اتنی زیادہ رشوتستانی کیوں ہے؟
اتنی زیادہ رشوتستانی کیوں ہے؟
”تُو رشوت نہ لینا کیونکہ رشوت بیناؤں کو اندھا کر دیتی ہے اور صادقوں کی باتوں کو پلٹ دیتی ہے۔“—خروج ۲۳:۸۔
موسوی شریعت نے تین ہزار پانچ سو سال پہلے، رشوت کی مذمت کی تھی۔ اُس وقت سے لیکر صدیوں کے دوران، انسدادِرشوت کے سلسلے میں بہتیرے قوانین وضع کئے گئے ہیں۔ اسکے باوجود، قانونساز ادارے رشوتستانی کو روک نہیں پائے۔ ہر روز لاکھوں کی رشوت کا لیندین ہوتا ہے جس کے نتائج کروڑوں لوگوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
رشوت اس قدر عام اور پیچیدہ صورتیں اختیار کر چکی ہے کہ اس سے رفتہرفتہ معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہوتی جا رہی ہیں۔ بعض ممالک میں تو مٹھی گرم کئے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ اگر صحیح آدمی کو رشوت لگا دی جائے توپھر امتحان پاس کرنا، ڈرائیونگ لائسنس یا ٹھیکہ حاصل کرنا یا پھر مقدمہ جیتنا تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ پیرس کے ایک وکیل آرناؤ مونٹبر نے بیان کِیا کہ ”رشوت ایک ایسی لعنت ہے جو لوگوں کی اخلاقی حس کو مُردہ کر دیتی ہے۔“
تجارتی دنیا خاص طور پر رشوت کی لپیٹ میں ہے۔ بعض کمپنیاں اپنا ایک تہائی منافع رشوتخور سرکاری افسروں کی نذر کرتی ہیں۔ برٹش رسالے دی اکانومسٹ کے مطابق، ہر سال بینالاقوامی اسلحہ کی تجارت پر خرچ ہونے والے ۲۵ بلین ڈالر کا تقریباً ۱۰ فیصد امکانی گاہکوں کو رشوت دینے کے کام آتا ہے۔ رشوتستانی میں اضافہ تباہکُن نتائج کا باعث بنا ہے۔ گزشتہ عشرے کے دوران، ”اقرباپرور“ سرمایہداری—چند ایک بارُسوخ اشخاص کو بدعنوانی سے مراعات دینے کا کاروباری نظام—نے تمام ملکوں کی معیشت کو تباہوبرباد کر دیا ہے۔
بدیہی طور پر، رشوتستانی اور اس سے پیدا ہونے والی معاشی تباہی سے غریب لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں کیونکہ اُنکے پاس کسی کو رشوت دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ دی اکانومسٹ کے جامع اور مختصر بیان کے مطابق ”رشوتستانی ظلم ہی کی ایک قِسم ہے۔“ کیا اس قِسم کے ظلم پر قابو پایا جا سکتا ہے یا کیا رشوتستانی سے بچنا مشکل ہے؟ اس سوال کے جواب کیلئے، ہمیں پہلے رشوتستانی کے بنیادی اسباب کو سمجھنا ہوگا۔
رشوتستانی کے اسباب کیا ہیں؟
لوگ دیانتداری کی بجائے رشوتستانی کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ بعض کے نزدیک رشوت لینا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کا سب سے آسان بلکہ واحد راستہ ہو سکتا ہے۔ بعضاوقات، رشوت سزا سے بچنے کا بھی آسان طریقہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بہتیرے اشخاص سیاستدانوں، پولیس افسروں اور جج صاحبان کو رشوتستانی کو نظرانداز کرتے یا اُنہیں خود رشوت کھاتے ہوئے دیکھکر انکی نقل کرتے ہیں۔
رشوتستانی میں روزافزوں اضافہ اسے نہ صرف قابلِقبول بلکہ زندگی کا معمول بنا دیتا ہے۔ کم آمدنی والے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اس کے سوا واعظ ۸:۱۱۔
اَور کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہیں اچھی گزربسر کے لئے رشوت لینی پڑتی ہے۔ اِس کے علاوہ جب رشوت لینے والے یا ناجائز فائدے کے لئے رشوت دینے والے سزا سے بچ جاتے ہیں توپھر کم ہی لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ سلیمان بادشاہ نے بیان کِیا: ”چونکہ بُرے کام پر سزا کا حکم فوراً نہیں دیا جاتا اس لئے بنیآدم کا دل اُن میں بدی پر بہشدت مائل ہے۔“—دو زورآور قوتیں یعنی خودغرضی اور لالچ رشوتستانی کو ہوا دیتی رہتی ہیں۔ خودغرضی کی وجہ سے رشوتخور اُس تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے جو انکی رشوتستانی کے باعث دوسروں کو اُٹھانی پڑتی ہے بلکہ وہ رشوتخوری کی توجیہ کرتے ہیں کیونکہ اِس سے اُنکو فائدہ پہنچتا ہے۔ اُنہیں جتنا زیادہ مالی فائدہ ہوتا ہے اُنکی حرص اُتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔ ”زردوست روپیہ سے آسودہ نہ ہوگا،“ سلیمان نے بیان کِیا، ”دولت کا چاہنے والا اُس کے بڑھنے سے سیر نہ ہوگا۔“ (واعظ ۵:۱۰) یہ سچ ہے کہ لالچ سے مالومتاع تو اکٹھا کِیا جا سکتا ہے مگر درحقیقت یہ رشوتستانی اور دیگر غیرقانونی کاموں سے چشمپوشی کرنے کا باعث بنتا ہے۔
بائبل کے مطابق اس دُنیا کے نادیدہ حکمران، شیطان ابلیس کا کردار ایک اَور اہم عنصر ہے جسے نظرانداز نہیں کِیا جانا چاہئے۔ (۱-یوحنا ۵:۱۹؛ مکاشفہ ۱۲:۹) شیطان بڑی سرگرمی سے رشوتستانی کو فروغ دیتا ہے۔ دُنیا کی سب سے بڑی رشوت شیطان نے ہی مسیح کو پیش کی تھی۔ ’اگر تُو جھک کر مجھے سجدہ کرے تو مَیں تجھے دُنیا کی تمام سلطنتیں دیدونگا۔‘—متی ۴:۸، ۹۔
تاہم، یسوع رشوتخور نہیں تھا اور اُس نے اپنے شاگردوں کو بھی یہی سکھایا تھا۔ کیا مسیح کی تعلیم آجکل رشوتستانی کا مقابلہ کرنے میں ایک مؤثر ہتھیار ثابت ہو سکتی ہے؟ اگلے مضمون میں اس سوال کا جائزہ لیا جائیگا۔