مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

ثابت‌قدمی سے خدائی تعلیم کی حمایت کریں

ثابت‌قدمی سے خدائی تعلیم کی حمایت کریں

ثابت‌قدمی سے خدائی تعلیم کی حمایت کریں

‏”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی‌سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔‏“‏—‏امثال ۳:‏۵،‏ ۶‏۔‏

۱.‏ ہم پہلے سے زیادہ اب کیسے انسانی علم کے خطرے میں ہیں؟‏

اس وقت،‏ پوری دُنیا میں ہر روز تقریباً ۰۰۰،‏۹ اخبارات شائع ہوتے ہیں۔‏ صرف ریاستہائےمتحدہ میں ہر سال کوئی ۰۰۰،‏۰۰،‏۲ نئی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔‏ ایک اندازے کے مطابق،‏ مارچ ۱۹۹۸ تک،‏ انٹرنیٹ پر تقریباً ۲۷۵ ملین ویب پیج دستیاب تھے۔‏ ایک رپورٹ کے مطابق،‏ اس تعداد میں ہر ماہ ۲۰ ملین کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔‏ پہلے کی نسبت آجکل لوگوں کو کسی بھی موضوع پر معلومات بآسانی دستیاب ہیں۔‏ اس سہولت کے مثبت پہلوؤں کے باوجود،‏ معلومات کی اس بھرمار نے مختلف مسائل کو جنم دیا ہے۔‏

۲.‏ اتنی زیادہ معلومات دستیاب ہونے کی وجہ سے کونسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں؟‏

۲ بعض اشخاص تمام معلومات سے باخبر رہنے کے اسقدر عادی ہو گئے ہیں کہ وہ زیادہ اہم باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ہمیشہ تازہ‌ترین معلومات حاصل کرنے کی کبھی نہ مٹنے والی اشتہا کو آسودہ کرنے کے لئے سرگرداں رہتے ہیں۔‏ دیگر اشخاص پیچیدہ علوم کی بابت جزوی معلومات حاصل کرکے خود کو عالم‌فاضل سمجھنے لگتے ہیں۔‏ محدود علم کی بنیاد پر،‏ وہ نہایت اہم فیصلے کرتے ہیں جو انہیں یا دوسروں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‏ نیز جھوٹی یا غلط معلومات کا خطرہ تو ہمیشہ ہی رہتا ہے۔‏ اکثراوقات اتنی زیادہ معلومات کی درستی اور توازن کی تصدیق کرنے کا کوئی قابلِ‌اعتماد طریقہ دستیاب نہیں ہوتا۔‏

۳.‏ انسانی حکمت کے حصول کے سلسلے میں بائبل میں کونسی آگاہیاں پائی جاتی ہیں؟‏

۳ تجسّس ہمیشہ سے انسانی وصف رہا ہے۔‏ بادشاہ سلیمان کے ایّام میں فضول،‏ حتیٰ‌کہ نقصاندہ معلومات کے حصول میں بہت زیادہ وقت ضائع کرنے کے خطرے کو پہچان لیا گیا تھا۔‏ اس لئے اس نے بیان کِیا:‏ ”‏اِن سے نصیحت‌پذیر ہو۔‏ بہت کتابیں بنانے کی انتہا نہیں ہے اور بہت پڑھنا جسم کو تھکاتا ہے۔‏“‏ (‏واعظ ۱۲:‏۱۲‏)‏ صدیوں بعد پولس رسول نے تیمتھیس کو لکھا:‏ ”‏اس امانت کو حفاظت سے رکھ اور جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے اس کی بیہودہ بکواس اور مخالفت پر توجہ نہ کر۔‏ بعض اس کا اقرار کرکے ایمان سے برگشتہ ہو گئے ہیں۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰،‏ ۲۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ آجکل مسیحیوں کو غیرضروری طور پر نقصاندہ نظریات کی زد میں آنے سے گریز کرنا چاہئے۔‏

۴.‏ یہوواہ اور اُسکی تعلیمات پر توکل ظاہر کرنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟‏

۴ یہوواہ کے لوگوں کیلئے امثال ۳:‏۵،‏ ۶ کے اِن الفاظ پر دھیان دینا بھی مفید ثابت ہوتا ہے:‏ ”‏سارے دل سے [‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔‏ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔‏“‏ یہوواہ پر توکل کرنے میں خدا کے کلام سے ٹکرانے والے کسی بھی نظریے کو رد کرنا شامل ہے خواہ وہ ہمارے اپنے یا ہمارے کسی ساتھی انسان کے ذہن کی پیداوار ہو۔‏ اپنی روحانیت کی حفاظت کرنے کیلئے،‏ یہ نہایت اہم ہے کہ ہم نقصاندہ معلومات کی شناخت کریں اور انہیں رَد کرنے کیلئے اپنے حواس کی تربیت کریں۔‏ (‏عبرانیوں ۵:‏۱۴‏)‏ آئیے ایسی معلومات کے بعض ذرائع پر گفتگو کریں۔‏

دُنیا شیطان کے قبضہ میں ہے

۵.‏ نقصاندہ نظریات کا ایک ذریعہ کونسا ہے اور اسکی پُشت پر کون ہے؟‏

۵ یہ دُنیا نقصاندہ نظریات کا منبع ہے۔‏ (‏۱-‏کرنتھیوں ۳:‏۱۹‏)‏ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے متعلق خدا سے دُعا کی:‏ ”‏مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو انہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے انکی حفاظت کر۔‏“‏ (‏یوحنا ۱۷:‏۱۵‏)‏ اپنے شاگردوں کے حق میں یسوع کی یہ درخواست کہ اُنہیں ”‏اُس شریر“‏ سے محفوظ رکھا جائے،‏ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اُس نے اِس دُنیا پر شیطان کے اثرورسوخ کو تسلیم کِیا تھا۔‏ ہمارا مسیحی ہونا ہمیں ازخود اس دُنیا کے بُرے اثرات سے نہیں بچاتا۔‏ یوحنا نے لکھا:‏ ”‏ہم جانتے ہیں کہ ہم خدا سے ہیں اور ساری دُنیا اُس شریر کے قبضہ میں پڑی ہوئی ہے۔‏“‏ (‏۱-‏یوحنا ۵:‏۱۹‏)‏ بالخصوص اِس اخیر زمانہ میں دُنیا پر شیطان اور اُسکے شیاطین کی طرف سے نقصاندہ معلومات کی بھرمار کی توقع کرنا معقول بات ہے۔‏

۶.‏ تفریحی دُنیا کیسے اخلاقی طور پر بےحس کر سکتی ہے؟‏

۶ اس بات کی بھی توقع کی جاتی ہے کہ ان مُضر معلومات میں سے کچھ بےضرر معلوم ہو سکتی ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۱۴‏)‏ مثال کے طور پر،‏ ٹی‌وی پروگراموں،‏ فلموں،‏ موسیقی اور کُتب‌ورسائل سے آراستہ تفریحی دُنیا پر ذرا غور کریں۔‏ بہتیرے اس سے متفق ہیں کہ بیشتر معاملات میں،‏ بعض اقسام کی تفریح بداخلاقی،‏ تشدد اور منشیات کے ناجائز استعمال جیسے گھٹیا کاموں کو فروغ دیتی ہے۔‏ جب اخلاقی معیار سے گِری ہوئی کسی قسم کی تفریح پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے آتی ہے تو اُنہیں دھچکا لگ سکتا ہے۔‏ لیکن جب بار بار اسکا تجربہ ہوتا ہے تو یہ کسی کے بھی ضمیر کو مُردہ کر سکتی ہے۔‏ ہمیں کبھی بھی نقصاندہ نظریات کو فروغ دینے والی تفریح کو قابلِ‌قبول یا بےضرر خیال نہیں کرنا چاہئے۔‏—‏زبور ۱۱۹:‏۳۷‏۔‏

۷.‏ کس قسم کی انسانی حکمت بائبل پر ہمارے اعتماد کو تباہ کر سکتی ہے؟‏

۷ اب ذرا نقصاندہ معلومات کے ایک اَور حلقے پر غور کیجئے جس میں بائبل کے مستند ہونے کو مشکوک قرار دینے والے بعض سائنسدان اور علماء وسیع مقدار میں اپنے نظریات کی تشہیر کرتے ہیں۔‏ (‏مقابلہ کریں یعقوب ۳:‏۱۵‏۔‏)‏ اکثراوقات مروّجہ رسائل اور مقبولِ‌عام کتابوں میں شائع ہونے والا ایسا مواد بائبل پر اعتماد کو تباہ کر سکتا ہے۔‏ بعض اشخاص اپنی قیاس‌آرائیوں سے خدا کے کلام کے اختیار کو کمزور کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔‏ ایک ایسا ہی خطرہ رسولوں کے زمانے میں بھی پایا جاتا تھا جو پولس رسول کے ان الفاظ سے واضح ہے:‏ ”‏خبردار کوئی شخص تم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو انسانوں کی روایت اور دُنیوی ابتدائی باتوں کے مؤافق ہیں نہ کہ مسیح کے مؤافق۔‏“‏—‏کلسیوں ۲:‏۸‏۔‏

سچائی کے دشمن

۸،‏ ۹.‏ آجکل برگشتگی کیسے ظاہر ہو رہی ہے؟‏

۸ برگشتہ اشخاص سے ہماری روحانیت کو ایک اَور قسم کا خطرہ بھی لاحق ہو سکتا ہے۔‏ پولس رسول نے پیشینگوئی کی کہ اقبالی مسیحیوں کے درمیان برگشتگی برپا ہوگی۔‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۹،‏ ۳۰؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۲:‏۳‏)‏ اسکے الفاظ کے عین مطابق،‏ رسولوں کی موت کے بعد،‏ وسیع پیمانے پر برگشتگی کے پھیلاؤ کی وجہ سے مسیحی دُنیا منظرِعام پر آئی۔‏ آجکل،‏ خدا کے لوگوں کے درمیان کوئی بہت بڑی برگشتگی تو واقع نہیں ہو رہی ہے۔‏ پھربھی،‏ چند اشخاص ہمارا ساتھ چھوڑ گئے ہیں اور ان میں سے بعض جھوٹی اور غلط باتیں پھیلانے سے یہوواہ کے گواہوں کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔‏ بعض سچی پرستش کی باضابطہ مزاحمت میں دیگر گروہوں کیساتھ کام کرتے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے وہ سب سے پہلے برگشتہ ہونے والے،‏ شیطان کا ساتھ دیتے ہیں۔‏

۹ بعض برگشتہ لوگ یہوواہ کے گواہوں کی بابت غلط معلومات پھیلانے کیلئے انٹرنیٹ سمیت وسیع مواصلاتی نظام کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔‏ نتیجتاً جب مخلص اشخاص ہمارے عقائد پر تحقیق کرتے ہیں تو اُنکا سامنا برگشتہ پروپیگنڈے سے ہو سکتا ہے۔‏ بعض گواہ بھی نادانستہ طور پر ایسے نقصاندہ مواد کے خطرے میں پڑ گئے ہیں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ برگشتہ اشخاص وقتاًفوقتاً ٹیلیویژن اور ریڈیو پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں۔‏ ایسی صورت میں کونسی دانشمندانہ روش اختیار کی جا سکتی ہے؟‏

۱۰.‏ برگشتہ پروپیگنڈے کے سلسلے میں دانشمندانہ ردعمل کیا ہے؟‏

۱۰‏-‏یوحنا رسول نے مسیحیوں کو ہدایت کی کہ برگشتہ اشخاص کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں۔‏ اس نے تحریر کِیا:‏ ”‏اگر کوئی تمہارے پاس آئے اور یہ تعلیم نہ دے تو نہ اُسے گھر میں آنے دو اور نہ سلام کرو۔‏ کیونکہ جو کوئی ایسے شخص کو سلام کرتا ہے وہ اُس کے بُرے کاموں میں شریک ہوتا ہے۔‏“‏ (‏۲-‏یوحنا ۱۰،‏ ۱۱‏)‏ ان مخالفین کیساتھ ہر قسم کے رابطے سے گریز کرنا ہمیں انکی خراب سوچ سے بچائیگا۔‏ جدید مواصلاتی ذرائع سے خود کو برگشتہ تعلیمات کے خطرے میں ڈالنا اتنا ہی نقصاندہ ہے جتنا برگشتہ اشخاص کو اپنے گھروں میں اُتارنا خطرناک ہوتا ہے۔‏ ہمیں کبھی بھی تجسّس کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ ہمیں بہکا کر ایسی تباہ‌کُن روش پر ڈال دے!‏—‏امثال ۲۲:‏۳‏۔‏

کلیسیا کے اندر

۱۱،‏ ۱۲.‏ (‏ا)‏پہلی صدی کی کلیسیا میں نقصاندہ معلومات کا ایک ذریعہ کونسا تھا؟‏ (‏ب)‏ بعض مسیحی خدائی تعلیمات کی ثابت‌قدمی سے حمایت کرنے میں کیسے ناکام ہو گئے تھے؟‏

۱۱ تاہم نقصاندہ نظریات کے ایک اَور ممکنہ ذریعے پر غور کریں۔‏ جھوٹی باتوں کی تعلیم دینے کا ارادہ نہ رکھنے کے باوجود،‏ ایک مخصوص‌شُدہ مسیحی بِلاتامل بولنے کی عادت میں پڑ سکتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۲:‏۱۸‏)‏ ناکاملیت کے باعث ہم سب بعض‌اوقات اپنی زبان سے خطا کر سکتے ہیں۔‏ (‏امثال ۱۰:‏۱۹؛‏ یعقوب ۳:‏۸‏)‏ بدیہی طور پر،‏ پولس رسول کے زمانے میں،‏ کلیسیا میں بعض ایسے اشخاص تھے جو اپنی زبان کو لگام دینے میں ناکام ہو جانے کے باعث لفظی بحث‌وتکرار میں اُلجھ گئے تھے۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۲:‏۸‏)‏ ایسے اشخاص بھی تھے جو اپنے نظریات کو زیادہ اہمیت دینے کی وجہ سے پولس کے اختیار کو چیلنج کرنے کی حد تک پہنچ گئے تھے۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۰-‏۱۲‏)‏ ایسی روح غیرضروری جھگڑوں پر منتج ہوئی۔‏

۱۲ بعض‌اوقات ایسے اختلافات ”‏معمولی معمولی باتوں پر سخت تکرار“‏ کی صورت اختیار کر جاتے جس سے کلیسیا کا امن تباہ ہو جاتا۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۵‏،‏ این‌ڈبلیو؛‏ گلتیوں ۵:‏۱۵‏)‏ ان مباحثوں کا سبب بننے والوں کی بابت پولس نے تحریر کِیا کہ ”‏اگر کوئی شخص اَور طرح کی تعلیم دیتا ہے اور صحیح باتوں کو یعنی ہمارے خداوند یسوؔع مسیح کی باتوں اور اس تعلیم کو نہیں مانتا جو دینداری کے مطابق ہے۔‏ وہ مغرور ہے اور کچھ نہیں جانتا بلکہ اسے بحث اور لفظی تکرار کرنے کا مرض ہے جن سے حسد اور جھگڑے اور بدگوئیاں اور بدگمانیاں“‏ پیدا ہوتی ہیں۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۳،‏ ۴‏۔‏

۱۳.‏ پہلی صدی میں بیشتر مسیحی کیسی روش پر چل رہے تھے؟‏

۱۳ خوشی کی بات ہے کہ رسولی دَور میں مسیحیوں کی اکثریت وفادار اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کا اعلان کرنے میں ثابت‌قدم رہی۔‏ وہ لاحاصل لفظی تکرار میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے ”‏یتیموں اور بیواؤں کی مصیبت کے وقت“‏ دیکھ‌بھال کرنے اور خود کو ”‏دُنیا سے بیداغ“‏ رکھنے میں مشغول رہے۔‏ (‏یعقوب ۱:‏۲۷‏)‏ انہوں نے اپنی روحانیت کو محفوظ رکھنے کیلئے کلیسیا کے اندر بھی ”‏بُری صحبتوں“‏ سے کنارہ کِیا۔‏—‏۱-‏کرنتھیوں ۱۵:‏۳۳؛‏ ۲-‏تیمتھیس ۲:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۱۴.‏ اگر ہم احتیاط نہیں برتتے تو کیسے عام تبادلۂ‌خیال بھی نقصاندہ مباحثوں کی صورت اختیار کر سکتا ہے؟‏

۱۴ اسی طرح،‏ پیراگراف ۱۱ میں بیان‌کردہ حالتیں آجکل یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیاؤں میں بھی پائی جاتی ہیں۔‏ لہٰذا،‏ ہمارے لئے ایسے لاحاصل مباحثوں کے امکان کو تسلیم کرنا مفید ثابت ہوگا۔‏ بِلاشُبہ،‏ بائبل سرگزشتوں پر گفتگو یا موعودہ نئی دُنیا کے ابھی تک آشکارا نہ ہونے والے پہلوؤں پر سوچ‌بچار کرنا عام بات ہے۔‏ نیز آرائش‌وزیبائش اور تفریح کے انتخاب جیسے ذاتی معاملات پر تبادلۂ‌خیال کرنے میں بھی کوئی خرابی نہیں ہے۔‏ تاہم،‏ اگر ہم اپنے نظریات کی بابت اِدعاپسند بن جاتے ہیں اور دوسروں کے ہمارے ساتھ متفق نہ ہونے پر بُرا مناتے ہیں تو ان چھوٹے چھوٹے معاملات کی وجہ سے کلیسیا منقسم ہو سکتی ہے۔‏ درحقیقت،‏ شروع میں جو بات معمولی اور بےضرر دکھائی دیتی ہے وہی بعد میں ضرررساں بن سکتی ہے۔‏

اپنی امانت کی حفاظت کرنا

۱۵.‏ کس حد تک ”‏شیاطین کی تعلیم“‏ ہمیں روحانی طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے اور صحائف میں کونسی مشورت پیش کی گئی ہے؟‏

۱۵ پولس رسول خبردار کرتا ہے:‏ ”‏لیکن روح صاف فرماتا ہے کہ آیندہ زمانوں میں بعض لوگ گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو کر ایمان سے برگشتہ ہو جائینگے۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۱‏)‏ جی‌ہاں،‏ نقصاندہ نظریات حقیقی خطرے کا پیش‌خیمہ ہیں۔‏ قابلِ‌فہم طور پر،‏ پولس نے اپنے عزیز دوست تیمتھیس سے التماس کِیا:‏ ”‏اَے تیمتھیسؔ اس امانت کو حفاظت سے رکھ اور جس علم کو علم کہنا ہی غلط ہے اس کی بیہودہ بکواس اور مخالفت پر توجہ نہ کر۔‏ بعض اس کا اقرار کرکے ایمان سے برگشتہ ہو گئے ہیں۔‏“‏—‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۲۰،‏ ۲۱‏۔‏

۱۶،‏ ۱۷.‏ خدا نے ہمیں کیا سونپا ہے اور ہمیں اس کی حفاظت کیسے کرنی چاہئے؟‏

۱۶ ہم آجکل اس پُرمحبت آگاہی سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟‏ تیمتھیس کو ایک ایسی امانت سونپی گئی جسکی قدر اور حفاظت کی جانی تھی۔‏ یہ کیا تھی؟‏ پولس وضاحت کرتا ہے:‏ ”‏جو صحیح باتیں تُو نے مجھ سے سنیں اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوؔع میں ہے اُس کا خاکہ یاد رکھ۔‏ رُوح‌اُلقدس کے وسیلہ سے جو ہم میں بسا ہوا ہے اس اچھی امانت کی حفاظت کر۔‏“‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۱:‏۱۳،‏ ۱۴‏)‏ جی‌ہاں،‏ تیمتھیس کو سونپی گئی امانت ”‏صحیح باتوں،‏“‏ ”‏دینداری کے مطابق“‏ تعلیم پر مشتمل تھی۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۳‏)‏ ان الفاظ کی مطابقت میں،‏ آجکل مسیحی انہیں سونپے گئے ایمان اور سچائی کی حفاظت کرنے کا عزمِ‌مُصمم کئے ہوئے ہیں۔‏

۱۷ اس امانت کی حفاظت کرنے میں بائبل مطالعے کی اچھی عادات اپنانے اور دُعا میں مشغول رہنے کے علاوہ یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ”‏جہاں تک موقع ملے سب کے ساتھ نیکی کریں خاصکر اہلِ‌ایمان کے ساتھ۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱۰؛‏ رومیوں ۱۲:‏۱۱-‏۱۷‏)‏ پولس مزید فہمائش کرتا ہے:‏ ”‏راستبازی۔‏ دینداری۔‏ ایمان۔‏ محبت۔‏ صبر اور حلم کا طالب ہو۔‏ ایمان کی اچھی کشتی لڑ۔‏ اس ہمیشہ کی زندگی پر قبضہ کر لے جسکے لئے تُو بلایا گیا تھا اور بہت سے گواہوں کے سامنے اچھا اقرار کِیا تھا۔‏“‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۶:‏۱۱،‏ ۱۲‏)‏ پولس کا ”‏ایمان کی اچھی کشتی لڑ“‏ اور ”‏قبضہ کر لے“‏ جیسی اصطلاحیں استعمال کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ہمیں سرگرمی اور عزمِ‌مُصمم کیساتھ روحانی طور پر نقصاندہ اثرات کی مزاحمت کرنی چاہئے۔‏

فہم کی ضرورت

۱۸.‏ ہم دُنیاوی معلومات کی بابت اپنے نظریے میں کیسے مسیحی توازن کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ بیشک،‏ ایمان کی اچھی کشتی لڑنے کے لئے فہم کی ضرورت ہے۔‏ (‏امثال ۲:‏۱۱؛‏ فلپیوں ۱:‏۹‏)‏ مثال کے طور پر،‏ تمام دُنیاوی معلومات پر اعتبار نہ کرنا غیرمعقول بات ہوگی۔‏ (‏فلپیوں ۴:‏۵؛‏ یعقوب ۳:‏۱۷‏)‏ تمام انسانی نظریات خدا کے کلام سے نہیں ٹکراتے۔‏ یسوع نے اس بات کا اشارہ دیا کہ بیمار لوگوں کو کسی مستند اور پیشہ‌وار طبیب کے پاس جانے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔‏ (‏لوقا ۵:‏۳۱‏)‏ یسوع کے زمانے میں طبّی علاج‌معالجہ اگرچہ اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھا توبھی اس نے تسلیم کِیا کہ طبیب کی مدد سے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔‏ آجکل مسیحی دُنیاوی معلومات کے سلسلے میں توازن کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن وہ روحانی طور پر نقصاندہ ثابت ہونے والی کسی بھی چیز کی مزاحمت کرتے ہیں۔‏

۱۹،‏ ۲۰.‏ (‏ا)‏غیردانشمندانہ بات‌چیت کرنے والوں کی مدد کرتے وقت بزرگ کیسے فہم سے کام لے سکتے ہیں؟‏ (‏ب)‏ غلط تعلیم کو فروغ دینے پر مُصر اشخاص کے ساتھ کلیسیا کیسا برتاؤ کرتی ہے؟‏

۱۹ غیردانشمندانہ بات‌چیت کرنے والے اشخاص کی مدد کرنے کے لئے بزرگوں کو فہم کی ضرورت ہوتی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۷‏)‏ بعض‌اوقات،‏ کلیسیائی ارکان چھوٹی چھوٹی باتوں اور قیاس‌آرائیوں پر مبنی مباحثوں میں اُلجھ سکتے ہیں۔‏ کلیسیا کے اتحاد کی حفاظت کرنے کیلئے،‏ بزرگوں کو ایسے مسائل کی بابت فوری کارروائی کرنی چاہئے۔‏ اس کیساتھ ہی ساتھ،‏ وہ اپنے بھائیوں پر غلط محرکات کا الزام لگانے اور اُنہیں فوراً برگشتہ خیال کرنے سے گریز کرینگے۔‏

۲۰ جس جذبے کے تحت مدد کی جانی چاہئے پولس نے اُس کی بابت یوں بیان کِیا:‏ ”‏اَے بھائیو!‏ اگر کوئی آدمی کسی قصور میں پکڑا بھی جائے تو تم جو روحانی ہو اس کو حلم‌مزاجی سے بحال کرو۔‏“‏ (‏گلتیوں ۶:‏۱‏)‏ بالخصوص شکوک سے نبردآزما مسیحیوں کی بابت بات کرتے ہوئے یہوداہ نے تحریر کِیا:‏ ”‏بعض لوگوں پر جو شک میں ہیں رحم کرو۔‏ اور بعض کو جھپٹ کر آگ میں سے نکالو۔‏“‏ (‏یہوداہ ۲۲،‏ ۲۳‏)‏ بیشک،‏ اگر کوئی بارہا نصیحت کئے جانے کے باوجود غلط تعلیم کو فروغ دیتا ہے تو بزرگوں کو کلیسیا کی حفاظت کرنے کے لئے فیصلہ‌کُن قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔‏—‏۱-‏تیمتھیس ۱:‏۲۰؛‏ ططس ۳:‏۱۰،‏ ۱۱‏۔‏

اپنے ذہنوں کو قابلِ‌ستائش باتوں سے معمور کرنا

۲۱،‏ ۲۲.‏ ہمیں کس چیز کی بابت انتخاب‌پسند ہونا چاہئے اور اپنے ذہنوں کو کس چیز سے معمور کرنا چاہئے؟‏

۲۱ مسیحی کلیسیا ”‏آکلہ کی طرح کھانے“‏ والی ضرررساں باتوں کی مذمت کرتی ہے۔‏ (‏۲-‏تیمتھیس ۲:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ ططس ۳:‏۹‏)‏ یہ سچ ہے کہ ایسی باتیں گمراہ‌کُن دُنیاوی ”‏حکمت،‏“‏ برگشتہ اشخاص کے پروپیگنڈے یا کلیسیا کے اندر بےتامل بات‌چیت کی عکاسی کر سکتی ہیں۔‏ نئی باتیں سیکھنے کی مخلصانہ خواہش تو مفید ثابت ہو سکتی ہے مگر بےلگام تجسّس ہمیں نقصاندہ نظریات کے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔‏ ہم شیطان کے حیلوں سے ناواقف نہیں ہیں۔‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۲:‏۱۱‏)‏ ہم جانتے ہیں کہ وہ ہمیں انتشارِخیال میں ڈالنے کی بڑی کوشش کر رہا ہے تاکہ ہمیں خدا کی خدمت میں سُست کر دے۔‏

۲۲ لائق خادموں کی حیثیت سے،‏ آئیے ثابت‌قدمی سے خدائی تعلیم کی حمایت کریں۔‏ (‏۱-‏تیمتھیس ۴:‏۶‏)‏ دُعا ہے کہ ہم معلومات حاصل کرنے کے سلسلے میں انتخاب‌پسند بننے سے اپنے وقت کو دانشمندی سے استعمال کریں۔‏ تب ہم شیطان کے متاثرکُن پروپیگنڈے سے بآسانی متزلزل نہیں ہونگے۔‏ جی‌ہاں،‏ آئیے ہم ”‏جتنی باتیں سچ ہیں اور جتنی باتیں شرافت کی ہیں اور جتنی باتیں واجب ہیں اور جتنی باتیں پاک ہیں اور جتنی باتیں پسندیدہ ہیں اور جتنی باتیں دلکش ہیں غرض جو نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں“‏ اُن پر غور کرتے رہیں۔‏ اگر ہم ایسی باتوں سے اپنے دل‌ودماغ معمور کر لیں تو اطمینان کا خدا ہمارے ساتھ ہوگا۔‏—‏فلپیوں ۴:‏۸،‏ ۹‏۔‏

ہم نے کیا سیکھا؟‏

‏• دُنیاوی تعلیم ہماری روحانیت کیلئے کیسے خطرہ بن سکتی ہے؟‏

‏• نقصاندہ برگشتہ معلومات سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏• کلیسیا میں کس قسم کی بات‌چیت سے گریز کِیا جانا چاہئے؟‏

‏• آجکل اتنی زیادہ معلومات دستیاب ہونے کی صورت میں مسیحی توازن کا مظاہرہ کیسے کِیا جاتا ہے؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۹ پر تصویر]‏

بیشتر مقبول رسالے اور کتابیں ہماری مسیحی اقدار سے ٹکراتی ہیں

‏[‏صفحہ ۱۰ پر تصویر]‏

مسیحی ادِعاپسندی کے بغیر تبادلۂ‌خیال کر سکتے ہیں