کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟
گھوڑے کی ٹانگ
ایک گھوڑا 50 کلومیٹر (30 میل) فیگھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ دوڑتے وقت اُس کی ٹانگیں بہت تیزی سے حرکت کرتی ہیں لیکن اِس میں زیادہ توانائی اِستعمال نہیں ہوتی۔ آپ شاید سوچ رہے ہوں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دراصل ایسا گھوڑے کی ٹانگوں کی ساخت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
گھوڑے کی ٹانگ میں لمبے وتر ہوتے ہیں۔ (وتر ایسی ریشےدار نسیں ہوتی ہیں جو پٹھوں کو ہڈیوں سے جوڑتی ہیں۔) جب گھوڑا دوڑتا ہے تو یہ وتر سپرنگ کی طرح کام کرتے ہیں۔ جیسے ہی گھوڑے کے پاؤں زمین پر پڑتے ہیں تو وتر پھیلتے ہیں اور توانائی کو جذب کر لیتے ہیں۔ پھر یہ سکڑتے وقت تیزی سے توانائی کو واپس چھوڑتے ہیں۔ اِس عمل سے گھوڑا آگے بڑھتا ہے۔
جب گھوڑا بھاگتا ہے تو اُس کی ٹانگوں میں بہت زیادہ اِرتعاش یعنی تھرتھراہٹ پیدا ہوتی ہے جس سے وتر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لیکن ٹانگ کے پٹھے اِس اِرتعاش کو جذب کر لیتے ہیں اور وتر کو نقصان سے بچاتے ہیں۔ تحقیقدانوں کا کہنا ہے کہ پٹھوں اور وتر کے تال میل کی وجہ سے گھوڑے کی ٹانگ مضبوط رہتی ہے اور پھرتی سے حرکت کرتی ہے۔
آجکل سائنسدان چار ٹانگوں والے روبوٹ بنا رہے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ اِن روبوٹوں کی ٹانگوں کی ساخت بالکل گھوڑے کی ٹانگوں جیسی ہو۔ لیکن روبوٹ بنانے والے ایک اِدارے کا کہنا ہے کہ اِس ڈیزائن کے مطابق ٹانگ بنانا فیالحال ممکن نہیں کیونکہ اِسے بنانے کے لیے جتنے علم اور سامان کی ضرورت ہے، وہ ابھی دستیاب نہیں ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا گھوڑے کی ٹانگوں میں پٹھوں اور وتر کا عمل خودبخود وجود میں آیا ہے؟ یا کیا یہ خالق کی کاریگری ہے؟