اُنہوں نے یزرعیل سے کیا دریافت کِیا ہے؟
اُنہوں نے یزرعیل سے کیا دریافت کِیا ہے؟
یزرعیل کا شہر صدیوں سے ویران پڑا ہے۔ بائبل تاریخ میں ایک زمانے میں یہ بڑا ممتاز شہر تھا۔ اپنے ماضی کے جاہوجلال کو کھو دینے اور منوں مٹی تلے دب جانے کے بعد اب یہ محض ایک داستان بن گیا ہے۔ حالیہ برسوں میں ماہرینِاثریات نے یزرعیل کے کھنڈرات کی کھدائی شروع کی ہے۔ یہ کھنڈرات بائبل سرگزشتوں کی بابت کیا آشکارا کرتے ہیں؟
بائبل میں یزرعیل
وادیِیزرعیل کے مشرقی حصے میں واقع ہونے کی وجہ سے، یزرعیل اسرائیل کے قدیم ملک کے انتہائی زرخیز علاقوں میں سے ایک تھا۔ وادی کے بالکل شمال کی جانب مورہ کی پہاڑی ہے جہاں مدیانی قاضی جدعون اور اُسکے لشکر پر حملہ کرنے کیلئے خیمہزن ہوئے تھے۔ مشرق میں کوہِجلبوعہ کے دامن میں حرود کا چشمہ ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں یہوواہ نے کسی طاقتور فوجی لشکر کے بغیر لوگوں کو رہائی دلانے کی اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزاروں پر مشتمل جدعون کے فوجی لشکر کو محض ۳۰۰ آدمیوں تک محدود کر دیا تھا۔ (قضاۃ ۷:۱-۲۵؛ زکریاہ ۴:۶) قریب ہی واقع کوہِجلبوعہ پر، اسرائیل کے پہلے بادشاہ ساؤل کو ڈرامائی طور پر فلستیوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس میں یونتن اور ساؤل کے دوسرے دو بیٹے بھی ہلاک ہوئے اور خود ساؤل نے خودکشی کر لی تھی۔—۱-سموئیل ۳۱:۱-۵۔
یزرعیل کے قدیم شہر سے متعلق بائبلی حوالہجات خاطرخواہ تضاد کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ طاقت کے غلط استعمال اور اسرائیلی حکمرانوں کی برگشتگی کے علاوہ یہوواہ کے خادموں کی وفاداری اور جوشوجذبے کی بابت بھی بیان کرتے ہیں۔ یزرعیل ہی وہ جگہ تھی، جہاں دس قبائلی شمالی سلطنت کے حاکم اخیاب نے دسویں صدی ق.س.ع. کے آخری حصے میں، اسے اپنا شاہی محل بنا لیا تھا اگرچہ سرکاری طور پر داراُلسلطنت سامریہ تھا۔ (۱-سلاطین ۲۱:۱) یزرعیل ہی سے ایلیاہ نبی کو اخیاب کی غیرقوم بیوی ایزبل کی طرف سے موت کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ وہ اسلئے غضبناک تھی کہ ایلیاہ نے کوہِکرمل پر خدا کو سچا ثابت کرنے کے امتحان کے بعد بڑی بہادری کیساتھ بعل کے پجاریوں کو قتل کر دیا تھا۔—۱-سلاطین ۱۸:۳۶–۱۹:۲۔
پھر اسکے بعد یزرعیل میں ایک جرم بھی سرزد ہؤا۔ یزرعیلی نبوت کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اخیاب بادشاہ نے نبوت کے تاکستان پر قبضہ کرنا چاہا تھا۔ جب بادشاہ نے زمین مانگی تو نبوت نے دیانتداری کیساتھ جواب دیا: ”[یہوواہ] مجھ سے ایسا نہ کرائے کہ مَیں تجھ کو اپنے باپدادا کی میراث دے دُوں۔“ اس بااُصول جواب سے اخیاب سخت ناراض ہو گیا۔ بادشاہ کو اُداس دیکھ کر، ملکہ ایزبل نے مکاری سے ایک چال چلی اور نبوت پر لعنت کرنے کا الزام لگایا۔ بےگناہ نبوت پر جرم ثابت ہو گیا اور بادشاہ نے تاکستان پر قبضہ کر لیا۔—۱-سلاطین ۲۱:۱-۱۶۔
اس بدکاری کی وجہ سے، ایلیاہ نے پیشینگوئی کی کہ ”یزؔرعیل کی فصیل کے پاس کتے اؔیزبل کو کھائینگے۔“ نبی نے یہ بھی کہا: ”اخیاؔب کا جو کوئی شہر میں مریگا اُسے کتے کھائیں گے . . . کیونکہ اخیاؔب کی مانند کوئی ۱-سلاطین ۲۱:۲۳-۲۹) بائبل سرگزشت بیان کرتی ہے کہ ایلیاہ کے جانشین، الیشع کے زمانے میں یاہو کو اسرائیل کا بادشاہ ہونے کے لئے مسح کِیا گیا تھا۔ جب یاہو یزرعیل میں داخل ہؤا تو اُس کے حکم پر ایزبل کو اُس کے محل کی کھڑکی سے نیچے گرا کر گھوڑوں کے پاؤں تلے روند ڈالا گیا تھا۔ بعد میں یہ پتہ چلا کہ کتوں نے اُس کی کھوپڑی، پاؤں اور ہتھیلیوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ (۲-سلاطین ۹:۳۰-۳۷) یرزعیل سے براہِراست تعلق رکھنے والا بائبل کا آخری واقعہ اخیاب کے ۷۰ بیٹوں کی ہلاکت ہے۔ یاہو نے یزرعیل کے پھاٹک پر اُن کے سروں کے دو ڈھیر لگا دئے اور اس کے بعد اخیاب کی برگشتہ حکومت کے سرکردہ آدمیوں اور کاہنوں کو بھی قتل کر ڈالا۔—۲-سلاطین ۱۰:۶-۱۱۔
نہیں ہؤا تھا جس نے [یہوواہ] کے حضور بدی کرنے کے لئے اپنے آپ کو بیچ ڈالا تھا اور جسے اُس کی بیوی اؔیزبل اُبھارا کرتی تھی۔“ تاہم جب ایلیاہ نے یہوواہ کی طرف سے عدالتی سزا سنائی تو اخیاب خاکسار بن گیا، لہٰذا یہوواہ نے کہا کہ یہ سزا اخیاب کے ایّام میں نہیں آئے گی۔ (ماہرینِاثریات نے کیا دریافت کِیا ہے؟
سن ۱۹۹۰ میں یزرعیل کی کھدائی کا مشترکہ کام شروع ہؤا۔ اس میں انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی آف تلابیب یونیورسٹی (جسکی نمائندگی ڈیوڈ اسسکن نے کی) اور یروشلیم کے برٹش سکول آف آرکیالوجی (جسکی نمائندگی جان وُڈہیڈ نے کی) نے شرکت کی۔ اس علاقے میں ۱۹۹۰-۱۹۹۶ کے دوران، ۸۰ سے ۱۰۰ رضاکاروں نے سات مرحلوں میں کام کِیا، (ہر مرحلہ چھ ہفتوں پر مشتمل تھا)۔
آثارِقدیمہ کا جدید نقطۂنظر یہ ہے کہ پہلے سے قائمشُدہ نظریات اور مفروضات کے بغیر اُس مقام پر موجود شواہد کا جائزہ لینا چاہئے۔ لہٰذا، بائبل میں متذکرہ علاقوں پر تحقیق کرنے والے آثارِقدیمہ کے ماہرین کیلئے صحیفائی سرگزشتیں حتمی حیثیت کی حامل نہیں ہیں۔ دیگر تمام ذرائع اور طبیعاتی ثبوت کی چھانبین کرنا اور جائزہ لینا چاہئے۔ تاہم، جان وُڈہیڈ کے مطابق، بائبل کے چند ابواب کے علاوہ یزرعیل کی بابت اَور کوئی قدیمی تحریری ثبوت موجود نہیں ہے۔ لہٰذا بائبل ریکارڈ اور علمِتاریخ کو تحقیقوتفتیش کے کسی بھی کام کا حصہ ہونا چاہئے۔ آثارِقدیمہ کے ماہرین کی کاوشوں نے کیا انکشاف کِیا ہے؟
کھدائی کے دوران ملنے والے ظروف اور فصیلوں سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ کھنڈرات آہنی دَور کے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ واضح طور پر بائبل میں بیانکردہ یزرعیل کے زمانے ہی کے ہیں۔ تاہم کھدائی سے کئی حیرتانگیز باتیں منظرِعام پر آئیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ یہ مقام نہایت وسیع تھا اور اسکی فصیلیں نہایت اُونچی تھیں۔ ماہرینِاثریات کا خیال تھا کہ یہ اسرائیل کی سلطنت کے دارالحکومت، قدیم سامریہ جیسی فصیلوں والا کوئی شہر ہوگا۔ تاہم، کھدائی سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ یزرعیل
اس سے کہیں بڑا شہر تھا۔ اسکی فصیلوں کی لمبائی ۱۰۰۰ فٹ اور چوڑائی ۵۰۰ فٹ تھی جسکے اندر کا رقبہ اس وقت اسرائیل میں دریافت ہونے والے کسی دوسرے شہر سے تین گُنا زیادہ تھا۔ اسکے چوگِرد ۳۵ فٹ گہری ایک خشک خندق تھی۔ پروفیسر اُسسکن کے مطابق، یہ خندق بائبل وقتوں کا ایک نادر نمونہ تھی۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ”ہمیں صلیبی جنگوں کے دَور تک اسرائیل میں اس طرح کی کوئی اَور چیز نظر نہیں آتی۔“ایک اَور غیرمتوقع پہلو یہ تھا کہ اس شہر کے وسط میں بڑی بڑی عمارتیں نہیں تھیں۔ شہر کی تعمیر کیلئے بھاری مقدار میں لائی گئی سُرخ مٹی کو احاطے میں ایک اُونچا ہموار چبوترا بنانے کیلئے استعمال کِیا گیا تھا۔ تل یزرعیل کی کھدائی کی بابت دی سیکنڈ پریلیمینری رپورٹ بیان کرتی ہے کہ یہ چبوترا اس بات کا ثبوت ہے کہ یزرعیل میں صرف شاہی محل ہی نہیں تھا۔ رپورٹ بیان کرتی ہے: ”اس بات کا خاصا امکان ہے کہ عمری اور اُسکی نسل کے بادشاہوں کے زمانے میں یزرعیل اسرائیل کی شاہی فوج کا عسکری مرکز تھا . . . جہاں شاہی رتھ اور گھڑسوار رکھ کر اُنہیں تربیت دی جاتی تھی۔“ اُونچے چبوترے اور احاطے کی وسعت کی بِنا پر وُڈہیڈ کا خیال ہے کہ یہ اُس وقت مشرقِوسطیٰ کی سب سے بڑی رتھوں والی فوج کی طاقت کی نمائش کرنے کیلئے کوئی پریڈ گراؤنڈ ہوگا۔
کھدائی کے دوران ملنے والے شہر کے پھاٹکوں کے باقیات بھی آثارِقدیمہ کے ماہرین کیلئے خصوصی دلچسپی کے حامل ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مدخل کے پھاٹک پر چار کوٹھریاں ہوتی تھیں۔ تاہم، صدیوں کے دوران اس مقام پر کئی پتھروں کا ڈھیر لگ جانے کی وجہ سے ایسے نتائج حتمی نہیں ہیں۔ وُڈہیڈ کی یہ رائے ہے کہ ان باقیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پھاٹک پیمائش میں مجدو، حصور اور جزر کے مقامات سے ملنے والے پھاٹکوں جیسے ہی تھے اور اسکی چھ کوٹھریاں تھیں۔ *
آثارِقدیمہ کی دریافتیں اس حیرانکُن حقیقت کو عیاں کرتی ہیں کہ عسکری اور جغرافیائی لحاظ سے مثالی محلِوقوع والا یہ شہر بہت ہی کم عرصے تک قائم رہا۔ وُڈہیڈ بیان کرتا ہے کہ یزرعیل جیسا نہایت مستحکم شہر محض چند عشروں تک ہی زیرِاستعمال رہا۔ بائبل میں متذکرہ اسرائیل کے دیگر علاقوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے جیسےکہ مجدو، حصور اور داراُلحکومت سامریہ جیسے شہروں کو بار بار تعمیر اور وسیع کِیا گیا نیز مختلف ادوار میں انہیں آباد بھی کِیا گیا۔ یہ مثالی شہر اتنی جلدی کیوں اُجڑ گیا؟ وُڈہیڈ کا اندازہ ہے کہ اخیاب اور اُسکے شاہی خاندان نے قومی مالودولت کو دونوں ہاتھوں سے لٹا کر معیشت کو بالکل تباہ کر دیا تھا۔ یہ بات یزرعیل کے غیرضروری طور پر بڑے سائز اور استحکامت سے ظاہر ہوتی ہے۔ نیا حکمران یاہو غالباً اخیاب کی کسی بھی چیز سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتا تھا اسلئے اُس نے یہ شہر چھوڑ دیا۔
ابھی تک کھدائی کے دوران جتنے بھی ثبوت ملے ہیں اُن سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یزرعیل آہنی دَور میں اسرائیل کا بنیادی مرکز تھا۔ اسکی وسعت اور فصیلیں بائبل کے بیان کے عین مطابق ہیں جو اسے اخیاب اور ایزبل کی خاص شاہی سکونتگاہ کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ اس دَور میں اسکی محدود آبادی کی علامات اس شہر کی بابت بائبل کے بیانات سے بالکل ہمآہنگ ہیں: اخیاب کے عہدِحکومت میں یہ بہت جلد نمایاں حیثیت اختیار کر گیا مگر یہوواہ کے حکم سے یہ اُس وقت بالکل مسمار ہو گیا جب ”یاؔہو نے اُن سب کو جو اخیاؔب کے گھرانے سے یزؔرعیل میں بچ رہے تھے اور اُسکے سب بڑےبڑے آدمیوں اور مقرب دوستوں اور کاہنوں کو قتل کِیا یہاں تک کہ اُس نے اُسکے کسی آدمی کو باقی نہ چھوڑا۔“—۲-سلاطین ۱۰:۱۱۔
یزرعیل کی تاریخ
جان وُڈہیڈ تسلیم کرتا ہے کہ ”آثارِقدیمہ میں بالکل صحیح تاریخ معلوم
کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔“ پس جب آثارِقدیمہ کے ماہرین ساتسالہ کھدائی کے نتائج پر غور کرتے ہیں تو وہ آثارِقدیمہ کے دیگر مقامات سے دریافت ہونے والی اشیاء کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہیں۔ یہ تمام دریافتوں کا ازسرِنو جائزہ لینے اور بہت زیادہ بحثمباحثے کا باعث بنا ہے۔ کیوں؟ اس لئےکہ ۱۹۶۰ اور ۱۹۷۰ کے عشروں میں مجدو کے مقام پر اسرائیلی ماہرِآثارِقدیمہ یائل یادین کی کھدائی کے وقت سے لیکر آثارِقدیمہ کے بیشتر ماہرین اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ اُس نے سلیمان بادشاہ کے زمانے کے پھاٹک اور فصیلیں دریافت کی ہیں۔ تاہم، اب یزرعیل سے ملنے والے ظروف، فصیلیں اور پھاٹک ان نتائج کو مشکوک ثابت کر رہے ہیں۔مثال کے طور پر، یزرعیل سے ملنے والے ظروف بالکل مجدو کے مقام سے ملنے والے طبق جیسے ہیں جسے یادین سلیمانی دَور سے منسوب کرتا ہے۔ ان دونوں مقامات پر ملنے والے پھاٹکوں کی ساخت اور پیمائش اگر ہوبہو ایک جیسی نہیں تو ملتیجلتی ضرور ہے۔ وُڈہیڈ بیان کرتا ہے: ”یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ یزرعیل یا تو سلیمانی عہد سے پہلے کا ہے یا پھر یہ [مجدو اور حصور] جیسے دیگر مقامات کی طرح اخیاب کے زمانے کا ہے۔“ بائبل چونکہ یزرعیل کو اخیاب کے زمانے سے منسوب کرتی ہے، لہٰذا اُس کے نزدیک یہ تسلیم کرنا معقول ہے کہ یہ طبق اخیاب کے عہدِحکومت کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈیوڈ اسسکن بھی اس سے اتفاق کرتا ہے: ”بائبل بیان کرتی ہے کہ سلیمان نے مجدو کو تعمیر کِیا تھا مگر یہ نہیں کہتی کہ اُس نے ان پھاٹکوں کو بھی تعمیر کِیا تھا۔“
کیا یزرعیل کی تاریخ معلوم کی جا سکتی ہے؟
کیا آثارِقدیمہ کی یہ دریافتیں اور ان پر مبنی مباحثے یزرعیل یا سلیمان کی بابت بائبل کی سرگزشت کو مشکوک بنا دیتے ہیں؟ دراصل، آثارِقدیمہ کی بحث کا براہِراست بائبل سرگزشت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ آثارِقدیمہ دراصل بائبل سے ہٹ کر تاریخ کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیتی ہے۔ یہ مختلف سوالات اُٹھاتی ہے اور فرق چیزوں کو اہمیت دیتی ہے۔ کوئی بائبل طالبعلم اور آثارِقدیمہ کے ماہرین کا ناہموار متوازی راستوں پر چلنے والے مسافروں سے موازنہ کر سکتا ہے۔ ایک مسافر سڑک پر گاڑی چلا رہا ہے جبکہ دوسرا سڑک کے کنارے پیدل چل رہا ہے۔ اُنکی منزل اور تفکرات فرق ہیں۔ تاہم، اُنکی سوچ تردیدی نہیں بلکہ اکثر تکملہ ہوتی ہے۔ دونوں مسافروں کے تاثرات کا موازنہ کرنا حیرانکُن بصیرت عطا کر سکتا ہے۔
بائبل میں قدیم واقعات اور لوگوں کی سرگزشتیں درج ہیں؛ آثارِقدیمہ ابھی تک زمین پر انکے باقیات کے نشانات سے ان واقعات اور لوگوں کی بابت معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم، یہ باقیات عموماً نامکمل اور مختلف وضاحتوں کے تابع ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں، اپنی کتاب آرکیالوجی آف دی لینڈ آف دی بائبل—۰۰۰،۱۰-۵۸۶ بی.سی.ای. میں آمی ہیماظار بیان کرتا ہے: ”آثارِقدیمہ کے میدان میں کام کرنا فن کے علاوہ تربیت اور پیشہوارانہ مہارت بھی ہے۔ کوئی بھی بےلوچ طریقہ کامیابی کی ضمانت نہیں بلکہ میدان میں کام کرنے والے منتظمین کی لچکپذیری اور تخلیقی قوت لازمی ہے۔ آثارِقایمہ کے ماہر کا کردار، صلاحیت اور ذہانت اُسکی تربیت اور دستیاب وسائل سے کم اہم نہیں ہیں۔“
آثارِقدیمہ نے یزرعیل میں شاہی اور عسکری مرکز کے وجود کی تصدیق کر دی ہے جو بائبل کے مطابق اخیاب کے زمانے میں تھا مگر حیرانکُن حد تک محدود وقت کے لئے آباد ہوا تھا۔ اس سلسلے میں بہت سے تجسّس پیدا کرنے والے سوالات اُٹھائے گئے ہیں جن پر آثارِقدیمہ کے ماہرین آئندہ سالوں میں تحقیق کرینگے۔ تاہم، خدا کا کلام بائبل ایسے واضح طریقے سے پوری داستان بیان کرتا ہے جو آثارِقدیمہ کے ماہرین کبھی بیان نہیں کر پائینگے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 13 اگست ۱۵، ۱۹۸۸ کے دی واچٹاور میں مضمون بعنوان ”پھاٹکوں کا بھید“ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
یزرعیل میں آثارِقدیمہ کی کھدائی
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
یزرعیل میں ملنے والا کنعانی بُت