مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

مجھے دلی خوشی اور اطمینان مل گیا ہے

مجھے دلی خوشی اور اطمینان مل گیا ہے

مجھے دلی خوشی اور اطمینان مل گیا ہے

ایگیڈیو ناہاک‌بریا کی زبانی

بچپن ہی سے مجھے لگتا تھا کہ کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا اور کسی کو میری پرواہ نہیں۔‏ لیکن اب مجھے ایک عالمگیر برادری کی محبت حاصل ہے اور مَیں سچی خوشی محسوس کرتا ہوں۔‏ میری زندگی میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟‏ مَیں آپ کو بتاتا ہوں۔‏

مَیں اور میرا جڑواں بھائی ۱۹۷۶ء میں مشرقی تیمور میں پیدا ہوئے جو اُس وقت انڈونیشیا کا حصہ تھا۔‏ میرے والدین بہت غریب تھے۔‏ ہم دس بہن‌بھائی تھے اور مَیں آٹھویں نمبر پر تھا۔‏ لیکن میرے والدین ہم سب بچوں کا پیٹ نہیں بھر سکتے تھے۔‏ اِس لئے اُنہوں نے میرے جڑواں بھائی کو تو اپنے پاس رکھا لیکن مجھے میرے تایازاد بھائی کو دے دیا۔‏

دسمبر ۱۹۷۵ء میں انڈونیشیا نے مشرقی تیمور پر قبضہ کر لیا تھا۔‏ یوں ملک میں ایک ایسی جنگ چھڑ گئی جو ۲۰ سال سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی۔‏ میرے بچپن کی یادیں دُکھ اور تشدد کی ہیں۔‏ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ فوجیوں نے ہمارے گاؤں پر حملہ کِیا اور ہم سب کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔‏ مَیں اور میرے تایازاد بھائی پہاڑوں میں جا کر چھپ گئے۔‏ اُس علاقے میں ہزاروں اَور لوگوں نے پناہ لی تھی۔‏

لیکن فوجیوں کو اِس جگہ کا پتہ چل گیا اور اُنہوں نے وہاں بموں کی بارش کر دی۔‏ بہت سے لوگ مارے گئے۔‏ وہ بہت ہی خوفناک منظر تھا۔‏ آخرکار ہم اپنے گاؤں واپس لوٹ گئے لیکن خطرہ ابھی بھی ہمارے سر پر منڈلا رہا تھا۔‏ ہمارے بہت سے پڑوسی لاپتہ ہو گئے یا پھر مارے گئے۔‏ اِس لئے مجھے یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں اگلا شکار مَیں نہ ہوں۔‏

جب مَیں دس سال کا تھا تو میرے تایازاد بھائی بیمار پڑ گئے اور فوت ہو گئے۔‏ اِس کے بعد میرے ماں‌باپ نے مجھے میری نانی کے پاس بھیج دیا۔‏ میری نانی بیوہ تھیں۔‏ وہ بہت تلخ‌مزاج تھیں اور مجھے ایک بوجھ سمجھتی تھیں۔‏ وہ مجھ سے غلاموں جیسا سلوک کرتی تھیں۔‏ ایک دن مَیں بہت بیمار تھا اِس لئے مَیں کام نہیں کر سکا۔‏ اِس پر میری نانی نے مجھے بہت مارا۔‏ میری حالت اِتنی خراب تھی کہ مَیں مرنے والا تھا۔‏ یہ دیکھ کر میرے ماموں‌زاد بھائی مجھے اپنے گھر لے گئے۔‏

آخر ۱۲ سال کی عمر میں مَیں نے سکول جانا شروع کِیا۔‏ اِس کے کچھ عرصے بعد میری بھابی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی۔‏ اِس وجہ سے میرے ماموں‌زاد بھائی بہت اُداس رہنے لگے۔‏ مَیں اُنہیں اَور پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔‏ اِس لئے مَیں وہاں سے بھاگ گیا اور فوجیوں کے ایک گروہ میں شامل ہو گیا جو جنگل میں رہ رہا تھا۔‏ مَیں اُن کے کپڑے دھوتا تھا،‏ اُن کا کھانا پکاتا تھا اور اُن کے کیمپ کی صفائی کرتا تھا۔‏ وہ میرے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتے تھے۔‏ مَیں خوش تھا کہ کسی کو تو میری ضرورت ہے۔‏ لیکن کئی مہینے بعد میرے رشتہ‌داروں نے مجھے ڈھونڈ لیا اور مجھے واپس اپنے گاؤں لے گئے۔‏

سیاسی جدوجہد

جب مَیں نے کالج ختم کر لیا تو مَیں نے مشرقی تیمور کے دارلحکومت دِلی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔‏ وہاں میری ملاقات بہت سے ایسے نوجوانوں سے ہوئی جنہوں نے میرے جیسے حالات میں پرورش پائی تھی۔‏ ہمارا خیال تھا کہ ملک کو آزادی دِلانے اور غربت ختم کرنے کے لئے ہمیں سیاست میں قدم رکھنا ہوگا۔‏ اِس لئے ہم نے سیاسی مظاہروں کا اِنتظام کِیا۔‏ لیکن اِن میں سے زیادہ‌تر مظاہروں نے دنگافساد کی شکل اختیار کر لی اور میرے بہت سے دوست زخمی ہو گئے۔‏ کچھ تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‏

سن ۲۰۰۲ء میں مشرقی تیمور آزاد ہو گیا۔‏ لیکن ملک میں حالات بہت خراب تھے۔‏ جنگ میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے اور لاکھوں لوگوں کو اپنا گھربار چھوڑنا پڑا تھا۔‏ میرا خیال تھا کہ ملک کی آزادی کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے۔‏ لیکن بےروزگاری اور غربت جیسے مسائل جوں کے توں رہے اور ملک میں لڑائیاں بھی جاری رہیں۔‏

زندگی کا ایک اہم موڑ

اُس وقت مَیں اپنے رشتہ‌داروں کے ساتھ رہ رہا تھا۔‏ اِن میں سے ایک آندرے تھا۔‏ وہ مجھ سے کچھ سال چھوٹا تھا۔‏ آندرے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کر رہا تھا۔‏ مَیں رومن کیتھولک تھا اِس لئے مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ آندرے کسی اَور مذہب میں دلچسپی لے رہا ہے۔‏ لیکن مَیں بائبل کے بارے میں جاننا چاہتا تھا اور مَیں کبھی‌کبھار آندرے کی بائبل پڑھتا تھا۔‏ اِس سے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں بائبل کے بارے میں اَور سیکھوں۔‏

سن ۲۰۰۴ء میں آندرے نے مجھے یسوع مسیح کی یادگاری تقریب کا دعوت‌نامہ دیا۔‏ مَیں نے فیصلہ کِیا کہ مَیں اِس تقریب پر ضرور جاؤں گا۔‏ لیکن مَیں غلطی سے دو گھنٹے پہلے وہاں پہنچ گیا۔‏ جب یہوواہ کے گواہ وہاں پہنچنے لگے تو اِن میں مقامی لوگ بھی تھے اور غیرملکی بھی۔‏ اُن سب نے بڑی گرم‌جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا۔‏ مَیں بہت متاثر ہوا۔‏ تقریر کے دوران خدا کے کلام سے جو بھی حوالے بتائے گئے،‏ مَیں نے اُنہیں لکھ لیا تاکہ مَیں بعد میں اُنہیں اپنی کیتھولک بائبل میں پڑھ سکوں۔‏ مَیں دیکھنا چاہتا تھا کہ تقریر میں بتائی گئی باتیں سچ ہیں یا نہیں۔‏ مَیں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ بالکل سچ تھیں۔‏

اگلے ہفتے مَیں چرچ میں ایک عبادت پر گیا۔‏ مَیں اور کچھ دوسرے لوگ عبادت پر دیر سے پہنچے اِس لئے پادری نے ہمیں چھڑی کے زور پر چرچ سے باہر نکال دیا۔‏ ہم نے باہر کھڑے کھڑے ہی ساری عبادت سنی۔‏ عبادت کے آخر میں پادری نے کلیسیا سے کہا:‏ ”‏مسیح کی سلامتی تمہارے ساتھ رہے۔‏“‏ ایک عورت نے ہمت کرکے اُن سے کہا:‏ ”‏آپ نے اُن لوگوں کو تو چرچ سے باہر بھگا دیا اور اب آپ سلامتی کی باتیں کر رہے ہیں!‏“‏ لیکن پادری نے اُس عورت کی بات سنی اَن‌سنی کر دی۔‏ اِس کے بعد مَیں کبھی پلٹ کر چرچ نہیں گیا۔‏

اِس کے کچھ عرصے بعد مَیں نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ شروع کر دیا اور مَیں آندرے کے ساتھ اُن کے اجلاسوں پر جانے لگا۔‏ اِس پر ہمارے رشتہ‌دار بڑے پریشان ہوئے اور ہماری مخالفت کرنے لگے۔‏ آندرے کی نانی نے تو ہمیں دھمکی دی کہ ”‏اِس نئے مذہب کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ مَیں تمہیں زمین میں زندہ گاڑ دوں گی۔‏“‏ اِس کے باوجود ہم نے بائبل کا مطالعہ جاری رکھا۔‏ ہم ہر قیمت پر خدا کے بارے میں سیکھنا چاہتے تھے۔‏

ایک نئی راہ پر قدم

جیسے جیسے مَیں بائبل کا مطالعہ کرتا گیا،‏ مجھے احساس ہونے لگا کہ محبت رکھنے میں کیا کچھ شامل ہے۔‏ مَیں بڑا سنگدل اور جھگڑالو تھا اِس لئے مجھے دوسروں پر اعتماد کرنا مشکل لگتا تھا۔‏ لیکن یہوواہ کے گواہ مجھ سے بڑا اچھا سلوک کرتے تھے۔‏ ایک دفعہ مَیں بیمار ہو گیا۔‏ میرے رشتہ‌داروں نے تو مجھے پوچھا تک نہیں لیکن یہوواہ کے گواہ مجھ سے ملنے آئے اور میری بڑی مدد کی۔‏ اُنہوں نے صرف ”‏کلام اور زبان ہی سے نہیں“‏ بلکہ اپنے کاموں سے بھی محبت ظاہر کی۔‏—‏۱-‏یوحنا ۳:‏۱۸‏۔‏

میرا حلیہ بڑا عجیب سا تھا اور میرا رویہ بھی کافی سخت تھا۔‏ لیکن اِس کے باوجود یہوواہ کے گواہ مجھ سے بڑی محبت اور نرمی سے پیش آتے تھے۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ زندگی میں پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ کوئی مجھ سے پیار کرتا ہے۔‏ میرا رویہ بدلنے لگا اور میرے دل میں خدا اور دوسرے لوگوں کے لئے محبت پیدا ہونے لگی۔‏ آخرکار مَیں نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لئے وقف کر دی اور دسمبر ۲۰۰۴ء میں بپتسمہ لے لیا۔‏ کچھ عرصے بعد آندرے نے بھی بپتسمہ لے لیا۔‏

مشکل دَور میں خوشیاں

بپتسمہ لینے کے بعد میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں ایسے لوگوں کی مدد کروں جن کی زندگی میری طرح محبت سے خالی تھی اور جو ناانصافی کا شکار تھے۔‏ اِس لئے مَیں کُل‌وقتی طور پر لوگوں کو خدا کے کلام کی تعلیم دینے لگا۔‏ اِس سے مجھے ایسا سکون ملا جو مجھے سیاست میں حصہ لینے سے کبھی نہیں ملا تھا کیونکہ آخرکار مَیں صحیح معنوں میں لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔‏

سن ۲۰۰۶ء میں مشرقی تیمور میں پھر سے ہنگامے شروع ہو گئے۔‏ کچھ سیاسی گروہوں میں لڑائیاں ہونے لگیں اور شہر دِلی اِن کی لپیٹ میں آ گیا۔‏ بہت سے لوگوں کو اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا۔‏ مَیں نے بھی دوسرے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ شہر باؤکاؤ کا رُخ کِیا۔‏ یہ شہر دِلی سے ۱۲۰ کلومیٹر (‏۷۰ میل)‏ دُور مشرق میں واقع ہے۔‏ حالانکہ ہمیں بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا لیکن ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے شہر باؤکاؤ میں ایک کلیسیا قائم کی۔‏ یہ مشرقی تیمور میں یہوواہ کے گواہوں کی پہلی کلیسیا تھی جو دِلی سے باہر قائم کی گئی۔‏

سن ۲۰۰۹ء میں انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں یہوواہ کے گواہوں کے کُل‌وقتی مُنادوں کے لئے ایک سکول کا اِنتظام کِیا گیا۔‏ مجھے بھی اِس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔‏ جکارتہ کے یہوواہ کے گواہوں نے مجھے نہ صرف اپنے گھروں میں بلکہ اپنے دلوں میں بھی جگہ دی۔‏ مَیں اُن کی محبت سے بہت متاثر ہوا۔‏ مجھے احساس ہوا کہ مَیں ایک عالمگیر برادری کا حصہ ہوں جس میں مجھے بہت پیار ملتا ہے۔‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏۔‏

دلی خوشی اور اطمینان

اُس سکول کے بعد مَیں واپس باؤکاؤ آ گیا اور ابھی تک مَیں یہیں رہ رہا ہوں۔‏ یہاں کے لوگوں کو خدا کی تعلیم دے کر مجھے بڑی خوشی ملتی ہے کیونکہ اِس تعلیم سے اُن کو بڑے فائدے ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر مَیں دوسرے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ مل کر ایک گاؤں میں جاتا ہوں جہاں ہم تقریباً ۲۰ لوگوں کو خدا کے بارے میں سکھاتے ہیں۔‏ اِن لوگوں میں کچھ بزرگ بھی شامل ہیں جنہیں پڑھنا لکھنا نہیں آتا۔‏ یہ سب لوگ ہر ہفتے یہوواہ کے گواہوں کے اجلاسوں پر آتے ہیں اور اُن میں سے تین نے تو بپتسمہ لے لیا ہے۔‏

کچھ سال پہلے میری ملاقات ایک لڑکی سے ہوئی جس کا نام فیلی‌زاردا ہے۔‏ جب اُس نے بائبل کی سچائیاں سیکھیں تو اُس نے اِن کو فوراً قبول کر لیا۔‏ کچھ ہی عرصے میں اُس نے بپتسمہ لے لیا۔‏ سن ۲۰۱۱ء میں ہم نے شادی کر لی۔‏ مَیں اِس بات سے بھی بہت خوش ہوں کہ آندرے مشرقی تیمور میں یہوواہ کے گواہوں کے دفتر میں کام کرتا ہے۔‏ اب میرے زیادہ‌تر رشتہ‌دار،‏ یہاں تک کہ آندرے کی نانی بھی میرے مذہب کا احترام کرتے ہیں۔‏

پہلے مَیں سمجھتا تھا کہ کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا اور مَیں ہر وقت غصے میں رہتا تھا۔‏ لیکن یہوواہ خدا کا شکر ہے کہ اب مجھے دلی خوشی اور اطمینان مل گیا ہے اور مَیں ایک عالمگیر برادری کا حصہ ہوں جو مجھ سے محبت کرتی ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

ایگیڈیو،‏ یہوواہ کے گواہ بننے سے پہلے

‏[‏صفحہ ۲۵ پر تصویر]‏

ایگیڈیو،‏ فیلی‌زاردا اور باؤکاؤ کلیسیا کے دوسرے رُکن