مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

آخر اِتنا غصہ کیوں؟‏

آخر اِتنا غصہ کیوں؟‏

آخر اِتنا غصہ کیوں؟‏

لوگوں کو غصہ کیوں آتا ہے؟‏ یہ بات تو سائنس‌دان بھی پوری طرح سمجھ نہیں پائے۔‏ لیکن ماہرِنفسیات اور تحقیق‌دان اِس بات پر متفق ہیں کہ کچھ باتیں چنگاری کی طرح ہوتی ہیں جو انسان میں غصے کی آگ لگا دیتی ہیں۔‏

مثال کے طور پر ہمیں اُس وقت غصہ آتا ہے جب ہم کسی وجہ سے چڑ جاتے ہیں یا پریشان ہوتے ہیں،‏ ہمارے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے یا ہماری بےعزتی کی جاتی ہے یا پھر جب ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے مرتبے کا احترام نہیں کِیا جا رہا ہے یا ہماری بدنامی کی جا رہی ہے۔‏

ضروری نہیں کہ ہر شخص کو ایک ہی بات پر غصہ آئے۔‏ مثال کے طور پر مرد اور عورت،‏ بوڑھے اور جوان کو فرق‌فرق باتوں پر غصہ آتا ہے۔‏ یہاں تک کہ جس بات پر ایک قوم کے لوگ بھڑک اُٹھتے ہیں،‏ شاید اُس پر دوسری قوم کے لوگ نہ بھڑکیں۔‏ کچھ لوگوں کو کم ہی غصہ آتا ہے اور وہ جلد ٹھنڈے ہو جاتے ہیں جبکہ بعض کو فوراً غصہ آ جاتا ہے اور وہ کئی دنوں،‏ ہفتوں یہاں تک کہ مہینوں تک غصے میں کھولتے رہتے ہیں۔‏

دُنیا میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو لوگوں میں غصہ پیدا کرتی ہیں۔‏ اِس کے علاوہ آج‌کل بہت سے لوگ اِس لئے جلدی غصے میں آ جاتے ہیں کیونکہ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں اور اُنہیں دوسروں کی پرواہ نہیں۔‏ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ’‏اخیر زمانے میں آدمی خودغرض،‏ زردوست،‏ شیخی‌باز،‏ مغرور،‏ ڈھیٹھ اور گھمنڈ کرنے والے ہوں گے۔‏‘‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱-‏۵‏)‏ اور واقعی آج‌کل بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں۔‏

جب خودغرض لوگوں کا بس نہیں چلتا تو اُنہیں غصہ آ جاتا ہے۔‏ لیکن اَور بھی بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن کی بِنا پر لوگوں میں غصہ کرنے کا رُجحان بڑھ رہا ہے۔‏ آئیں،‏ اِن میں سے کچھ وجوہات پر غور کریں۔‏

ماں‌باپ کی مثال

بچے کی شخصیت کو بنانے میں والدین کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔‏ ایک ماہرِنفسیات نے کہا:‏ ”‏بچہ چھوٹی عمر میں ہی اپنے بڑوں سے یہ سیکھ جاتا ہے کہ غصہ کیسے ظاہر کرتے ہیں۔‏“‏

فرض کریں کہ بچے کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں چھوٹی‌چھوٹی بات پر غصے میں آپے سے باہر ہونا معمول کی بات ہے۔‏ ایسی صورت میں بچہ یہ سیکھتا ہے کہ ”‏جب مشکل کھڑی ہو تو غصہ کرو۔‏“‏ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب ایک پودے کو آلودہ پانی دیا جاتا ہے تو وہ بڑھتا تو ہے لیکن اُس میں نقص آ جاتا ہے۔‏ اِسی طرح اگر بچے ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں لوگ غصیلے ہوں تو وہ بھی غصیلے بن جاتے ہیں۔‏ بڑے ہو کر ایسے بچوں کو اپنے غصے کی وجہ سے مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‏

شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی

سن ۱۸۰۰ء میں دُنیا کی کُل آبادی میں سے ۳ فیصد لوگ شہروں میں رہتے تھے جبکہ ۲۰۰۸ء میں دُنیا کی آدھی آبادی شہروں میں رہ رہی تھی۔‏ اور خیال کِیا جاتا ہے کہ ۲۰۵۰ء میں دُنیا کی کُل آبادی میں سے ۷۰ فیصد لوگ شہروں میں رہ رہے ہوں گے۔‏ جوں‌جوں شہروں میں آبادی بڑھ رہی ہے،‏ لوگوں کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور اُن میں غصہ کرنے کا رُجحان بھی بڑھ رہا ہے۔‏ اِس سلسلے میں میکسیکو سٹی کی مثال لیجئے۔‏ یہ دُنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔‏ اِس کی آبادی ایک کروڑ ۸۰ لاکھ ہے اور اِس میں گاڑیوں کی تعداد ۶۰ لاکھ ہے۔‏ شہر میں آئے دن ٹریفک جام رہتا ہے۔‏ ایک رپورٹر نے کہا:‏ ”‏جہاں تک ذہنی دباؤ کا شکار ہونے کی بات آتی ہے تو مجھے لگتا ہے کہ میکسیکو سٹی کے لوگ سب سے پہلے نمبر پر ہیں۔‏ .‏ .‏ .‏ اِس شہر میں گاڑیوں کا رش بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے لوگ تنگ آکر جلد ہی ایک دوسرے پر پھٹ پڑتے ہیں۔‏“‏

جن شہروں میں بہت آبادی ہوتی ہے،‏ وہاں اَور بھی مسائل ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر وہاں ہر وقت شورشرابہ رہتا ہے،‏ ہوا آلودہ ہوتی ہے،‏ رہائش کا مسئلہ ہوتا ہے،‏ تعصب کی وجہ سے جھگڑے ہوتے ہیں اور جرائم کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے۔‏ جوں‌جوں لوگوں کے مسئلے بڑھتے ہیں،‏ اُن کی پریشانیاں بڑھتی ہیں،‏ اُن کو غصہ آتا ہے اور وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔‏

مالی بحران

مالی بحران کی وجہ سے پوری دُنیا میں لوگ پریشانی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔‏ سن ۲۰۱۰ء میں عالمی مالیاتی ادارے (‏آئی‌ایم‌ایف)‏ اور عالمی ادارۂمحنت (‏آئی‌ایل‌او)‏ نے ایک رپورٹ شائع کی۔‏ اِس رپورٹ میں لکھا تھا:‏ ”‏دُنیابھر میں ۲۱ کروڑ سے زیادہ لوگ بےروزگار ہیں۔‏“‏ اِن میں سے زیادہ‌تر لوگوں کے پاس نہ تو کوئی جمع‌پونجی ہے اور نہ ہی آمدنی کا کوئی اَور ذریعہ۔‏

جن لوگوں کے پاس نوکریاں ہیں،‏ وہ بھی پریشان ہیں۔‏ آئی‌ایل‌او کے مطابق یہ لوگ اپنی ملازمت کی وجہ سے شدید دباؤ کا شکار ہیں۔‏ اِس سلسلے میں منیجروں کے ایک مشیر نے کہا:‏ ”‏لوگوں کو اِس بات کی فکر ہے کہ کہیں اُن کی نوکری اُن کے ہاتھ سے چلی نہ جائے اور اِس وجہ سے وہ اندیشوں اور وسوسوں کا شکار رہتے ہیں۔‏ اِس لئے وہ ذرا ذرا سی بات دل پر لے لیتے ہیں اور اپنے ساتھی کارکنوں اور سُپروائزروں سے بحث کرنے لگتے ہیں۔‏“‏

تعصب اور ناانصافی کی بھرمار

فرض کریں کہ آپ دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ ایک دوڑ میں حصہ لینے کے لئے کھڑے ہیں اور صرف آپ سے کہا جاتا ہے کہ آپ کو پاؤں میں زنجیر باندھ کر بھاگنا ہوگا۔‏ بِلاشُبہ آپ کو غصہ آئے گا کیونکہ یہ سراسر ناانصافی ہے۔‏ لاکھوں لوگوں کو زندگی کی دوڑ میں کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ اُن سے تعصب برتا جاتا ہے۔‏ مثال کے طور پر اُنہیں اپنے رنگ،‏ نسل،‏ مذہب وغیرہ کی وجہ سے اچھی نوکریاں نہیں ملتیں،‏ اچھے سکولوں میں داخلہ نہیں ملتا اور زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوتیں۔‏ ایسی ناانصافی پر اُنہیں بہت غصہ آتا ہے۔‏

جب ایک شخص کسی بھی طرح کی ناانصافی کا شکار ہوتا ہے تو اُس کا حوصلہ ٹوٹ سکتا ہے اور اُس کے دل کو بڑی ٹھیس لگ سکتی ہے۔‏ افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے زیادہ‌تر کو کبھی نہ کبھی ناانصافی کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔‏ آج سے ۳۰۰۰ سال پہلے بادشاہ سلیمان نے لکھا:‏ ”‏مَیں نے .‏ .‏ .‏ اُس تمام ظلم پر جو دُنیا میں ہوتا ہے نظر کی اور مظلوموں کے آنسوؤں کو دیکھا اور اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔‏“‏ (‏واعظ ۴:‏۱‏)‏ جب ناانصافی کی بھرمار ہو اور اُمید کی کوئی کرن نظر نہ آئے تو لوگوں میں غصہ کھولنے لگتا ہے۔‏

ٹی‌وی،‏ ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ کا اثر

اِس بات پر سینکڑوں جائزے کئے گئے ہیں کہ ٹی‌وی،‏ ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ پر دِکھائے جانے والے ظلم‌وتشدد کا بچوں پر کیسا اثر پڑتا ہے۔‏ جیمز سٹائیر جو فلموں اور ٹی‌وی پروگراموں کا جائزہ لیتے ہیں،‏ وہ کہتے ہیں کہ ”‏ایسی نسل جو باربار ظلم‌وتشدد کے سین دیکھتی ہے،‏ اُس کی نظر میں ظلم کرنا جائز ہے،‏ وہ تشدد کو بُرا خیال نہیں کرتی اور اُس میں رحم کا احساس کم ہی ہوتا ہے۔‏“‏

سچ ہے کہ زیادہ‌تر نوجوان جو روزانہ ظلم‌وتشدد کے سین دیکھتے ہیں،‏ وہ بڑے ہو کر خطرناک مجرم نہیں بنتے۔‏ لیکن چونکہ ٹی‌وی،‏ فلموں،‏ ویڈیو گیمز وغیرہ میں یہ درس دیا جاتا ہے کہ مشکلات سے نمٹنے کے لئے غصہ اور مارپیٹ کرنا جائز ہے اِس لئے ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو بےحس ہو گئی ہے اور ظلم‌وتشدد کو بُرا خیال نہیں کرتی۔‏

شیطان کا اثر

خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایسی بُری ہستی ہے جو لوگوں میں غصے کی آگ کو بھڑکاتی ہے۔‏ یہ کون ہے؟‏ انسانی تاریخ کے شروع میں ہی ایک فرشتے نے خدا کے خلاف بغاوت کی۔‏ اِس بُرے فرشتے کو شیطان کہا گیا ہے۔‏ عبرانی زبان میں لفظ شیطان کا مطلب ہے:‏ مخالف یا دُشمن۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۱۳‏)‏ شیطان نے اَور فرشتوں کو بھی خدا کے خلاف بغاوت کرنے پر اُکسایا۔‏

جن فرشتوں نے شیطان کا ساتھ دیا،‏ اُن کو شیاطین کہا جاتا ہے۔‏ اُنہیں آسمان پر جانے کی اجازت نہیں ہے اِس لئے اُن کی کارروائیاں صرف زمین تک محدود ہیں۔‏ (‏مکاشفہ ۱۲:‏۹،‏ ۱۰،‏ ۱۲‏)‏ شیاطین جانتے ہیں کہ بہت جلد خدا اُنہیں ختم کرنے والا ہے اِس لئے وہ بڑے غصے میں ہیں اور انسانوں پر بُرا اثر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‏ وہ کیسے؟‏

شیطان اور شیاطین جانتے ہیں کہ انسان گُناہ کرنے کی طرف مائل ہیں۔‏ اِس لئے وہ انسانوں میں ’‏دُشمنی،‏ جھگڑا،‏ حسد،‏ غصہ،‏ خودغرضی،‏ تکرار،‏ فرقہ‌پرستی اور بغض‘‏ جیسی بُرائیوں کو فروغ دیتے ہیں۔‏—‏گلتیوں ۵:‏۱۹-‏۲۱‏؛‏ نیو اُردو بائبل ورشن۔‏

غصہ کرنے کی عادت پر قابو پائیں

واقعی لوگوں کو زندگی میں بڑی مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے اور اِس وجہ سے اُن میں غصہ کرنے کا رُجحان بڑھ رہا ہے۔‏

مانا کہ غصے کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‏ لیکن غصے میں بےقابو ہونے سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔‏ اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہم اپنے غصے کو کیسے قابو میں رکھ سکتے ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر بکس]‏

کیا آپ غصیلے ہیں؟‏ اپنا جائزہ لیں:‏

◀ کیا آپ کو اُس وقت غصہ آ جاتا ہے جب آپ کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے؟‏

◀ کیا آپ اکثر اپنے ساتھی کارکنوں کے ساتھ بحث‌وتکرار کرتے ہیں؟‏

◀ کیا آپ وقتاًفوقتاً سو نہیں پاتے کیونکہ آپ اُن باتوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے آپ کو دن کے دوران غصہ آیا تھا؟‏

◀ کیا آپ دوسروں کو معاف نہیں کر پاتے؟‏

◀ کیا آپ بات‌بات پر جذباتی ہو جاتے ہیں؟‏

◀ کیا آپ کو اکثر غصے کے دورے پڑتے ہیں اور بعد میں شرمندگی اور پچھتاوا محسوس ہوتا ہے؟‏ *

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 36 یہ معلومات MentalHelp.net سے لی گئی ہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۶ پر بکس]‏

غصے کا بڑھتا ہوا رُجحان

برطانیہ میں نفسیاتی مسائل پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے نے غصے کے مسئلے پر ایک رپورٹ شائع کی۔‏ اِس رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں .‏ .‏ .‏

۸۴ فیصد لوگ پانچ سال پہلے ملازمت کی جگہ پر اِتنا ذہنی دباؤ نہیں محسوس کرتے تھے جتنا کہ اب کرتے ہیں۔‏

۶۵ فیصد لوگ دفتر میں کام کرتے وقت یا تو خود آپے سے باہر ہو گئے یا پھر اُنہوں نے دوسروں کو غصے میں بےقابو ہوتے دیکھا۔‏

نوکری کرنے والوں میں سے ۴۵ فیصد لوگ کام کی جگہ پر اکثر طیش میں آ جاتے ہیں۔‏

بیماری کی چھٹی کی کُل درخواستوں میں سے ۶۰ فیصد اِس لئے دی جاتی ہیں کیونکہ ملازم ذہنی دباؤ کا شکار ہو کر بیمار ہو جاتے ہیں۔‏

۳۳ فیصد لوگوں کو اپنے پڑوسیوں پر اِتنا غصہ ہے کہ وہ اُن سے بات تک نہیں کرتے۔‏

۶۴ فیصد لوگ اِس بات پر متفق ہیں کہ لوگوں میں غصہ کرنے کا رُجحان بڑھ رہا ہے۔‏

۳۲ فیصد لوگ کہتے ہیں کہ اُن کے کسی قریبی دوست یا رشتہ‌دار کو غصے میں بےقابو ہونے کی عادت ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۵ پر تصویر]‏

اگر آپ غصے میں بھڑک اُٹھیں گے تو آپ کے بچے کیا سیکھیں گے؟‏

‏[‏صفحہ ۶ پر تصویر]‏

جب آپ ٹی‌وی،‏ فلموں اور انٹرنیٹ پر غصے اور تشدد کے سین دیکھتے ہیں تو آپ پر کیا اثر ہوتا ہے؟‏