مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

تسلی کی کتنی ضرورت ہے!‏

تسلی کی کتنی ضرورت ہے!‏

تسلی کی کتنی ضرورت ہے!‏

‏”‏مَیں نے .‏ .‏ .‏ مظلوموں کے آنسوؤں کو دیکھا اور اُنکو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا اور اُن پر ظلم کرنے والے زبردست تھے پر اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہ تھا۔‏“‏​—‏⁠واعظ ۴:‏۱‏۔‏

کیا آپ تسلی کے متلاشی ہیں؟‏ کیا آپ کبھی غم کے گھنے بادلوں کے چھٹنے کی آرزو کرتے ہیں؟‏ کیا آپ تلخ حقیقتوں اور ناخوشگوار تجربات سے پُر زندگی کو ہلکے سے دلاسے کے ساتھ خوشگوار بنانے کے خواہاں ہیں؟‏

دراصل زندگی میں بہت سی باتیں ہمیں غمزدہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں وقتاًفوقتاً تسلی اور حوصلہ‌افزائی کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔‏ ہم سب چاہتے ہیں کہ دوسرے ہمیں سہارا دیں اور ہمارے ساتھ محبت سے پیش آئیں۔‏ ہم میں سے بعض بڑھاپے کی وجہ سے اپنی خوشی کھو بیٹھے ہیں۔‏ دیگر زندگی سے حسبِ‌منشا نتائج حاصل نہ ہونے کے باعث مایوسی کے عالم میں غرق ہو جاتے ہیں۔‏ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو پیتھالوجیکل لیبارٹری سے آنے والی کسی رپورٹ سے پریشان ہو جاتے ہیں۔‏

لہٰذا،‏ کوئی بھی اِس بات سے اختلاف نہیں کریگا کہ ہمارے زمانے کے واقعات نے تسلی اور اُمید کی سخت ضرورت پیدا کر دی ہے۔‏ صرف گزشتہ صدی میں ہی ۱۰ کروڑ سے زیادہ لوگ جنگ میں مارے گئے ہیں۔‏ * تقریباً سب نے اپنے پیچھے سوگوار خاندان​—‏⁠ماں باپ،‏ بھائی بہن،‏ بیوائیں اور یتیم بچے​—‏⁠چھوڑے ہیں جنہیں تسلی کی اشد ضرورت ہے۔‏ آجکل،‏ ایک ارب سے زائد لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‏ دُنیا کی نصف آبادی ضروری علاج‌معالجے اور ادویات سے محروم ہے۔‏ بڑے بڑے آلودہ شہروں کے گلی‌کوچوں میں لاکھوں لاوارث بچے آوارہ گھومتےپھرتے ہیں جن میں سے بیشتر منشیات اور عصمت‌فروشی کے عادی ہیں۔‏ لاکھوں پناہ‌گزین غلیظ کیمپوں میں ایڑیاں رگڑتے رہتے ہیں۔‏

تاہم،‏ اعدادوشمار خواہ کتنے ہی حیران‌کُن کیوں نہ ہوں،‏ یہ لوگوں کے ذاتی تجربے میں آنے والے دُکھ‌درد کو بیان نہیں کر سکتے۔‏ بلقانی ممالک سے تعلق رکھنے والی سوٹلانہ نامی نوجوان خاتون کی مثال پر غور کیجئے جس نے ذلت‌آمیز غربت کی حالت میں آنکھیں کھولیں۔‏ * ”‏پیسہ حاصل کرنے کی غرض سے،‏“‏ وہ بیان کرتی ہے،‏ ”‏میرے والدین نے مجھے بھیک مانگنے یا چوری کرنے کے کام پر لگا دیا۔‏ خاندانی زندگی اسقدر خستہ‌حالی کا شکار تھی کہ مَیں اپنے ہی گھر والوں کی جنسی ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی۔‏ بہرحال،‏ مجھے کسی جگہ ویٹرس کا کام مِل گیا لیکن میری ساری کی ساری تنخواہ میری ماں وصول کرتی تھی۔‏ لہٰذا اُس نے مجھے دھمکی دی کہ اگر مَیں نے کبھی نوکری چھوڑی تو وہ خودکُشی کر لیگی۔‏ اس سب نے مجھے کسبی بنا دیا۔‏ میری عمر صرف ۱۳ سال تھی۔‏ ایک مرتبہ تو مَیں حاملہ بھی ہو گئی جسکی وجہ سے مجھے اسقاط کرانا پڑا۔‏ مَیں پندرہ سال کی عمر میں ۳۰ سال کی عورت دکھائی دیتی تھی۔‏“‏

لٹویا کا ایک نوجوان،‏ لامینس بھی تسلی کی ضرورت کو اُجاگر کرتے ہوئے اپنی غم‌انگیز یادوں کی داستان بیان کرتا ہے جو اُسے یاس‌ونراس میں مبتلا کر دیتی تھیں۔‏ ایک کار ایکسیڈنٹ کی وجہ سے،‏ ۲۹ سال کی عمر میں اُس کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا تھا۔‏ نااُمید ہوکر اُس نے شراب کو اپنا سہارا بنا لیا۔‏ پانچ سال کے اندر اندر وہ ایک زندہ لاش بن گیا​—‏⁠ایک مفلوج شرابی جسکا کوئی مستقبل نہیں تھا۔‏ وہ تسلی کہاں سے حاصل کر سکتا تھا؟‏

اب ذرا انجی کی بابت سوچئے۔‏ اُسکے شوہر کا تین مرتبہ دماغ کا آپریشن ہوا تھا جسکی وجہ سے وہ جزوی طور پر مفلوج ہو گیا تھا۔‏ پھر،‏ آخری آپریشن کے پانچ سال بعد اُسے ایک نہایت خطرناک حادثہ پیش آیا جو اُسے موت کے مُنہ میں دھکیل سکتا تھا۔‏ جب اُسکی بیوی ایمرجنسی روم میں داخل ہوئی اور اپنے شوہر کو سر پر گہری چوٹ آنے کی وجہ سے بیہوشی کی حالت میں پڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ اب مصیبت برپا ہونے والی ہے۔‏ اُسے اپنے اور اپنے خاندان کیلئے زندگی کٹھن دکھائی دے رہی تھی۔‏ وہ مدد اور حوصلہ‌افزائی کیسے حاصل کر سکتی تھی؟‏

چند سال قبل پیٹی کیلئے موسمِ‌سرما کا ایک دن معمول کے مطابق ہی شروع ہوا۔‏ تاہم،‏ اگلے تین دنوں کی بابت اُسے کچھ یاد نہیں۔‏ بعدازاں،‏ اُسکے شوہر نے اُسے بتایا کہ سینے میں شدید درد کے بعد اُسکا دل بند ہو گیا تھا۔‏ اُسکے دل کی دھڑکن بہت تیز ہونے کے بعد بہت سُست ہو گئی اور بالآخر بالکل بند ہو گئی۔‏ اُسکا سانس رُک گیا۔‏ پیٹی بیان کرتی ہے کہ ”‏طبّی نقطۂ‌نظر سے تو مَیں مر چکی تھی۔‏“‏ تاہم وہ کسی نہ کسی طرح بچ گئی۔‏ ہسپتال میں اپنے طویل قیام کی بابت وہ بیان کرتی ہے:‏ ”‏میرے بہت سے ٹیسٹ کئے جاتے تھے جن سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا بالخصوص جیسے میرے ساتھ پہلے ہوا تھا ویسے ہی جب اُنہوں نے میرے دل کی دھڑکن تیز کرکے اُسے روکنے کی کوشش کی تو مَیں نہایت خوفزدہ ہو گئی۔‏“‏ ایسے نازک وقت میں اُسے تسلی اور تسکین کیسے مل سکتی تھی؟‏

جَو اور ربقہ کا ۱۹سالہ بیٹا کار کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔‏ ”‏ہمارے ساتھ اس سے زیادہ تکلیف‌دہ واقعہ پہلے کبھی پیش نہیں آیا تھا،‏“‏ وہ بیان کرتے ہیں۔‏ ”‏اگرچہ ماضی میں ہم دوسروں کے عزیزوں کی موت پر اظہارِتعزیت کیلئے تو جاتے رہے ہیں مگر ہمیں کبھی ایسے دُکھ کا احساس نہیں ہوا تھا جو اَب ہوتا ہے۔‏“‏ کسی عزیز کی وفات پر ”‏ایسے دُکھ“‏ یا شدید غم میں کیا چیز تسلی دے سکتی ہے؟‏

ان تمام اشخاص کے علاوہ لاکھوں دیگر لوگوں نے بھی یقیناً تسلی اور اطمینان کے افضل ماخذ کو پا لیا ہے۔‏ یہ دیکھنے کیلئے کہ آپ بھی اُس ماخذ سے کیسے فیضیاب ہو سکتے ہیں،‏ براہِ‌مہربانی پڑھنا جاری رکھیں۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 5 ہلاک ہونے والے فوجیوں اور شہریوں کی اصل تعداد نامعلوم ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ صرف دوسری عالمی جنگ کی بابت ۱۹۹۸ کی کتاب فیکٹس اباؤٹ دی امریکن وارز بیان کرتی ہے:‏ ”‏بیشتر ذرائع کے مطابق دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والوں (‏فوجیوں اور شہریوں)‏ کی تعداد ۵ کروڑ تھی مگر اس موضوع پر زیادہ گہری تحقیق کرنے والے بہتیرے ذرائع بتاتے ہیں کہ صحیح تعداد اس سے دُگنی ہے۔‏“‏

^ پیراگراف 6 نام بدل دیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ 3 پر تصویروں کے حوالہ‌جات]‏

UNITED NATIONS/PHOTO BY J. K. ISAAC

UN PHOTO 146150 BY O. MONSEN