نوجوانی کا زمانہ
نوجوانی کا زمانہ
فرض کریں کہ آپ ایک گرم علاقے کے رہنے والے ہیں اور سفر کرکے ایک بہت ہی سرد علاقے میں پہنچے ہیں۔ ہوائیجہاز سے اُترتے ہی آپ کو شدید سردی کا احساس ہوتا ہے۔ کیا آپ اِس سردی سے نمٹ پائیں گے؟ بالکل۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے آپ کو کچھ اقدام اُٹھانے پڑیں گے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا آپ کو اُس وقت ہوتا ہے جب آپ کا بچہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے موسم راتوںرات بدل گیا ہو۔ وہ بچہ جو پہلے آپ ہی کے ساتھ چپکا رہتا تھا، اب اپنے ہمعمروں کے ساتھ وقت گزارنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ بچی جو پہلے آپ کو اپنے دن کے بارے میں پٹرپٹر بتاتی تھی، اب آپ کو بس مختصر سے جواب دیتی ہے۔
آپ اُس سے پوچھتے ہیں: ”آپ کا دن کیسا گزرا؟“
وہ کہتی ہے: ”ٹھیک گزرا۔“
خاموشی۔
آپ پوچھتے ہیں: ”آپ کیا سوچ رہی ہو؟“
وہ کہتی ہے: ”کچھ نہیں۔“
پھر سے خاموشی۔
آخر آپ کے بچے کو کیا ہو گیا ہے؟ کتاب اپنے بچوں کے خیالات کو سمجھیں میں بچے کی زندگی کو ڈرامے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ ایک وقت تھا جب بچہ اپنے والدین کو سٹیج کے پیچھے آکر ڈرامے کو قریب سے دیکھنے کو کہتا تھا۔ لیکن پھر اچانک بچے کے رویے میں تبدیلی آ گئی۔ اب وہ اپنے ماںباپ کو مشکل سے ہی اِس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ تھیٹر کی پچھلی نشستوں پر بیٹھ کر ڈرامہ دیکھیں۔ —انگریزی میں دستیاب۔
کیا والدین اِس دُوری کو مٹانے کے لئے کچھ کر سکتے ہیں؟ جیہاں۔ لیکن پہلے اُن کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زندگی کے اِس مرحلے میں اُن کے بچے میں کونسی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔
نوجوانی کے سفر کا آغاز
ایک زمانے میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ انسان کے دماغ میں جو تبدیلیاں آنی ہوتی ہیں، وہ پانچ سال کی عمر تک آ جاتی ہیں۔ لیکن اب اُن کا خیال ہے کہ اگرچہ انسان کا دماغ پانچ سال کی عمر کے بعد مزید بڑا تو نہیں ہوتا لیکن دماغ کے کام کرنے کی صلاحیت میں اِس عمر کے بعد بھی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ نوجوانی میں انسان کے جسم میں بہت سے مختلف قسم کے ہارمون پیدا ہونے لگتے ہیں اور اِس وجہ سے اُس کی سوچ میں تبدیلی آتی ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹے بچوں کی نظر میں ایک بات یا تو صحیح یا پھر غلط ہوتی ہے، وہ اِس کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ لیکن نوجوان بات کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایک بات کیوں صحیح یا غلط ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۱) وہ مختلف معاملوں کے بارے میں اپنا نظریہ قائم کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنے نظریے سے باخبر کرتے ہوئے ہچکچاتے نہیں۔
اٹلی میں رہنے والے پاؤلو اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”میرا بیٹا اب نوجوان ہے۔ جب مَیں اُسے دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ جیسے میرے سامنے ایک لڑکا نہیں بلکہ آدمی کھڑا ہے۔ یہ نہیں کہ صرف اُس کا قدکاٹھ بڑھ گیا ہے بلکہ مجھے سب سے زیادہ حیرانی اِس بات پر ہوتی ہے کہ اُس کا سوچنے کا انداز کتنا بدل گیا ہے۔ وہ بےدھڑک اپنی رائے دیتا ہے اور اپنے نظریوں کا دفاع کرتا ہے۔“
کیا آپ کے بچے میں کچھ ایسی ہی تبدیلیاں آ رہی ہیں؟ جب وہ چھوٹا تھا اور آپ سے پوچھتا تھا کہ ”مَیں ایسا کیوں کروں؟“ تو یہی کافی ہوتا تھا کہ آپ اُس سے کہیں: ”کیونکہ مَیں نے کہا ہے۔“ لیکن جب وہ نوجوان ہو جاتا ہے تو وہ مزید وجوہات جاننا چاہتا ہے۔ شاید وہ اُن اصولوں اور قدروں پر بھی بحث کرنے لگے جو آپ نے اُسے سکھائے ہیں۔ کبھیکبھار تو لگتا ہے کہ وہ سرکشی کر رہا ہے۔
لیکن یہ مت سوچیں کہ آپ کا بچہ آپ کے اصولوں کو ٹھکرا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ آپ کے اصولوں کے لئے اپنی زندگی میں جگہ بنانے کی کوشش کر رہا ہو۔ فرض کریں کہ آپ گھر بدل رہے ہیں اور اپنا سارا سامان دوسرے گھر لے جا رہے ہیں۔ آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ نئے گھر میں اپنی چیزوں کو کہاںکہاں رکھیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ سب چیزیں رکھنے کے لئے جگہ نہ ہو اور آپ کو کچھ چیزیں پھینکنی پڑیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ آپ کسی ایسی چیز کو نہیں پھینکیں گے جسے آپ قیمتی سمجھتے ہیں۔
جب آپ کا بچہ نوجوان ہو جاتا ہے تو وہ اِسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرتا ہے۔ اِس عمر میں وہ اُس وقت کے لئے تیاری کرنے لگتا ہے جب وہ ”اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا“ یعنی اپنا گھر بسائے گا۔ (پیدایش ۲:۲۴) سچ ہے کہ یہ وقت ابھی کافی دُور ہے لیکن اِس عمر میں آپ کا بچہ اُن قدروں اور اصولوں کا جائزہ لے رہا ہے جو آپ نے اُسے سکھائے ہیں۔ وہ اِس بات کا بھی فیصلہ کر رہا ہے کہ وہ اِن میں سے کن کو اپنائے گا اور کن کو ترک کرے گا۔
یہ جان کر شاید آپ پریشان ہو جائیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کو جتنے بھی اصول سکھائیں، بڑا ہو کر وہ صرف اُن ہی پر عمل کرے گا جو اُس کے نزدیک قیمتی ہیں۔ اِس لئے اچھا ہوگا کہ آپ کا بچہ نوجوانی ہی میں آپ کے اصولوں کا جائزہ لے کیونکہ اِس عمر میں آپ اُس کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔—اعمال ۱۷:۱۱۔
اِس میں آپ کے بچے کا فائدہ ہے۔ اگر وہ آج آپ کی ہر بات کو سوچے سمجھے بغیر مان لیتا ہے تو آئندہ وہ دوسروں کی باتیں بھی آسانی سے مان لے گا۔ (خروج ۲۳:۲) خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”بےعقل“ نوجوان بڑی جلدی دوسروں کی باتوں میں آ جاتا ہے۔ ایسے نوجوان کو اچھے اور بُرے میں فرق کرنا نہیں آتا۔ (امثال ۷:۷) جو نوجوان سوچسمجھ کر اپنی رائے قائم کرنے کے عادی نہیں ہوتے، اُنہیں ’ہر غلط تعلیم کی تیز ہوا، پانی کی لہروں کی طرح اِدھراُدھر اُچھالتی رہتی ہے‘ اور وہ ’چالباز اور مکار لوگوں کے منصوبوں کا شکار بنتے‘ رہتے ہیں۔—افسیوں ۴:۱۴، نیو اُردو بائبل ورشن۔
آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کا بچہ بےعقل نہ ہو بلکہ سمجھدار بن جائے؟ آپ تین طریقوں سے اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ یہ کونسے طریقے ہیں۔
۱. بچے کو اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا سکھائیں
پولس رسول نے لکھا: ’پوری عمر والوں کے حواس کام کرتےکرتے نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو جاتے ہیں۔‘ (عبرانیوں ۵:۱۴) شاید آپ کہیں کہ ”مَیں نے تو اپنے بچے کو جب وہ چھوٹا ہی تھا، بتا دیا تھا کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا۔“ اور بِلاشُبہ یہ جان کر اُس کو بچپن میں بہت فائدہ ہوا ہوگا۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴) چھوٹے بچوں کے لئے یہی کافی ہوتا ہے کہ اُن کو پتہ ہو کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا۔ لیکن نوجوانوں کو چاہئے کہ ’جہاں تک عقل سے کام لینے کا سوال ہے، وہ اپنے آپ کو بالغ ثابت کریں‘ یعنی خود اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا سیکھیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۲۰، نیو اُردو بائبل ورشن؛ امثال ۱:۴؛ ۲:۱۱) یقیناً آپ چاہتے ہوں گے کہ آپ کا بچہ اپنی عقل استعمال کرنا سیکھے اور سوچبچار کرنے کے بعد ہی کوئی بات قبول کرے۔ (رومیوں ۱۲:۱، ۲) آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ ایسا کرنا سیکھ لے؟
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ اُسے کُھل کر اپنے احساسات اور خیالات کے بارے میں بات کرنے دیں۔ اُس کی بات نہ کاٹیں۔ اگر وہ کوئی ایسی بات کرے جو آپ کو ناگوار گزرے تو بھی اُسے نہ ٹوکیں۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”ہر آدمی سننے میں تیز اور بولنے میں دھیرا اور قہر میں دھیما ہو۔“ (یعقوب ۱:۱۹؛ امثال ۱۸:۱۳) ایک موقعے پر یسوع مسیح نے کہا: ”جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔“ (متی ۱۲:۳۴) لہٰذا اگر آپ اپنے بچے کی بات کو غور سے سنیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اُس کے دل میں کیا ہے۔
پھر جب آپ اُس سے کچھ کہتے ہیں تو اپنے اختیار کو جتانے کی بجائے اُس سے سوال کریں۔ یسوع مسیح نہ صرف اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے وقت بلکہ اپنے مخالفوں سے بات کرتے وقت بھی اکثر اُن سے پوچھتے تھے کہ ”تمہارا کیا خیال ہے؟“ (متی ۲۱:۲۳، ۲۸، کیتھولک ترجمہ) آپ بھی اپنے بچے سے بات کرتے وقت ایسا کر سکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر اُس وقت اہم ہوتا ہے جب آپ کا اور اُس کا نظریہ فرق ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں دو صورتحال پر غور کریں۔
اگر آپ کا بچہ کہے: ”مجھے نہیں لگتا کہ کوئی خدا ہے۔“
اُس سے یہ نہ کہیں: ”لگتا ہے تمہارا دماغ ٹھکانے پہ نہیں۔ ہم نے جو تمہیں سکھایا ہے کہ خدا کا وجود ہے۔“
اِس کی بجائے اُس سے پوچھیں: ”آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے؟“
یہ بہتر طریقہ کیوں ہے؟ کیونکہ اِس طرح سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کے بچے نے جو کچھ کہا ہے، اِس کے پیچھے اصل مسئلہ کیا ہے۔ (امثال ۲۰:۵) ہو سکتا ہے کہ آپ کا بچہ خدا کے وجود کو تو مانتا ہے لیکن اُس کے معیاروں کو اپنانے سے کترا رہا ہے۔
شاید آپ کے بچے کے ہمعمر اُس پر غلط کام کرنے کے لئے دباؤ ڈال رہے ہیں اور وہ یہ سوچ رہا ہے: ”کاش کہ خدا کا کوئی وجود نہ ہوتا، پھر مجھے اُس کے کلام میں درج حکموں پر عمل بھی نہ کرنا پڑتا۔“ (زبور ۱۴:۱) لہٰذا وہ غلط کام کرنے کے لئے جواز پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ اصل مسئلہ یہی ہے تو اپنے بچے سے کہیں کہ وہ اِس سوال پر غور کرے: ”کیا خدا کے حکموں پر عمل کرنے سے مجھے فائدہ ہوگا؟“ (یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸) اگر اُسے اِس بات پر پکا یقین ہے کہ خدا کے حکم اُس کی بھلائی کے لئے ہیں تو اُس کی حوصلہافزائی کریں کہ وہ اُس وقت بھی خدا کے اصولوں پر قائم رہے جب اُس پر غلط کام کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے۔—گلتیوں ۵:۱۔
اگر آپ کا بچہ کہے: ”آپ جانیں اور آپ کا مذہب، مَیں اِن باتوں کو نہیں مانتا۔“
اُس سے یہ نہ کہیں: ”تُم ہمارے بیٹے ہو۔ ہمارا مذہب، تمہارا مذہب ہے۔“
اِس کی بجائے اُس سے پوچھیں: ”یہ بڑی سنجیدہ بات ہے۔ تمام انسان کسی نہ کسی چیز کو مانتے ہیں۔ اگر آپ میرے مذہب کو نہیں مانتے تو پھر آپ کس کو مانتے ہو؟ آپ کے خیال میں انسان کو کن معیاروں کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے؟“
یہ بہتر طریقہ کیوں ہے؟ جب آپ اپنے بچے سے اِس طرح کے سوال پوچھتے ہیں تو آپ اُس کی مدد کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی سوچ کا جائزہ لے۔ شاید وہ یہ دیکھ حیران ہو کہ وہ بھی اُن ہی باتوں پر ایمان رکھتا ہے جن پر آپ ایمان رکھتے ہیں۔ تو پھر اُس نے کیوں کہا کہ وہ آپ کے مذہب کو نہیں مانتا؟
شاید اُسے دوسرے لوگوں کو اپنے عقیدوں کے بارے میں بتانا مشکل لگتا ہے۔ (کلسیوں ۴:۶؛ ۱-پطرس ۳:۱۵) یا پھر شاید وہ کسی ایسے شخص کو پسند کرنے لگا ہے جو اُس کا ہمایمان نہیں ہے۔ اپنے بچے سے سوال پوچھیں تاکہ آپ اصل مسئلے کو جان سکیں۔ ایسا کرنے سے اُس کی بھی مدد ہوگی تاکہ وہ بھی اصل مسئلے کو جان جائے۔ اگر آپ کا بچہ خود نیکوبد میں تمیز کرنا سیکھے گا تو اُسے بڑا ہو کر بھی فائدہ ہوگا۔
۲. بچے کو بڑوں کے ساتھ دوستی کرنے دیں
بعض ماہرینِنفسیات کا کہنا ہے کہ اِس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ نوجوانی میں بچے جذباتی کشمکش کا شکار ہوں گے اور باغی رویہ اپنائیں گے۔ لیکن کچھ معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔ تحقیقدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ اِن معاشروں میں نوجوان جلد ہی بڑوں کی دُنیا کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے معاشروں میں نوجوان، بڑوں کے ساتھ اُٹھتےبیٹھتے اور کام کرتے ہیں اور اُن کو بڑوں جیسی ذمہداریاں سونپی جاتی ہیں۔ اِن معاشروں کی زبان میں لفظ نوجوانی کے لئے کوئی لفظ ہی نہیں ہوتا۔
لیکن بہت سے ملکوں میں نوجوانوں کو فرق صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ اِن ملکوں میں کلاس میں اِتنے بچے ہوتے ہیں کہ اساتذہ اُن میں سے ہر ایک پر توجہ نہیں دے پاتے۔ لہٰذا اِن ملکوں میں نوجوانوں کو سکول میں کسی بڑے کی رہنمائی کم ہی ملتی ہے۔ جب یہ نوجوان گھر جاتے ہیں تو گھر پر کوئی نہیں ہوتا۔ اُن کے ماںباپ نوکری کرتے ہیں اور رشتہدار آسپاس نہیں رہتے۔ اِس لئے یہ نوجوان اپنا زیادہتر وقت اپنے ہمعمروں کے ساتھ ہی گزارتے ہیں۔ * ایسا ماحول نوجوانوں کے لئے نقصاندہ کیوں ہوتا ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ وہ غلط صحبت میں پڑنے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔ اور اگر وہ غلط صحبت میں نہ بھی پڑیں تو بھی وہ احمقانہ حرکتیں کرنے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔ تحقیقدانوں نے دریافت کِیا ہے کہ جب نوجوان، بڑوں کے ساتھ کم ہی وقت گزارتے ہیں تو ایسے نوجوان بھی اُلٹےسیدھے کام کرنے لگتے ہیں جو سمجھدار ہوتے ہیں۔
خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ بنیاسرائیل نوجوانوں کو بڑوں سے الگ نہیں رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر اِس میں عزیاہ کا ذکر ہوا ہے جن کو ۱۶ سال کی عمر میں بادشاہ بنایا گیا۔ عزیاہ بادشاہ اِس بھاری ذمہداری کو نبھانے کے قابل کیسے تھے؟ اِس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ بڑوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ خدا کے نبی زکریاہ نے اُن کو ”خداترسی کی تعلیم دی۔“—۲-تواریخ ۲۶:۵، نیو اُردو بائبل ورشن۔
کیا آپ کے بچے کے دوستوں میں کچھ ایسے بالغ بھی شامل ہیں جو آپ جیسی سوچ رکھتے ہیں؟ اِن بالغوں کی دوستی آپ کے بچے کے لئے بہت فائدہمند ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اُن سے نہ جلیں۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”وہ جو داناؤں کے ساتھ چلتا ہے دانا ہوگا۔“—امثال ۱۳:۲۰۔
۳. بچے کو ذمہداری نبھانا سکھائیں
کچھ ملکوں میں ایسے قوانین عائد ہیں جن کے مطابق نوجوانوں کو صرف چند گھنٹے نوکری کرنے کی اجازت ہے اور اُن کو بعض نوکریاں کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ قوانین یورپ میں ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں جاری کئے جانے لگے کیونکہ اُس زمانے میں بہت سے بچے ایسے ماحول میں مزدوری کرتے تھے جو اُن کے لئے نہایت نقصاندہ ہوتا تھا۔
ایسے قوانین کی وجہ سے بچے اور نوجوان نقصان سے محفوظ رہے۔ لیکن کچھ ماہروں کا خیال ہے کہ اِن کی وجہ سے بچوں کو ذمہداری اُٹھانے سے روکا گیا ہے۔ اِس کا کیا نتیجہ نکلا؟ کتاب نوجوانی سے فرار میں لکھا ہے: ”نوجوان اِس بات کی توقع کرنے لگے ہیں کہ اُن کی تمام خواہشات پوری کی جائیں۔ اُن کے خیال میں یہ اُن کا حق ہے کہ اُن کو ہر چیز محنتمشقت کئے بغیر مل جائے۔“ اِس کتاب کے مصنّفین کے مطابق نوجوانوں کا یہ نظریہ ”ایک فطری عمل ہے کیونکہ وہ ایک ایسی دُنیا میں پرورش پا رہے ہیں جو اُن سے کام لینے کی بجائے اُن کو شغل فراہم کرنے کی فکر میں رہتی ہے۔“ —انگریزی میں دستیاب۔
البتہ خدا کے کلام میں ایسے نوجوانوں کا ذکر ہے جنہوں نے چھوٹی عمر میں بھاری ذمہداریاں نبھائیں۔ مثال کے طور پر اِس میں تیمتھیس نامی ایک نوجوان کا ذکر ہوا ہے۔ جب تیمتھیس نوجوان ہی تھے، اُن کی ملاقات پولس رسول سے ہوئی جنہوں نے اُن پر گہرا اثر ڈالا۔ پھر جب تیمتھیس ۲۰ سال کے لگبھگ تھے تو وہ گھر چھوڑ کر پولس رسول کے ساتھ سفر کرنے لگے۔ وہ جہاںجہاں جاتے، کلیسیائیں قائم کرتے اور مسیحیوں کی حوصلہافزائی کرتے۔ ایک مرتبہ پولس رسول نے تیمتھیس کی حوصلہافزائی کہ وہ اُس ذمہداری کو دلوجان سے نبھائیں جو اُنہیں سونپی گئی ہے۔ (۲-تیمتھیس ۱:۶) جب پولس رسول، تیمتھیس کے ساتھ تقریباً دس سال کام کر چکے تو اُنہوں نے فلپی کے مسیحیوں سے کہا: ”[تیمتھیس] کے علاوہ یہاں میرا کوئی اور ہمخیال نہیں جو سچے دل سے تمہارے لیے فکرمند ہو۔“—فلپیوں ۲:۲۰، نیو اُردو بائبل ورشن۔
سچ ہے کہ بہت سے نوجوان اِس کے لئے بےتاب ہیں کہ اُنہیں ذمہداریاں دی جائیں خاص طور پر اگر وہ دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔ جب نوجوانوں کو ذمہداری دی جاتی ہے تو اُن کی خوبیاں نکھر آتی ہیں اور وہ ذمہدار شخص بننا سیکھتے ہیں۔ یہ اُن کے لئے اُس وقت بھی فائدہمند ثابت ہوگا جب وہ بڑے ہو جائیں گے۔
بدلے ہوئے موسم سے نمٹیں
جیسا کہ ہم نے اِس مضمون کے شروع میں دیکھا، جب آپ کا بچہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اُس کا رویہ بدل جاتا ہے۔ شاید آپ کو لگے کہ اچانک ہی گرمی کا موسم ختم اور سردی کا موسم شروع ہو گیا ہے۔ لیکن آپ موسم کی اِس تبدیلی سے نمٹنا سیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ اور آپ کے بچے میں دُوری پیدا نہیں ہوگی۔
اگر آپ کا بچہ نوجوانی کے مرحلے سے گزر رہا ہے تو آپ اِن تین طریقوں سے اُس کی مدد کر سکتے ہیں: (۱) اُسے اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا سکھائیں۔ (۲) اُسے ایسے بالغوں کے ساتھ دوستی کرنے دیں جو اُس پر اچھا اثر ڈالیں گے۔ (۳) اُسے ذمہداری نبھانا سکھائیں۔ اگر آپ اِن طریقوں سے اپنے بچے کی مدد کریں گے تو آپ اُسے اُس وقت کے لئے تیار کریں گے جب وہ اپنا گھر بسائے گا۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 38 نوجوانوں کو اپنے ہمعمروں کے ساتھ وقت گزارنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ اِس لئے ایسے ڈرامے اور فلمیں جو خاص طور پر نوجوانوں کے لئے بنتی ہیں، اِن میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ نوجوان معاشرے کا الگ طبقہ ہیں اور بڑے اِس طبقے کو سمجھنے سے عاری ہیں۔
[صفحہ ۲۰ پر بکس/تصویر]
”شاید ہی کسی کے امیابو اِتنے اچھے ہوں“
ایسے والدین جو یہوواہ کے گواہ ہیں، وہ اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے اپنے بچوں کو پاک صحیفوں پر عمل کرنا سکھاتے ہیں۔ (افسیوں ۶:۴) لیکن وہ اپنے بچوں کو اپنا مذہب اپنانے پر مجبور نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ جب اُن کے بچے سمجھدار ہو جائیں گے تو اُن کو خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کونسا مذہب اپنائیں گے۔
ایشلن ۱۸ سال کی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے والدین کا مذہب اختیار کرنے کا فیصلہ کِیا ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”میرے خیال میں تو مذہب برائے نام کا نہیں ہونا چاہئے یعنی ہفتے میں ایک بار خدا کے لئے وقت نکالو اور باقی وقت اپنے لئے جیو۔ میرا مذہب میری زندگی کے ہر پہلو پر اثر کرتا ہے۔ مَیں جو کچھ کرتی ہوں، اپنے مذہب کے مطابق کرتی ہوں۔ مثال کے طور پر مَیں پاک صحیفوں کے اصولوں کو ذہن میں رکھ کر یہ فیصلہ کرتی ہوں کہ مَیں کس سے دوستی کروں گی؛ کونسی کتابیں پڑھوں گی یا کالج میں کونسے مضمون لوں گی۔“
ایشلن اِس بات کے لئے بہت ہی شکرگزار ہیں کہ اُن کے امیابو نے اُن کی اِتنی اچھی تربیت کی ہے۔ وہ کہتی ہیں: ”شاید ہی کسی کے امیابو اِتنے اچھے ہوں۔ مَیں خوش ہوں کہ میرے امیابو نے میرے دل میں یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کی خواہش پیدا کی۔ مَیں زندگیبھر اُن اصولوں کے مطابق چلوں گی جو اُنہوں نے مجھے سکھائے ہیں۔“
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
اپنے بچے کو کُھل کر اپنے احساسات اور خیالات کے بارے میں بات کرنے دیں۔
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
اپنے بچوں کو بڑوں سے دوستی کرنے دیں تاکہ وہ اُن سے اچھی باتیں سیکھیں۔
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
جب نوجوان دوسروں کی خدمت کرتے ہیں تو وہ ذمہداری نبھانا سیکھتے ہیں۔