مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ہیٹی کا زلزلہ—‏مصیبت کے وقت ایمان اور محبت کا ثبوت

ہیٹی کا زلزلہ—‏مصیبت کے وقت ایمان اور محبت کا ثبوت

ہیٹی کا زلزلہ‏—‏مصیبت کے وقت ایمان اور محبت کا ثبوت

منگل ۱۲ جنوری ۲۰۱۰ء کو شام ۴ بج کر ۵۳ منٹ پر ایولین نامی ایک عورت نے گڑگڑاہٹ کی آواز سنی۔‏ یہ آواز بالکل ایسی تھی جیسے جہاز کے اُڑنے کی ہوتی ہے۔‏ ایک دم سے زمین ہلنے لگی۔‏ سیمنٹ کی دیواروں میں دراڑیں پڑنے لگیں اور دیکھتے دیکھتے عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔‏ جب جھٹکے ختم ہوئے تو ایولین صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے ایک اُونچی جگہ پر چڑھ گئیں۔‏ اُنہیں ہر طرف دھول اور مٹی دکھائی دی اور لوگوں کی چیخ‌وپکار سنائی دی۔‏ ہیٹی میں ایک ہولناک زلزلہ آیا تھا اور آن کی آن میں دارالحکومت پورٹ‌اوپرنس میں تباہی مچ گئی تھی۔‏

چند ہی لمحوں میں لاتعداد گھر،‏ ہسپتال،‏ بینک،‏ سکول اور گورنمنٹ کے آفس ملبے کا ڈھیر بن گئے۔‏ اِس زلزلے سے تقریباً ۲ لاکھ ۲۰ ہزار لوگ مر گئے اور ۳ لاکھ زخمی ہوئے۔‏

جھٹکے ختم ہونے کے بعد کئی لوگ اُداسی کی حالت میں اپنے بچےکچے گھروں کے سامنے بیٹھ گئے۔‏ دوسرے لوگ اپنے رشتہ‌داروں اور پڑوسیوں کو بچانے کے لئے ہاتھوں سے ملبے کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگے۔‏ بجلی چلی گئی تھی اور رات ہو رہی تھی۔‏ اِس لئے امدادی کارکُن موم‌بتیوں اور ٹارچ کی روشنی میں کام کرنے لگے۔‏

شہر ژَک‌میل میں ۱۱ سالہ لڑکا رالف‌ایندی ایک عمارت کے نیچے پھنس گیا تھا جس کے کچھ حصے گِر گئے تھے۔‏ امدادی کارکنوں نے کچھ گھنٹے تک اُسے نکالنے کی کوشش کی۔‏ لیکن وقفےوقفے سے زلزلے کے جھٹکے آ رہے تھے اور اِس بات کا ڈر تھا کہ باقی عمارت بھی گِر جائے گی۔‏ اِس لئے امدادی کارکنوں کو اُسے چھوڑ کر جانا پڑا۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہوں کے ایک مشنری جن کا نام فلپ ہے،‏ وہاں رہے۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏مَیں رالف‌ایندی کو مرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔‏“‏

فلپ اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ ملبے کے اندر راستہ بناتے ہوئے آہستہ آہستہ رالف‌ایندی کی طرف بڑھنے لگے۔‏ مسلسل جھٹکے آ رہے تھے اور عمارت میں دراڑیں بڑھتی جا رہی تھیں۔‏ وہ آدھی رات سے صبح ۵ بجے تک کام کرتے رہے اور آخرکار پہلے جھٹکے کے ۱۲ گھنٹے بعد رالف‌ایندی کو وہاں سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔‏

رالف‌ایندی تو بچ گیا لیکن کئی لوگ ایسے بھی تھے جنہیں بچایا نہیں جا سکا۔‏ لیوگان کے شہر میں بھی زلزلے نے بڑی تباہی مچائی۔‏ وہاں رہنے والے ایک شخص روژے کا گھر بھی گِر گیا۔‏ وہ اپنے بڑے بیٹے کلید کے ساتھ گھر سے باہر بھاگے۔‏ یوں اُن کی جان بچ گئی لیکن اُن کا چھوٹا بیٹا کلارانس ہلاک ہو گیا۔‏ اُن کی بیوی کلانا زندہ تھیں لیکن اُن کا سر ملبے کے نیچے دب گیا تھا۔‏ روژے اور اُن کے ایک دوست نے کلانا کو نکالنے کی کوشش کی۔‏ کلانا ملبے کے نیچے سے چلّا رہی تھیں:‏ ”‏جلدی کرو!‏ میرا دم گُھٹ رہا ہے۔‏“‏ تین گھنٹے کے بعد ایک امدادی ٹیم وہاں پہنچی۔‏ لیکن جب اُنہوں نے کلانا کو نکالا تو وہ مر چکی تھیں۔‏

بدھ ۱۳ جنوری؛‏ دوسرا دن

زلزلے کے اگلے دن جب سورج نکلا تو تباہی کا صحیح طور پر اندازہ ہوا۔‏ پورٹ‌اوپرنس میں بہت زیادہ نقصان ہوا تھا۔‏ آہستہ‌آہستہ دُنیابھر میں یہ خبر پھیل گئی کہ زلزلے سے کتنی زیادہ تباہی ہوئی ہے۔‏ پوری دُنیا میں امدادی تنظیمیں اور رضاکار ہیٹی جانے کی تیاری کرنے لگے۔‏ ڈومینیکن ریپبلک میں یہوواہ کے گواہوں کا جو دفتر ہے،‏ وہ پورٹ‌اوپرنس سے ۳۰۰ کلومیٹر (‏۲۰۰ میل)‏ دُور ہے۔‏ وہاں بھی جھٹکے محسوس ہوئے۔‏ جب وہاں موجود یہوواہ کے گواہوں کو پتہ چلا کہ زلزلے کا مرکز شہر پورٹ‌اوپرنس کے بالکل نزدیک تھا تو وہ فوراً امداد بھیجنے کا انتظام کرنے لگے۔‏ ہیٹی کی کُل آبادی ۹۰ لاکھ ہے جس میں سے تقریباً ۳۰ فیصد لوگ پورٹ‌اوپرنس میں رہتے ہیں۔‏

زلزلے کی شدت ۰.‏۷ تھی۔‏ ہیٹی میں ۱۵۰ سال کے بعد اِتنا بڑا زلزلہ آیا تھا۔‏ وہاں کے لوگ ایسی عمارتیں بنانا ضروری نہیں سمجھتے تھے جو زلزلے کے جھٹکوں کو برداشت کر سکیں۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہوں کا دفتر جو ۱۹۸۷ء میں تعمیر کِیا گیا تھا،‏ اُسے اِس طرح سے بنایا گیا تھا کہ وہ زلزلے سے محفوظ رہے۔‏ حالانکہ یہ دفتر پورٹ‌اوپرنس کے قریب ہی واقع ہے لیکن اِس کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔‏

راتوں رات ہیٹی میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں ایک امدادی مرکز قائم کِیا گیا۔‏ دوسرے ملکوں سے فون اور ای‌میل کے ذریعے رابطہ کرنا مشکل ہو گیا تھا۔‏ اِس لئے دفتر سے کچھ لوگ دو دفعہ گاڑی میں ڈومینیکن ریپبلک کی سرحد تک گئے تاکہ صورتحال کی رپورٹ یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹر کو بھیج سکیں۔‏ زلزلے میں زخمی ہونے والے سینکڑوں لوگوں کو یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں لایا گیا۔‏ اِس کے علاوہ لاتعداد لوگوں کو اُن ہسپتالوں میں لے جایا گیا جو تباہ نہیں ہوئے تھے۔‏ جلد ہی ہسپتالوں میں زخمی لوگوں کے لئے گنجائش نہیں رہی۔‏

تقریباً سارے ہسپتالوں کے باہر زخمی لوگ زمین پر پڑے چلّا رہے تھے۔‏ اُن کے زخموں سے خون رس رہا تھا۔‏ اِن زخمیوں میں سے ایک مارلا بھی تھیں جو یہوواہ کی گواہ ہیں۔‏ وہ آٹھ گھنٹے تک ملبے کے نیچے دبی رہی تھیں۔‏ اُن کی ٹانگیں بےحس‌وحرکت ہو گئی تھیں۔‏ مارلا کے پڑوسیوں نے اُنہیں نکال کر ہسپتال پہنچایا تھا۔‏ لیکن کس ہسپتال میں؟‏ ایون نامی ایک یہوواہ کے گواہ ابھی‌ابھی ڈومینیکن ریپبلک سے ہیٹی پہنچے تھے۔‏ وہ ڈاکٹر ہیں۔‏ ایون،‏ مارلا کی تلاش میں نکلے۔‏ اُن کو مارلا کا صرف نام معلوم تھا۔‏

اُس وقت تک زلزلے کو ۲۴ گھنٹے گزر چکے تھے اور دوبارہ سے رات ہو رہی تھی۔‏ ایون ایک ہسپتال کے پاس پہنچے جس کے باہر زخمی لوگ پڑے ہوئے تھے اور لاشیں بھی بکھری ہوئی تھیں۔‏ ایون دل ہی دل میں خدا سے دُعا کر رہے تھے اور ساتھ‌ساتھ مارلا کا نام پکار رہے تھے۔‏ اچانک کسی نے کہا:‏ ”‏جی!‏“‏ یہ آواز مارلا کی تھی جو مسکراتے ہوئے ایون کی طرف دیکھ رہی تھیں۔‏ ایون نے حیران ہو کر پوچھا:‏ ”‏آپ اِتنی زیادہ تکلیف میں ہیں اور پھر بھی مسکرا رہی ہیں؟‏“‏ مارلا نے جواب دیا:‏ ‏”‏اب تو میرا بھائی میرے پاس ہے۔‏“‏ یہ سُن کر ایون کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔‏

جمعرات ۱۴ جنوری؛‏ تیسرا دن

امریکہ،‏ کینیڈا،‏ ڈومینیکن ریپبلک،‏ فرانس،‏ جرمنی،‏ گواڈیلوپ اور مارٹینک میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتروں سے امداد پہنچنے لگی۔‏ امریکہ میں واقع یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹر نے اِن امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کی اور یہ فیصلہ کِیا کہ امدادی سامان،‏ آمدورفت کے ذرائع اور عطیات کو کیسے استعمال کِیا جائے گا۔‏ اُنہوں نے کئی رضاکاروں کو ہیٹی بھیجا۔‏ اِن میں ۷۸ ڈاکٹر اور نرسیں بھی شامل تھے۔‏ صبح ڈھائی بجے ڈومینیکن ریپبلک کے دفتر سے پہلا ٹرک ہیٹی کے لئے روانہ ہوا۔‏ اِس پر ۶۸۰۰ کلوگرام (‏۱۵ ہزار پونڈ)‏ کھانے پینے کا سامان،‏ دوائیاں وغیرہ لدے ہوئے تھے۔‏

کچھ گھنٹوں میں یہ سامان ہیٹی میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر پہنچا۔‏ وہاں اِس سامان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کِیا گیا۔‏ پھر اِسے ٹرکوں پر لاد کر آگے روانہ کِیا گیا تاکہ یہ جلدازجلد متاثرین کے پاس پہنچ سکے۔‏ چونکہ کچھ جگہوں پر لوگوں نے امدادی سامان چوری کرکے اِسے بیچ دیا تھا اِس لئے ٹرکوں پر سامان کو اِس طرح سے رکھا گیا کہ لوگ اِسے دیکھ کر یہ اندازہ نہ لگا سکیں کہ یہ کھانےپینے کا سامان ہے۔‏ امدادی سامان کو متاثرین تک پہنچانے کے لئے رضاکاروں نے دن‌رات کام کِیا۔‏ یہوواہ کے گواہوں نے کچھ مہینوں کے اندراندر لوگوں میں ساڑھے ۴ لاکھ کلوگرام (‏۱۰ لاکھ پونڈ)‏ امدادی سامان تقسیم کِیا۔‏

جمعہ ۱۵ جنوری؛‏ چوتھا دن

دوپہر تک ڈومینیکن ریپبلک اور گواڈیلوپ سے ۱۹ ڈاکٹر اور نرسیں ہیٹی پہنچے جو سب کے سب یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ اُنہوں نے ابتدائی طبی امداد کے لئے فوراً ایک مرکز قائم کِیا۔‏ اِس مرکز میں ایک یتیم‌خانے کے بچوں کا بھی علاج کِیا گیا۔‏ اِس کے علاوہ یہوواہ کے گواہوں نے یتیم‌خانے کے لئے خوراک اور خیموں کا بھی بندوبست کِیا۔‏ یتیم‌خانے کے ڈائریکٹر جن کا نام ایتی‌این ہے،‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏مَیں یہوواہ کے گواہوں کا بہت شکرگزار ہوں۔‏ اگر یہ نہ ہوتے تو پتہ نہیں کیا ہوتا۔‏“‏

بچھڑے ہوؤں سے ملن

اِسلاند سات سال کی ہے۔‏ جب زلزلہ آیا تو اُس نے دیکھا کہ گھر کے باہر بجلی کی تاریں ٹوٹ رہی ہیں اور اِن سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔‏ اُس کے گھر کی دیواریں گِر گئیں۔‏ اِن کے نیچے آ کر اِسلاند کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور وہ بہت زخمی ہو گئی۔‏ جب اُسے ملبے سے نکالا گیا تو اُس کے ابو (‏جن کا نام جونی ہے)‏ اُسے گاڑی میں ڈومینیکن ریپبلک کی سرحد پار ایک ہسپتال لے گئے۔‏ وہاں سے اِسلاند کو ڈومینیکن ریپبلک کے دارالحکومت سانٹو ڈومینگو کے ایک ہسپتال لے جایا گیا۔‏ لیکن جب بعد میں جونی نے اُس ہسپتال کو فون کِیا تو اُنہیں بتایا گیا کہ اِسلاند وہاں نہیں ہے۔‏

جونی دو دن تک اِسلاند کی تلاش میں مارے مارے پھرے۔‏ لیکن اُنہیں اپنی بیٹی کا کوئی پتہ نہ ملا۔‏ اصل میں اِسلاند کو ایک دوسرے ہسپتال لے جایا گیا تھا۔‏ وہاں اِسلاند اُونچی آواز میں یہوواہ خدا سے دُعا کر رہی تھی۔‏ (‏زبور ۸۳:‏۱۸‏)‏ ایک عورت نے اُسے دُعا کرتے سنا۔‏ یہ عورت ہسپتال میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہی تھی۔‏ اُس نے اِسلاند سے پوچھا:‏ ”‏کیا تُم یہوواہ خدا سے پیار کرتی ہو؟‏“‏ اِسلاند نے روتے ہوئے جواب دیا:‏ ”‏جی!‏“‏ عورت نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا:‏ ”‏فکر مت کرو۔‏ یہوواہ خدا ضرور تمہاری مدد کرے گا۔‏“‏

تھک‌ہار کر جونی نے ڈومینیکن ریپبلک میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر سے رابطہ کِیا۔‏ اِس پر میلانی نامی ایک یہوواہ کی گواہ اِسلاند کی تلاش میں نکلیں۔‏ جب وہ ایک ہسپتال میں پہنچیں اور اِسلاند کے بارے میں پوچھا تو ایک عورت نے ایک چھوٹی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏وہ رہی اِسلاند۔‏“‏ یہ وہی عورت تھی جس نے اِسلاند کو دُعا کرتے سنا تھا۔‏ یوں اِسلاند کے گھر والوں کو اُس کا پتہ مل گیا۔‏

بڑی لگن سے مریضوں کی دیکھ‌بھال

ہیٹی میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں طبی امداد کا جو مرکز قائم کِیا گیا،‏ اُس میں بہت سے ایسے زخمی بھی آئے جن کے زخم سڑ چکے تھے۔‏ چونکہ سڑے ہوئے زخموں سے جسم میں زہر پھیل سکتا ہے اِس لئے کئی مریضوں کی جان بچانے کے لئے اُن کے کچھ اعضا کاٹنے پڑے۔‏ زلزلے کے بعد چند دن تک آپریشن کے سازوسامان اور دوائیوں کی کمی رہی۔‏ مریضوں کی حالت کو دیکھ کر ڈاکٹروں کو بھی بہت صدمہ پہنچا۔‏ ایک ڈاکٹر نے کہا:‏ ”‏جو مناظر مَیں نے دیکھے،‏ جو آہیں مَیں نے سنیں،‏ کاش کہ خدا اِنہیں میری یادداشت سے مٹا دے۔‏“‏

زلزلے کے ایک ہفتے بعد یورپ سے کچھ ایسے ڈاکٹر پہنچے جو مشکل آپریشن کرنے میں ماہر ہیں۔‏ یہ ڈاکٹر بھی یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ وہ اپنے ساتھ ایسا سازوسامان لائے تھے جو مشکل آپریشنوں کے لئے ضروری ہے۔‏ اُنہوں نے ۵۳ آپریشن کئے اور اِس کے ساتھ‌ساتھ ہزاروں لوگوں کا علاج بھی کِیا۔‏ اِن مریضوں میں ۲۳ سالہ ویدلین بھی شامل تھیں۔‏ وہ یہوواہ کی گواہ ہیں اور زلزلے سے ایک دن پہلے شہر پورٹ‌دی‌پے سے پورٹ‌اوپرنس پہنچی تھیں۔‏ زلزلے میں اُن کا دایاں بازو ملبے کے نیچے دب کر کچلا گیا تھا۔‏ اِس وجہ سے ایک مقامی ہسپتال میں اُن کے بازو کو کاٹ دیا گیا تھا۔‏ پھر اُن کے رشتہ‌دار سات گھنٹے سفر کرکے اُن کو واپس پورٹ‌دی‌پے لے گئے اور وہاں کے ایک ہسپتال میں داخل کروا دیا۔‏ لیکن ویدلین کی حالت سنبھلنے کی بجائے خراب ہوتی جا رہی تھی۔‏ آخرکار ہسپتال کے عملے نے اُن کا علاج کرنا بند کر دیا کیونکہ اُن کا خیال تھا کہ ویدلین کی حالت اِتنی خراب ہے کہ وہ زندہ نہیں بچیں گی۔‏

جب پورٹ‌اوپرنس میں یہوواہ کے گواہوں کے طبی مرکز میں ویدلین کی حالت کا پتہ چلا تو اُنہوں نے کچھ ڈاکٹروں اور نرسوں کو پورٹ‌دی‌پے بھیجا۔‏ وہاں اُنہوں نے ویدلین کا علاج کِیا اور بعد میں اُنہیں واپس پورٹ‌اوپرنس لائے۔‏ جب ہسپتال کے دوسرے مریضوں نے دیکھا کہ یہوواہ کے گواہ کتنی لگن سے اپنے ہم‌ایمانوں کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں تو اُنہوں نے تالیاں بجائیں۔‏ ویدلین کے گھروالوں اور کلیسیا کے لوگوں نے اُن کی بہت مدد کی جس سے اُن کی حالت میں کافی بہتری آ گئی ہے۔‏

ڈومینیکن ریپبلک میں یہوواہ کے گواہوں نے کئی گھروں کو کرائے پر لیا اور اِن میں طبی مراکز قائم کئے۔‏ اِن مراکز میں اُنہوں نے ایسے مریضوں کی دیکھ‌بھال کی جن کا آپریشن ہوا تھا یا جن کا علاج چل رہا تھا۔‏ یہوواہ کے گواہوں کے رضاکاروں نے دن‌رات اِن مراکز میں کام کِیا۔‏ اِن میں ڈاکٹر،‏ نرسیں اور فزیوتھراپسٹ شامل تھے۔‏ اُنہوں نے بڑی لگن سے مریضوں کی دیکھ‌بھال کی۔‏

صدمے سے دوچار لوگوں کی دل‌جوئی

ہیٹی کے جس علاقے میں زلزلہ آیا،‏ وہاں یہوواہ کے گواہوں کی کُل ۵۶ عبادت‌گاہیں ہیں۔‏ لیکن اِن میں سے صرف چھ کو نقصان پہنچا۔‏ لہٰذا بہت سے یہوواہ کے گواہ جن کے گھر زلزلے میں گِر گئے تھے،‏ اُنہوں نے اِن عبادت‌گاہوں میں پناہ لی جبکہ باقیوں نے کُھلے میدانوں میں ڈیرے لگائے۔‏ یہوواہ کے گواہ سال میں کئی بار ایسے اجتماعات منعقد کرتے ہیں جن پر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔‏ اِن لوگوں کے لئے اکثر رہائش کا انتظام بھی کِیا جاتا ہے۔‏ اِس لئے یہوواہ کے گواہوں کے لئے زلزلے سے بےگھر ہونے والے لوگوں کو سنبھالنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔‏

ژاں‌کلود،‏ ہیٹی میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا کے نگہبان ہیں۔‏ اُنہوں نے کہا:‏ ”‏ہم معمول کے مطابق عبادت کے لئے جمع ہوتے رہے اور خدا کے کلام کی خوشخبری سناتے رہے۔‏ اِس طرح ہم نے لوگوں کی مدد کی تاکہ وہ نئے سرے سے زندگی شروع کر سکیں۔‏“‏ اِس کا نتیجہ کیا نکلا؟‏ ایک آدمی جو یہوواہ کا گواہ نہیں ہے،‏ اُس نے کہا:‏ ”‏مَیں بہت خوش ہوں کہ یہوواہ کے گواہ ابھی بھی لوگوں کو خدا کا پیغام دے رہے ہیں۔‏ آپ کو ایسا کرتے دیکھ کر ہمیں بڑا حوصلہ ملتا ہے۔‏“‏

یہوواہ کے گواہوں نے لوگوں کی ہمت بڑھائی۔‏ ایک یہوواہ کے گواہ نے بتایا:‏ ”‏تقریباً ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ زلزلہ خدا کا عذاب تھا۔‏ لیکن ہم اُن کو بتاتے ہیں کہ یہ محض ایک قدرتی آفت تھی۔‏ یہ خدا کی طرف سے نہیں تھا۔‏ ہم اُنہیں خدا کے کلام سے پیدایش ۱۸:‏۲۵ دکھاتے ہیں۔‏ اِس آیت میں ابرہام نبی نے کہا کہ جب خدا بُرے لوگوں پر عذاب لاتا ہے تو وہ اچھے لوگوں کو ہلاک نہیں کرتا۔‏ ہم اُنہیں لوقا ۲۱:‏۱۱ بھی دکھاتے ہیں۔‏ اِس آیت میں یسوع مسیح نے پیشینگوئی کی کہ ہمارے زمانے میں بڑےبڑے زلزلے آئیں گے۔‏ پھر ہم لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ جلد ہی یسوع مسیح مُردوں کو زندہ کریں گے اور دُکھ اور تکلیف کو ختم کریں گے۔‏ یہ سُن کر زیادہ‌تر لوگ خوش ہوتے ہیں اور ہمارا شکریہ ادا کرتے ہیں۔‏“‏ *

زلزلے کو کئی مہینے گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔‏ ڈاکٹر ژاں‌ایمانوئیل یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏ وہ کہتے ہیں:‏ ”‏زلزلہ اب ماضی کی بات ہے لیکن ہم ابھی تک اِس کے اثرات سے نپٹ رہے ہیں۔‏ کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ رہ رہے ہیں اور اِن میں صفائی کا انتظام نہیں ہے۔‏ جب بارش ہوتی ہے تو ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔‏ اِس وجہ سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔‏ اِس کے علاوہ متاثرین ابھی تک صدمے سے دوچار ہیں۔‏“‏

زلزلے کے کئی ہفتے بعد ایک یہوواہ کا گواہ طبی مرکز میں آیا اور ایک نرس کو بتایا کہ اُس کے سر میں درد رہتا ہے اور اُسے نیند نہیں آتی۔‏ نرس نے اُس سے پوچھا:‏ ”‏کیا زلزلے میں آپ کے سر پر چوٹ لگی تھی؟‏“‏ اُس نے جواب دیا:‏ ”‏نہیں،‏ چوٹ تو نہیں لگی لیکن میری بیوی زلزلے میں فوت ہو گئی۔‏ ہماری شادی کو ۱۷ سال ہو گئے تھے۔‏ لیکن یہ سب کچھ تو ہونا ہے کیونکہ یسوع مسیح نے اِس کے بارے میں پیشینگوئی کی تھی۔‏“‏

اِس سے نرس کو پتہ چلا کہ اُس آدمی کے سر درد اور نیند نہ آنے کی وجہ اُس کی بیوی کی موت کا صدمہ تھا۔‏ نرس نے کہا:‏ ”‏ٹھیک ہے کہ یہ سب ہونا ہے۔‏ لیکن آپ کی بیوی آپ سے بچھڑ گئی ہے۔‏ اِس کا دُکھ اپنی جگہ ہے۔‏ اِس دُکھ پر آنسو بہانے میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔‏ جب یسوع مسیح کے دوست لعزر فوت ہو گئے تھے تو اُنہوں نے بھی آنسو بہائے تھے۔‏“‏ یہ سُن کو وہ آدمی پھوٹ‌پھوٹ کر رونے لگا۔‏

زلزلے سے متاثرہ علاقے میں ۱۰ ہزار سے زائد یہوواہ کے گواہ رہتے ہیں۔‏ اُن میں سے ۱۵۴ زلزلے میں فوت ہو گئے۔‏ ایک اندازے کے مطابق پورٹ‌اوپرنس میں رہنے والے ۹۲ فیصد لوگوں نے اپنے عزیزوں میں سے کم‌ازکم ایک کو کھویا ہے۔‏ اِن لوگوں کی مدد کرنے کے لئے یہوواہ کے گواہ باربار اُن کے پاس جاتے ہیں اور اُنہیں تسلی دیتے ہیں۔‏ اِس طرح لوگوں کو اپنے احساسات کا اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے اور اُن کا دُکھ کسی حد تک کم ہو جاتا ہے۔‏ اِس سے صدمے کا شکار یہوواہ کے گواہوں کی بھی مدد ہوئی ہے۔‏ وہ تو جانتے ہیں کہ خدا نے یہ وعدہ کِیا ہے کہ وہ مُردوں کو زندہ کرے گا اور زمین فردوس بن جائے گی۔‏ لیکن پھر بھی اُنہیں دوسروں کے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اُن کا صدمہ بھی کم ہو۔‏

ایمان،‏ اُمید اور محبت

یسوع مسیح کے شاگرد پولس رسول نے لکھا:‏ ”‏غرض ایمان اُمید محبت یہ تینوں دائمی ہیں مگر افضل اِن میں محبت ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱۳‏)‏ ایمان،‏ اُمید اور محبت کے ذریعے ہیٹی میں یہوواہ کے گواہ موجودہ حالات کو برداشت کرنے،‏ دوسروں کو تسلی دینے اور ایک اچھے مستقبل کی اُمید رکھنے کے قابل ہوئے ہیں۔‏ یہوواہ کے گواہ زلزلے سے متاثر ہونے والے ہم‌ایمانوں کے لئے ابھی تک دُنیابھر سے امداد بھیج رہے ہیں۔‏ اِس سے اُن کا ایمان،‏ اتحاد اور محبت ظاہر ہوتا ہے۔‏ پیٹرا نامی ایک یہوواہ کی گواہ جرمنی سے ہیٹی میں مدد کرنے کے لئے آئی تھیں۔‏ وہ کہتی ہیں:‏ ”‏محبت کا اِتنا سرگرم اظہار مَیں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔‏ مَیں بہت روئی۔‏ لیکن زیادہ‌تر وقت یہ خوشی کے آنسو تھے۔‏“‏

دی وال سٹریٹ جرنل کے مطابق ”‏کسی بھی ملک میں ایک قدرتی آفت کے نتیجے میں اِتنا نقصان نہیں ہوا جتنا کہ ہیٹی کے زلزلے سے ہوا۔‏“‏ اِس زلزلے سے اب تک دُنیا میں کئی اَور آفتیں آئی ہیں۔‏ کیا آفتوں کا یہ سلسلہ کبھی ختم ہوگا؟‏ ہیٹی میں اور پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ اِس بات پر پورا یقین رکھتے ہیں کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے جب خدا لوگوں کی ”‏آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔‏ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔‏ نہ آہ‌ونالہ نہ درد۔‏ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔‏“‏—‏مکاشفہ ۲۱:‏۴‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 31 اِس سلسلے میں کتاب پاک صحائف کی تعلیم حاصل کریں کے گیارھویں باب کو دیکھیں جس کا عنوان ہے:‏ ‏”‏خدا انسان کو دُکھ اور تکلیف کیوں سہنے دیتا ہے؟‏“‏ یہ کتاب یہوواہ کے گواہوں نے شائع کی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر عبارت]‏

‏”‏مَیں رالف‌ایندی کو مرنے کے لئے نہیں چھوڑ سکتا تھا۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۷ پر عبارت]‏

‏”‏مَیں بہت خوش ہوں کہ یہوواہ کے گواہ ابھی بھی لوگوں کو خدا کا پیغام دے رہے ہیں۔‏“‏

‏[‏صفحہ ۲۵ پر بکس/‏تصویریں]‏

عارضی گھروں کی تعمیر

زلزلے کے بعد ایک مہینے کے اندراندر یہوواہ کے گواہوں نے کچھ انجینیئروں کو ہیٹی بھیجا۔‏ اِن انجینیئروں نے زلزلے میں بچ جانے والے گھروں کا جائزہ لیا کہ آیا یہ رہنے کے قابل ہیں یا نہیں۔‏ اُنہوں نے اُن لوگوں کے لئے عارضی گھروں کا انتظام بھی کِیا جن کے گھر گِر گئے تھے۔‏

جان جو یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں کام کرتے ہیں،‏ اُنہوں نے بتایا:‏ ”‏ہم نے اِس بات کا جائزہ لیا کہ بین‌الاقوامی امدادی تنظیمیں کس طرح کے عارضی گھر بناتی ہیں۔‏ اِس کے بعد ہم نے ایسے گھر ڈیزائن کئے جو سستے ہیں اور جنہیں آسانی سے کھڑا کِیا جا سکتا ہے۔‏ ہم نے کوشش کی کہ اِن گھروں کا سائز اُن گھروں کے برابر ہو جن میں لوگ پہلے رہتے تھے۔‏ اِن گھروں میں لوگ بارش اور تیز ہواؤں سے محفوظ رہتے ہیں اور زلزلے کے مزید جھٹکوں کی صورت میں اِن کے گِرنے کا خطرہ بھی نہیں ہے۔‏“‏ زلزلے کے تین ہفتے بعد ہیٹی اور دوسرے ممالک کے رضاکاروں نے ایسے عارضی گھر بنانے شروع کر دئے۔‏

جب اِن گھروں کے ڈھانچوں کو ٹرکوں پر لاد کر لے جایا گیا تو راستے میں لوگوں نے یہوواہ کے گواہوں کو شاباش دینے کے لئے نعرے لگائے۔‏ اِن عارضی گھروں کی تعمیر کا سامان دوسرے ملکوں سے بھیجا گیا تھا۔‏ ہیٹی کے ایک کسٹم افسر نے اِس سامان کو دیکھ کر کہا:‏ ”‏یہوواہ کے گواہ زلزلے کی خبر سنتے ہی ہماری مدد کو آئے۔‏ وہ صرف باتیں نہیں کرتے بلکہ واقعی مدد کرتے ہیں۔‏“‏ چند ہی مہینوں میں یہوواہ کے گواہوں نے متاثرین کے لئے ۱۵۰۰ عارضی گھر بنائے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر نقشہ]‏

‏(‏تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)‏

ہیٹی

ڈومینیکن ریپبلک

پورٹ‌اوپرنس

لیوگان

زلزلے کا مرکز

ژَک‌میل

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

مارلا

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

اِسلاند

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

ویدلین

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

ہیٹی میں یہوواہ کے گواہوں کا ایک گروہ زلزلے کے متاثرین کو تسلی دینے کے لئے جا رہا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۶ پر تصویر]‏

یہوواہ کے گواہوں کے ایک طبی مرکز میں ڈاکٹر ایک بچے کا علاج کر رہا ہے۔‏