کُلوقتی خدمت سے یہوواہ کا شکر بجا لانا
میری کہانی میری زبانی
کُلوقتی خدمت سے یہوواہ کا شکر بجا لانا
از سٹینلی ای. رینولڈز
مَیں ۱۹۱۰ میں لندن، انگلینڈ میں پیدا ہؤا۔ میرے والدین پہلی عالمی جنگ کے بعد، ولٹشائر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں منتقل ہو گئے جسے ویسٹبری لا کہا جاتا ہے۔ مَیں اپنے بچپن میں اکثر سوچتا تھا کہ ’خدا کون ہے؟‘ مجھے کبھی کوئی نہ بتا سکا۔ لہٰذا مَیں یہ بھی کبھی نہ سمجھ پایا کہ ہماری چھوٹی سی آبادی میں خدا کی عبادت کرنے کیلئے دو چیپل اور ایک چرچ کی ضرورت کیوں ہے۔
مَیں اور میرا چھوٹا بھائی ڈِک، ۱۹۳۵ میں دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے سے چار سال پہلے، سائیکلوں پر انگلینڈ کے جنوبی ساحل وےموتھ پر چھٹیاں منانے کے لئے گئے۔ جب ہم اپنے کیمپ میں بیٹھے موسلادھار بارش کے شور کیساتھ اس سوچ میں بھی گم تھے کہ کیا کریں تو ایک عمررسیدہ معزز شخص ہمارے پاس آیا اور مجھے بائبل مطالعہ کی تین امدادی کتابیں—دی ہارپ آف گاڈ، لائٹ ۱ اور لائٹ ۲—پیش کیں۔ مَیں نے انہیں لے لیا اور خوش ہوا کہ اب اس بیزاری سے نجات حاصل کرنے کیلئے میرے پاس کچھ تو ہے۔ ان کتابوں میں درج باتیں جلد ہی میرے دل میں اُتر گئیں لیکن تب مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ یہ میری اور میرے بھائی کی زندگی کو یکسر بدل دینگی۔
جب مَیں گھر لوٹا تو میری والدہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے گاؤں میں رہنے والی کیٹ پارسنز نے اسی قسم کا بائبل لٹریچر تقسیم کِیا ہے۔ وہ بہت مشہور تھی کیونکہ وہ کافی عمررسیدہ ہونے کے باوجود، موٹرسائیکل پر ہمارے علاقے میں دُور دُور گھروں میں لوگوں سے ملنے کیلئے جایا کرتی تھی۔ جب مَیں اس سے ملنے گیا تو اس نے بڑی خوشی سے مجھے کرئیشن اور ریچز کے علاوہ واچ ٹاور سوسائٹی کی دیگر مطبوعات بھی دیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ یہوواہ کی ایک گواہ ہے۔
اپنی بائبل کیساتھ ان کتابوں کو پڑھنے کے بعد، مَیں سمجھ گیا کہ یہوواہ سچا خدا ہے اسلئے مَیں اُسی کی پرستش کرنا چاہتا ہوں۔ پس مَیں نے اپنے چرچ کو اُس سے قطعتعلق کرنے کا خط بھیج دیا اور جان اور ایلس موڈی کے گھر میں بائبل مطالعوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا۔ وہ ہمارے قریبی قصبے ویسٹبری میں رہتے تھے۔ ان اجلاسوں پر ہم صرف سات لوگ ہؤا کرتے تھے۔ اجلاس سے پہلے اور بعد میں جب کیٹ پارسنز ہارمونیم بجاتی تو ہم جوش کیساتھ بادشاہتی گیت گایا کرتے تھے!
ابتدائی ایّام
مَیں سمجھتا تھا کہ ہم انتہائی اہم زمانے میں رہ رہے ہیں اسلئے مجھے متی ۲۴:۱۴ میں بیانکردہ منادی کے کام میں حصہ لینے کا بڑا اشتیاق تھا۔ پس مَیں نے تمباکونوشی چھوڑ دی، اپنے لئے ایک بیگ خریدا اور خدائےعظیم یہوواہ کیلئے مخصوصیت کی۔
اگست ۱۹۳۶ میں، واچ ٹاور سوسائٹی کے صدر جوزف ایف. رتھرفورڈ ”ہرمجدون“ کے موضوع پر خطاب کرنے کیلئے گلاسگو، سکاٹلینڈ کا دورہ کر رہے تھے۔ اگرچہ گلاسگو ۶۰۰ کلومیٹر دُور تھا تو بھی مَیں وہاں جاکر کنونشن پر بپتسمہ لینے کا عزمِمُصمم کئے ہوئے تھا۔ میرے پاس پیسے کم تھے اسلئے مَیں نے سکاٹلینڈ کے ایک سرحدی قصبے، کارلیسل تک اپنی سائیکل کے ہمراہ ریلگاڑی میں سفر کِیا اور پھر وہاں سے شمال کی جانب مزید ۱۶۰ کلومیٹر تک سائیکل پر سفر کِیا۔ مَیں نے واپسی کا زیادہتر سفر بھی سائیکل پر ہی طے کِیا اور جب گھر پہنچا تو جسمانی طور پر نڈھال ہونے کے باوجود روحانی طور پر چاقوچوبند تھا۔
اسکے بعد سے، مَیں قریبی دیہاتوں میں لوگوں کے درمیان اپنے ایمان کا پرچار کرنے کیلئے سائیکل پر ہی جایا کرتا تھا۔ ان دنوں میں ہر گواہ کے پاس ایک کارڈ پر صحیفائی پیغام لکھا ہوتا تھا جسے لوگوں کو پڑھنے کیلئے دیا جاتا تھا۔ ہم سوسائٹی کے صدر کی بائبل پر مبنی تقاریر کے ریکارڈ چلانے کے لئے سفری فونوگرافس بھی استعمال کِیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، ہم رسالوں والا بیگ * بھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے جو ہماری یہوواہ کے گواہوں کے طور پر شناخت کراتا تھا۔
جنگ کے دوران پائنیر خدمت
میرے بھائی نے ۱۹۴۰ میں بپتسمہ لیا۔ دوسری عالمی جنگ ۱۹۳۹ میں شروع ہو چکی تھی اور ہم دونوں کُلوقتی خادموں کی فوری ضرورت کو بھانپ گئے تھے۔ لہٰذا، ہم نے پائنیر خدمت کیلئے اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ ہم شکرگزار تھے ہمیں برسٹل پائنیر ہوم میں اکٹھے تفویض کِیا گیا، وہاں اِیڈتھ پول، برٹ فارمر، ٹام اور ڈورتھی برجس، برنارڈ ہوٹن اور دیگر پائنیر بھی تھے جن کے ایمان کے ہم عرصۂدراز سے گرویدہ تھے۔
ایک چھوٹی وین جس پر بڑے بڑے حروف میں ”یہوواہ کے گواہ“ لکھا ہؤا تھا جلد ہی ہمیں لیجانے کے لئے پہنچ گئی۔ ڈرائیور سٹینلی جونز تھا جس نے
بعدازاں چین میں بطور مشنری خدمت انجام دی اور جسے اس کی منادی کی وجہ سے سات سال کیلئے قیدِتنہائی میں ڈال دیا گیا تھا۔جنگ کے دنوں میں ہم شاذونادر ہی پوری رات سو پاتے تھے۔ ہمارے پائنیر ہوم کے آسپاس بم گرتے تھے اور آگ پکڑنے والی چیزوں کی وجہ سے ہمیں مسلسل چوکس رہنا پڑتا تھا۔ ایک شام ہم ایک عمدہ اسمبلی کے بعد جس پر ۲۰۰ گواہ حاضر تھے برسٹل کے گنجانآباد علاقے کو چھوڑ کر طیارہشکن بندوقوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں سے ہوتے ہوئے بحفاظت اپنے گھر پہنچے۔
اگلی صبح ڈِک اور مَیں شہر سے اپنی کچھ چیزیں لینے کیلئے گئے جو ہم وہاں چھوڑ آئے تھے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ برسٹل ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا۔ پورے کا پورا شہر تباہ ہو چکا تھا۔ پارک سٹریٹ سے جہاں ہمارا کنگڈم ہال تھا دھواں اُٹھ رہا تھا۔ تاہم، کوئی گواہ ہلاک یا زخمی نہیں ہؤا تھا۔ خوشقسمتی سے ہم کنگڈم ہال سے اپنا بائبل لٹریچر اُٹھا کر پہلے ہی کلیسیا کے مختلف ارکان کے گھروں تک پہنچا چکے تھے۔ ہم نے دونوں باتوں کیلئے یہوواہ کا شکر ادا کِیا۔
غیرمتوقع آزادی
جب مجھے ملٹری سروس کا حکمنامہ حاصل ہوا تو اُس وقت تک برسٹل کلیسیا جسکا مَیں صدارتی نگہبان تھا ۶۴ خادموں تک بڑھ گئی تھی۔ بہتیرے دیگر گواہوں کو انکے غیرجانبدارانہ مؤقف کی بناء پر قید کِیا جا چکا تھا اور اب مَیں بھی اپنی منادی کی آزادی سے محروم ہونے کی توقع کر سکتا تھا۔ میرے مقدمہ کی سماعت برسٹل کورٹ میں ہوئی جہاں بھائی انتھنونی بک، ایک سابقہ قیدخانہ کے افسرنے میرے حق میں بات کی۔ وہ ایک دلیر، نڈر آدمی اور بائبل سچائی کا علمبردار تھا جسکے زبردست دلائل کے نتیجے میں مجھے غیرمتوقع طور پر اس شرط پر ملٹری سروس سے بالکل مستثنیٰ قرار دے دیا گیا کہ مَیں اپنی کُلوقتی خدمت کو جاری رکھوں گا!
مَیں اپنی آزادی پر خوش تھا اور اس بات کیلئے پُرعزم تھا کہ مَیں اپنی آزادی کو حتیالوسع منادی کیلئے استعمال کروں گا۔ جب مجھے برانچ اوورسیئر بھائی البرٹ ڈی. شروڈر سے بات کرنے کیلئے لندن برانچ آفس رپورٹ کرنے کیلئے بلایا گیا تو مَیں فطری طور پر سوچ رہا تھا کہ اب کونسی چیز میری منتظر ہے۔ جب مجھے بھائیوں کی مدد اور حوصلہافزائی کرنے کی غرض سے ہر ہفتے مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کرنے کے لئے یارکشائر میں بطور سفری نگہبان خدمت انجام دینے کی دعوت دی گئی تو میری حیرانی کا تصور کریں۔ مَیں نے خود کو اس تفویض کے لائق محسوس نہ کِیا لیکن اب مَیں ملٹری سروس سے مستثنیٰ ہونے کے باعث جانے کیلئے آزاد تھا۔ پس مَیں نے یہوواہ کی ہدایت کو قبول کِیا اور خوشی سے چلا گیا۔
البرٹ شروڈر نے مجھے ہڈرزفیلڈ میں ایک اسمبلی پر بھائیوں سے متعارف کرایا اور مَیں نے اپریل ۱۹۴۱ میں، اپنی نئی تفویض سنبھال لی۔ ان عزیز بھائیوں سے ملنا واقعی میرے لئے خوشی کی بات تھی! انکی محبت اور مہربانی سے میرا یہ یقین اَور پُختہ ہو گیا کہ یہوواہ کی واقعی ایک ایسی اُمت ہے جو دلوجان سے اس کے لئے وقف اور باہمی محبت کے جذبے سے سرشار ہے۔—یوحنا ۱۳:۳۵۔
مزید خدمتی استحقاقات
ایک ناقابلِفراموش پانچ روزہ نیشنل کنونشن ۱۹۴۱ میں لیسٹرز ڈی مونٹفورٹ ہال میں منعقد ہؤا۔ خوراک اور ذرائعنقلوحمل کی کمی کے باوجود، اتوار کے روز انتہائی حاضری ۰۰۰،۱۲ تک پہنچ گئی جبکہ اس وقت پورے مُلک میں گواہوں کی تعداد ۰۰۰،۱۱ سے کچھ ہی زیادہ تھی۔ سوسائٹی کے صدر کی تقاریر کی ریکارڈنگز سنائی گئیں اور کتاب چلڈرن کی رُونمائی کی گئی۔ دوسری جنگِعظیم کے دوران منعقد ہونے والا یہ کنونشن برطانیہ میں یہوواہ کے لوگوں کی تھیوکریٹک تاریخ میں یقیناً ایک سنگِمیل تھا۔
اس کنونشن کے فوراً بعد، مجھے لندن بیتایل خاندان کیساتھ خدمت کرنے کی دعوت دی گئی۔ وہاں، مَیں نے لٹریچر پیک اور ارسال کرنے کے شعبوں میں اور بعدازاں کلیسیاؤں سے متعلق معاملات نپٹانے کے شعبے میں کام کِیا۔
بیتایل خاندان کو رات دن لندن پر ہوائی حملوں اور وہاں کام کرنے والے ذمہدار بھائیوں سے اربابِاختیار کی مسلسل تفتیش کو برداشت کرنا پڑا۔ پرائس ہیوز، یوارٹ چٹی اور فرینک پلاٹ کو انکے غیرجانبدارانہ مؤقف کی وجہ سے قید میں ڈال دیا گیا اور البرٹ شروڈر کو بالآخر ریاستہائےمتحدہ جلاوطن کر دیا گیا۔ ایسے دباؤ کے باوجود، کلیسیاؤں اور بادشاہتی مفادات کی مسلسل دیکھبھال ہوتی رہی۔
گلئیڈ روانگی!
جب ۱۹۴۵ میں جنگ ختم ہو گئی تو مَیں نے واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ میں مشنری تربیت کیلئے درخواست دی جسے ۱۹۴۶ میں آٹھویں کلاس کیلئے قبول کر لیا گیا۔ سوسائٹی نے بشمول ٹونی ایٹووڈ، سٹینلی جونز، ہیرلڈ کنگ، ڈون رینڈل اور سٹینلی ووڈبرن سمیت ہم میں سے کئی ایک کیلئے فاؤے کی کورنوالی مچھلی بندرگاہ سے سمندری سفر پر روانہ ہونے کا انتظام کِیا۔ ایک مقامی گواہ نے معدنی چکنی مٹی لیکر جانے والے ایک کارگو جہاز پر ہمارے جانے کا بندوبست کر دیا۔ ہمارے کوارٹر بہت ہی تنگ تھے اور عرشہ تقریباً پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب ہم آخرکار فلاڈلفیہ کی بندرگاہ پر پہنچے تو ہم نے خدا کا لاکھلاکھ شکر ادا کِیا!
گلئیڈ کیمپس خوبصورتی سے نیو یارک کے شمال میں ساؤتھ لانسنگ میں واقع تھا اور جو تربیت مَیں نے وہاں حاصل کی وہ میرے لئے بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ ہماری کلاس کے طالبعلم ۱۸ ملکوں سے آئے تھے—سوسائٹی پہلی مرتبہ غیرملکوں سے اتنے زیادہ خادموں کا اندراج کرنے کے قابل ہوئی تھی—اور ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے تھے۔ مَیں نے فنلینڈ سے اپنے روممیٹ کال سلاویرا کی رفاقت سے بہت لطف اُٹھایا۔
وقت بڑی تیزی سے گزرا اور پانچ مہینوں کے آخر پر، سوسائٹی کے صدر ناتھن ایچ. نار ہمیں ڈپلومے دینے اور یہ بتانے کیلئے بروکلن سے آئے کہ ہماری تفویضات کہاں کہاں ہونگی۔ اُس زمانے میں، طالبعلموں کو اس وقت تک اپنی تفویضات کا پتہ نہیں ہوتا تھا جبتک گریجویشن کی تقریب پر ان کا اعلان نہیں کر دیا جاتا تھا۔ میری تقرری واپس لندن بیتایل میں ہوئی تاکہ وہاں اپنا کام جاری رکھ سکوں۔
لندن واپسی
برطانیہ میں جنگ کے بعد کے سال مشقتطلب تھے۔ خوراک اور دیگر ضروریاتِزندگی کے علاوہ کاغذ بھی راشن پر ملتا تھا۔ لیکن ہمارا گزارہ ہوتا رہا اور یہوواہ کے بادشاہتی مفادات فروغ پاتے رہے۔ بیتایل میں کام کرنے کے علاوہ مَیں نے ڈسٹرکٹ اور سرکٹ اسمبلیوں میں خدمت انجام دی اور آئرلینڈ کی کچھ کلیسیاؤں سمیت مختلف کلیسیاؤں کا دورہ کِیا۔ ایرک فروسٹ اور یورپ سے دیگر بہن بھائیوں سے ملنا اور اُن سے نازی کیمپوں کے مظالم برداشت کرنے والے ساتھی مسیحیوں کی راستی کی بابت سننا بھی ایک شرف تھا۔ میرے لئے بیتایل خدمت واقعی ایک بڑا شرف تھی۔
دس سالوں سے مَیں لندن کے شمالی قصبے، واٹفورڈ میں خدمت کرنے والی ایک سپیشل پائنیر جوآن ویب کو جانتا تھا۔ ہم نے ۱۹۵۲ میں شادی کر لی۔ ہم دونوں کُلوقتی خدمت کو جاری رکھنا چاہتے تھے، پس جب میرے بیتایل چھوڑنے کے بعد مجھے سرکٹ اوورسیئر مقرر کِیا گیا تو ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ہمارا پہلا سرکٹ انگلینڈ کے جنوبی ساحل، سساِکس اور ہیمشائر تھا۔ ان دنوں سرکٹ کا کام آسان نہیں تھا۔ ہم زیادہتر بسوں میں، سائیکل پر اور پیدل سفر کِیا کرتے تھے۔ بہتیری کلیسیاؤں کے بڑے دیہاتی علاقے ہؤا کرتے تھے جن تک پہنچنا اکثر مشکل ہؤا کرتا تھا لیکن گواہوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی۔
نیو یارک شہر ۱۹۵۸
مجھے ۱۹۵۷ میں، بیتایل سے ایک اَور دعوت ملی: ”کیا آپ. ۱۹۵۸ میں نیو یارک شہر کے یانکی سٹیڈیم اور پولو گراؤنڈز میں منعقد ہونے والی بینالاقوامی اعمال ۲:۴۱۔
اسمبلی کیلئے سفری انتظامات میں معاونت کرنے کیلئے دفتر آنا چاہیں گے؟“ جوآن اور مَیں جلد ہی سوسائٹی کے چارٹرڈ ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کیلئے بھائیوں کی طرف سے آنے والی درخواستوں پر کام کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یہ مشہور الہٰی مرضی انٹرنیشنل اسمبلی تھی جس پر ۹۲۲،۵۳،۲ لوگ حاضر ہوئے تھے۔ اس کنونشن پر ۱۳۶،۷ نے یہوواہ کیلئے مخصوصیت کی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیا جو کہ بائبل کے بیان کے مطابق پنتِکُست ۳۳ س.ع. کے تاریخی موقع پر بپتسمہ پانے والوں کی تعداد سے دُگنی تھی۔—جوآن اور مَیں بھائی نار کی مہربانی کبھی نہیں بھولیں گے جب انہوں نے ۱۲۳ ملکوں سے نیو یارک آنے والے مندوبین کی دیکھبھال میں مدد کرنے کی خاطر اسمبلی پر حاضر ہونے کیلئے ہمیں ذاتی طور پر مدعو کِیا۔ یہ ہم دونوں کیلئے خوشکُن اور تسلیبخش تجربہ تھا۔
کُلوقتی خدمت کی برکات
واپس آکر بھی ہم نے اپنا سفری کام جاری رکھا تاوقتیکہ ہماری صحت جواب نہ دے گئی۔ جوآن کو ہسپتال داخل ہونا پڑا اور مجھ پر فالج کا ہلکا سا حملہ ہؤا۔ ہمیں دوبارہ سپیشل پائنیر بنا دیا گیا لیکن بعد میں پھر عارضی طور پر سرکٹ کا کام کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ انجامکار، ہم برسٹل واپس آ گئے جہاں ہم کُلوقتی خدمت میں قائم ہیں۔ میرا بھائی ڈِک اپنے خاندان کیساتھ ہمارے نزدیک رہتا ہے اور ہم اکثر ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہیں۔
سن ۱۹۷۱ میں میری نظر پردۂچشم میں نقص کی وجہ سے ایسی خراب ہوئی کہ ٹھیک نہیں ہو سکی۔ مجھے پڑھنے میں کافی دقت پیش آتی ہے لہٰذا مَیں بائبل لٹریچر کی کیسٹ ریکارڈنگ کو یہوواہ کی طرف سے ایک شاندار فراہمی خیال کرتا ہوں۔ جوآن اور مَیں ابھی تک گھریلو بائبل مطالعے کراتے ہیں اور ان تمام سالوں کے دوران ہمیں تقریباً ۴۰ اشخاص کو سچائی سے رُوشناس کرانے کا شرف حاصل ہوا ہے جس میں سات افراد پر مشتمل ایک خاندان بھی ہے۔
جب ہم نے ۶۰ سال پہلے یہوواہ کیلئے اپنی زندگیاں مخصوص کی تھیں تو ہماری خواہش تھی کہ کُلوقتی خدمت میں حصہ لیں اور اس خدمت کو جاری رکھیں۔ ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ ابھی تک ہمارے اندر اپنے عظیم خدا یہوواہ کی خدمت کرنے کی طاقت ہے۔ یہ خدمت ہی واحد طریقہ ہے جس سے ہم اپنے لئے اس کی نیکی اور سالہاسال کی باہمی خوشی کیلئے اُسکا شکر ادا کر سکتے ہیں!
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 11 کندھے پر لٹکانے کیلئے ایک کپڑے کا تھیلا جسے مینارِنگہبانی اور کونسولیشن (بعدازاں، جاگو!) رسالے رکھنے کیلئے تیار کِیا گیا تھا۔
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
برسٹل پائنیر ہوم کے سامنے اپنے بھائی ڈک (ڈک بالکل بائیں طرف کھڑا ہے) اور دیگر پائنیروں کیساتھ
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
۱۹۴۰ میں برسٹل پائنیر ہوم
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
آج اور جنوری ۱۲، ۱۹۵۲ کو اپنی شادی کے دن پر سٹینلی اور جوآن رینولڈز