مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏یہوواہ اور اُسکی قوت کے طالب ہو“‏

‏”‏یہوواہ اور اُسکی قوت کے طالب ہو“‏

‏”‏یہوواہ اور اُسکی قوت کے طالب ہو“‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُنکی امداد میں جنکا دل اُسکی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دکھائے۔‏“‏—‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏۔‏

۱.‏ طاقت کیا ہے اور انسانوں نے اسے کیسے استعمال کِیا ہے؟‏

طاقت کے کئی معنی ہو سکتے ہیں،‏ جیسا کہ اقتدار،‏ اختیار یا دوسروں پر اثرورسوخ؛‏ کوئی کام یا اثر پیدا کرنے کی اہلیت؛‏ جسمانی زور (‏قوت)‏؛‏ یا ذہنی یا اخلاقی عمل۔‏ طاقت کے استعمال کے سلسلے میں انسانوں کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے۔‏ ایک مؤرخ لارڈ اکٹن نے سیاستدانوں کی طاقت کا ذکر کرتے ہوئے کہا:‏ ”‏طاقت بگاڑ دیتی ہے اور مطلق طاقت مطلقاً بگاڑ دیتی ہے۔‏“‏ موجودہ تاریخ لارڈ اکٹن کی اس بات کی صداقت کو ثابت کرنے والی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔‏ اس ۲۰ویں صدی میں پہلے سے کہیں زیادہ ”‏ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا“‏ لایا ہے۔‏ (‏واعظ ۸:‏۹‏)‏ بدعنوان آمروں نے اپنی طاقت کا بڑا غلط استعمال کِیا ہے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں چھین لی ہیں۔‏ محبت،‏ حکمت اور انصاف کے بغیر طاقت نہایت خطرناک ہے۔‏

۲.‏ یہوواہ اپنی طاقت کو جس طریقے سے استعمال کرتا ہے اُس پر دیگر الہٰی خوبیوں کے اثر کی وضاحت کریں۔‏

۲ بیشتر انسانوں کے برعکس،‏ خدا ہمیشہ اپنی طاقت کو بھلائی کیلئے استعمال کرتا ہے۔‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُنکی امداد میں جنکا دل اُسکی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دکھائے۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹‏)‏ یہوواہ اپنی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اُسے قابو میں رکھتا ہے۔‏ تحمل نے بدکاروں کیلئے خدا کی عدالت کو روک رکھا ہے تاکہ اُنہیں توبہ کرنے کا موقع مل سکے۔‏ محبت سے تحریک پا کر وہ اپنے سورج کو راست اور ناراست سب پر چمکاتا ہے۔‏ انصاف اُسے موت کے ذمہ‌دار شیطان ابلیس کو بالآخر نیست‌ونابود کرنے کیلئے اپنی فائق طاقت کو استعمال کرنے کی تحریک دیگا۔‏—‏متی ۵:‏۴۴،‏ ۴۵؛‏ عبرانیوں ۲:‏۱۴؛‏ ۲-‏پطرس ۳:‏۹‏۔‏

۳.‏ خدا کی بےپناہ طاقت اُس پر توکل کرنے کی وجہ کیوں ہے؟‏

۳ ہمارے آسمانی باپ کی مہیب طاقت اُسکے وعدوں اور حفاظت پر اعتماد اور بھروسے کی وجہ ہے۔‏ ایک ننھا بچہ اپنے باپ کا ہاتھ تھام لینے سے اجنبیوں کے درمیان بھی محفوظ محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُسکا باپ اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیگا۔‏ اسی طرح،‏ اگر ہم اُس کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو ”‏نجات دینے پر قادر“‏ ہمارا آسمانی باپ ہمیں کسی بھی مستقل نقصان سے بچائیگا۔‏ (‏یسعیاہ ۶۳:‏۱؛‏ میکاہ ۶:‏۸‏)‏ لہٰذا ایک مہربان باپ کے طور پر،‏ یہوواہ اپنے وعدے ہمیشہ پورے کرتا ہے۔‏ اُسکی بےپناہ طاقت اس بات کی ضمانت ہے کہ اُسکا کلام ’‏اپنا مبیّنہ مقصد ضرور پورا کریگا۔‏‘‏—‏یسعیاہ ۵۵:‏۱۱؛‏ ططس ۱:‏۲‏۔‏

۴،‏ ۵.‏ (‏ا)‏یہوواہ پر آسا بادشاہ کے کامل بھروسے کا کیا نتیجہ نکلا؟‏ (‏ب)‏ اگر ہم اپنے مسائل کیلئے انسانی حل پر اعتماد کریں تو کیا واقع ہو سکتا ہے؟‏

۴ ہمارے لئے اپنے آسمانی باپ کے تحفظ سے غفلت برتنے سے گریز کرنے کا عزم کرنا اسقدر اہم کیوں ہے؟‏ اسلئےکہ حالات سے مغلوب ہو کر اپنی حقیقی سلامتی کے مصدر کو نظرانداز کر بیٹھنا عین ممکن ہے۔‏ عام طور پر یہوواہ پر توکل کرنے والے بادشاہ آسا کی مثال سے اس بات کو سمجھا جا سکتا ہے۔‏ آسا کے دورِحکومت میں دس لاکھ کوشیوں کی فوج نے یہوداہ پر حملہ کر دیا۔‏ آسا نے عسکری نقطۂ‌نظر سے دشمنوں کی فتح کو یقینی سمجھتے ہوئے یوں دُعا کی:‏ ”‏اَے [‏یہوواہ]‏ زورآور اور کمزور کے مقابلہ میں مدد کرنے کو تیرے سوا اَور کوئی نہیں۔‏ اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارے خدا تُو ہماری مدد کر کیونکہ ہم تجھ پر بھروسا رکھتے ہیں اور تیرے نام سے اس انبوہ کا سامنا کرنے آئے ہیں۔‏ تُو اَے [‏یہوواہ]‏ ہمارا خدا ہے۔‏ انسان تیرے مقابلہ میں غالب ہونے نہ پائے۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۴:‏۱۱‏)‏ یہوواہ نے آسا کی التجا سن لی اور اُسے فیصلہ‌کُن فتح بخشی۔‏

۵ تاہم،‏ سالہاسال کی وفادارانہ خدمت کے بعد،‏ یہوواہ کی نجات‌بخش طاقت پر آسا کا اعتماد ڈگمگا گیا۔‏ اسرائیل کی شمالی سلطنت کی طرف سے جنگ کی دھمکی کا ازالہ کرنے کیلئے اُس نے ارام سے مدد مانگی۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۱-‏۳‏)‏ اگرچہ ارام کے بادشاہ بن‌ہدد کو رشوت دینے کے نتیجے میں اسرائیل کی طرف سے یہوداہ کیلئے خطرہ تو ٹل گیا مگر ارام کیساتھ آسا کے معاہدے نے یہوواہ پر اعتماد کی کمی کو ظاہر کِیا۔‏ حنانی نبی نے اُس سے واضح الفاظ میں کہا:‏ ”‏کیا کوشی اور لُوبی انبوہِ‌کثیر نہ تھے جنکے ساتھ گاڑیاں اور سوار بڑی کثرت سے تھے؟‏ توبھی چونکہ تُو نے [‏یہوواہ]‏ پر بھروسا رکھا اُس نے اُنکو تیرے ہاتھ میں کر دیا۔‏“‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۷،‏ ۸‏)‏ تاہم،‏ آسا نے اُسکی ملامت کو ردّ کر دیا۔‏ (‏۲-‏تواریخ ۱۶:‏۹-‏۱۲‏)‏ مسائل کے پیشِ‌نظر،‏ ہمیں انسانی حل پر تکیہ نہیں کرنا چاہئے۔‏ اس کی بجائے ہمیں خدا پر اعتماد ظاہر کرنا چاہئے کیونکہ انسانوں کی طاقت پر بھروسہ کرنے سے ہمیں یقیناً مایوسی ہوگی۔‏—‏زبور ۱۴۶:‏۳-‏۵‏۔‏

یہوواہ کی طاقت کے طالب ہوں

۶.‏ ہمیں ”‏یہوواہ اور اُسکی قوت کے طالب“‏ کیوں ہونا چاہئے؟‏

۶ یہوواہ اپنے خادموں کی حفاظت کرنے کے علاوہ اُنہیں طاقت بھی بخش سکتا ہے۔‏ بائبل ہمیں تاکید کرتی ہے کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ اور اُسکی قوت کے طالب ہو۔‏“‏ (‏زبور ۱۰۵:‏۴‏)‏ کیوں؟‏ اسلئےکہ جب ہم خدا کی قوت سے کوئی کام کرتے ہیں تو ہماری طاقت دوسروں کے نقصان کی بجائے فائدہ پہنچائیگی۔‏ یسوع مسیح سے بڑھکر ہمیں اَور کوئی مثال نہیں مل سکتی جس نے ”‏[‏یہوواہ]‏ کی قدرت“‏ سے بہت سے معجزہ کئے۔‏ (‏لوقا ۵:‏۱۷‏)‏ یسوع دولتمند،‏ نامور یا کامل‌اُلاختیار بادشاہ بننے کیلئے بھی خود کو وقف کر سکتا تھا۔‏ (‏لوقا ۴:‏۵-‏۷‏)‏ اسکے برعکس،‏ اُس نے یہوواہ کی طاقت کو تعلیم‌وتربیت اور مددوشفا کیلئے استعمال کِیا۔‏ (‏مرقس ۷:‏۳۷؛‏ یوحنا ۷:‏۴۶‏)‏ ہمارے لئے کتنا اچھا نمونہ!‏

۷.‏ جب ہم اپنی طاقت کی بجائے یہوواہ کی طاقت سے کام کرتے ہیں تو ہمارے اندر کونسی اہم خوبی پیدا ہوتی ہے؟‏

۷ مزیدبرآں،‏ ”‏خدا“‏ کی ”‏طاقت کے مطابق“‏ کام کرنا ہمیں فروتن بھی بنائیگا۔‏ (‏۱-‏پطرس ۴:‏۱۱‏)‏ اپنی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کرنے والے لوگ شوخ‌چشم بن جاتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر شاہِ‌اسور اسرحدون پر غور کیجئے جس نے بڑی شیخی سے کہا:‏ ”‏مَیں طاقتور ہوں،‏ مَیں ہی کامل‌اُلاختیار ہوں،‏ مَیں سورما ہوں،‏ مَیں دیوہیکل ہوں،‏ مَیں عظیم‌الشان ہوں۔‏“‏ اسکے برعکس،‏ یہوواہ نے ”‏دُنیا کے بیوقوفوں کو چن لیا کہ حکیموں کو شرمندہ کرے۔‏“‏ لہٰذا اگر کوئی سچا مسیحی فخر کرتا ہے تو یہوواہ پر فخر کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اُس نے جو کچھ بھی کِیا ہے اپنی قوت سے نہیں کِیا ہے۔‏ ’‏خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہنا‘‏ حقیقی سربلندی کا باعث بنیگا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱:‏۲۶-‏۳۱؛‏ ۱-‏پطرس ۵:‏۶‏۔‏

۸.‏ یہوواہ کی طاقت حاصل کرنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے کیا کرنا چاہئے؟‏

۸ ہم کیسے خدا کی قوت حاصل کر سکتے ہیں؟‏ سب سے پہلے،‏ ہمیں اس کیلئے دُعا کرنے کی ضرورت ہے۔‏ یسوع نے اپنے شاگردوں کو یقین دلایا کہ جو لوگ روح‌القدس مانگتے ہیں اُسکا باپ اُنہیں دیتا ہے۔‏ (‏لوقا ۱۱:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ غور فرمائیں کہ جب مسیح کے شاگردوں نے یسوع کی بابت گواہی دینے سے منع کرنے والے مذہبی پیشواؤں کی بجائے خدا کا حکم ماننے کو ترجیح دی تو اُنہوں نے کیسی طاقت پائی تھی۔‏ جب اُنہوں نے یہوواہ کی مدد کیلئے دُعا کی تو اُنکی مخلصانہ دُعا سنی گئی اور روح‌القدس نے اُنہیں دلیری کیساتھ خوشخبری کی منادی جاری رکھنے کی طاقت بخشی۔‏—‏اعمال ۴:‏۱۹،‏ ۲۰،‏ ۲۹-‏۳۱،‏ ۳۳‏۔‏

۹.‏ روحانی قوت کے دوسرے ماخذ کا نام بتائیں اور اسکی اثرآفرینی کو واضح کرنے کیلئے کوئی صحیفائی مثال پیش کریں۔‏

۹ دوم،‏ ہم بائبل سے روحانی قوت حاصل کر سکتے ہیں۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ یوسیاہ بادشاہ کے ایّام میں خدا کے کلام کی طاقت بالکل عیاں تھی۔‏ یہودیہ کا یہ بادشاہ اگرچہ پورے ملک سے بُتوں کو پہلے ہی سے نیست کر چکا تھا توبھی ہیکل میں غیرمتوقع طور پر یہوواہ کی شریعت کے مل جانے سے اُس نے ہر طرح کی ناپاکی دُور کرنے کے عمل کو تیز کرنے کی تحریک پائی۔‏ * جب یوسیاہ نے خود لوگوں کے سامنے شریعت کو پڑھا تو ساری قوم نے یہوواہ سے عہد باندھا اور پھر بُت‌پرستی کے خلاف اَور بھی زیادہ جوش کیساتھ مہم کا آغاز کِیا۔‏ یوسیاہ کے اصلاحی عمل کا عمدہ نتیجہ یہ نکلا کہ ”‏وہ اُسکے جیتے جی [‏یہوواہ]‏ .‏ .‏ .‏ کی پیروی سے نہ ہٹے۔‏“‏—‏۲-‏تواریخ ۳۴:‏۳۳‏۔‏

۱۰.‏ یہوواہ سے قوت حاصل کرنے کا تیسرا طریقہ کیا ہے اور یہ کیوں اہم ہے؟‏

۱۰ سوم،‏ ہم مسیحی رفاقت کے ذریعے یہوواہ سے قوت پاتے ہیں۔‏ پولس نے مسیحیوں کو ”‏محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے“‏ اور باہمی حوصلہ‌افزائی کے لئے باقاعدگی سے اجلاسوں پر حاضر ہونے کی نصیحت کی۔‏ (‏عبرانیوں ۱۰:‏۲۴،‏ ۲۵‏)‏ جب پطرس نے معجزانہ طور پر قید سے رہائی پائی تو وہ بھائیوں سے ملنے کی آرزو میں فوراً یوحنا مرقس کی ماں کے گھر گیا جہاں ”‏بہت سے آدمی جمع ہو کر دُعا کر رہے تھے۔‏“‏ (‏اعمال ۱۲:‏۱۲‏)‏ بِلاشُبہ،‏ وہ سب اپنے اپنے گھر میں رہ کر بھی دُعا کر سکتے تھے۔‏ تاہم اُنہوں نے اُس مشکل وقت کے دوران باہم جمع ہو کر دُعا کرنے اور ایک دوسرے کی حوصلہ‌افزائی کرنے کا انتخاب کِیا۔‏ پولس روم کے طویل اور خطرناک سفر کے اختتام پر پتیلی میں رہنے والے بھائیوں سے اور بعدازاں دیگر بھائیوں سے ملا جو اُس کی ملاقات کے لئے وہاں آئے ہوئے تھے۔‏ اُس نے کیسا ردِعمل دکھایا؟‏ ”‏پولس نے اُنہیں [‏موخرالذکر]‏ دیکھ کر خدا کا شکر کِیا اور اُس کی خاطر جمع ہوئی۔‏“‏ (‏اعمال ۲۸:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ اُس نے ایک بار پھر بھائیوں کی رفاقت میں آکر تقویت پائی تھی۔‏ ہم بھی ساتھی مسیحیوں کی رفاقت سے تقویت پاتے ہیں۔‏ جبتک ہم آزاد اور ایک دوسرے سے رفاقت رکھنے کے قابل ہیں ہمیں زندگی کو پہنچانے والے تنگ راستے پر تنہا چلنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔‏—‏امثال ۱۸:‏۱؛‏ متی ۷:‏۱۴‏۔‏

۱۱.‏ چند ایسے حالات کا تذکرہ کریں جن میں ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ کی خاص طور پر ضرورت پڑتی ہے۔‏

۱۱ باقاعدہ دُعا،‏ خدا کے کلام کے مطالعے اور ساتھی ایمانداروں کی رفاقت کے ذریعے ہم ”‏خداوند میں اور اُسکی قدرت کے زور میں مضبوط“‏ بنتے جاتے ہیں۔‏ (‏افسیوں ۶:‏۱۰‏)‏ ہم سب کو یقیناً ”‏خداوند میں .‏ .‏ .‏ قدرت“‏ کی ضرورت ہے۔‏ بعض لوگ کمزور کر دینے والی بیماریوں سے تکلیف اُٹھاتے ہیں جبکہ دیگر بڑھاپے کی تباہ‌کاریوں یا شریکِ‌حیات کی موت کے باعث دُکھ اُٹھاتے ہیں۔‏ (‏زبور ۴۱:‏۳‏)‏ ایسے لوگ بھی ہیں جو بےایمان بیاہتا ساتھی کی مخالفت کا نشانہ بنتے ہیں۔‏ والدین،‏ بالخصوص تنہا ماں یا باپ،‏ کُل‌وقتی ملازمت کیساتھ ساتھ خاندان کی نگہداشت کو تھکا دینے والی ذمہ‌داری خیال کرتے ہیں۔‏ مسیحی نوجوانوں کو ہمسروں کے دباؤ سے نپٹنے اور منشیات اور بداخلاقی سے انکار کرنے کیلئے قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ لہٰذا،‏ کسی کو بھی ایسے چیلنجوں پر قابو پانے کیلئے یہوواہ سے ”‏حد سے زیادہ قدرت“‏ مانگنے سے ہچکچانا نہیں چاہئے۔‏—‏۲-‏کرنتھیوں ۴:‏۷‏۔‏

‏”‏تھکے ہوئے کو زور“‏ بخشنا

۱۲.‏ یہوواہ ہمیں مسیحی خدمتگزاری میں کیسے سنبھالتا ہے؟‏

۱۲ علاوہ‌ازیں،‏ یہوواہ اپنے خادموں کو خدمتگزاری کی انجام‌دہی کیلئے طاقت بخشتا ہے۔‏ ہم یسعیاہ کے نبوّتی کلام میں پڑھتے ہیں:‏ ”‏وہ تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے اور ناتوان کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے۔‏ .‏ .‏ .‏ [‏یہوواہ]‏ کا انتظار کرنے والے ازسرِنو زور حاصل کرینگے۔‏ وہ عقابوں کی مانند بال‌وپر سے اُڑینگے وہ دوڑینگے اور نہ تھکیں گے۔‏ وہ چلینگے اور ماندہ نہ ہونگے۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۹-‏۳۱‏)‏ پولس رسول نے تو خود بھی اپنی خدمتگزاری کو پورا کرنے کیلئے طاقت حاصل کی تھی۔‏ نتیجتاً،‏ اُسکی خدمتگزاری نہایت مؤثر تھی۔‏ اُس نے تھسلنیکے کے مسیحیوں کے نام لکھا:‏ ”‏ہماری خوشخبری تمہارے پاس نہ فقط لفظی طور پر پہنچی بلکہ قدرت اور روح‌القدس .‏ .‏ .‏ کے ساتھ بھی۔‏“‏ (‏۱-‏تھسلنیکیوں ۱:‏۵‏)‏ اُسکی منادی اور تعلیم میں اپنے سامعین کی زندگیوں کو یکسر بدل دینے کی طاقت تھی۔‏

۱۳.‏ مخالفت کے باوجود کس چیز نے ثابت‌قدم رہنے کیلئے یرمیاہ کی مدد کی تھی؟‏

۱۳ جب ہمیں اپنے علاقے میں سالہاسال تک کام کرنے کے باوجود کوئی خاطرخواہ نتیجہ حاصل ہونے کی بجائے بےاعتنائی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم دلبرداشتہ ہو سکتے ہیں۔‏ یرمیاہ بھی اسی طرح مخالفت،‏ تمسخر اور بےحسی کا سامنا کرنے کی وجہ سے بےحوصلہ‌ہو گیا تھا۔‏ اُس نے کہا کہ ”‏مَیں [‏خدا]‏ کا ذکر نہ کرونگا نہ پھر کبھی اُسکے نام سے کلام کرونگا۔‏“‏ لیکن وہ چپ نہیں رہ سکتا تھا۔‏ اُسکا پیغام ”‏[‏اُسکے]‏ دل میں جلتی آگ کی مانند“‏ تھا۔‏ (‏یرمیاہ ۲۰:‏۹‏)‏ کس چیز نے اُسے اتنی کٹھن صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے ازسرِنو طاقت بخشی تھی؟‏ یرمیاہ نے کہا کہ ”‏[‏یہوواہ]‏ مہیب بہادر کی مانند میری طرف ہے۔‏“‏ (‏یرمیاہ ۲۰:‏۱۱‏)‏ اپنے پیغام اور خداداد تفویض کی اہمیت کی قدر کرنے کی وجہ سے یرمیاہ نے یہوواہ کی حوصلہ‌افزائی کے لئے جوابی‌عمل دکھایا تھا۔‏

نقصان اور فائدہ پہنچانے کی طاقت

۱۴.‏ (‏ا)‏زبان کتنا طاقتور ہتھیار ہے؟‏ (‏ب)‏ زبان سے پہنچنے والے نقصان کی مثالیں پیش کریں۔‏

۱۴ ہماری ساری طاقت براہِ‌راست خدا کی طرف سے نہیں آتی۔‏ مثال کے طور پر،‏ زبان میں نقصان اور فائدہ پہنچانے کی طاقت ہے۔‏ سلیمان آگاہ کرتا ہے کہ ”‏موت اور زندگی زبان کے قابو میں ہیں۔‏“‏ (‏امثال ۱۸:‏۲۱‏)‏ حوّا کیساتھ شیطان کی مختصر سی گفتگو کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ الفاظ کتنے تباہ‌کُن ہو سکتے ہیں۔‏ (‏پیدایش ۳:‏۱-‏۵؛‏ یعقوب ۳:‏۵‏)‏ ہم بھی زبان سے بہت سا نقصان کر سکتے ہیں۔‏ کسی نوجوان لڑکی کے وزن کی بابت ہتک‌آمیز جملے چست کر کے ہم اُس کیلئے بھوک کے مرضیاتی فقدان کا سبب بن سکتے ہیں۔‏ بِلاسوچےسمجھے کسی بہتان کو دہرانا عمربھر کی دوستی کو ختم کر سکتا ہے۔‏ جی‌ہاں،‏ زبان کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے۔‏

۱۵.‏ ہم اپنی زبان کو ترقی اور فائدے کیلئے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‏

۱۵ تاہم،‏ زبان حوصلہ‌افزائی کے علاوہ حوصلہ‌شکنی بھی کر سکتی ہے۔‏ بائبل مثل یوں بیان کرتی ہے:‏ ”‏بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحت‌بخش ہے۔‏“‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ دانشمند مسیحی اپنی زبان کی طاقت کو افسردہ اور سوگوار لوگوں کو تسلی دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔‏ مشفقانہ بات‌چیت ہمسروں کے نقصاندہ دباؤ سے نبردآزما نوعمروں کی حوصلہ‌افزائی کر سکتی ہے۔‏ ایک فہیم زبان عمررسیدہ بہن‌بھائیوں کو اپنائیت اور محبت کا یقین دلا سکتی ہے۔‏ مشفقانہ بات‌چیت بیماروں کو خوشی عطا کر سکتی ہے۔‏ سب سے بڑھکر،‏ ہم اپنی زبان کو سننے کی طرف مائل تمام لوگوں کو اثرآفرین بادشاہتی پیغام سنانے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔‏ خدا کے کلام کی منادی کرنا ہماری استطاعت میں ہے اگر ہمارا دل اس میں ہے۔‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏بھلائی کے حقدار سے اُسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدور میں ہو۔‏“‏—‏امثال ۳:‏۲۷‏۔‏

طاقت کا مناسب استعمال

۱۶،‏ ۱۷.‏ بزرگ،‏ والدین شوہر اور بیویاں اپنے خداداد اختیار کو بروئےکار لاتے ہوئے یہوواہ کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟‏

۱۶ قادرِمطلق ہونے کے باوجود یہوواہ محبت کیساتھ کلیسیا پر حکمرانی کرتا ہے۔‏ (‏۱-‏یوحنا ۴:‏۸‏)‏ اُسکی نقل کرتے ہوئے،‏ مسیحی نگہبان پُرمحبت طریقے سے خدا کے گلّے کی دیکھ‌بھال کرتے ہیں—‏اپنے اختیار کا غلط استعمال کرنے کی بجائے اسے درست طور پر کام میں لاتے ہیں۔‏ سچ ہے کہ بعض‌اوقات نگہبانوں کو ”‏[‏سمجھانے]‏ .‏ .‏ .‏ اور ملامت اور نصیحت“‏ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے مگر اس کیلئے ”‏تحمل اور تعلیم“‏ سے کام لیا جاتا ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۴:‏۲‏)‏ لہٰذا بزرگ کلیسیا میں بااختیار اشخاص کیلئے پطرس رسول کے ان الفاظ پر ہمیشہ سوچ‌بچار کرتے ہیں:‏ ”‏خدا کے اُس گلّہ کی گلّہ‌بانی کرو جو تم میں ہے۔‏ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خدا کی مرضی کے موافق خوشی سے اور ناجائز نفع کے لئے نہیں بلکہ دلی شوق سے۔‏ اور جو لوگ تمہارے سپرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلّہ کے لئے نمونہ بنو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۵:‏۲،‏ ۳؛‏ ۱-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۷،‏ ۸‏۔‏

۱۷ یہوواہ نے والدین اور شوہروں کو بھی اختیار دیا ہے جسے مدد،‏ نگہداشت اور پیار کرنے کیلئے استعمال کِیا جانا چاہئے۔‏ (‏افسیوں ۵:‏۲۲،‏ ۲۸-‏۳۰؛‏ ۶:‏۴‏)‏ یسوع کے نمونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختیار پُرمحبت طریقے سے استعمال کِیا جا سکتا ہے۔‏ اگر تنبیہ متوازن اور بااصول ہے تو بچے اس سے بیدل نہیں ہوتے۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۱‏)‏ جب مسیحی شوہر اپنی سرداری کو مشفقانہ طریقے سے عمل میں لاتے ہیں اور بیویاں اپنا رُعب جمانے یا اپنی بات منوانے کیلئے اپنے خداداد دائرۂاختیار سے باہر جانے کی بجائے اپنے شوہر کی سرداری کا گہرا احترام کرتی ہیں تو اس سے ازدواجی بندھن مضبوط ہوتے ہیں۔‏—‏افسیوں ۵:‏۲۸،‏ ۳۳؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۷‏۔‏

۱۸.‏ (‏ا)‏اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کے سلسلے میں ہم یہوواہ کے نمونے کی پیروی کیسے کر سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ صاحبِ‌اختیار لوگوں کو اپنے زیرِنگرانی لوگوں میں کیا چیز پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؟‏

۱۸ خاندان اور کلیسیا میں اختیار رکھنے والے اشخاص کو بالخصوص اپنے غصے کو قابو میں رکھنے کیلئے احتیاط برتنی چاہئے کیونکہ غصہ محبت کی بجائے خوف پیدا کرتا ہے۔‏ ناحوم نبی نے بیان کِیا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ قہر کرنے میں دھیما اور قدرت میں بڑھ کر ہے۔‏“‏ (‏ناحوم ۱:‏۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۹‏)‏ اپنے غصے کو قابو میں رکھنا قوت کی علامت ہے جبکہ غصہ نکالنا کمزوری کا ثبوت ہے۔‏ (‏امثال ۱۶:‏۳۲‏)‏ خاندان اور کلیسیا دونوں میں حقیقی مقصد محبت—‏یہوواہ سے محبت،‏ باہمی محبت اور راست اصولوں سے محبت—‏قائم کرنا ہے۔‏ محبت اتحاد کا کامل پٹکا اور نیکی کرنے کا ٹھوس محرک ہے۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۸،‏ ۱۳؛‏ کلسیوں ۳:‏۱۴‏۔‏

۱۹.‏ یہوواہ کونسی تسلی‌بخش یقین‌دہانی کراتا ہے اور ہمیں کیسا جوابی‌عمل دکھانا چاہئے؟‏

۱۹ یہوواہ کو جاننے سے مُراد اُسکی طاقت کو تسلیم کرنا ہے۔‏ یسعیاہ کی معرفت یہوواہ نے فرمایا:‏ ”‏کیا تُو نہیں جانتا؟‏ کیا تُو نے نہیں سنا کہ [‏یہوواہ]‏ خدایِ ابدی‌وتمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا؟‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۰:‏۲۸‏)‏ یہوواہ کی طاقت لازوال ہے۔‏ اگر ہم اپنی بجائے اُس پر بھروسہ کرتے ہیں تو وہ ہم سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔‏ وہ ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے:‏ ”‏تُو مت ڈر کیونکہ مَیں تیرے ساتھ ہوں۔‏ ہراسان نہ ہو کیونکہ مَیں تیرا خدا ہوں مَیں تجھے زور بخشونگا۔‏ مَیں یقیناً تیری مدد کرونگا اور مَیں اپنی صداقت کے دہنے ہاتھ سے تجھے سنبھالونگا۔‏“‏ (‏یسعیاہ ۴۱:‏۱۰‏)‏ ہمیں اُسکی مشفقانہ فکرمندی کیلئے کیسا جوابی‌عمل دکھانا چاہئے؟‏ یسوع کی طرح ہمیں بھی یہوواہ کی عطاکردہ کسی بھی طاقت کو ہمیشہ مدد اور ترقی کیلئے استعمال کرنا چاہئے۔‏ دُعا ہے کہ ہم اپنی زبان کو بھی قابو میں رکھیں تاکہ یہ نقصان کی بجائے فائدے کا باعث بنے۔‏ نیز خدا کرے کہ ہم روحانی طور پر بیدار،‏ ایمان میں قائم اور اپنے عظیم خالق،‏ یہوواہ خدا کی طاقت میں مضبوط رہیں۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۶:‏۱۳‏۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 9 بدیہی طور پر،‏ یہودیوں کو موسوی شریعت کی اصلی کاپی مل گئی تھی جسے صدیوں پہلے ہیکل میں رکھوا دیا گیا تھا۔‏

کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟‏

‏• یہوواہ اپنی طاقت کو کیسے استعمال کرتا ہے؟‏

‏• ہم کیسے یہوواہ کی طاقت حاصل کر سکتے ہیں؟‏

‏• زبان کی طاقت کو کیسے استعمال کِیا جانا چاہئے؟‏

‏• خداداد اختیار کیسے باعثِ‌برکت ہو سکتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویریں]‏

یسوع نے یہوواہ کی قوت کو دوسروں کی مدد کرنے کیلئے استعمال کِیا

‏[‏صفحہ ۱۷ پر تصویریں]‏

اگر خدا کا کلام ہمارے دل میں ہے تو پھر خدا کے کلام کی منادی ہماری استطاعت میں ہے