کیا مَیں واقعی کسی کام کا نہیں ہوں؟
نوجوانوں کا سوال
کیا مَیں واقعی کسی کام کا نہیں ہوں؟
”میری ایک سہیلی تھی جو زیادہ محنت بھی نہیں کرتی تھی پھر بھی ہر کام آسانی سے کر لیتی تھی۔ اُس کے مقابلے میں مَیں خود کو کمتر سمجھتی تھی۔ مَیں سوچتی تھی کہ مَیں تو بالکل ناکارہ ہوں۔ میرے خیال میں تو مَیں خود ہی اپنی دُشمن تھی۔“—انیتا۔ *
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو کچھ نہیں آتا اور اِس لئے آپ کچھ نیا کرنے سے ہچکچاتے ہیں؟ جب آپ کے دوست یا رشتہدار آپ کے کسی کام کے حوالے سے کچھ کہتے ہیں تو کیا آپ اعتماد کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں؟ کیا آپ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے اِتنے دلبرداشتہ ہو گئے ہیں کہ آپ دوبارہ کچھ کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے؟ اگر ایسا ہے تو خود سے پوچھیں: ”کیا مجھے صرف یہ احساس ہے کہ مَیں ناکام ہو گیا ہوں یا کیا مَیں واقعی ناکام ہو گیا ہوں؟“
اگر آپ اِس اہم سوال کا جواب حاصل کر لیتے ہیں تو آپ کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہر شخص زندگی میں کبھی نہ کبھی غلطی کرتا ہے۔ (رومیوں ۳:۲۳) لیکن جو شخص ناکامی کے باوجود ہمت نہیں ہارتا، وہ ایک ایسے شخص کی طرح ہوتا ہے جو گِر کر اُٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے اور دوبارہ کوشش کرتا ہے۔ یوں اگلی بار اُس کی کامیابی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ جب آپ کو ناکامی کا خوف ہو، ناکامی کا احساس ہو یا پھر ناکامی کا سامنا ہو تو آپ کیا کر سکتے ہیں۔
ناکامی کا خوف ← کیا ہوگا؟ کسی کام کو کرنے سے پہلے ہی آپ سوچ لیتے ہیں کہ آپ اِس میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے اور اِس وجہ سے آپ کوشش ہی نہیں کرتے۔
خود کو پرکھیں۔ نیچے دئے گئے اُس کام کے سامنے ✔ کا نشان لگائیں جسے آپ کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑے گا۔
◯ اپنے ہمجماعتوں کو اپنے عقائد کے بارے میں بتانا
◯ ملازمت کے لئے درخواست دینا
◯ دوسروں کے سامنے تقریر دینا
◯ کسی کھیل میں حصہ لینا
◯ گانا گانا یا کوئی ساز بجانا
◯ کوئی اَور کام ․․․․․
سوچبچار کریں۔ ذرا اُس کام پر غور کریں جس کے سامنے آپ نے نشان لگایا ہے اور سوچیں کہ اِس کام کو کرنے کے کیاکیا نتائج نکل سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں اِن سوالوں کے جواب دیں:
”مَیں اِس کام سے کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں؟“
․․․․․
”مجھے کس بات کا خوف ہے؟“
․․․․․
اب ایک وجہ لکھیں کہ آپ ناکامی کے خوف کے باوجود یہ کام کیوں کرنا چاہتے ہیں۔
․․․․․
پاک صحیفوں سے ایک مثال۔ جب یہوواہ خدا نے اپنے نبی موسیٰ کو بنیاِسرائیل کی رہنمائی کرنے کا حکم دیا تو موسیٰ نے سب سے پہلے یہی سوچا کہ اُنہیں ناکامی خروج ۴:۱، ۱۰، ۱۳) آخرکار موسیٰ خدا کا کام کرنے کے لئے راضی ہو گئے اور پاک صحیفوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ وہ اِس میں کامیاب بھی رہے۔ خدا کی مدد سے موسیٰ نے ۴۰ سال تک بنیاِسرائیل کی رہنمائی کی۔
کا سامنا ہوگا۔ اُنہوں نے خدا سے کہا: ”وہ تو میرا یقین ہی نہیں کریں گے نہ میری بات سنیں گے۔“ اِس کے بعد وہ اپنی کمزوریوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں فصیح نہیں۔ نہ تو پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کِیا بلکہ رُکرُک کر بولتا ہُوں اور میری زبان کُند ہے۔“ یہوواہ خدا نے موسیٰ سے وعدہ کِیا کہ وہ اُن کی مدد کرے گا لیکن پھر بھی موسیٰ نے کہا: ”مَیں تیری مِنت کرتا ہُوں کسی اَور کے ہاتھ سے جِسے تُو چاہے یہ پیغام بھیج۔“ (آپ کیا کر سکتے ہیں؟ سلیمان بادشاہ نے لکھا: ”جو کچھ بھی تیرے ہاتھوں کو کرنا پڑے اُسے اپنی ساری قوت سے کر۔“ (واعظ ۹:۱۰، نیو اُردو بائبل ورشن۔) لہٰذا ناکامی کے خوف کی وجہ سے کسی کام کو کرنے سے نہ ہچکچائیں بلکہ پورے دل سے اِسے انجام دینے کی کوشش کریں۔ کسی ایسے موقعے کو یاد کریں جب آپ نے سوچا تھا کہ آپ ایک کام کو نہیں کر پائیں گے لیکن پھر آپ نے کامیابی سے اِسے کر لیا تھا۔ اپنی اِس کامیابی سے آپ نے اپنے بارے میں کیا سیکھا تھا؟ ذرا سوچیں کہ جو بات آپ نے اُس وقت اپنے بارے میں سیکھی تھی، وہ اب ناکامی کے خوف پر قابو پانے میں آپ کی مدد کیسے کر سکتی ہے۔
مشورہ: اگر ضروری ہو تو اپنے والدین یا کسی سمجھدار دوست سے مشورہ لیں۔ وہ آپ کے اعتماد کو بڑھانے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔
ناکامی کا احساس ← آپ کے خیال میں کیا ہوا ہے؟ جب کوئی دوسرا شخص آپ سے زیادہ اچھی طرح کوئی کام کرتا ہے تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اُس کے مقابلے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
خود کو پرکھیں۔ خود سے پوچھیں: ”مَیں کس کے ساتھ اپنا مقابلہ کر رہا ہوں؟ اور اُس شخص کی کس کامیابی کی وجہ سے مَیں خود کو ناکام محسوس کر رہا ہوں؟“
․․․․․
سوچبچار کریں۔ کیا اُس شخص کی کامیابی کا واقعی یہ مطلب ہے کہ آپ ناکام ہو گئے ہیں؟ نیچے ایک ایسا واقعہ لکھیں جب کسی دوسرے کی کارکردگی آپ سے بہتر تھی۔ مثال کے طور پر آپ نے سکول میں ایک ٹیسٹ اچھا کِیا تھا لیکن آپ کے کسی ہمجماعت نے آپ سے زیادہ اچھے نمبر حاصل کئے تھے۔
․․․․․
اب لکھیں کہ یہ کیوں اچھا تھا کہ آپ نے کوشش کی۔
․․․․․
پاک صحیفوں سے ایک مثال۔ ہابل اور قائن دونوں بھائی تھے۔ یہوواہ خدا *—پیدایش ۴:۶، ۷۔
نے ہابل کی قربانی کو قبول کِیا۔ اِس وجہ سے قائن ”غضبناک ہوا۔“ یہوواہ خدا نے قائن کو آگاہ کِیا کہ اُس کے دل میں اپنے بھائی کے لئے حسد پیدا ہو رہا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھساتھ یہوواہ خدا نے اِس بات پر اعتماد بھی ظاہر کِیا کہ اگر قائن کوشش کرے تو وہ کامیاب ہوگا۔ یہوواہ خدا نے قائن سے کہا: ”اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟“آپ کیا کر سکتے ہیں؟ دوسروں سے مقابلہ کرنے، اُن سے چڑنے اور جلنے کی بجائے اُن کی کامیابی کو تسلیم کریں۔ (گلتیوں ۵:۲۶؛ رومیوں ۱۲:۱۵) اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں لیکن اِن کے بارے میں شیخی نہ بگھاریں۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”ہر شخص اپنے ہی کام کو آزما لے۔ اس صورت میں اُسے اپنی ہی بابت فخر کرنے کا موقع ہوگا۔“—گلتیوں ۶:۴۔
ناکامی ← دراصل کیا ہوا تھا؟ آپ ماضی کی کسی ناکامی کی وجہ سے سوچتے ہیں کہ کوشش کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
خود کو پرکھیں۔ آپ اپنی کس ناکامی کی وجہ سے بہت زیادہ بےدل ہیں؟
․․․․․
سوچبچار کریں۔ آپ نے اپنی جس ناکامی کے بارے میں لکھا ہے، کیا اِس سے واقعی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کسی بھی کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے؟ مثال کے طور پر اگر آپ اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے؟ یا پھر کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ آپ کو مدد کی ضرورت ہے؟ اگر آپ کھیل کے دوران گِر جائیں اور کوئی آپ کو اپنا ہاتھ دے تو آپ کیا کریں گے؟ آپ یقیناً اُس کی مدد لیں گے۔ اِسی طرح اپنی کسی کمزوری پر قابو پانے کے سلسلے میں بھی آپ دوسروں سے مدد لے سکتے ہیں۔ کسی ایسے شخص کا نام لکھیں جس سے آپ اپنی کمزوری یا اپنے مسئلے کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔ *
․․․․․
پاک صحیفوں سے ایک مثال۔ پولس رسول بھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے کبھیکبھی بےدل ہو جاتے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”ہائے مَیں کیسا کمبخت آدمی ہوں!“ (رومیوں ۷:۲۴) لیکن آخرکار پولس رسول یہ سمجھ گئے کہ اُن کی کمزوریوں کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک ناکام شخص ہیں۔ اُنہوں نے لکھا: ”مَیں اچھی کشُتی لڑ چکا۔ مَیں نے دوڑ کو ختم کر لیا۔ مَیں نے ایمان کو محفوظ رکھا۔“—۲-تیمتھیس ۴:۷۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟ صرف اپنی کمزوریوں پر دھیان نہ دیں بلکہ اپنی خوبیوں کو بھی پہچانیں۔ یہوواہ خدا ہماری خوبیوں پر دھیان دیتا ہے۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُس کے نام کے واسطے . . . ظاہر کی۔“—عبرانیوں ۶:۱۰؛ زبور ۱۱۰:۳۔
یاد رکھیں کہ ہم سب گنہگار ہیں اِس لئے ہم سب کبھی نہ کبھی غلطی کرتے ہیں۔ لہٰذا ناکامی کی صورت میں ہمت ہارنے کی بجائے کوشش جاری رکھیں۔ اِس سے آپ نہ صرف اب بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ حاصل کریں گے۔ امثال ۲۴:۱۶ میں لکھا ہے: ”صادق سات بار گِرتا ہے اور پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔“ آپ بھی گِر کر اُٹھ سکتے ہیں۔
”نوجوانوں کا سوال“ کے سلسلے میں مزید مضامین ویبسائٹ www.watchtower.org/ype پر مل سکتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 3 نام بدل دیا گیا ہے۔
^ پیراگراف 31 قائن نے یہوواہ خدا کی بات پر عمل نہیں کِیا اور اِس کا انجام بہت بُرا ہوا۔ قائن کے واقعے سے ہم سیکھتے ہیں کہ اگر دوسروں کی کامیابی کی وجہ سے ہمارے دل میں حسد پیدا ہو تو ہمیں اِس پر فوراً قابو پا لینا چاہئے۔—فلپیوں ۲:۳۔
^ پیراگراف 36 اگر ایک مسیحی کوئی گُناہ کرتا ہے تو اُسے مدد کے لئے کلیسیا کے کسی بزرگ سے بات کرنی چاہئے۔—یعقوب ۵:۱۴، ۱۶۔
[صفحہ ۱۹ پر بکس/تصویریں]
آپ کے ہم عمروں کی رائے
”اگر آپ صرف وہی کام کرتے ہیں جو آپ اچھی طرح کر سکتے ہیں اور ناکامی کے ڈر سے کچھ نیا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو آپ زندگی کا مزہ نہیں لے رہے۔“
”فیصلہ آپ کا اپنا ہوتا ہے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں: اپنی غلطیوں سے سیکھنا اور بہتری لانا یا پھر صرف وہی کرنا جو آپ کو آسان لگتا ہے۔“
”اگر مجھے لگتا ہے کہ مَیں ناکام ہونے والی ہوں تو مَیں اِسے سر پر سوار نہیں کرتی۔ اپنی ناکامی پر مُنہ بسور کر بیٹھنے سے بہتر ہے کہ آپ اِس پر ہنسیں۔ اگر آپ خود سے بہت زیادہ توقع کرتے ہیں تو آپ کبھی خوش نہیں ہوں گے۔“
[تصویریں]
آندریا
ٹرینٹن
نعومی
[صفحہ ۲۰ پر بکس]
اپنے والدین سے پوچھیں
جب آپ میرے جتنے تھے تو آپ کن باتوں کی وجہ سے بیدل ہو جاتے تھے؟ ایسی صورتحال میں آپ کیا کرتے تھے؟ کیا آپ اب بھی کبھیکبھی ایسی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں؟
․․․․․
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
ایک باہمت شخص گِر کر اُٹھ جاتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو مدد بھی لیتا ہے۔