رنگبرنگی دُنیا
اُزبکستان کی سیر
اُزبکستان ایک ایسے علاقے میں شامل تھا جو تاریخ کے دوران مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا۔ اُس علاقے کو ماوراء النہر (یعنی دریاؤں کے بیچ واقع ملک)، تارتاری اور تُرکستان کہا جاتا تھا۔ اُزبکستان کے کچھ شہر شاہراہِریشم کے قریب واقع تھے۔ پندرہویں صدی کے شروع سے اِس راستے پر سفر کرنے والے تاجر اِن شہروں میں ٹھہرا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب شاہراہِریشم چین کو بحیرۂروم سے ملاتی تھی۔ آجکل اُزبکستان میں کپڑے کی صنعت میں زیادہتر چیزیں ریشم کی بجائے کاٹن سے بنائی جاتی ہیں۔ بازاروں میں کاٹن، اُون یا ریشم کے بنے خوبصورت قالین بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔
صدیوں کے دوران اُزبکستان کی ثقافت پر بہت سی قوموں نے گہرا اثر ڈالا ہے۔ کئی مشہور فاتحین اور اُن کی فوجیں اِس کے شہروں پر قبضہ کرنے کے لیے اِس کے پہاڑی اور ریگستانی علاقوں سے گزریں۔ اِن فاتحین میں سکندرِاعظم شامل تھے جنہوں نے یہاں کی ایک مقامی لڑکی رُخسانہ سے شادی کی۔ منگولیا سے تعلق رکھنے والے چنگیز خان نے بھی اِس علاقے پر قبضہ کِیا۔ اور بعد میں امیر تیمور (تیمورلنگ) نے اِس علاقے کو فتح کر لیا جو کہ اُن کا آبائی علاقہ بھی تھا۔ امیر تیمور تاریخ کے اُن حکمرانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے بہت وسیع سلطنت پر حکمرانی کی۔
اُزبکستان کے شہروں میں بہت سی قدیم اور عالیشان عمارتیں ہیں جن کے گنبد نیلی ٹائلوں سے سجے ہیں۔ اِن میں سے زیادہتر عمارتوں کو آجکل سکولوں کے طور پر اِستعمال کِیا جاتا ہے۔
شاہراہِریشم۔ اِس شاہراہ کا کچھ حصہ اُس علاقے میں تھا جسے اب اُزبکستان کہا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب اِس شاہراہ کو تجارتی دُنیا میں بہت اہم مقام حاصل تھا۔ تقریباً دوسری صدی قبل از مسیح سے لے کر پندرہویں صدی کے آخر تک اِس شاہراہ کو تجارت کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ لیکن پھر تجارتی مال سمندری راستوں کے ذریعے یورپ سے بھارت لے جایا جانے لگا جس کی وجہ سے اِس شاہراہ کی اہمیت کم ہو گئی۔
بحیرۂارال۔ کسی زمانے میں یہ دُنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل تھی۔ اِس جھیل میں گِرنے والے دریاؤں کے پانی کو کھیتیباڑی کے لیے اِستعمال کِیا جاتا ہے اِس لیے جھیل کا پانی دن بہدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ اُزبکستان کی حکومت وسطی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اِس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مختلف حروفِتہجی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں اِسلامی فوجوں نے ملک پر فتح حاصل کی اور عربی زبان کو فروغ دیا۔ اِس کے بعد جب اُزبکستان، سوویت یونین کا حصہ بنا تو شروع میں رومن رسمالخط کا اِستعمال کِیا گیا لیکن 1930ء کے دہے کے آخر تک اِس کی جگہ سیرِلیک رسمالخط اِستعمال کِیا جانے لگا۔ 1993ء میں ایک نئے آئین کے مطابق اُزبک حروفِتہجی متعارف کرائے گئے جو رومن رسمالخط پر مبنی ہیں۔