مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

روح کی تلوار کیساتھ رشوت‌ستانی کا مقابلہ کرنا

روح کی تلوار کیساتھ رشوت‌ستانی کا مقابلہ کرنا

روح کی تلوار کیساتھ رشوت‌ستانی کا مقابلہ کرنا

‏”‏نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔‏“‏​—‏⁠افسیوں ۴:‏۲۴‏۔‏

اپنے عروج کے وقت رومی سلطنت دُنیا کی تاریخ کی عظیم‌ترین انسانی انتظامیہ تھی۔‏ روم کا قانونی نظام اسقدر مؤثر تھا کہ یہ آج بھی بہتیرے ممالک کے قانونی ضوابط کی بنیاد ہے۔‏ تاہم،‏ روم کی کامرانیوں کے باوجود،‏ اس کے لشکر ایک عیار دشمن​—‏⁠رشوت‌ستانی​—‏⁠پر غالب آنے میں ناکام رہے۔‏ انجام‌کار،‏ رشوت‌ستانی ہی روم کے زوال کا باعث بنی۔‏

پولس رسول نے رشوت‌خور رومی افسروں کے ہاتھوں تکلیف اُٹھائی۔‏ رومی حاکم فیلکس نے تحقیق‌وتفتیش کے دوران پولس کو بےگناہ پایا۔‏ لیکن فیلکس اپنے وقت کا سب سے زیادہ رشوت‌خور حاکم تھا اسلئے اُس نے اس اُمید پر پولس کا مقدمہ التواء میں ڈال دیا کہ پولس اپنی رہائی کیلئے اسے پیسہ دیگا۔‏​—‏⁠اعمال ۲۴:‏۲۲-‏۲۶‏۔‏

فیلکس کو رشوت دینے کی بجائے،‏ پولس نے اسکے ساتھ صاف‌گوئی سے ”‏راستبازی اور پرہیزگاری“‏ کی بابت بات‌چیت کی۔‏ فیلکس نے اپنی روش نہ بدلی اور پولس رشوت دیکر قانونی کارروائی سے بچنے کی کوشش کرنے کی بجائے قید ہی میں رہا۔‏ اس نے سچائی اور دیانتداری کے پیغام کی منادی کی اور اس کے مطابق زندگی بسر کی۔‏ اس نے یہودی مسیحیوں کو لکھا کہ ”‏ہمیں یقین ہے کہ ہمارا دل صاف ہے اور ہم ہر بات میں نیکی کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔‏“‏​—‏⁠عبرانیوں ۱۳:‏۱۸‏۔‏

ایسا مؤقف اس وقت کے اخلاقی معیاروں کے بالکل برعکس تھا۔‏ فیلکس کا بھائی پالاس قدیم دُنیا کا امیرترین آدمی تھا اور اس نے اپنی ساری کی ساری دولت جو ۴۵ ملین ڈالر کے قریب تھی،‏ رشوت‌ستانی اور لوٹ‌کھسوٹ سے اکٹھی کی تھی۔‏ تاہم،‏ جب اس کی دولت کا موازنہ ۲۰ویں صدی کے راشی حکمرانوں کے خفیہ بینک اکاؤنٹس میں چھپائے گئے اربوں ڈالر سے کِیا جاتا ہے تو اسکی کچھ وقعت نہیں رہتی۔‏ بِلاشُبہ،‏ کوئی جاہل ہی اس بات کا یقین کریگا کہ آجکل کی حکومتوں نے رشوت‌ستانی کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔‏

اگرچہ عرصۂ‌دراز سے رشوت‌ستانی کا بازار گرم ہے تو کیا ہمیں فرض کر لینا چاہئے کہ یہ محض انسانی فطرت کا حصہ ہے؟‏ یا کیا رشوت‌ستانی کی روک‌تھام کیلئے کچھ کِیا جا سکتا ہے؟‏

رشوت‌ستانی کی روک‌تھام کیسے ممکن ہے؟‏

رشوت‌ستانی کی روک‌تھام کرنے میں پہلا یقینی قدم تو یہ سمجھنا ہے کہ رشوت‌ستانی تباہ‌کُن اور غلط ہے کیونکہ یہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر بددیانت اشخاص کو فائدہ پہنچاتی ہے۔‏ بِلاشُبہ،‏ اس سلسلے میں کچھ پیش‌رفت ہوئی ہے۔‏ یو.‏ایس.‏ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ،‏ جیمز فولی نے بیان کِیا:‏ ”‏ہم سب سمجھتے ہیں کہ رشوت بڑی مہنگی پڑتی ہے۔‏ رشوت‌ستانی اچھے خاصے انتظام کو کمزور،‏ معاشی استعدادوترقی کو نقصان،‏ تجارت کو مسخ اور دُنیابھر کے شہریوں کو ناموافق حالات میں مبتلا کر دیتی ہے۔‏“‏ بہتیرے اس سے اتفاق کرینگے۔‏ دسمبر ۱۷،‏ ۱۹۹۷ کو ۳۴ بڑے ممالک نے ”‏معاہدۂانسدادِرشوت‌ستانی“‏ پر دستخط کئے جو ”‏عالمگیر پیمانے پر رشوت‌ستانی کے خلاف جہاد میں معاونت“‏ کیلئے تیار کِیا گیا تھا۔‏ یہ معاہدہ ”‏بین‌الاقوامی تجارت کیلئے غیرملکی سرکاری اہلکاروں کو رشوت دینے یا اسکا وعدہ کرنے کو ایک جُرم قرار دیتا ہے۔‏“‏

تاہم،‏ دیگر ممالک میں کاروباری ٹھیکے حاصل کرنے کیلئے رشوت دینا تو رشوت‌ستانی کا ایک حقیر سا پہلو ہے۔‏ تمام دُنیا سے رشوت‌ستانی کا خاتمہ دوسرے انتہائی مشکل قدم یعنی دل کی تبدیلی یا کئی دلوں کی تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔‏ ہر جگہ لوگوں کو رشوت‌ستانی سے نفرت کرنا سیکھنا چاہئے۔‏ صرف اِسی صورت میں رشوت کا خاتمہ ہو سکے گا۔‏ اس مقصد کے حصول کے لئے،‏ نیوزویک رسالے نے بیان کِیا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومتوں کو ”‏عوام‌الناس کی بھلائی کے احساس کو فروغ دینا چاہئے۔‏“‏ انسدادِرشوت‌ستانی کی ترغیب دینے والا ایک گروہ،‏ ٹرانس‌پیرنسی انٹرنیشنل بھی اسی بات کی سفارش کرتا ہے کہ اس کے حامیوں کو جائےملازمت پر ”‏’‏دیانتداری کا بیج‘‏ بونا“‏ چاہئے۔‏

رشوت‌ستانی کے خلاف لڑائی ایک ایسی اخلاقی لڑائی ہے جسے صرف قانون یا قانونی تعزیرات کی ”‏تلوار“‏ سے نہیں جیتا جا سکتا۔‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۴،‏ ۵‏)‏ نیکی اور دیانتداری کے بیج لوگوں کے دلوں میں بوئے جانے چاہئیں۔‏ پولس رسول کے مطابق یہ کام انجام دینے کا بہترین طریقہ ”‏روح کی تلوار،‏“‏ خدا کا کلام،‏ بائبل ہے۔‏​—‏⁠افسیوں ۶:‏۱۷‏۔‏

بائبل رشوت‌ستانی کی مذمت کرتی ہے

پولس نے رشوت‌ستانی سے چشم‌پوشی کرنے سے انکار کیوں کِیا تھا؟‏ اِسلئےکہ وہ خدا کی مرضی پوری کرنا چاہتا تھا ”‏جو رُورعایت نہیں کرتا اور نہ رشوت لیتا ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۱۰:‏۱۷‏)‏ علاوہ‌ازیں،‏ پولس کو موسوی شریعت کی یہ خاص ہدایت بھی یقیناً یاد تھی:‏ ”‏تُو نہ تو کسی کی رُورعایت کرنا اور نہ رشوت لینا کیونکہ رشوت دانشمند کی آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہے اور صادق کی باتوں کو پلٹ دیتی ہے۔‏“‏ (‏استثنا ۱۶:‏۱۹‏)‏ بادشاہ داؤد نے بھی اسی طرح سے سمجھ لیا تھا کہ یہوواہ رشوت‌ستانی سے نفرت کرتا ہے،‏ لہٰذا اس نے درخواست کی کہ خدا اسے گنہگاروں میں شمار نہ کرے ”‏جنکا دہنا ہاتھ رشوتوں سے بھرا ہے۔‏“‏​—‏⁠زبور ۲۶:‏۱۰‏۔‏

خلوصدلی سے خدا کی پرستش کرنے والوں کے پاس رشوت‌ستانی کو رد کرنے کی اضافی وجوہات ہیں۔‏ ”‏بادشاہ عدل سے اپنی مملکت کو قیام بخشتا ہے،‏“‏ سلیمان نے تحریر کِیا،‏ ”‏لیکن رشوت‌ستان اُس کو ویران کرتا ہے۔‏“‏ (‏امثال ۲۹:‏۴‏)‏ جب بڑے سے لیکر چھوٹے تک تمام حکام انصاف کو عمل میں لاتے ہیں تو مُلک میں استحکام ہوتا ہے جبکہ رشوت‌ستانی اسے کھوکھلا کر دیتی ہے۔‏ اس سلسلے میں نیوزویک نے یہ دلچسپ بیان دیا:‏ ”‏جس نظام میں ہر شخص رشوت سے فائدہ‌اٹھانا اور اُسے حاصل کرنا جانتا ہے اُس کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔‏“‏

اگر معیشت پوری طرح تباہ نہ بھی ہو توبھی انصاف‌پسند لوگ رشوت‌ستانی کے بِلاروک‌ٹوک پھلنےپھولنے سے مایوس ہو جاتے ہیں۔‏ ‏(‏زبور ۷۳:‏۳،‏ ۱۳‏)‏ ہمیں انصاف کی فطری خواہش عطا کرنے والے ہمارے خالق کی بھی حکم‌عدولی کی جاتی ہے۔‏ ماضی میں،‏ یہوواہ نے رشوت‌ستانی کا قلع‌قمع کرنے کیلئے کارروائی کی تھی۔‏ مثال کے طور پر،‏ اس نے یروشلیم کے باشندوں کو واضح طور پر بتایا کہ کیوں وہ انہیں انکے دشمن کے حوالے کر دیگا۔‏

میکاہ نبی کی معرفت خدا نے بیان کِیا:‏ ”‏اَے بنی یعقوب کے سردارو اور اَے بنی اسرائیل کے حاکمو جو عدالت سے عداوت رکھتے ہو اور ساری راستی کو مروڑتے ہو اس بات کو سنو۔‏ اُس کے سردار رشوت لیکر عدالت کرتے ہیں اور اُسکے کاہن اجرت لیکر تعلیم دیتے ہیں اور اُسکے نبی روپیہ لیکر فالگیری کرتے ہیں .‏ .‏ .‏ اسلئے صیوؔن تمہارے ہی سبب سے کھیت کی طرح جوتا جائیگا اور یرؔوشلیم کھنڈر ہو جائیگا اور اس گھر کا پہاڑ جنگل کی اونچی جگہوں کی مانند ہوگا۔‏“‏ رشوت‌ستانی نے اسرائیلی معاشرے کو تباہ کر دیا تھا جیسے اس نے صدیوں بعد روم کو کھوکھلا کر دیا تھا۔‏ خدائی آگاہی کے عین مطابق،‏ میکاہ کے اِن الفاظ کو قلمبند کرنے کے تقریباً ایک صدی بعد،‏ یروشلیم تباہ‌وبرباد ہو گیا تھا۔‏​—‏⁠میکاہ ۳:‏۹،‏ ۱۱،‏ ۱۲‏۔‏

تاہم،‏ کسی آدمی یا قوم کو رشوت‌خور ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‏ خدا بدکار کی اپنا طرزِزندگی ترک کرنے اور اپنا طرزِفکر بدلنے کیلئے حوصلہ‌افزائی کرتا ہے۔‏ (‏یسعیاہ ۵۵:‏۷‏)‏ وہ چاہتا ہے کہ ہم سب لالچ کو بےغرضی اور رشوت‌ستانی کو راستبازی سے بدل دیں۔‏ یہوواہ ہمیں یاددہانی کراتا ہے کہ ”‏مسکین پر ظلم کرنے والا اُسکے خالق کی اہانت کرتا ہے لیکن اُسکی تعظیم کرنے والا محتاجوں پر رحم کرتا ہے۔‏“‏​—‏⁠امثال ۱۴:‏۳۱‏۔‏

بائبل سچائی کی مدد سے کامیابی کیساتھ رشوت‌ستانی کا مقابلہ کرنا

کونسی قوت کسی شخص کو ایسی تبدیلی پیدا کرنے کی تحریک دے سکتی ہے؟‏ وہی قوت جس نے پولس کو یسوع مسیح کا ایک دلیر پیروکار بننے کیلئے ایک فریسی کی زندگی ترک کرنے کی تحریک دی تھی۔‏ ”‏خدا کا کلام زندہ اور مؤثر .‏ .‏ .‏ہے،‏“‏ اس نے تحریر کِیا۔‏ (‏عبرانیوں ۴:‏۱۲‏)‏ صحیفائی سچائی اِس زمانے میں بھی رشوت‌ستانی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے درمیان دیانتداری کی جَوت جگاتی ہے۔‏ ایک مثال پر غور کریں۔‏

مشرقی یورپ کے الیگزینڈر کو اپنی ملٹری سروس ختم کئے ہوئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ غیرقانونی سرگرمیوں،‏ لوٹ‌کھسوٹ اور رشوت‌ستانی میں ملوث ایک گینگ میں شامل ہو گیا۔‏ * ”‏میرا کام دولتمند تاجروں کی حفاظت کے عوض اُن سے پیسہ وصول کرنا تھا،‏“‏ وہ بیان کرتا ہے۔‏ ”‏جیسے ہی مجھے کسی تاجر کا اعتماد حاصل ہو جاتا تو ہماری گروہ کے دوسرے ارکان اس پر تشدد کرکے اسے ڈراتے دھمکاتے۔‏ اس کے بعد مَیں ایک بھاری قیمت کے عوض معاملے سے نپٹنے کی پیشکش کرتا۔‏ میرے ’‏گاہک‘‏ انکے مسائل سے نپٹنے میں مدد کرنے کیلئے میرے شکرگزار ہوتے جبکہ مَیں ہی حقیقت میں ان کیلئے مسئلہ پیدا کرتا تھا۔‏ آپ کو شاید یہ عجیب لگے مگر مجھے یہ کام بہت پسند تھا۔‏

‏”‏مَیں نے ایسے طرزِزندگی سے حاصل ہونے والی دولت سے بڑی عیش کی۔‏ مَیں مہنگی کار چلاتا تھا،‏ عمدہ اپارٹمنٹ میں رہتا تھا اور جو جی چاہتا خرید سکتا تھا۔‏ لوگ مجھ سے ڈرتے تھے جس سے مَیں خود کو بہت طاقتور سمجھنے لگا۔‏ میرے اندر کسی حد تک یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ مجھے کوئی بھی چُھو نہیں سکتا اور قانون میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‏ پولیس کے ساتھ کسی بھی مسئلے کو انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے ایک ماہر وکیل کے ذریعے یا پھر مطلب کے آدمی تک رشوت پہنچانے سے حل کِیا جا سکتا تھا۔‏

‏”‏تاہم،‏ رشوت کے سہارے جینے والوں میں وفاداری نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔‏ ہمارے گینگ میں سے ایک شخص میرے خلاف ہو گیا اور مَیں نے محسوس کِیا کہ اب مجھے پسند نہیں کِیا جاتا۔‏ اچانک،‏ مَیں اپنی چمک‌دمک والی کار،‏ اپنے پیسے،‏ مہنگی چیزوں کی شوقین اپنی گرل‌فرینڈ سے محروم ہو گیا۔‏ مجھے تو بُری طرح پیٹا بھی گیا۔‏ اس تبدیلی نے مجھے زندگی کے مقصد کی بابت سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دیا۔‏

‏”‏چند ماہ پہلے،‏ میری ماں یہوواہ کی گواہ بن چکی تھی اور مَیں نے انکا لٹریچر پڑھنا شروع کر دیا۔‏ امثال ۴:‏۱۴،‏ ۱۵ کے ان الفاظ نے واقعی میری سوچ کو اُبھارا:‏ ’‏شریروں کے راستہ میں نہ جانا اور بُرے آدمیوں کی راہ میں نہ چلنا۔‏ اُس سے بچنا۔‏ اُسکے پاس سے نہ گذرنا۔‏ اُس سے مڑ کر آگے بڑھ جانا۔‏‘‏ اس طرح کے اقتباسات نے مجھے باور کرا دیا کہ مجرمانہ زندگی گزارنے کے خواہاں لوگوں کا کوئی حقیقی مستقبل نہیں ہوتا۔‏ مَیں نے یہوواہ سے دُعا کرنا شروع کر دی اور اس سے درخواست کی کہ درست راہ پر چلنے میں میری راہنمائی کرے۔‏ مَیں نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل مطالعہ کِیا اور بالآخر،‏ اپنی زندگی خدا کیلئے مخصوص کر دی۔‏ اس وقت سے مَیں دیانتداری سے زندگی بسر کر رہا ہوں۔‏

‏”‏بِلاشُبہ،‏ دیانتدارانہ معیاروں پر چلنے سے کمائی بہت کم ہوتی ہے۔‏ لیکن اب مَیں محسوس کرتا ہوں کہ میرا بھی کوئی مستقبل ہے،‏ میری زندگی کا بھی حقیقی مقصد ہے۔‏ مَیں سمجھتا ہوں کہ میرا سابقہ طرزِزندگی اور اسکا عیش‌وآرام محض ریت کا گھروندا تھا جو کسی بھی لمحے گِر سکتا تھا۔‏ پہلے،‏ میرا ضمیر مُردہ تھا۔‏ لیکن اب بائبل مطالعے کی بدولت،‏ اگر کبھی مجھے چھوٹےچھوٹے معاملات میں بھی بددیانتی کی آزمائش کا سامنا ہو تو یہ مجھے جھنجھوڑتا ہے۔‏ مَیں زبور ۳۷:‏۳ کی مطابقت میں زندگی بسر کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جو کہتی ہے:‏ ’‏[‏یہوواہ]‏ پر توکل کر اور نیکی کر۔‏ ملک میں آباد رہ اور اُس کی وفاداری سے پرورش پا۔‏‘‏ ”‏

‏”‏جسکو رشوت سے نفرت ہے زندہ رہیگا“‏

الیگزینڈر کو اس بات کا تجربہ ہوا کہ بائبل سچائی ایک شخص کو رشوت‌ستانی پر قابو پانے کے قابل بنا سکتی ہے۔‏ اس نے افسیوں کے نام خط میں درج پولس رسول کی ان باتوں کے مطابق تبدیلیاں پیدا کیں:‏ ”‏تم اپنے اگلے چال‌چلن کی اس پُرانی انسانیت کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔‏ اور اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔‏ اور نئی انسانیت کو پہنو جو خدا کے مطابق سچائی کی راستبازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔‏ پس جھوٹ بولنا چھوڑ کر ہر ایک شخص اپنے پڑوسی سے سچ بولے کیونکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے عضو ہیں۔‏ چوری کرنے والا پھر چوری نہ کرے بلکہ اچھا پیشہ اختیار کرکے ہاتھوں سے محنت کرے تاکہ محتاج کو دینے کے لئے اسکے پاس کچھ ہو۔‏“‏ (‏افسیوں ۴:‏۲۲-‏۲۵،‏ ۲۸‏)‏ نوعِ‌انسان کے مستقبل کا انحصار ایسی تبدیلیوں پر ہی ہے۔‏

بےقابو حرص اور رشوت نے جیسے رومی سلطنت کو تباہ کر دیا تھا ویسے ہی یہ زمین کو تباہ کر سکتی ہیں۔‏ تاہم،‏ خوشی کی بات ہے کہ نوعِ‌انسان کا خالق ایسے معاملات اتفاق پر نہیں چھوڑتا۔‏ وہ ”‏زمین کے تباہ کرنے والوں کو تباہ“‏ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔‏ (‏مکاشفہ ۱۱:‏۱۸‏)‏ اِسکے علاوہ یہوواہ رشوت سے پاک دُنیا کی آرزو رکھنے والوں سے وعدہ فرماتا ہے کہ جلد ہی ”‏نیا آسمان اور نئی زمین“‏ آئیگی ”‏جن میں راستبازی بسی رہیگی۔‏“‏​—‏⁠۲-‏پطرس ۳:‏۱۳‏۔‏

سچ ہے کہ آجکل دیانتدارانہ معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرنا شاید آسان نہ ہو۔‏ تاہم،‏ یہوواہ ہمیں یقین‌دہانی کراتا ہے کہ انجام‌کار ”‏نفع کا لالچی اپنے گھرانے کو پریشان کرتا ہے پر وہ جسکو رشوت سے نفرت ہے زندہ رہیگا۔‏“‏ * (‏امثال ۱۵:‏۲۷‏)‏ چنانچہ رشوت کی مذمت کرنے سے ہم خلوصدلی کیساتھ خدا سے یہ دُعا کر سکتے ہیں:‏ ”‏تیری بادشاہی آئے۔‏ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔‏“‏​—‏⁠متی ۶:‏۱۰‏۔‏

اب جبکہ ہم بادشاہت کی طرف سے کارروائی کے منتظر ہیں،‏ ہم سب رشوت‌ستانی کی مذمت کرنے سے ’‏صداقت کیساتھ تخم‌ریزی‘‏ کر سکتے ہیں۔‏ (‏ہوسیع ۱۰:‏۱۲‏)‏ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہماری زندگیاں بھی خدا کے الہامی کلام کی قوت کی شہادت دینگی۔‏ روح کی تلوار رشوت‌ستانی پر فتح پا سکتی ہے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 20 اس کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔‏

^ پیراگراف 28 یقیناً،‏ رشوت اور بخشیش میں فرق ہوتا ہے۔‏ رشوت بےانصافی اور بددیانتی کے کاموں کیلئے دی جاتی ہے لیکن بخشیش خدمات کی قدردانی کا اظہار ہوتی ہے۔‏ اسے جون ۱۹۸۷ کے مینارِنگہبانی کے شمارہ میں ”‏سوالات‌ازقارئین“‏ میں واضح کِیا گیا ہے۔‏

‏[‏صفحہ ۷ پر تصویر]‏

بائبل کی مدد سے ہم ”‏نئی انسانیت“‏ پہن کر رشوت‌ستانی سے بچ سکتے ہیں