والدین کی زبانی
والدین کی زبانی
کیا آپ کا بچہ ابھی تک سکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچا؟ یقیناً آپ کے ذہن میں اُس کی پرورش کے سلسلے میں کچھ سوال ہوں گے۔ مثال کے طور پر شاید آپ سوچیں کہ جب میرے بچے کو غصے کے دورے پڑتے ہیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟ مَیں اپنے بچے کو اچھے اور بُرے میں تمیز کرنا کیسے سکھا سکتا ہوں؟ چھوٹے بچے کی اصلاح کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ آئیں، دیکھیں کہ اِس سلسلے میں کچھ والدین نے کیا کِیا ہے۔
غصے کے دورے
”جب بچے کی عمر دو سال کے لگبھگ ہوتی ہے تو وہ یہ توقع کرتا ہے کہ اُس کی ہر فرمائش پوری ہو۔ ہمارا بیٹا بھی اِسی غلطفہمی کا شکار تھا۔ جب بھی ہم اُس کی کوئی فرمائش پوری نہیں کرتے، وہ چیزیں پھینکنے لگتا۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ اِس صورتحال میں کیا کریں کیونکہ یہ ہمارا پہلا بچہ تھا۔ لوگ ہم سے کہتے تھے کہ پریشان مت ہو، دو سال کی عمر میں بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔ لیکن اِس سے ہماری مشکل آسان نہیں ہوتی تھی۔“ —کینیا میں رہنے والی سُوزن۔
”جب ہماری بچی دو سال کی تھی تو اُسے غصے کے دورے پڑتے تھے۔ وہ زمین پر لیٹ کر چیختی چلاتی اور ٹانگیں مارتی تھی۔ . . . ہم تنگ آ گئے تھے۔ جب ہماری بچی کو غصے کا دورہ پڑتا تو اُسے سمجھانا فضول ہوتا تھا۔ اِس صورت میں ہم اُس سے کہتے کہ اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔ جب سنبھل جاؤ گی تو پھر ہم مسئلے پر بات کریں گے۔ جب اُس کا غصہ ٹھنڈا ہو جاتا، تو مَیں یا میرے شوہر اُس کے کمرے میں جا کر اُس کو سمجھاتے کہ اُس کا رویہ غلط کیوں تھا۔ ہماری یہ ترکیب کامیاب رہی۔ ایک بار تو ہم نے سنا کہ ہماری بیٹی خدا سے معافی مانگ رہی ہے۔ جوںجوں وقت گزرتا گیا، اُسے غصے کے دورے کم پڑنے لگے۔ اور اب تو یہ دورے بالکل ختم ہو گئے ہیں۔“ —سپین میں رہنے والی یولانڈا۔
”چھوٹے بچے اِس بات کو آزماتے ہیں کہ والدین اُنہیں کتنی ڈھیل دیں گے۔ جب بچے کو ایک بات سے منع کِیا جاتا ہے اور پھر اِس کی اجازت دے دی جاتی ہے تو وہ اُلجھن میں پڑ جاتا ہے۔ چونکہ ہم اپنی بات پر قائم رہے اِس لئے ہمارے بچوں نے سیکھ لیا کہ چیخنے چلانے سے اُن کی مرضی نہیں چلنے والی۔“ —برطانیہ میں رہنے والے نیل۔
اصلاح
”پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا دھیان جلد اِدھراُدھر ہو جاتا ہے۔ اِس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ بچہ آپ کی بات سُن رہا ہے یا نہیں۔ سو بچے کو ایک ہی بات باربار بتانی پڑتی ہے خواہ یہ ہزار بار ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کے لہجے سے ظاہر ہونا چاہئے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں، یہ اہم ہے۔“ —فرانس میں رہنے والے سیرژ۔
”ہمارے چار بچے ہیں۔ حالانکہ چاروں نے ایک ہی ماحول میں پرورش پائی لیکن پھر بھی اُن کی عادتیں ایک دوسرے سے فرق تھیں، مثلاً جب ہماری ایک بیٹی کو احساس ہوتا کہ اُس نے ہمیں مایوس کِیا ہے تو وہ رونے لگتی جبکہ دوسری ہمارے صبر کو آزمانے کی کوشش کرتی۔ ایک بچے کے لئے تو غصے بھری نظر یا پھر معمولی سی ڈانٹ کافی ہوتی جبکہ دوسرے کو سزا دینی پڑتی تھی۔“ —کینیڈا میں رہنے والے نیتھن۔
”والدین کو بچے کی ضد کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں۔ لیکن جہاں تک سزا دینے کا معاملہ ہے، والدین کو سمجھداری سے کام لینا چاہئے۔ جب ہماری بیٹی اپنی کسی غلطی کے لئے دل سے معافی مانگتی ہے تو ہم اُس کی سزا کو کم کر دیتے ہیں۔“—فرانس میں رہنے والے میتھیو۔
—کینیڈا میں رہنے والی نیٹلی۔
”مَیں نے اپنے بچوں کے لئے زیادہ اصول نہیں بنا رکھے لیکن جو اصول بنائے ہیں، اِن سے مَیں ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ میرا بیٹا تین سال کا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اگر وہ میرا کہنا نہیں مانے گا تو اِس کا کیا انجام ہوگا۔ اِس لئے وہ حد پار کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔ جب مَیں تھکی ہوتی ہوں تو میرا جی چاہتا ہے کہ مَیں اپنے بیٹے کی بدتمیزی کو نظرانداز کر دوں۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ اصول کا پکا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے اِس لئے مَیں اُسے ڈھیل نہیں دیتی۔ بیشک والدین اپنے اصولوں پر قائم رہ کر ہی بچوں کی اچھی پرورش کر سکتے ہیں۔“اصولوں کے پکے
”چھوٹے بچوں کی یادداشت بلا کی تیز ہوتی ہے تب ہی تو اُنہیں ہر وہ موقع یاد رہتا ہے جب اُن کے والدین اپنی بات پر قائم نہیں رہے۔“ —بولیویا میں رہنے والے ملٹن۔
”جب ہم اپنے بیٹے کو کسی بات سے منع کرتے ہیں تو وہ باربار گھماپھرا کر اِس کے بارے میں پوچھتا ہے، یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہم اپنا فیصلہ بدلیں گے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مَیں ایک معاملے کے بارے میں اپنے بیٹے سے کچھ کہتا ہوں اور اُس کی ماں اُس سے کچھ اَور۔ پھر بیٹا موقع دیکھ کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔“—سپین میں رہنے والے انخیل۔
”کبھیکبھار جب میرا موڈ اچھا ہوتا تو مَیں اپنے بیٹے کی بدتمیزی کو نظرانداز کر دیتا مگر جب میرا موڈ خراب ہوتا تو مَیں اُسے سخت سزا دیتا۔ لیکن اِس سے میرا بیٹا زیادہ بگڑ گیا۔“ —کوریا میں رہنے والے گیون اوک۔
”والدین کو بچوں پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ اگر وہ بچوں کی کسی حرکت کو آج غلط خیال کرتے ہیں تو آئندہ بھی اِسے غلط ہی خیال کریں گے۔“ —برازیل میں رہنے والے انٹونیو۔
”اگر والدین بچوں کی تربیت کرتے وقت اپنے اصولوں پر قائم نہیں رہتے تو بچے یہ سوچتے ہیں کہ امی ابو موڈ کے مطابق اصول بناتے ہیں۔ لیکن اگر والدین اپنے اصولوں کے پکے ہوتے ہیں تو بچے سمجھ جاتے ہیں کہ جو کام آج غلط ہے، وہ آئندہ بھی غلط ہوگا۔ یوں بچے اُلجھن میں نہیں پڑتے اور اُنہیں والدین کی محبت کا احساس ہوتا ہے۔“ —برازیل میں رہنے والے خیلمر۔
”بچے موقعے کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اُنہیں لگتا ہے کہ اگر وہ دوسروں کے سامنے اپنے امی ابو سے کسی بات کی ضد کریں گے تو اُن کو اجازت دینی پڑے گی۔ اگر مَیں کسی بات کی اجازت نہیں دینا چاہتا ہوں تو مَیں اپنے بیٹے کو فوراً نہیں میں جواب دے دیتا ہوں اور اُس پر واضح کر دیتا ہوں کہ باربار پوچھنے پر بھی میرا جواب یہی رہے گا۔“ —کوریا میں رہنے والے چانگ سوک۔
”اگر مَیں اور میری بیوی بچوں کی تربیت کے سلسلے میں کسی بات پر متفق نہیں ہوتے تو ہم بچوں کے سامنے بحث نہیں کرتے بلکہ اکیلے میں اِس پر بات کرتے ہیں۔ جب والدین کسی معاملے پر اتفاق نہیں کرتے تو بچے اِسے تاڑ لیتے ہیں اور اِس کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔“ —سپین میں رہنے والے خیسوس۔
”بچے کو احساس ہونا چاہئے کہ اُس کے والدین اُس کی تربیت کے سلسلے میں ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور اُن میں کوئی نااتفاقی نہیں جس سے وہ فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اِس طرح بچہ سمجھ جائے گا کہ امی ابو کا کہنا ماننے یا نہ ماننے کا کیا انجام ہوگا اور وہ اُلجھن میں نہیں پڑے گا۔“ —جرمنی میں رہنے والی ڈامارس۔
”مَیں اور میری بیوی نہ صرف سزا دینے کے معاملے میں بات کے پکے ہیں بلکہ ہم اُس وقت بھی اپنی بات پوری کرتے ہیں جب ہم نے اپنی بیٹی سے کسی اچھی چیز کا وعدہ کِیا ہو۔ اِس لئے ہماری بیٹی جانتی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں، اِس پر عمل بھی کریں گے۔“ —جرمنی میں رہنے والے ہینڈرک۔
”اگر میرا سپروائزر میرے کام کے حوالے سے ہر روز نئے اصول بناتا تو مَیں یقیناً تنگ آ جاتا۔ اِسی طرح جب بچے جان جاتے ہیں کہ گھر کے اصول کیا ہیں اور یہ اصول لاتبدیل ہیں تو وہ ٹینشن نہیں لیتے۔ بچوں کو یہ بھی جان لینا چاہئے کہ والدین کی نافرمانی کرنے کی کیا سزا ہوگی اور اُنہیں سزا ضرور ملے گی۔“ —کینیڈا میں رہنے والے گلین۔
[صفحہ ۸ پر عبارت]
”تمہاری ہاں ہاں ہو اور نہیں نہیں۔“ —یعقوب ۵:۱۲، کیتھولک ترجمہ۔
[صفحہ ۹ پر بکس/تصویریں]
کچھ تجربات
ایک ننھا مہمان بِن بلائے آ گیا
ٹوم اور یوونہی ہان
ٹوم: ہماری شادی کو ابھی چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ میری بیوی حاملہ ہو گئیں۔ مَیں چاہتا تھا کہ اِس مشکل وقت میں یوونہی مجھے اپنا سہارا سمجھیں۔ اِس لئے مَیں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ مَیں دیکھنے میں تو بہت پُرسکون لگتا تھا لیکن دل ہی دل میں سخت پریشان تھا۔
یوونہی: مَیں بہت پریشان اور ڈری ہوئی تھی۔ مَیں نے رورو کے بُرا حال کر لیا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ مَیں ایک ماں بننے کی ذمہداریاں اُٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔
ٹوم: اور مجھے لگتا تھا کہ مَیں ایک باپ بننے کی ذمہداریاں اُٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔ لیکن جب ہم نے دوسرے لوگوں سے بات کی جن کے بچے تھے تو ہمیں اندازہ ہوا کہ ہماری صورتحال انوکھی نہیں ہے۔ بیوی اکثر غیرارادی طور پر حاملہ ہو جاتی ہے۔ دوسروں کی باتوں سے ہمیں یہ احساس بھی ہوا کہ ایک ننھے وجود کے آنے سے گھر میں کتنی خوشیاں آتی ہیں۔ آہستہآہستہ میرے دل سے ساری پریشانی دُور ہو گئی اور مَیں بڑی بےچینی سے اپنے ننھے مہمان کا انتظار کرنے لگا۔
یوونہی: جب امینڈا پیدا ہوئی تو مجھے نئی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ امینڈا ہر وقت روتی رہتی تھی۔ اِس لئے مَیں ہفتوں تک سو نہیں پائی، میری بھوک ختم ہو گئی اور مَیں تھکن سے چُور ہو گئی۔ شروع میں تو میرا لوگوں سے ملنے کو دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ گھر پر رہنے سے میری حالت میں بہتری نہیں آئے گی۔ اِس لئے مَیں ایسی عورتوں کے ساتھ وقت گزارنے لگی جن کے شِیرخوار بچے تھے۔ اُن کے ساتھ باتیں کرکے مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی میرے جیسی مشکلات سے گزر رہی ہیں۔
ٹوم: جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھر کا معمول اُتھلپتھل ہو جاتا ہے۔ مگر میری کوشش تھی کہ ہم اُس معمول کو برقرار رکھیں جو ہم نے قائم کِیا تھا۔ یوونہی اور مَیں یہوواہ کے گواہ ہیں۔ ہمارا عزم تھا کہ ہم باقاعدگی سے مذہبی اجلاسوں پر جاتے رہیں گے اور گھرگھر جا کر لوگوں کو پاک کلام سے تعلیم دیتے رہیں گے۔ ننھے بچے کی آمد سے گھر کے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی چادر کو دیکھ کر پاؤں پھیلائے۔ ہم کسی صورت قرض نہیں لینا چاہتے تھے کیونکہ اِس سے مسئلے اَور بڑھ جاتے ہیں۔
یوونہی: چھوٹے بچے اکثر شور مچاتے ہیں اِس لئے مجھے لگا کہ مَیں امینڈا کی وجہ سے لوگوں کو پاک کلام سے تعلیم نہیں دے سکوں گی۔ لیکن مَیں نے دیکھا کہ زیادہتر لوگ ننھے بچوں کے شیدائی ہوتے ہیں۔ اور مجھے احساس ہوا کہ مَیں امینڈا کے ساتھ بھی خدا کی خدمت کر سکتی ہوں۔
ٹوم: خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”اولاد [یہوواہ خدا] کی طرف سے میراث ہے۔“ (زبور ۱۲۷:۳) یہ بات واقعی سچ ہے۔ جب کسی کو میراث ملتی ہے تو وہ اِس میراث کو یا تو ضائع کر سکتا ہے یا پھر اِس سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ بچے کا بچپن جلد بیت جاتا ہے۔ یہ وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔ مَیں نہیں چاہتا کہ یہ وقت گزر جائے اور مَیں ہاتھ ملتا رہ جاؤں۔ اِس لئے مَیں اپنی بیٹی کی زندگی کا حصہ بننے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔
یوونہی: کبھیکبھار زندگی میں ایسی باتیں ہوتی ہیں جن کی ہمیں توقع نہیں ہوتی۔ امینڈا کی آمد بِن بلائے ہوئی تھی۔ اب وہ چھ سال کی ہے اور مَیں اُس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
[تصویر]
ٹوم، یوونہی اور اُن کی بیٹی امینڈا