مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏’‏اَے خدا!‏ اپنا نُور بھیج‘‏

‏’‏اَے خدا!‏ اپنا نُور بھیج‘‏

‏’‏اَے خدا!‏ اپنا نُور بھیج‘‏

‏”‏اپنے نُور اور اپنی سچائی کو بھیج۔‏ وہی میری رہبری کریں۔‏“‏—‏زبور ۴۳:‏۳‏۔‏

۱.‏ یہوواہ اپنے مقاصد کو کیسے آشکارا کرتا ہے؟‏

یہوواہ اپنے خادموں کو اپنے مقاصد سے رُوشناس کرانے کے سلسلے میں بڑا خیال رکھتا ہے۔‏ سچائی کو چندھیا دینے والی تیز روشنی میں یکدم آشکارا کرنے کی بجائے،‏ وہ ہمیں بتدریج روشن‌خیالی عطا کرتا ہے۔‏ زندگی کی راہ پر ہمارے سفر کا موازنہ ایک شخص کی لمبی سیر سے کِیا جا سکتا ہے۔‏ جب وہ صبح سویرے سیر شروع کرتا ہے تو اُسے دُھندلا نظر آتا ہے۔‏ جب سورج اُفق سے آہستہ آہستہ نمودار ہونے لگتا ہے تو سیر کرنے والا شخص اپنے اردگرد کی چند چیزوں میں فرق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔‏ باقی چیزیں اُسے دُھندلی ہی نظر آتی ہیں۔‏ تاہم سورج کے طلوع ہونے کیساتھ ساتھ اُسے دُور دُور تک صاف نظر آنے لگتا ہے۔‏ خدا کی طرف سے آنے والی روحانی روشنی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔‏ وہ ہمارے لئے ایک وقت میں چند باتیں سمجھنا ممکن بناتا ہے۔‏ خدا کے بیٹے،‏ یسوع مسیح نے بھی اسی طریقے سے روحانی روشن‌خیالی عطا کی تھی۔‏ آئیے غور کریں کہ یہوواہ نے قدیم وقتوں میں اپنے لوگوں کو کیسے روشن‌خیالی عطا کی تھی اور وہ آجکل کیسے کرتا ہے۔‏

۲.‏ یہوواہ نے مسیحی زمانے سے قبل کیسے روشن‌خیالی عطا کی؟‏

۲ زبور ۴۳ کو ترتیب دینے والے غالباً بنی قورح تھے۔‏ لاویوں کے طور پر اُنہیں لوگوں کو خدا کی شریعت کی تعلیم دینے کا شرف حاصل تھا۔‏ (‏ملاکی ۲:‏۷‏)‏ بیشک،‏ وہ تمام حکمت کے ماخذ،‏ اپنے عظیم مُعلم،‏ یہوواہ پر آس رکھتے تھے۔‏ (‏یسعیاہ ۳۰:‏۲۰‏)‏ ”‏اَے خدا .‏ .‏ .‏ اپنے نُور اور اپنی سچائی کو بھیج،‏“‏ زبورنویس نے دُعا کی۔‏ ”‏وہی میری رہبری کریں۔‏“‏ (‏زبور ۴۳:‏۱،‏ ۳‏)‏ جبتک اسرائیلی اُسکے وفادار رہے،‏ یہوواہ انہیں اپنی راہوں کی تعلیم دیتا رہا۔‏ صدیوں بعد،‏ یہوواہ نے نہایت شاندار نُور اور سچائی کیساتھ ان پر کرمفرمائی کی۔‏ خدا نے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیج کر ایسا کِیا۔‏

۳.‏ یسوع کی تعلیمات نے یہودیوں کو کس طرح آزمائش میں ڈال دیا تھا؟‏

۳ انسان کی صورت میں خدا کا بیٹا یسوع مسیح ”‏دُنیا کا نُور“‏ تھا۔‏ (‏یوحنا ۸:‏۱۲‏)‏ اس نے لوگوں کو ”‏تمثیلوں میں بہت سی باتیں“‏—‏نئی باتیں—‏سکھائیں۔‏ (‏مرقس ۴:‏۲‏)‏ اس نے پُنطیُس پیلاطُس کو بتایا:‏ ”‏میری بادشاہی اس دُنیا کی نہیں۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۸:‏۳۶‏)‏ یہ کسی رومی اور یقیناً قوم‌پرست یہودیوں کیلئے ایک نیا خیال تھا کیونکہ ان کے خیال میں مسیحا رومی سلطنت کو زیر کر کے اسرائیل کی پرانی شان‌وشوکت کو بحال کریگا۔‏ یسوع یہوواہ کے نور کو منعکس کر رہا تھا،‏ لیکن ”‏خدا سے عزت حاصل کرنے کی نسبت انسان سے عزت حاصل“‏ کرنے والے یہودی حکام اس کے کلام سے خوش نہ ہوئے۔‏ (‏یوحنا ۱۲:‏۴۲،‏ ۴۳‏)‏ بیشتر لوگ خدا کے روحانی نور اور سچائی کو قبول کرنے کی بجائے انسانی روایات سے چمٹے رہے۔‏—‏زبور ۴۳:‏۳؛‏ متی ۱۳:‏۱۵‏۔‏

۴.‏ ہم کیسے جانتے ہیں کہ یسوع کے شاگرد سمجھ میں ترقی کرتے رہینگے؟‏

۴ تاہم،‏ چند خلوصدل مردوں اور عورتوں نے اس سچائی کو خوشی سے قبول کر لیا جس کی تعلیم یسوع نے دی۔‏ اُنہوں نے خدا کے مقاصد کو سمجھنے میں مسلسل ترقی کی۔‏ تاہم،‏ اپنے اُستاد کی زمینی زندگی کے خاتمے تک بھی انہیں بہت کچھ سیکھنا تھا۔‏ یسوع نے انہیں بتایا:‏ ”‏مجھے تم سے اَور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم اُنکی برداشت نہیں کر سکتے۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۶:‏۱۲‏)‏ جی‌ہاں،‏ شاگرد خدا کی سچائی کو سمجھنے میں ترقی کرتے رہینگے۔‏

روشنی چمکتی رہتی ہے

۵.‏ پہلی صدی میں کس سوال نے سر اُٹھایا تھا اور اسے نپٹانے کی ذمہ‌داری کن پر تھی؟‏

۵ یسوع کی موت اور قیامت کے بعد،‏ خدا کی روشنی پہلے سے زیادہ چمکنے لگی۔‏ یہوواہ نے ایک رویا میں پطرس پر آشکارا کِیا کہ نامختون غیرقوم اب سے لیکر مسیح کے پیروکار بن سکتے ہیں۔‏ (‏اعمال ۱۰:‏۹-‏۱۷‏)‏ یہ ایک نیا انکشاف تھا!‏ تاہم،‏ بعدازاں ایک سوال اُٹھ کھڑا ہؤا:‏ کیا یہوواہ نے مسیحی بننے والے ایسے غیرقوم اشخاص سے ختنہ کرانے کا تقاضا کِیا؟‏ اس سوال کا جواب رویا میں نہیں دیا گیا تھا اور یہ معاملہ مسیحیوں کے درمیان سخت بحث‌وتکرار کا موضوع بن گیا تھا۔‏ اسے طے کِیا جانا تھا،‏ ورنہ انکا بیش‌قیمت اتحاد خطرے میں پڑ سکتا تھا۔‏ لہٰذا،‏ یروشلیم میں،‏ ”‏رسول اور بزرگ اس بات پر غور کرنے کے لئے جمع ہوئے۔‏“‏—‏اعمال ۱۵:‏۱،‏ ۲،‏ ۶‏۔‏

۶.‏ ختنے کے سوال پر غور کرتے وقت رسولوں اور بزرگوں نے کونسا طریقہ اپنایا؟‏

۶ اس اجلاس پر حاضر ہونے والے ایماندار غیرقوموں کیلئے خدا کی مرضی کا تعیّن کیسے کر سکتے تھے؟‏ یہوواہ نے مباحثوں کی صدارت کرنے کیلئے کسی فرشتے کو نہیں بھیجا،‏ نہ ہی وہاں پر موجود اشخاص پر کسی رویا میں کچھ آشکارا کِیا گیا۔‏ تاہم،‏ رسول اور بزرگ ہدایت سے یکسر محروم نہیں رہے تھے۔‏ اُنہوں نے بعض یہودی مسیحیوں کی شہادت پر غور کِیا جو اِس بات کے گواہ تھے کہ خدا نے کس طرح نامختون غیرقوموں پر اپنی پاک روح نازل کر کے ان اقوام کے لوگوں پر کرمفرمائی کی تھی۔‏ اُنہوں نے ہدایت کیلئے صحائف کی بھی تحقیق کی۔‏ نتیجتاً،‏ شاگرد یعقوب نے روشن‌خیالی عطا کرنے والے ایک صحیفے پر مبنی مشورت دی۔‏ جب اُنہوں نے شہادت پر غور کِیا تو خدا کی مرضی واضح ہو گئی۔‏ غیرقوم لوگوں کو یہوواہ کی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے ختنہ کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔‏ رسولوں اور بزرگوں نے اس فیصلے کو تحریری شکل دینے کیلئے کوئی وقت ضائع نہ کِیا تاکہ ساتھی مسیحیوں کی اس سے راہنمائی ہو سکے۔‏—‏اعمال ۱۵:‏۱۲-‏۲۹؛‏ ۱۶:‏۴‏۔‏

۷.‏ پہلی صدی کے مسیحی کس لحاظ سے ترقی‌پسند تھے؟‏

۷ اپنے آباؤاجداد کی روایات کے پابند یہودی مذہبی لیڈروں کے برعکس،‏ بیشتر یہودی مسیحی اس وقت خوش ہوئے جب اُنہوں نے غیرقوم لوگوں کے سلسلے میں خدا کے مقصد کی بابت شاندار نئی سمجھ حاصل کی،‏ اگرچہ اسے قبول کرنا غیرقوم کے عام اشخاص کے سلسلے میں نقطۂ‌نظر کی تبدیلی کا تقاضا کرتا تھا۔‏ یہوواہ نے ان کے فروتن جذبے کو برکت دی اور ”‏کلیسیائیں ایمان میں مضبوط اور شمار میں روزبروز زیادہ ہوتی گئیں۔‏“‏—‏اعمال ۱۵:‏۳۱؛‏ ۱۶:‏۵‏۔‏

۸.‏ (‏ا)‏ہم کیسے جانتے ہیں کہ پہلی صدی کے ختم ہونے کے قریب اَور زیادہ روشنی کی توقع کی جا سکتی تھی؟‏ (‏ب)‏ ہم کونسے متعلقہ سوالات پر غور کریں گے؟‏

۸ پہلی صدی میں روحانی روشنی چمکتی رہی۔‏ لیکن یہوواہ نے ابتدائی مسیحیوں پر اپنے مقاصد کے ہر پہلو کو آشکارا نہیں کِیا تھا۔‏ پولس رسول نے پہلی صدی کے ساتھی ایمانداروں کو بتایا:‏ ”‏اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۱۳:‏۱۲‏)‏ ایسا آئینہ بہترین انعکاس والی سطح نہیں رکھتا تھا۔‏ اُس وقت پہلےپہل،‏ روحانی روشنی کی سمجھ محدود تھی۔‏ رسولوں کی موت کے بعد،‏ روشنی کچھ وقت کیلئے مدھم ہو گئی،‏ لیکن حالیہ وقتوں میں صحیفائی علم میں اضافہ ہوا ہے۔‏ (‏دانی‌ایل ۱۲:‏۴‏)‏ آجکل یہوواہ اپنے لوگوں کو کیسے روشن‌خیالی عطا کرتا ہے؟‏ پس جب وہ صحائف کے سلسلے میں ہماری سمجھ کو وسیع کرتا ہے تو ہمیں کیسا جوابی‌عمل دکھانا چاہئے؟‏

روشنی بتدریج بڑھتی جاتی ہے

۹.‏ ابتدائی بائبل طالبعلموں نے بائبل مطالعہ کرنے کیلئے کونسا منفرد اور مؤثر طریقہ اختیار کِیا؟‏

۹ روشنی کی پہلی حقیقی کرن زمانۂ‌جدید میں ۱۹ویں صدی کی آخری چوتھائی میں نمودار ہونا شروع ہوئی جب مسیحی آدمیوں اور عورتوں کے ایک گروہ نے صحائف کا مستعد مطالعہ کرنا شروع کِیا۔‏ اُنہوں نے بائبل مطالعے کا ایک عملی طریقہ وضع کِیا۔‏ کوئی ایک سوال اُٹھاتا؛‏ اس کے بعد گروپ تمام متعلقہ صحیفائی آیات کا تجزیہ کرتا۔‏ جب ایک بائبل آیت دوسری آیت کی تردید کرتی ہوئی معلوم ہوتی تو ان مخلص مسیحیوں نے ان دونوں میں ہم‌آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔‏ اُس وقت کے مذہبی راہنماؤں کے برعکس،‏ بائبل طالبعلم (‏جیسا کہ یہوواہ کے گواہ اُس وقت جانے جاتے تھے)‏ پُرعزم تھے کہ اُنہیں روایات یا انسانی عقائد کی بجائے پاک صحائف سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔‏ تمام دستیاب صحیفائی شہادتوں کا تجزیہ کرنے کے بعد،‏ اُنہوں نے اپنے ان نتائج کا ایک ریکارڈ ترتیب دیا۔‏ اس طرح سے،‏ بیشتر بنیادی بائبل عقائد کی ان کی سمجھ واضح ہو گئی۔‏

۱۰.‏ چارلس ٹیز رسل نے بائبل مطالعہ کیلئے کونسی مفید امدادی کتابیں تحریر کیں؟‏

۱۰ بائبل طالبعلموں میں سے چارلس ٹیز رسل پیش پیش تھے۔‏ انہوں نے سٹڈیز ان دی سکرپچرز کے عنوان سے بائبل مطالعہ کی چھ مفید سلسلہ‌وار امدادی کُتب تحریر کیں۔‏ بھائی رسل،‏ حزقی‌ایل اور مکاشفہ کی بائبل کتابوں کی وضاحت کرنے والی ساتویں جلد لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے۔‏ ”‏جب بھی کُنجی میرے ہاتھ لگ گئی،‏“‏ اُنہوں نے کہا،‏ ”‏تو مَیں ساتویں جِلد تحریر کروں گا۔‏“‏ تاہم،‏ اُنہوں نے اضافہ کِیا:‏ ”‏اگر خداوند کسی اَور کو کُنجی دے دے تو وہ اسے تحریر کر سکتا ہے۔‏“‏

۱۱.‏ خدا کے مقاصد کی بابت ہماری سمجھ اور وقت کے درمیان کیا تعلق پایا جاتا ہے؟‏

۱۱ سی.‏ ٹی.‏ رسل کا مذکورہ‌بالا بیان مخصوص بائبل اقتباسات کو سمجھنے کی ہماری صلاحیت میں اہم پہلو—‏وقت—‏کو واضح کرتا ہے۔‏ بھائی رسل جانتے تھے کہ وہ روشنی کو مجبور نہیں کر سکتے کہ وہ مکاشفہ کی کتاب پر چمکے جیسا کہ ایک پیدل چلنے والا بےقرار شخص سورج کی خوشامد نہیں کر سکتا کہ اپنے مقررہ وقت سے پہلے طلوع ہو۔‏

خدا کے مقررہ وقت پر انکشاف ہوا

۱۲.‏ (‏ا)‏بائبل پیشینگوئی کی بہترین سمجھ کس وقت حاصل ہوتی ہے؟‏ (‏ب)‏ کونسی مثال ظاہر کرتی ہے کہ بائبل پیشینگوئی کو سمجھنے کی ہماری صلاحیت کا انحصار خدا کے نظام‌الاوقات پر ہے؟‏ (‏فٹ‌نوٹ دیکھیں۔‏)‏

۱۲ جیسے رسولوں نے یسوع کی موت اور قیامت کے بعد ہی مسیحا کے متعلق کئی پیشینگوئیوں کی سمجھ حاصل کی تھی،‏ ویسے ہی آجکل مسیحی بائبل پیشینگوئی کی تکمیل کے بعد ہی اسے پوری طرح تفصیل سے سمجھتے ہیں۔‏ (‏لوقا ۲۴:‏۱۵،‏ ۲۷؛‏ اعمال ۱:‏۱۵-‏۲۱؛‏ ۴:‏۲۶،‏ ۲۷‏)‏ مکاشفہ ایک نبوّتی کتاب ہے،‏ اس لئے ہمیں اسے اچھی طرح سمجھنے کی اسی وقت توقع کرنی چاہئے جب اس میں بیان‌کردہ واقعات افشا ہوتے ہیں۔‏ مثال کے طور پر،‏ سی .‏ٹی.‏ رسل مکاشفہ ۱۷:‏۹-‏۱۱ میں متذکرہ قرمزی رنگ کے علامتی حیوان کے مطلب کو نہیں سمجھ سکے تھے کیونکہ وہ تنظیمیں جنکی نمائندگی حیوان نے کی یعنی لیگ آف نیشنز اور یونائیٹڈ نیشنز کا اس کی موت کے بعد تک کوئی وجود نہیں تھا۔‏ *

۱۳.‏ بعض‌اوقات کسی خاص بائبل موضوع پر روشنی ڈالنے سے کیا واقع ہوتا ہے؟‏

۱۳ جب ابتدائی مسیحیوں نے جان لیا کہ نامختون غیرقوم ساتھی ایماندار بن سکتے ہیں،‏ تو یہ تبدیلی ان اقوام کے لوگوں کے لئے ختنہ کرانے کی ضرورت کے سلسلے میں ایک نئے اعتراض کا باعث بنی۔‏ اس بات نے رسولوں اور بزرگوں کو تحریک دی کہ ختنے کے معاملے کا ازسرِنو جائزہ لیں۔‏ آجکل بھی ایسا ہی ہے۔‏ بائبل کے کسی موضوع پر تیز روشنی بعض‌اوقات خدا کے ممسوح خادموں،‏ ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کے لئے متعلقہ موضوعات کا ازسرِنو جائزہ لینے کا باعث بنی ہے جیسے کہ حالیہ وقتوں سے درج‌ذیل مثال واضح کرتی ہے۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

۱۴-‏۱۶.‏ روحانی ہیکل سے متعلق ہمارے نقطۂ‌نظر میں تبدیلی حزقی‌ایل ۴۰ تا ۴۸ ابواب کی ہماری سمجھ پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟‏

۱۴ سن ۱۹۷۱ میں کتاب ‏”‏دی نیشنز شیل نو دیٹ آئی ایم جیہوواہ“‏—‏ہاؤ؟‏ ‏(‏”‏قومیں جانیں گی کہ مَیں یہوواہ ہوں“‏—‏کیسے؟‏)‏ میں حزقی‌ایل کی پیشینگوئی کی تفسیر شائع ہوئی۔‏ اس کتاب کے ایک باب نے حزقی‌ایل کی رویا کی ہیکل پر مختصراً بات‌چیت کی تھی۔‏ (‏حزقی‌ایل،‏ ۴۰-‏۴۸ ابواب)‏ اُس وقت،‏ اس بات پر توجہ مرکوز تھی کہ حزقی‌ایل کی ہیکل کی رویا نئی دُنیا میں کیسے تکمیل پائے گی۔‏—‏۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

۱۵ تاہم،‏ دسمبر ۱،‏ ۱۹۷۲ کے دی واچ‌ٹاور میں دو مضامین شائع ہوئے جو حزقی‌ایل کی رویا کے سلسلے میں ہماری سمجھ پر اثرانداز ہوئے۔‏ ان میں عبرانیوں ۱۰ باب میں پولس رسول کی معرفت بیان کی جانے والی عظیم روحانی ہیکل پر بات‌چیت کی۔‏ دی واچ‌ٹاور نے بیان کِیا کہ روحانی ہیکل کا پاک مکان اور اندرونی صحن زمین پر رہتے ہوئے ممسوحوں کی روحانی حالت سے متعلق ہے۔‏ جب سالوں بعد،‏ حزقی‌ایل ۴۰ تا ۴۸ ابواب پر نظرِثانی کی گئی تو یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ جس طرح روحانی ہیکل آجکل کام کر رہی ہے،‏ اسی طرح جس ہیکل کو حزقی‌ایل نے رویا میں دیکھا اسے آجکل کام کرنا چاہئے۔‏ کس طرح؟‏

۱۶ حزقی‌ایل کی رویا میں،‏ کاہن غیرکہانتی قبائل کی خدمت کرتے وقت ہیکل کے صحنوں میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔‏ یہ کاہن واضح طور پر،‏ ”‏شاہی کاہنوں کے فرقے“‏ کی نمائندگی کرتے ہیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۲:‏۹‏)‏ تاہم،‏ وہ مسیح کے عہدِہزارسالہ کے دوران ہیکل کے زمینی صحن میں خدمت نہیں کریں گے۔‏ (‏مکاشفہ ۲۰:‏۴‏)‏ اس وقت کے بیشتر حصے میں ممسوح اشخاص خدا کی روحانی ہیکل کے پاکترین مقام،‏ ”‏آسمان ہی“‏ میں،‏ خدمت کریں گے۔‏ (‏عبرانیوں ۹:‏۲۴‏)‏ حزقی‌ایل کی ہیکل کے صحن میں کاہنوں کی آمدورفت کو دیکھنے کی وجہ سے یہ رویا آجکل تکمیل‌پذیر ہے،‏ جبکہ بعض ممسوح ابھی تک زمین پر ہی ہیں۔‏ چنانچہ،‏ اسی رسالے کے مارچ ۱،‏ ۱۹۹۹ کے شمارے نے اس موضوع پر ایک تصحیح‌شُدہ نظریہ پیش کِیا۔‏ لہٰذا،‏ اس ۲۰ویں صدی کے آخر تک حزقی‌ایل کی پیشینگوئی پر روحانی روشنی ڈالی گئی تھی۔‏

اپنے نقطۂ‌نظر کو درست کرنے کیلئے آمادہ ہوں

۱۷.‏ آپ نے سچائی کا علم حاصل کرنے کے وقت سے لیکر ذاتی نقطۂ‌نظر میں کونسی تصحیحات کی ہیں اور اُنہوں نے آپ کو کیسے فائدہ پہنچایا ہے؟‏

۱۷ ہر کوئی جو سچائی کے علم کا خواہاں ہے اسے ”‏ہر ایک خیال کو قید کرکے مسیح کا فرمانبردار بنا“‏ دینے کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۵‏)‏ یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا،‏ بالخصوص اُس وقت جب نظریات گہرے نقش ہو چکے ہوں۔‏ مثال کے طور پر،‏ خدا کی سچائی کو جاننے سے پہلے،‏ شاید آپ نے اپنے خاندان کے ساتھ مخصوص مذہبی تہوار منانے سے لطف اُٹھایا ہو۔‏ بائبل مطالعہ شروع کرنے کے بعد،‏ آپ نے محسوس کِیا کہ یہ تقریبات درحقیقت بت‌پرستانہ اصل سے ہیں۔‏ شروع میں آپ نے شاید سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی ہو۔‏ تاہم،‏ خدا کے لئے محبت مذہبی جذبات سے بالآخر مضبوط ثابت ہوئی اور آپ نے خدا کو ناراض کرنے والی تقریبات میں حصہ لینا بند کر دیا۔‏ کیا یہوواہ نے آپ کے فیصلے کو برکت نہیں دی ہے؟‏—‏مقابلہ کریں عبرانیوں ۱۱:‏۲۵‏۔‏

۱۸.‏ ہمیں اُس وقت کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے جب بائبل سچائی کی ہماری سمجھ واضح ہو جاتی ہے؟‏

۱۸ خدائی طریقے سے کام کرنے سے ہم نے ہمیشہ فائدہ اُٹھایا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۴۸:‏۱۷،‏ ۱۸‏)‏ پس جب کسی بائبل اقتباس کے سلسلے میں ہمارا نظریہ واضح ہو جاتا ہے تو ہمیں سچائی کی ترقی میں خوش ہونا چاہئے!‏ واقعی،‏ متواتر روشن خیالی حاصل کرتے رہنے سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ ہم صحیح راہ پر گامزن ہیں۔‏ یہ ”‏صادقوں کی راہ“‏ ہے جو ”‏نورِسحر کی مانند ہے جس کی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۱۸‏)‏ یہ سچ ہے کہ اس وقت ہمیں خدا کے مقصد کے بعض پہلو ”‏دُھندلے“‏ دکھائی دیتے ہیں۔‏ لیکن خدا کے مقررہ وقت پر،‏ ہم سچائی کو اُس کی پوری آب‌وتاب میں دیکھیں گے بشرطیکہ ہمارے قدم ”‏راہ“‏ پر مضبوطی سے قائم رہیں۔‏ اُس وقت تک،‏ ہم ان غیرواضح سچائیوں کی روشن‌خیالی کا انتظار کرتے ہوئے ان سچائیوں سے خوش ہو سکتے ہیں،‏ جنہیں یہوواہ نے واضح کِیا ہے۔‏

۱۹.‏ یہ ظاہر کرنے کا ایک طریقہ کونسا ہے کہ ہم سچائی سے محبت رکھتے ہیں؟‏

۱۹ ہم روشنی کیلئے اپنی محبت کا مظاہرہ عملی طریقے سے کیسے کر سکتے ہیں؟‏ ایک طریقہ خدا کے کلام کی باقاعدہ—‏اگر ممکن ہو تو روزانہ—‏پڑھائی کے ذریعے ہے۔‏ کیا آپکا بائبل پڑھائی کا باقاعدہ پروگرام ہے؟‏ مینارِنگہبانی اور جاگو!‏ رسالے بھی صحتمندانہ روحانی خوراک افراط سے فراہم کرتے ہیں جس سے ہم فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔‏ کتابوں،‏ بروشر اور دیگر مطبوعات پر بھی ذرا غور کریں جو ہمارے فائدے کے لئے تیار کی گئی ہیں۔‏ نیز،‏ ائیربُک آف جیہوواز وٹنسز میں شائع ہونے والی بادشاہتی منادی کی کارگزاریوں کی حوصلہ‌افزا رپورٹوں کی بابت کیا ہے؟‏

۲۰.‏ یہوواہ کی طرف سے روشنی‌وسچائی اور مسیحی اجلاسوں پر ہماری حاضری کے درمیان کیا تعلق پایا جاتا ہے؟‏

۲۰ جی‌ہاں،‏ یہوواہ نے زبور ۴۳:‏۳ میں پیش کی گئی دُعا کا شاندار طریقے سے جواب دیا ہے۔‏ اس آیت کے آخر میں ہم پڑھتے ہیں:‏ ”‏[‏تیرا نُور اور سچائی]‏ مجھ کو تیرے کوہِ‌مُقدس اور تیرے مسکنوں تک پہنچائیں۔‏“‏ کیا آپ دوسرے لوگوں کے ہجوم کیساتھ یہوواہ کی پرستش کرنے کی اُمید رکھتے ہیں؟‏ ہمارے اجلاسوں پر فراہم کی جانے والی روحانی معلومات روشن‌خیالی عطا کرنے کے سلسلے میں آجکل یہوواہ کا ایک اہم طریقہ ہے۔‏ مسیحی اجلاسوں کیلئے اپنی قدردانی کو بڑھانے کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ اگلے مضمون میں اس موضوع پر دُعائیہ غوروفکر کریں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 12 سی .‏ٹی.‏ رسل کی موت کے بعد،‏ سٹڈیز ان دی سکرپچرز کی ساتویں جِلد کے طور پر نامزد ایک اشاعت حزقی‌ایل اور مکاشفہ کی کتابوں کی وضاحت کرنے کی کوشش میں تیار کی گئی تھی۔‏ یہ جِلد کسی حد تک اُن تبصروں پر مبنی تھی جو رسل نے ان بائبل کتابوں پر کئے تھے۔‏ تاہم،‏ ان پیشینگوئیوں کا مطلب آشکارا ہونے کا وقت ابھی نہیں آیا تھا اور عمومی طور پر،‏ سٹڈیز ان دی سکرپچرز کی اس جِلد میں پیش کی جانے والی تشریح واضح نہیں تھی۔‏ آئندہ سالوں کے دوران،‏ یہوواہ کے غیرمستحق فضل اور عالمی منظر پر تبدیلیوں نے مسیحیوں کو زیادہ درست طریقے سے ان نبوّتی کتابوں کے مطلب کو سمجھنے کی اجازت دی۔‏

کیا آپ جواب دے سکتے ہیں؟‏

‏• یہوواہ اپنے مقاصد کو بتدریج کیوں آشکارا کرتا ہے؟‏

‏• یروشلیم میں رسولوں اور بزرگوں نے ختنے کے مسئلے کو کس طرح نپٹایا؟‏

‏• ابتدائی بائبل طالبعلموں نے بائبل مطالعہ کرنے کا کونسا طریقہ اختیار کِیا اور یہ منفرد کیوں تھا؟‏

‏• واضح کریں کہ کیسے روحانی روشنی خدا کے مقررہ وقت پر آشکارا کی گئی ہے۔‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

چارلس ٹیز رسل کو معلوم تھا کہ خدا کے مقررہ وقت پر مکاشفہ کی کتاب پر روشنی ضرور چمکے گی