مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

چرواہے کے طور پر خدا کی خدمت

چرواہے کے طور پر خدا کی خدمت

چرواہے کے طور پر خدا کی خدمت

الم‌بک بکمانو کی زبانی

مَیں تین سال کا تھا جب مَیں بھیڑوں کی دیکھ‌بھال کرنے لگا۔‏ مجھے یہ کام بہت اچھا لگتا تھا۔‏ مَیں ۱۷ سال کی عمر تک ایک بہت اچھا چرواہا بن گیا تھا۔‏ اِس کے کچھ عرصے بعد مَیں ایسے اشخاص سے ملا جو اِتنی ہی محبت سے لوگوں کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں جتنی کہ ایک چرواہا اپنی بھیڑوں سے رکھتا ہے۔‏ یہ اشخاص خدا کی قربت حاصل کرنے میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔‏ آئیں،‏ مَیں آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے ایسے چرواہے کے طور پر خدا کی خدمت کرنے سے کونسی برکات اور خوشیاں ملی ہیں۔‏

میرا تعلق کرغستان سے ہے۔‏ کرغستان پہلے سوویت یونین کی ایک ریاست تھا۔‏ مَیں ۱۹۷۲ء میں پیدا ہوا۔‏ مَیں اپنے خاندان کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتا تھا جو ایک خوبصورت جھیل کے کنارے آباد ہے۔‏ اِس جھیل کا نام اسیک‌کُل ہے۔‏ اِس کے آس‌پاس کا علاقہ اِتنا خوبصورت ہے کہ کرغستان آنے والے بہت سے سیاح اِس علاقے کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔‏ آج‌کل مَیں اپنی بیوی گلُ‌میرا کے ساتھ کرغستان کے دارلحکومت بش‌کیک میں رہتا ہوں۔‏ بش‌کیک اُس علاقے سے ۲۰۰ کلومیٹر (‏۱۲۵ میل)‏ دُور ہے جہاں میرا بچپن گزرا۔‏

اچھا چرواہا اور صحت‌مند بھیڑیں

مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب مَیں چھوٹا تھا تو ہم بہار کے موسم میں اپنی بھیڑوں کو چراگاہوں میں لے جاتے تھے۔‏ یہ چراگاہیں پہاڑوں پر ۳۰۰۰ میٹر (‏۹۰۰۰ فٹ)‏ کی بلندی پر واقع تھیں۔‏ وہاں تک پہنچنے میں ہمیں کئی دن لگ جاتے تھے۔‏ بعض چرواہے اِن چراگاہوں تک جلدی پہنچنے کے لئے بھیڑوں کو خطرناک راستوں سے لے کر جاتے تھے۔‏ اِن راستوں میں بہت سی گہری کھائیاں اور نوکیلے پتھر تھے۔‏ بھیڑیں اکثر بھٹک جاتی اور زخمی ہو جاتی تھیں۔‏ اور کبھی‌کبھار تو مر بھی جاتی تھیں۔‏

اِن راستوں پر بھیڑیے بھی بھیڑوں پر حملہ کرکے اُنہیں ریوڑ سے دُور کر دیتے تھے اور اُنہیں کھا جاتے تھے۔‏ اِس لئے میرے تایا جی بھیڑوں کو ایک ایسے راستے سے لے کر جاتے تھے جو خطرناک نہیں تھا۔‏ اگرچہ اِس راستے سے چراگاہوں تک پہنچنے میں ایک یا دو دن زیادہ لگتے تھے تو بھی ہم سب صحیح‌سلامت پہنچ جاتے تھے۔‏ جب مَیں ریوڑ کو چراگاہ تک لے جانے میں جلدی کرتا تو میرے تایا جی مجھ سے کہتے:‏ ”‏الم‌بک،‏ اپنا نہیں،‏ بھیڑوں کا خیال کرو۔‏“‏

رات کے وقت بھیڑوں کی حفاظت کے لئے ہم چراگاہوں میں باڑے بنا لیتے تھے۔‏ بعض چرواہے صبح دیر تک سوتے رہتے۔‏ جس وقت وہ بھیڑوں کو چرانے کے لئے لے کر جاتے،‏ دھوپ بہت تیز ہو چکی ہوتی تھی۔‏

گرمی کی وجہ سے بھیڑیں جلدی تھک جاتی تھیں۔‏ وہ سر جھکا کر اکٹھی کھڑی ہو جاتیں اور ہانپنے لگتی تھیں۔‏ وہ پیٹ بھر کر کھا نہیں پاتی تھیں جس کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو جاتی تھیں۔‏ لیکن میرے تایا جی دیر تک نہیں سوتے تھے۔‏ وہ صبح تقریباً ۴ بجے ہی جاگ جاتے تھے اور سورج نکلنے سے پہلے ہی بھیڑوں کو اچھی جگہ چرانے لے جاتے تھے۔‏ بھیڑیں صبح کی تازہ ہوا میں چرتیں اور یوں صحت‌مند رہتیں۔‏ ہمارے علاقے میں لوگ اکثر کہتے تھے:‏ ”‏بھیڑ کو دیکھ کر اُس کے چرواہے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔‏“‏

خوب چرنے کے بعد بھیڑیں آرام کرتی تھیں۔‏ اِس وقت بھیڑوں کا معائنہ کِیا جا سکتا ہے کہ اُن میں سے کوئی بھیڑ زخمی یا بیمار تو نہیں ہے۔‏ اگر ایسا ہو تو اُن کا فوری علاج کرنا پڑتا ہے۔‏ ہماری بھیڑوں کو جس مسئلے کا سامنا تھا،‏ وہ یہ تھا کہ مکھیاں اُن کی ناف میں انڈے دے دیتی تھیں۔‏ اِس وجہ سے اُن کی ناف میں سُوجن ہو جاتی تھی اور اِردگرد کا حصہ سُرخ ہو جاتا تھا۔‏ اِس سے بھیڑ کو بہت شدید درد ہوتا تھا۔‏ اگر بھیڑ کی اِس تکلیف کا جلد علاج نہ کِیا جاتا تو وہ مر جاتی۔‏ اِس لئے ہم تقریباً ہر روز اپنی بھیڑوں کا معائنہ کرتے تھے تاکہ وقت پر اُن کا علاج کر سکیں۔‏ اگرچہ اِس میں بہت وقت لگتا تھا اور ہمیں بہت محنت کرنی پڑتی تھی لیکن ہماری بھیڑیں تندرست رہتی تھیں۔‏

ہر شام جب ہم باڑے میں واپس آتے تھے تو ہم تمام بھیڑوں کو گنتے تھے۔‏ بھیڑیں ایک تنگ دروازے سے باڑے میں داخل ہوتی تھیں۔‏ بعض اوقات تین یا چار بھیڑیں ایک ہی وقت میں داخل ہونے کی کوشش کرتی تھیں۔‏ ہمارے پاس سینکڑوں کے حساب سے بھیڑیں تھیں۔‏ لیکن وقت کے ساتھ‌ساتھ ہم گنتی کرنے میں اِتنے ماہر ہو گئے تھے کہ ہم ۱۵ سے ۲۰ منٹ میں تقریباً ۸۰۰ بھیڑیں گن سکتے تھے۔‏

اگر ہمیں پتہ چلتا کہ ہماری کوئی بھیڑ کھو گئی ہے تو میرے تایا جی اپنی بندوق اور لاٹھی لے کر اُسے ڈھونڈنے کے لئے نکل پڑتے۔‏ یہاں تک کہ اگر ریوڑ میں سے ایک بھی میمنا کھو جاتا تو وہ تیز بارش اور رات کی تاریکی کی پرواہ کئے بغیر اُسے تلاش کرنے چلے جاتے۔‏ وہ تلاش کے دوران اُونچی آواز میں اُسے پکارتے۔‏ اُن کی آواز سے جنگلی جانور ڈر جاتے۔‏ لیکن جب بھیڑ اُن کی آواز سُن لیتی اور اُنہیں دیکھ لیتی تو وہ خود کو محفوظ محسوس کرنے لگتی۔‏

ہم نے ہر بھیڑ کا نام اُس کی شکل اور عادتوں کی بِنا پر رکھا تھا۔‏ ہر ریوڑ میں کچھ ضدی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں۔‏ وہ چرواہے کی بات بالکل نہیں مانتی ہیں۔‏ اُن کو دیکھ کر کچھ اَور بھیڑیں بھی ضدی ہو جاتی ہیں۔‏ اِس لئے چرواہا اُنہیں سدھارنے کی کوشش کرتا ہے۔‏ مثال کے طور پر وہ ضدی بھیڑ کو باڑے میں اکیلا چھوڑ دیتا ہے۔‏ ایسا کرنے سے بعض بھیڑیں سدھر جاتی ہیں اور چرواہے کی بات ماننے لگتی ہیں۔‏ ہمارے ریوڑ میں بھی کچھ ضدی بھیڑیں تھیں۔‏ جو بھیڑ نہیں سدھرتی تھی،‏ ہم اُسے پکا کر کھا جاتے تھے۔‏

خدا کے خادموں کا چرواہا

مَیں نے ۱۹۸۹ء میں مارشل آرٹس سیکھنا شروع کر دئے اور جلد ہی اِن کا ماہر ہو گیا۔‏ اگلے ہی سال مجھے اور میرے ساتھ مارشل آرٹس سیکھنے والے چند ساتھیوں کو کچھ عرصے کے لئے سوویت فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔‏ جب ہم روس میں تھے تو میرے اِن ساتھیوں نے ایک گینگ بنا لیا۔‏ جب مَیں کرغستان واپس آیا تو اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر مَیں اُن کے گینگ میں شامل ہو جاؤں تو مجھے زندگی کی ہر آسائش مل جائے گی۔‏ لیکن اِسی دوران میری ملاقات یہوواہ کے گواہوں سے ہوئی۔‏

یہوواہ کے گواہوں نے میرے بہت سے ایسے سوالوں کے جواب دئے جو بچپن سے میرے ذہن میں تھے۔‏ مثال کے طور پر مَیں اکثر یہ سوچتا تھا کہ لوگ کیوں مرتے ہیں؟‏ یہوواہ کے گواہوں نے مجھے خدا کے کلام سے بتایا کہ جب آدم نے گُناہ کِیا تو انہیں موت کی سزا ملی۔‏ اور چونکہ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اِس لئے ہم سب مرتے ہیں۔‏ (‏رومیوں ۵:‏۱۲‏)‏ اُنہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ہمارے خالق یہوواہ خدا نے یسوع مسیح کو زمین پر بھیجا تاکہ وہ ہماری خاطر اپنی جان دیں۔‏ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح پر ایمان لانے سے ہمارے گُناہ معاف ہو سکتے ہیں اور ہم موت سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‏ اِس طرح ہمیں زمین پر فردوس میں ہمیشہ تک رہنے کی اُمید حاصل ہوتی ہے۔‏ یہوواہ خدا شروع سے یہی چاہتا تھا کہ تمام انسان ہمیشہ تک زندہ رہیں۔‏—‏زبور ۳۷:‏۱۱،‏ ۲۹؛‏ ۸۳:‏۱۸؛‏ یوحنا ۳:‏۱۶،‏ ۳۶؛‏ ۱۷:‏۱-‏۵؛‏ مکاشفہ ۲۱:‏۳،‏ ۴‏۔‏

یہوواہ کے گواہوں نے میرے سوالوں کے اِتنے آسان اور واضح جواب دئے کہ مَیں حیران رہ گیا۔‏ اب مَیں اپنے اُن ساتھیوں سے ملنا نہیں چاہتا تھا جنہوں نے میرے ساتھ مارشل آرٹس سیکھے تھے۔‏ اُنہوں نے کئی بار مجھے اپنے گینگ میں شامل ہونے کو کہا اور مجھے طرح‌طرح کی چیزوں کا لالچ دیا۔‏ لیکن مَیں نے اُن کی بات نہ مانی کیونکہ مَیں نے ٹھان لی تھی کہ مَیں اُنہی باتوں پر عمل کروں گا جو مَیں نے پاک صحیفوں سے سیکھی تھیں۔‏ یوں مَیں نے اُس راہ پر پہلا قدم رکھا جس پر چلتےچلتے مَیں ایک ایسا چرواہا بن گیا جو خدا کے خادموں کی دیکھ‌بھال کرتا ہے۔‏

اِنہی دنوں ایک ایسی عورت میری ماں سے ملنے آتی تھی جو تعویز گنڈے سے علاج کرنے کے لئے مشہور تھی۔‏ ایک دن جب مَیں گھر آیا تو وہ عورت منتر پڑھنے لگی۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏الم‌بک،‏ تُم میں ایک خاص صلاحیت ہے۔‏ مسجد جا کر تعویز لے لو تاکہ تُم بھی لوگوں کا روحانی علاج کر سکو۔‏“‏ اُس کی باتیں سُن کر مجھے ایسا لگنے لگا کہ مجھ میں واقعی تعویز گنڈے سے علاج کرنے کی صلاحیت آ جائے گی۔‏

اگلے دن مَیں نے جا کر یہوواہ کے گواہوں کو سارا قصہ سنایا۔‏ اُنہوں نے مجھے پاک صحیفوں سے بتایا کہ یہوواہ خدا کو ہر قسم کے جادومنتر سے نفرت ہے کیونکہ ایسے کام بدروحوں کی طاقت سے کئے جاتے ہیں۔‏ (‏استثنا ۱۸:‏۹-‏۱۳‏)‏ مجھے کئی راتوں تک بدروحوں کے اثر کی وجہ سے ڈراؤنے خواب آتے رہے۔‏ پھر یہوواہ کے گواہوں نے مجھے سکھایا کہ مجھے یہوواہ خدا سے کیسے دُعا کرنی چاہئے۔‏ اِس کے بعد سے مجھے ڈراؤنے خواب آنے بند ہو گئے۔‏ مجھے پورا یقین ہو گیا کہ مجھے وہ خدا مل گیا تھا جو ایک چرواہے کی طرح ہماری فکر رکھتا ہے۔‏

مَیں نے خدا کے کلام سے سیکھا کہ بادشاہ داؤد بھی جوانی میں چرواہے تھے۔‏ بعد میں اُنہوں نے بہت سے زبور لکھے۔‏ داؤد نے اپنے ایک زبور میں یہوواہ خدا کو ”‏میرا چوپان“‏ یعنی میرا چرواہا کہا۔‏ داؤد نے جس طرح سے یہوواہ خدا کے بارے میں اپنے احساسات کا اظہار کِیا،‏ وہ مجھے بہت اچھا لگا۔‏ (‏زبور ۲۳:‏۱-‏۶‏)‏ مَیں نے یہ بھی سیکھا کہ پاک کلام میں یسوع مسیح کو’‏بھیڑوں کا چرواہا‘‏ کہا گیا ہے اور میرے دل میں اُن کی مثال پر عمل کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔‏ (‏عبرانیوں ۱۳:‏۲۰‏)‏ مَیں نے یہوواہ خدا کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور ۱۹۹۳ء میں یہوواہ کے گواہ کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏

ایک اجتماع اور ایک سازش

میرے بہت سے رشتہ‌دار اور پڑوسی پاک صحیفوں کا مطالعہ کرنے کے لئے باقاعدگی سے جمع ہونے لگے۔‏ میرے گاؤں سے تقریباً ۷۰ لوگ اِسی مقصد کے لئے جھیل اِسیک‌کُل کے کنارے جمع ہوتے تھے۔‏ میرے ایک رشتہ‌دار ہمارے گاؤں کے سردار تھے۔‏ وہ بھی پاک صحیفوں کے بارے میں جاننے کا بڑا شوق رکھتے تھے۔‏ اُنہوں نے کہا کہ وہ ایک بڑا اجتماع منعقد کریں گے تاکہ ہم حاضرین کو یہوواہ کے گواہوں کے عقائد کے بارے میں بتا سکیں۔‏ یہ سُن کر ہمارے علاقے کے مذہبی رہنماؤں نے سازش کی کہ وہ اجتماع کے دوران لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکائیں گے۔‏

اجتماع والے دن تقریباً ایک ہزار لوگ جمع ہوئے،‏ یہاں تک کہ آس‌پاس کے تین گاؤں سے بھی لوگ آئے۔‏ اجتماع میں کچھ یہوواہ کے گواہ بھی آئے ہوئے تھے۔‏ اِن میں سے ایک کھڑا ہو کر پاک صحیفوں میں سے تعلیم دینے لگا۔‏ ابھی پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ بِھیڑ میں سے ایک آدمی اُٹھ کر لوگوں کو بھڑکانے لگا۔‏ اِس کے بعد لوگوں نے یہوواہ کے گواہوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی اور اُنہیں دھمکانے لگے۔‏ بِھیڑ غصے سے کھول اُٹھی اور ہمیں مارنے کے لئے تیار ہو گئی۔‏

اِسی لمحے میرے بڑے بھائی نے ہماری مدد کی۔‏ اُنہوں نے حال ہی میں پاک صحیفوں کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تھا۔‏ وہ مارپیٹ کرنے میں بہت تیز تھے اِس لئے لوگ اُن سے ڈرتے تھے۔‏ بھائی‌جان یہوواہ کے گواہوں اور بِھیڑ کے درمیان کھڑے ہو گئے۔‏ اُن کی اِس دلیری کی وجہ سے ہم بِھیڑ کے ہاتھوں سے بچ گئے۔‏ بہت سے لوگ جو اُس اجتماع میں حاضر تھے،‏ وہ بعد میں یہوواہ کے گواہ بن گئے۔‏ ہمارے گاؤں کی آبادی ۱۰۰۰ ہے جس میں سے آج ۵۰ سے زیادہ لوگ یہوواہ کے گواہ ہیں۔‏

جیون‌ساتھی کا انتخاب

اگست ۱۹۹۳ء میں یہوواہ کے گواہوں نے روس کے شہر ماسکو میں ایک بہت بڑا اجتماع منعقد کِیا۔‏ اِس سے چند ماہ پہلے میری ملاقات گلُ‌میرا سے ہوئی جو کرغستان کے ایک گاؤں سے ہیں۔‏ اُن کے والد بھی پیشے کے لحاظ سے چرواہے تھے۔‏ سن ۱۹۸۸ میں گلُ‌میرا کی والدہ نے اکسامی نام کی ایک یہوواہ کی گواہ سے پاک کلام کی تعلیم حاصل کی۔‏ اُس وقت سوویت یونین میں یہوواہ کے گواہوں کی تنظیم پر پابندی تھی۔‏ اکسامی ۱۹۷۰ء کے بعد یہوواہ کی گواہ بنی تھیں اور وہ اپنے علاقے میں پہلی کرغز تھیں جو یہوواہ کی گواہ بنیں۔‏

جلد ہی گلُ‌میرا بھی اکسامی سے پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔‏ سن ۱۹۹۰ میں گلُ‌میرا اور اُن کی والدہ نے یہوواہ کے گواہوں کے طور پر بپتسمہ لے لیا۔‏ گلُ‌میرا کی دلی خواہش تھی کہ وہ یہوواہ خدا کی زیادہ سے زیادہ خدمت کریں اِس لئے وہ کُل‌وقتی طور پر لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دینے لگیں۔‏

اگلے دو سال کے دوران گلُ‌میرا سے میری ملاقات چند ایک موقعے پر ہی ہوئی کیونکہ میرا گھر گلُ‌میرا کے گھر سے تقریباً ۱۶۰ کلومیٹر (‏۱۰۰ میل)‏ دُور تھا۔‏ مَیں نے سوچا کہ گلُ‌میرا میرے لئے اچھی جیون‌ساتھی ثابت ہوں گی۔‏ مارچ ۱۹۹۵ء میں مَیں نے اُن کے ساتھ بات کرنے کا فیصلہ کِیا اور اِس ارادے کے ساتھ ایک صبح اُن کے گھر جا پہنچا۔‏ لیکن مجھے یہ سُن کر بڑا دھچکا لگا کہ گلُ‌میرا اگلے دن روس جا رہی تھیں جہاں وہ یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر میں خدمت کریں گی۔‏ اب گلُ‌میرا مجھ سے ۵۶۳۳ کلومیٹر (‏۳۵۰۰ میل)‏ دُور جا رہی تھیں۔‏

مَیں بھی کُل‌وقتی طور پر لوگوں کو پاک کلام کی تعلیم دیتا تھا۔‏ اِس کے علاوہ مَیں نے روسی زبان سیکھنا شروع کر دی تھی کیونکہ اُس زمانے میں یہوواہ کے گواہوں کی کوئی کتاب یا رسالہ کرغز زبان میں دستیاب نہیں تھا۔‏ مَیں اور گلُ‌میرا تین سال تک ایک دوسرے کو خط لکھتے رہے۔‏ ہم دونوں طے کر لیتے تھے کہ ہم پاک کلام کی فلاں آیتوں کو پڑھیں گے اور پھر ہم خطوں میں ایک دوسرے کو اِن آیتوں کے بارے میں اپنےاپنے خیالات بتاتے۔‏ اِس دوران مَیں شہر بالک‌چی میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا میں خدمت کر رہا تھا۔‏ یہ پہلی کلیسیا تھی جس میں کرغز زبان بولی جاتی تھی۔‏

چرواہے کی بیٹی کے ساتھ خدا کی خدمت

گلُ‌میرا ۱۹۹۸ء میں چھٹیاں گزارنے کرغستان آئیں اور ہماری شادی ہو گئی۔‏ شادی کے بعد ہم دونوں روس کے برانچ دفتر میں خدمت کرنے لگے۔‏ یہ کتنا اچھا تھا کہ مَیں نے پہلے سے ہی روسی زبان سیکھنا شروع کر دی تھی۔‏ کچھ عرصے بعد مجھے ایک ترجمہ کرنے والی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کی ذمہ‌داری دی گئی جو یہوواہ کے گواہوں کی کتابوں اور رسالوں کا ترجمہ کرغز زبان میں کرتی تھی۔‏ مَیں نے یہوواہ خدا سے دُعا کی کہ وہ مجھے دانائی اور صبر عطا کرے تاکہ مَیں یہ کام اچھی طرح سے سیکھ جاؤں۔‏ گلُ‌میرا بھی اِس ٹیم میں شامل تھیں اور اُنہوں نے میری بہت مدد کی۔‏

سن ۲۰۰۴ میں ہماری ٹیم کو کرغستان کے شہر بش‌کیک بھیج دیا گیا۔‏ یہاں مجھے اُس کمیٹی میں خدمت کرنے کی ذمہ‌داری دی گئی جو کرغستان میں یہوواہ کے گواہوں کے کام کی نگرانی کرتی ہے۔‏ اُس وقت کرغستان میں ۷ ایسی کلیسیائیں تھیں جن میں کرغز زبان بولی جاتی تھی اور ۳۰ ایسی کلیسیائیں تھیں جن میں روسی زبان بولی جاتی تھی۔‏ آج کرغستان میں یہوواہ کے گواہوں کی کُل تعداد ۴۸۰۰ ہے۔‏ اِن میں سے ۴۰ فیصد یہوواہ کے گواہ،‏ ۲۰ ایسی کلیسیاؤں میں اور ایسے گروپوں میں خدمت کر رہے ہیں جن میں کرغز زبان بولی جاتی ہے۔‏

مَیں نے اور گلُ‌میرا نے انگریزی زبان سیکھنے کا فیصلہ کِیا کیونکہ یہ زبان خدا کی خدمت میں ہمارے کام آ سکتی تھی۔‏ انگریزی زبان سیکھنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں ۲۰۰۸ء میں امریکہ میں یہوواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹر آنے کی دعوت ملی۔‏ وہاں میرا اندراج ایک ایسے سکول میں ہوا جس میں مجھے اپنے ملک میں یہوواہ کے گواہوں کے کام کی نگرانی کرنے کے سلسلے میں تربیت دی گئی۔‏

اِس تربیت کا مجھے بہت فائدہ ہوا ہے۔‏ مجھے اور گلُ‌میرا کو لگتا ہے کہ اب ہم کرغستان میں اَور بھی اچھی طرح سے خدا کی خدمت کر سکتے ہیں۔‏ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا ہے کہ یہوواہ خدا واقعی ایک اچھے چرواہے کی طرح اپنے لوگوں کی فکر رکھتا ہے۔‏ مَیں نے محسوس کِیا ہے کہ زبور میں لکھے ہوئے یہ الفاظ بالکل سچ ہیں:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ میرا چوپان ہے۔‏ مجھے کمی نہ ہوگی۔‏ وہ مجھے ہری‌ہری چراگاہوں میں بٹھاتا ہے۔‏ وہ مجھے راحت کے چشموں کے پاس لے جاتا ہے۔‏ وہ میری جان کو بحال کرتا ہے۔‏ وہ مجھے اپنے نام کی خاطر صداقت کی راہوں پر لے چلتا ہے۔‏“‏—‏زبور ۲۳:‏۱-‏۳‏۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ہماری بھیڑیں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ہم ہر شام بھیڑوں کو گنتے تھے کہ کہیں کوئی بھیڑ گم تو نہیں ہو گئی۔‏

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

مَیں اور گلُ‌میرا