سب چیزوں کو نیا بنانے کی پیشینگوئی
سب چیزوں کو نیا بنانے کی پیشینگوئی
”جو تخت پر بیٹھا ہؤا تھا اُس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اُس نے کہا . . . یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۵۔
۱، ۲. بیشتر لوگ اپنے مستقبل پر غور کرنے سے بجا طور پر کیوں ہچکچاتے ہیں؟
کیا آپ نے کبھی یہ سوچا یا کہا ہے کہ ’کون جانتا ہے کل کیا ہوگا؟‘ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ کیوں مستقبل کی بابت قیاسآرائی کرنے یا آئندہ زمانے کی بابت ناعاقبتاندیشی سے پیشگوئی کرنے کے دعویدار لوگوں پر اعتماد کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ انسان میں آئندہ مہینوں یا سالوں کے واقعات کی بابت درست پیشینگوئی کرنے کی صلاحیت ہے ہی نہیں۔
۲ رسالے فوربز اےایساےپی نے اپنا ایک پورا شمارہ وقت کے موضوع پر شائع کِیا۔ اس میں، ٹیوی ڈاکومنٹری کے میزبان رابرٹ کرنگلی نے لکھا: ”یوں تو وقت بالآخر ہم سب کو نیچا دکھاتا ہے لیکن مستقبل کا حال بیان کرنے والے اسکے ہاتھوں سب سے زیادہ رُسوا ہوتے ہیں۔ مستقبل کی بابت قیاسآرائی کرنے کی کوشش کرنا ایک ایسا کھیل ہے جو ہم ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔ . . . اسکے باوجود، نامنہاد ماہرین پیشینگوئیاں کرتے ہی رہتے ہیں۔“
۳، ۴. (ا)نئی ہزاری کی بابت بعض کونسی روشن اُمید رکھتے ہیں؟ (ب) مستقبل کی بابت بعض کونسی حقیقتپسندانہ توقع رکھتے ہیں؟
۳ شاید آپ نے غور کِیا ہو کہ نئی ہزاری پر بہت زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے زیادہتر لوگ مستقبل کی بابت سوچ رہے ہیں۔ پچھلے سال کے شروع میں میکلینز رسالے نے بیان کِیا: ”کینیڈا کی اکثریت کے نزدیک سن ۲۰۰۰ محض کیلنڈر پر ایک نیا سال ہوگا لیکن یہ ایک بالکل نئے باب کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔“ یارک یونیورسٹی کے پروفیسر کرس ڈیوڈنی نے رجائیتپسندی کی یہ وجہ پیش کی: ”نئی ہزاری کا مطلب ہے کہ ہم ایک نہایت ہولناک صدی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔“
۴ کیا یہ محض خوشفہمی ہے؟ کینیڈا میں ایک سروے میں صرف ۲۲ فیصد لوگوں نے ہی اس ”یقین کا اظہار کِیا کہ سن ۲۰۰۰ دُنیا کیلئے ایک نیا آغاز ہوگا۔“ تقریباً نصف کے خیال میں آئندہ ۵۰ برسوں میں ”ایک اَور عالمی جنگ“ ہوگی۔ واضح طور پر، اکثریت محسوس کرتی ہے کہ نئی ہزاری ہمارے مسائل کو ختم کرکے تمام چیزوں کو نیا نہیں بنا سکتی۔ برطانیہ کی رائل سوسائٹی کے سابق صدر، سر مائیکل اَتیا نے لکھا: ”تیزرَو تبدیلی . . . کا مطلب یہ ہے کہ اکیسویں صدی ہماری پوری انسانیت کیلئے فیصلہکُن چیلنجوں کا پیشخیمہ ہوگی۔ آبادی میں اضافہ، وسائل میں کمی، ماحولیاتی آلودگی اور وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی غربت جیسی مشکلات کا تو پہلے ہی سے ہم تجربہ رہے ہیں اور ان کا حل فوری توجہ کا مستحق ہے۔“
۵. مستقبل کی بابت ہم قابلِاعتماد معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
۵ تاہم، آپ شاید سوچیں، ’اگر انسان ہمارے مستقبل کی بابت کچھ نہیں بتا سکتے تو کیا ہمیں مستقبل کو یکسر نظرانداز ہی نہیں کر دینا چاہئے؟‘ جواب ہے نہیں! یہ سچ ہے کہ انسان آئندہ وقت کی بابت درست طور پر کچھ نہیں بتا سکتے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی کچھ نہیں بتا سکتا۔ پس، کون بتا سکتا ہے اور ہمیں مستقبل کی بابت پُراُمید کیوں ہونا چاہئے؟ آپ چار واضح پیشینگوئیوں سے اِن سوالوں کے تسلیبخش جواب حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی اور تقسیم ہونے والی کتاب، بائبل میں درج ہیں جو بہت زیادہ غلطفہمی اور غفلت کا شکار بھی ہے۔ بائبل کے بارے میں آپکی رائے خواہ کچھ بھی ہو اور خواہ آپ اس سے کتنی ہی زیادہ واقفیت رکھتے ہوں، چار بنیادی اقتباسات پر غور کرنا آپ کیلئے مفید ہوگا۔ یہ دراصل ایک نہایت تابناک مستقبل کی بابت بتاتے ہیں۔ نیز، یہ چار کلیدی پیشینگوئیاں آپ اور آپکے عزیزواقارب کے مستقبل کی خاکہکشی کرتی ہیں۔
۶، ۷. یسعیاہ نے کب پیشینگوئی کی اور اسکی پیشگوئیاں کیسے حیرانکُن طریقے سے تکمیل کو پہنچیں؟
۶ پہلی پیشینگوئی کا ذکر یسعیاہ ۶۵ باب میں ہے۔ پیشینگوئی کو پڑھنے سے پہلے، ذرا پسمنظر پر غور کریں کہ یہ مواد کب لکھا گیا اور یہ کیسی صورتحال سے متعلق تھا۔ ان الفاظ کو قلمبند کرنے والا خدا کا نبی یسعیاہ یہوداہ کی سلطنت کی تباہی سے کوئی ایک صدی پہلے رہتا تھا۔ تباہی اُس وقت آئی جب یہوواہ نے بےوفا یہودیوں سے اپنا تحفظ ہٹا کر بابلیوں کو یروشلیم کو تباہ کرنے اور اسکے لوگوں کو اسیر کرکے لے جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم، یہ واقعہ یسعیاہ کی پیشینگوئی کے ایک سو سال بعد رُونما ہؤا۔—۲-تواریخ ۳۶:۱۵-۲۱۔
۷ جہاں تک اس کی تکمیل کے تاریخی پسمنظر کا تعلق ہے تو یاد کریں کہ خدا کی زیرِہدایت یسعیاہ نے بالآخر بابل کو تاختوتاراج کرنے والے فارس خورس کی پیدائش سے بھی پہلے اُسکا نام بتا دیا تھا۔ (یسعیاہ ۴۵:۱) خورس نے ۵۳۷ ق.س.ع. میں یہودیوں کیلئے اپنے آبائی وطن واپس لوٹنے کیلئے راہ ہموار کر دی۔ تاہم، حیرانی کی بات یہ ہے کہ یسعیاہ نے بحالی کی پیشینگوئی کی جسے ہم ۶۵ باب میں پڑھتے ہیں۔ یسعیاہ نے اس صورتحال پر توجہ مرکوز کی جس سے اپنے وطن لوٹنے والے اسرائیلی استفادہ کر سکتے تھے۔
۸. یسعیاہ نے کس خوشآئند مستقبل کی پیشینگوئی کی اور کونسا اظہار خاص دلچسپی کا حامل ہے؟
۸ ہم یسعیاہ ۶۵:۱۷-۱۹ میں پڑھتے ہیں: ”دیکھو مَیں نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا کرتا ہوں اور پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئینگی۔ بلکہ تم میری اس نئی خلقت سے ابدی خوشی اور شادمانی کرو کیونکہ دیکھو مَیں یرؔوشلیم کو خوشی اور اُسکے لوگوں کو خرمی بناؤنگا۔ اور مَیں یرؔوشلیم سے خوش اور اپنے لوگوں سے مسرور ہونگا اور اُس میں رونے کی صدا اور نالہ کی آواز پھر کبھی سنائی نہ دیگی۔“ یقیناً، یسعیاہ نے ایسی حالتوں کا ذکر کِیا جو ان حالتوں سے کہیں زیادہ بہتر تھیں جن کے تحت یہودیوں نے بابل میں زندگی بسر کی تھی۔ اُس نے خوشی اور شادمانی کی پیشینگوئی کی تھی۔ اب ذرا ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی اصطلاح پر غور کیجئے۔ بائبل میں جن چار جگہوں پر یہ اصطلاح آتی ہے، یہ اُن میں سے پہلی ہے اور یہ چاروں اقتباسات ہمارے مستقبل پر اثرانداز ہونے کیساتھ ساتھ اسکی بابت پیشینگوئی بھی کرتے ہیں۔
۹. یسعیاہ ۶۵:۱۷-۱۹ کی تکمیل میں قدیم یہودی کس طرح شامل تھے؟
۹ یسعیاہ ۶۵:۱۷-۱۹ کی ابتدائی تکمیل قدیم یہودیوں کے سلسلے میں ہوئی تھی جو یسعیاہ کی درست پیشینگوئی کے مطابق، واپس آ کر اپنے آبائی وطن میں آباد ہوئے، جہاں پر اُنہوں نے سچی پرستش کو ازسرِنو قائم کِیا۔ (عزرا ۱:۱-۴؛ ) بِلاشُبہ، آپ سمجھتے ہیں کہ وہ کائنات میں کسی اَور جگہ نہیں بلکہ اِسی کُرۂارض پر اپنے آبائیوطن میں واپس آئے تھے۔ اس بات کی سمجھ ہمیں یہ جاننے میں مدد دے سکتی ہے کہ نئے آسمان اور ۳:۱-۴نئی زمین سے یسعیاہ کی کیا مُراد تھی۔ ہمیں بعض لوگوں کی طرح ناسٹراڈامس یا مستقبل کا حال بتانے والے دیگر لوگوں کی مبہم پیشینگوئیوں کی بابت قیاسآرائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بائبل خود وضاحت کرتی ہے کہ یسعیاہ کا کیا مطلب تھا۔
۱۰. یسعیاہ نے جس نئی ”زمین“ کی پیشینگوئی کی ہمیں اسے کیا سمجھنا چاہئے؟
۱۰ بائبل میں ”زمین“ ہمیشہ ہمارے کُرۂارض کی طرف ہی اشارہ نہیں کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، زبور ۹۶:۱ بیان کرتی ہے: ’اَے ساری زمین یہوواہ کے حضور گاؤ۔‘ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سیارہ—خشکی اور تری—گا نہیں سکتا۔ لوگ گاتے ہیں۔ جیہاں، زبور ۹۶:۱ زمین پر رہنے والے لوگوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ * تاہم، یسعیاہ ۶۵:۱۷ ”نئے آسمان“ کا بھی ذکر کرتی ہے۔ اگر ”زمین“ وطن واپس آنے والے یہودی لوگوں کے نئے معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے تو پھر ”نئے آسمان“ کا کیا مطلب ہے؟
۱۱. اصطلاح ”نیا آسمان“ کس کی طرف اشارہ کرتی ہے؟
۱۱ میکلنٹاک اور سٹرانگ کا سائیکلوپیڈیا آف ببلیکل، تھیولاجیکل، اینڈ ایکلیزیایسٹیکل لٹریچر بیان کرتا ہے: ”جب بھی کبھی کسی نبوّتی رویا میں آسمان کا ذکر آتا ہے تو یہ تمام حکمران طاقتوں کی نمائندگی کرتا ہے کیونکہ جس طرح طبعی آسمان، زمین کے اُوپر حکمرانی کرتا ہے ویسے ہی یہ طاقتیں اپنی رعایا پر حکومت کرتی ہیں۔“ جہاں تک ”آسمان اور زمین“ کی ترکیبی اصطلاح کا تعلق ہے تو سائیکلوپیڈیا وضاحت کرتا ہے کہ ’نبوّتی زبان میں یہ اصطلاح مختلف مرتبوں والے اشخاص کی سیاسی حیثیت کی نشاندہی کرتی ہے۔ آسمان حکمران طبقہ اور زمین رعیت ہے یعنی ایسے اشخاص جن پر اربابِاختیار حکومت کرتے ہیں۔‘
۱۲. قدیم یہودیوں نے ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کا تجربہ کیسے کِیا؟
۱۲ جب یہودی اپنے وطن واپس لوٹے تو اُنہیں گویا ایک نیا نظاماُلعمل حاصل ہوا تھا۔ وہاں ایک نئی حکمران جماعت تھی۔ شاہ داؤد کی نسل سے زرُبابل گورنر تھا اور یشوع سردار کاہن تھا۔ (حجی ۱:۱، ۱۲؛ ۲:۲۱؛ زکریاہ ۶:۱۱) اُنہوں نے ”نئے آسمان“ کو تشکیل دیا۔ کن پر؟ یہ ”نیا آسمان“ دراصل ایک ”نئی زمین“ یعنی یہوواہ کی پرستش کیلئے یروشلیم اور اسکی ہیکل کو ازسرِنو تعمیر کرنے کی غرض سے اپنے وطن لوٹنے والے اور پاک صاف کئے گئے لوگوں کے معاشرے پر حکمران تھا۔ لہٰذا، اُس وقت یہودیوں سے متعلق تکمیل میں نیا آسمان اور نئی زمین حقیقی مفہوم میں موجود تھے۔
۱۳، ۱۴. (ا)ہمیں ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی اصطلاح کے کونسے دوسرے مقام پر غور کرنا چاہئے؟ (ب) پطرس کی پیشینگوئی اس وقت میں خاص دلچسپی کی حامل کیوں ہے؟
۲-پطرس ۳ باب میں دیکھینگے کہ ہمارا مستقبل اس کیساتھ وابستہ ہے۔
۱۳ ذرا محتاط رہیں کہ کہیں آپ اس اہم نقطے کو سمجھنے سے محروم نہ رہ جائیں۔ دراصل ہم نہ تو بائبلی تفسیر کی کوئی مشق کر رہے ہیں اور نہ ہی قدیم تاریخ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کے سلسلے میں ایک دوسرے بیان کا مشاہدہ کرنے سے آپ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ آپ.۱۴-پطرس رسول نے یہودیوں کے اپنے آبائی وطن واپس لوٹنے کے کوئی ۵۰۰ سال بعد اپنا خط تحریر کِیا تھا۔ یسوع کے رسولوں میں سے ایک کی حیثیت سے، پطرس اپنے دوسرے خط کے ۳ باب کی ۲ آیت میں متذکرہ ”خداوند“ مسیح کے پیروکاروں کو یہ خط لکھ رہا تھا۔ پطرس یسوع کے ”آنے کے وعدے“ پر ۴ آیت میں ہماری توجہ دلاتا ہے جو پیشینگوئی کو آجکل نہایت اہم بنا دیتا ہے۔ بدیہی طور پر پہلی عالمی جنگ کے وقت سے لیکر، یسوع خدا کی آسمانی بادشاہت کے حکمران کے طور پر اختیار رکھنے کے مفہوم میں موجود ہے۔ (مکاشفہ ۶:۱-۸؛ ۱۱:۱۵، ۱۸) پطرس نے اس باب میں مزید ایک پیشینگوئی کی جس کے پیشِنظر یہ حقیقت اَور زیادہ اہم بن جاتی ہے۔
۱۵. ”نئے آسمان“ کی بابت پطرس کی پیشینگوئی کس طرح تکمیل پا رہی ہے؟
۱۵ ہم ۲-پطرس ۳:۱۳ میں پڑھتے ہیں: ”اُس کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا انتظار کرتے ہیں جن میں راستبازی بسی رہیگی۔“ آپ غالباً پہلے ہی یہ سیکھ چکے ہیں کہ آسمان پر موجود یسوع اس ”نئے آسمان“ میں مرکزی حکمران ہے۔ (لوقا ۱:۳۲، ۳۳) تاہم، بائبل کی دیگر آیات ظاہر کرتی ہیں کہ وہ تنہا حکمرانی نہیں کرتا۔ یسوع نے وعدہ کِیا تھا کہ رسول اور اُن جیسے دیگر اشخاص کو آسمان میں مقام حاصل ہوگا۔ عبرانیوں کی کتاب میں، پولس رسول ایسے اشخاص کی بابت بیان کرتا ہے کہ وہ ”آسمانی بلاوے میں شریک“ ہیں۔ اِس کے علاوہ، یسوع نے بیان کِیا کہ اس گروہ کے ارکان آسمان میں اُس کے ساتھ تختوں پر بیٹھیں گے۔ (عبرانیوں ۳:۱؛ متی ۱۹:۲۸؛ لوقا ۲۲:۲۸-۳۰؛ یوحنا ۱۴:۲، ۳) اہم بات یہ ہے کہ دیگر لوگ بھی یسوع کیساتھ نئے آسمان کے حصہ کے طور پر حکمرانی کرتے ہیں۔ پس اصطلاح ”نئی زمین“ سے پطرس کی کیا مُراد تھی؟
۱۶. کونسی ”نئی زمین“ پہلے ہی سے موجود ہے؟
۱۶ قدیم تکمیل—یہودیوں کی اپنے وطن واپسی—کیطرح ۲-پطرس ۳:۱۳ کی حالیہ تکمیل میں بھی ایسے لوگ شامل ہیں جو اس نئے آسمان کی حکمرانی کی اطاعت کرتے ہیں۔ آپ آجکل بھی خوشی سے اس حکمرانی کی اطاعت کرنے والے لاکھوں لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ وہ اسکے تعلیمی پروگرام سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور بائبل میں پائے جانے والے اُسکے قوانین کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (یسعیاہ ۵۴:۱۳) یہ اس مفہوم میں ”نئی زمین“ کی بنیاد ثابت ہوتے ہیں کہ وہ تمام قومیتوں، زبانوں اور نسلوں کے عالمگیر معاشرے کو تشکیل دیتے ہیں اور حکمران بادشاہ، یسوع مسیح کی اطاعت میں باہم ملکر کام کرتے ہیں۔ ایک اہم حقیقت یہ ہے کہ آپ بھی اسکا حصہ بن سکتے ہیں۔—میکاہ ۴:۱-۴۔
۱۷، ۱۸. ہمیں ۲-پطرس ۳:۱۳ کے الفاظ مستقبل کے مشتاق رہنے کی وجہ کیوں مہیا کرتے ہیں؟
۱۷ تاہم، یہ مت سمجھیں کہ بات یہیں ختم ہو جاتی ہے اور مستقبل کی بابت ہمارے پاس کوئی واضح معلومات نہیں ہیں۔ درحقیقت، جب آپ. ۲-پطرس ۳ باب کے سیاقوسباق کی تحقیق کرتے ہیں تو آپ کو مستقبل میں ایک بہت بڑی تبدیلی کے آثار دکھائی دینگے۔ پطرس ۵ اور ۶ آیت میں، نوح کے طوفان کی بابت لکھتا ہے جس نے اُس وقت کی دُنیا کو نیست کر دیا تھا۔ وہ ۷ آیت میں بیان کرتا ہے کہ ”اِس وقت کے آسمان اور زمین“ یعنی حکومتیں اور لوگ دونوں ہی ”بےدین آدمیوں کی عدالت اور ہلاکت کے دن“ کیلئے رکھے گئے ہیں۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ”اِس وقت کے آسمان اور زمین“ کی اصطلاح ہماری مادی کائنات کی بجائے انسانوں اور حکومتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
۱۸ اِسکے بعد پطرس وضاحت کرتا ہے کہ آنے والا یہوواہ کا دن پاک صاف کئے جانے کے عمل کا باعث بنے گا جس سے ۱۳ آیت میں بیانکردہ نئے آسمان اور نئی زمین کے لئے راہ ہموار ہو جائیگی۔ اس آیت کے آخری حصے کو نوٹ کیجئے—”جن میں راستبازی بسی رہیگی۔“ کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ بہتری کیلئے بہت بڑی تبدیلیاں ضرور رُونما ہونی چاہئیں؟ کیا اس سے واقعی نئی چیزوں یعنی ایک ایسے وقت کا امکان پیدا نہیں ہو جاتا جب انسان زندگی میں آجکل کی نسبت کہیں زیادہ شادمانی حاصل کرینگے؟ اگر آپ اس بات کے مطلب کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر آپ نے بائبل پیشینگوئی کی بصیرت حاصل کر لی ہے جو نسبتاً بہت ہی کم لوگوں کو حاصل ہے۔
۱۹. مکاشفہ کی کتاب کس سیاقوسباق کے تحت آنے والے ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی طرف اشارہ کرتی ہے؟
یسعیاہ ۶۵ باب اور ۲-پطرس ۳ باب میں ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی اصطلاح پر غور کِیا ہے۔ اب آئیے مکاشفہ ۲۱ باب پر چلیں جس میں بائبل کی یہ اصطلاح ایک اَور مرتبہ ملتی ہے۔ ایک بار پھر، پسمنظر کی سمجھ ہمارے لئے مفید ثابت ہوگی۔ مکاشفہ ۱۹ باب میں ایک جنگ کی واضح علامات بیان کی گئی ہیں لیکن یہ دو دشمن قوموں کے مابین جنگ نہیں ہے۔ اس جنگ میں ایک طرف ”کلامِخدا“ ہے۔ آپ غالباً سمجھتے ہیں کہ یہ یسوع مسیح کا لقب ہے۔ (یوحنا ۱:۱، ۱۴) وہ آسمان میں ہے اور اس رویا میں اُس کے ساتھ آسمانی فوجیں بھی دکھائی گئی ہیں۔ وہ کس کے خلاف جنگ لڑتے ہیں؟ اس باب میں ”بادشاہوں،“ ”فوجی سرداروں“ اور ”خواہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے،“ مختلف مرتبوں والے لوگوں کا ذکر کِیا گیا ہے۔ اس جنگ کا تعلق یہوواہ کے آنے والے دن سے ہے جس میں بدکاری کا خاتمہ کِیا جائے گا۔ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۶-۱۰) آگے بڑھتے ہوئے، مکاشفہ ۲۰ باب کے ابتدائی الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ”پُرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے“ نیست کر دیا جائے گا۔ یہ مکاشفہ ۲۱ باب پر غور کرنے کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔
۱۹ لیکن آئیے ہم اس بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ہم نے۲۰. مکاشفہ ۲۱:۱ کے الفاظ مستقبل میں رُونما ہونے والی کس نمایاں تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں؟
۲۰-یوحنا رسول اِس ہیجانخیز بیان کے ساتھ بات شروع کرتا ہے: ”مَیں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا۔“ یسعیاہ ۶۵ باب اور ۲-پطرس ۳ باب سے حاصلشُدہ سمجھ کی بِنا پر، ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ اسکا مطلب حقیقی آسمان اور ہمارے سیارے، زمین اور سمندر کو کسی دوسری چیز سے بدلنا نہیں ہے۔ جیسے کہ پچھلے ابواب نے ظاہر کِیا کہ بدکار لوگوں اور اُنکی حکومتوں کو اُنکے نادیدہ حکمران شیطان سمیت ختم کر دیا جائیگا۔ جیہاں، یہاں زمین کے لوگوں کیلئے نئے نظاماُلعمل کا وعدہ کِیا گیا ہے۔
۲۱، ۲۲. یوحنا ہمیں کن برکات کی یقیندہانی کراتا ہے اور آنسو پونچھ دینے کا کیا مطلب ہے؟
۲۱ جب ہم اس شاندار پیشینگوئی کے سلسلے میں آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں اس کی یقیندہانی کرائی جاتی ہے۔ اِسکی ۳ آیت کے آخری حصے میں ایسے وقت کا ذکر کِیا گیا ہے جب خدا نوعِانسان کیساتھ رہیگا اور اُن لوگوں پر مشفقانہ توجہ کریگا جو اُس کی مرضی بجا لاتے ہیں۔ (حزقیایل ۴۳:۷) یوحنا مکاشفہ ۲۱ کی ۴ اور ۵ آیت میں بیان جاری رکھتا ہے: ”وہ [یہوواہ] اُن کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اِسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔ اور جو تخت پر بیٹھا ہؤا تھا اُس نے کہا دیکھ مَیں سب چیزوں کو نیا بنا دیتا ہوں۔ پھر اُس نے کہا لکھ لے کیونکہ یہ باتیں سچ اور برحق ہیں۔“ یہ کتنی تسلیبخش پیشینگوئی ہے!
۲۲ بائبل کی اس پیشینگوئی سے خوشی حاصل کرنے کیلئے ذرا سوچیں۔ ’خدا اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ ڈالیگا۔‘ اس سے مُراد ہماری حساس آنکھوں کو دھو ڈالنے والے آنسو یا خوشی کے آنسو نہیں ہیں۔ اِسکے برعکس، خدا دراصل دُکھتکلیف، رنجوالم، مایوسی، غم اور پریشانی کے باعث بہنے والے آنسوؤں کو پونچھ دے گا۔ ہم کیونکر اس پر یقین رکھ سکتے ہیں؟ درحقیقت، سب آنسو پونچھ دینے کے شاندار خدائی وعدے کا تعلق ’موت، ماتم، آہونالہ اور درد کے خاتمے‘ سے ہے۔—یوحنا ۱۱:۳۵۔
۲۳. یوحنا کی پیشینگوئی میں کن حالتوں کے خاتمے کی ضمانت دی گئی ہے؟
۲۳ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کینسر، فالج اور دل کے دورے،
یہانتک کہ موت بھی ختم ہو جائے گی؟ ہم میں سے کون ایسا ہے جسکا کوئی عزیز کسی بیماری، حادثے یا ناگہانی آفت کا شکار نہیں ہوا؟ خدا یہاں یہ وعدہ کر رہا ہے کہ موت نہ رہیگی جسکا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت پیدا ہونے والے بچوں کو بڑھاپے اور موت کے امکان کا سامنا نہیں ہوگا۔ اس پیشینگوئی کا یہ مطلب بھی ہے کہ پھر مرضِالزیمر (Alzheimer’s disease)، تصلبالعظام (osteoporosis)، ریشکی رسولیاں (ifbroid tumors)، کالا موتیا (glaucoma) یا سفید موتیا (cataracts) بھی ختم ہو جائینگے جو بڑھاپے کی عام بیماریاں ہیں۔۲۴. ’نیا آسمان اور نئی زمین‘ کیسے ایک برکت ثابت ہونگے اور ہم ابھی کس بات پر غور کریں گے؟
۲۴ آپ یقیناً اس بات سے متفق ہونگے کہ موت، بڑھاپے اور بیماریوں کے خاتمے سے ماتم اور آہونالہ قدرے کم ہو جائینگے۔ تاہم، کچل ڈالنے والی غربت، بچوں سے بدسلوکی اور پسمنظر یا رنگونسل کی بِنا پر ظالمانہ امتیازی سلوک کی بابت کیا ہے؟ اگر یہ حالتیں—جو آجکل بڑی عام ہیں—ایسے ہی رہیں تو ہم ماتم اور آہونالہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکیں گے۔ تاہم، ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کے تحت زندگی غم کا باعث بننے والے موجودہ اسباب سے برباد نہیں ہوگی۔ کتنی بڑی تبدیلی! لہٰذا، اب تک ہم نے بائبل میں ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی اصطلاح کے چار میں سے تین مقامات کو دیکھا ہے۔ یہ اصطلاح ایک اَور مقام پر بھی ملتی ہے جو ہماری ابھی تک کی تحقیق سے قریبی تعلق رکھتا ہے اور اس بات کو اُجاگر کرتا ہے کہ ہمیں کیوں اس بات کا منتظر رہنا چاہئے کہ خدا ’تمام چیزوں کو نیا بنانے‘ کا وعدہ کب اور کیسے پورا کریگا۔ اگلا مضمون اس پیشینگوئی اور ہمارے لئے اسکے خوشکُن مفہوم پر بات کرتا ہے۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 10 دی نیو انگلش بائبل زبور ۹۶:۱ کو یوں پیش کرتی ہے: ”زمین کے سب لوگو، خداوند کے حضور گاؤ۔“ دی کانٹیمپریری انگلش ورشن بیان کرتی ہے: ”زمین کا ہر شخص خداوند کی حمد کرے۔“ یہ اس سمجھ کے عین مطابق ہے کہ ”نئی زمین“ سے یسعیاہ اپنے وطن میں خدا کے لوگوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
آپکو کیا یاد رہا؟
• بائبل میں کن تین مقامات پر ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی پیشینگوئی کی گئی ہے؟
• ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی تکمیل میں قدیم یہودی کس طرح شامل تھے؟
• پطرس کے بیان کے مطابق ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کے سلسلے میں کن تکمیلوں کی سمجھ حاصل کر لی گئی ہے؟
• مکاشفہ ۲۱ باب ایک روشن مستقبل پر ہماری توجہ کیسے دلاتا ہے؟
[مطالعے کے سوالات]
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
یہوواہ کی پیشینگوئی کے مطابق خورس نے ۵۳۷ ق.س.ع. میں یہودیوں کیلئے اپنے وطن واپس لوٹنے کی راہ ہموار کر دی