہوتا ہے۔‏ یہ ہارمون بھروسا کرنے کے عمل کو فروغ دیتا ہے۔‏ پروفیسر کوس‌فیلڈ کہتے ہیں کہ ”‏انسان ایک دوسرے پر بھروسا کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے دوسرے جانداروں سے فرق ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ جب انسان ایک دوسرے پر بھروسا کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ انسانیت کھو بیٹھتے ہیں۔‏“‏