یہوواہ ہمارے دل سے بڑا ہے
یہوواہ ہمارے دل سے بڑا ہے
’یہوواہ اُن سے خوش ہے جو اُس سے ڈرتے ہیں،‘ زبورنویس نے لکھا۔ واقعی، ہمارا خالق راست معیاروں کی پابندی کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے تمام انسانی خادموں کو دیکھکر خوش ہوتا ہے۔ خدا اپنے وفادار خادموں کو برکت، تقویت اور مصیبت کے وقت تسلی دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُسکے پرستار ناکامل ہیں اسلئے وہ اُن سے کبھی بھی غیرحقیقتپسندانہ تقاضے نہیں کرتا۔—زبور ۱۴۷:۱۱۔
عموماً ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی مشکل محسوس نہیں ہوتی کہ یہوواہ اپنے خادموں سے بڑی محبت رکھتا ہے۔ تاہم، بعض اپنی خطاؤں کے بوجھ تلے اسقدر دب جاتے ہیں کہ وہ یہوواہ کی محبت کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ شاید سوچیں کہ ”مجھ جیسے ناکامل انسان سے یہوواہ کیسے محبت رکھ سکتا ہے۔“ یہ سچ ہے کہ ہم سب کبھی نہ کبھی منفی احساسات سے دب جاتے ہیں۔ تاہم، بعض نااہلی کے احساسات کے خلاف مسلسل نبردآزما رہتے ہیں۔
مایوسی
بائبل وقتوں میں کئی وفادار اشخاص کو شدید مایوسی کا تجربہ ہوا۔ ایوب کو اپنی زندگی سے نفرت ہو گئی تھی اور وہ سمجھنے لگا کہ خدا نے اُسکا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ زبور ۳۸:۶؛ ۱-سموئیل ۱:۷، ۱۰؛ ایوب ۲۹:۲، ۴، ۵؛ فلپیوں ۲:۲۵، ۲۶۔
سموئیل کی ماں، حنّہ کبھی اپنے بانجھپن کی وجہ سے دلگیر ہو کر زارزار رویا کرتی تھی۔ داؤد بھی ”بہت جھکا ہوا“ تھا اور اپفردتس بھی پریشان رہتا تھا کیونکہ اُسکی بیماری کی خبر نے اُسکے بھائیوں کو غمگین کر دیا تھا۔—آجکل مسیحیوں کی بابت کیا ہے؟ ممکن ہے بعض علالت، سنرسیدگی یا دیگر ذاتی نوعیت کے حالات کی وجہ سے اپنی خواہش کے مطابق پاک خدمت میں شرکت نہ کر سکیں۔ لہٰذا وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ وہ یہوواہ اور اہلِایمان کو مایوس کر رہے ہیں۔ یا شاید بعض اپنی گزشتہ خطاؤں کی وجہ سے خود کو کوستے رہتے ہیں اور یہوواہ کی معافی کا یقین ہی نہیں کرتے۔ کچھ لوگوں کا تعلق نہایت درشت خاندانوں سے ہوتا ہے جسکی وجہ سے وہ خود کو محبت کے لائق نہیں سمجھتے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
بعض لوگوں کی پرورش ایسے گھرانوں میں ہوتی ہے جہاں محبت کی بجائے خودغرضی، تلخکلامی اور خوف کا راج ہوتا ہے۔ وہ تو اپنے خوابوخیال میں بھی کسی ایسے شفیق باپ کو نہیں دیکھ پاتے جو اُنہیں شاباش دیکر اُنکی حوصلہافزائی کرتا ہے جو نہ صرف چھوٹیچھوٹی غلطیوں کو نظرانداز کر دیتا ہے بلکہ زیادہ سنگین غلطیوں کو بھی معاف کرنے کیلئے تیار رہتا ہے اور جسکے تپاک میں سارا خاندان پناہ لیتا ہے۔ اُن کیلئے چونکہ ایک شفیق انسانی باپ ناقابلِفہم ہوتا ہے اسلئے ایک پُرمحبت آسمانی باپ کے وجود کو تسلیم کرنے اور اُسے سمجھنے کا تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
مثال کے طور پر، فرٹس بیان کرتا ہے: ”میرے باپ کی سنگدلی نے میرے بچپن اور جوانی پر نہایت گہرے اثرات چھوڑے۔ * وہ کبھی بھی مجھے شاباش نہیں دیتا تھا اسلئے مجھے بھی اُس سے کچھ اُنس نہیں تھا۔ بلکہ، مَیں ہمیشہ اُس سے خوفزدہ رہتا تھا۔“ اسی وجہ سے، فرٹس، پچاس کے دہے میں ہونے کے باوجود ابھی تک نااہلیت کے احساس میں مبتلا ہے۔ اسکے علاوہ، مارگریٹ بیان کرتی ہے: ”میرے والدین بہت ہی سردمہر اور بےمروّت تھے۔ جب مَیں نے بائبل کا مطالعہ شروع کِیا تو مجھے ایک شفیق باپ کا تصور کرنا نہایت مشکل معلوم ہوتا تھا۔“
کسی بھی وجہ سے ایسے احساسات کا یہ مطلب ضرور ہو سکتا ہے کہ ہم بعضاوقات محبت کی بجائے کافی حد تک احساسِخطا یا خوف سے تحریک پاکر خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ ہماری حتیالمقدور کوشش بھی ہمیں ناکافی دکھائی دیتی ہے۔ یہوواہ اور ہمایمانوں کو خوش کرنے کی خواہش ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ ہم پر حد سے زیادہ بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ نتیجتاً، ہم اپنے نصبالعین حاصل کرنے میں ناکام ہو جانے کی وجہ سے خود کو قصوروار ٹھہراتے ہیں اور یاسونراس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کیا کِیا جا سکتا ہے؟ غالباً ہمیں یہوواہ کی فراخدلی کی بابت یاددہانی کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یوحنا رسول نے خدا کی ذات کے اس مشفقانہ پہلو کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔
”خدا ہمارے دل سے بڑا . . . ہے“
پہلی صدی س.ع. کے آخر پر، یوحنا نے اپنے ساتھی ایمانداروں کو لکھا: ”اِس سے ہم جانینگے کہ حق کے ہیں اور جس بات میں ہمارا دل ہمیں الزام دیگا اُسکے بارے میں ہم اُسکے حضور اپنی دلجمعی کرینگے۔ کیونکہ خدا ہمارے دل سے بڑا اور سب کچھ جانتا ہے۔“ یوحنا نے یہ الفاظ کیوں تحریر کئے تھے؟—۱-یوحنا ۳:۱۹، ۲۰۔
یوحنا اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ یہوواہ کے خادم کو بھی کبھیکبھار احساسِاسترداد ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یوحنا کو خود بھی ایسے احساسات کا تجربہ ہوا ہو۔ یوحنا اپنی جوانی میں نہایت آتشمزاج تھا اسی لئے بعضاوقات دوسروں کے معاملے میں درشتی کے ساتھ پیش آنے کی وجہ سے یسوع نے اُس کی اصلاح کی۔ یسوع نے تو یوحنا اور اُس کے بھائی یعقوب کا ”نام بُوانرگس یعنی گرج کے بیٹے رکھا“ تھا۔—مرقس ۳:۱۷؛ لوقا ۹:۴۹-۵۶۔
اگلے ۶۰ سال میں، یوحنا عمر اور پختگی کے ساتھ ساتھ نرممزاج اور ایک متوازن، شفیق اور رحمدل مسیحی بن گیا تھا۔ تمام رسولوں میں سے صرف یوحنا ہی زندہ رہ گیا تھا اور جب اُس نے اپنا پہلا الہامی خط تحریر کِیا تو وہ سمجھ چکا تھا کہ یہوواہ اپنے خادموں کو ہر خفیف سی غلطی کے لئے جوابدہ نہیں ٹھہراتا۔ اس کے برعکس، وہ پُرمحبت، فراخدل، فیاض، شفیق باپ ہے اور ایسے لوگوں سے گہری محبت رکھتا ہے جو اُس سے محبت رکھتے اور سچائی سے اُس کی پرستش کرتے ہیں۔ یوحنا نے لکھا: ”خدا محبت ہے۔“—۱-یوحنا ۴:۸۔
یہوواہ ہماری خدمت سے خوش ہوتا ہے
خدا ہماری پیدائشی کمزوریوں اور تقصیروں سے واقف ہے اور انکا لحاظ رکھتا ہے۔ داؤد نے لکھا کہ ”وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ یہوواہ سمجھتا ہے کہ ہماری شخصیت میں ہمارے پسمنظر کا خاصا عملدخل ہوتا ہے۔ درحقیقت، وہ ہمیں ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے۔—زبور ۱۰۳:۱۴۔
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہم میں سے بہتیرے فرق دکھائی دینا چاہتے ہیں مگر ہم میں اپنی ناکاملیتوں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہماری حالت بالکل پولس رسول جیسی ہے جس نے لکھا: ”جس نیکی کا ارادہ کرتا ہوں وہ تو نہیں کرتا مگر جس بدی کا ارادہ نہیں کرتا اُسے کر لیتا ہوں۔“ ہم سب ایسی ہی کشمکش میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ بعض حالتوں میں اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم خود کو محض ایک کھوٹا سکہ سمجھنے لگتے ہیں۔—رومیوں ۷:۱۹۔
ہمیشہ یاد رکھیں: اپنی ذات کی بابت ہمارے اپنے نقطۂنظر سے یہوواہ کا نقطۂنظر زیادہ اہم ہے۔ جب بھی ہم اُسے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُسے نہ صرف اطمینان بلکہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔ (امثال ۲۷:۱۱) ہماری اپنی نظروں میں تو ہماری کامیابی بہت معمولی ہو سکتی ہے مگر ہماری رضامندی اور نیک محرکات اُسکے دل کو ضرور شاد کر سکتے ہیں۔ وہ ہماری کامرانی سے بھی آگے دیکھتا ہے؛ وہ سمجھتا ہے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؛ وہ ہماری تمناؤں اور خواہشات سے واقف ہے۔ یہوواہ ہمارے دل کو پڑھ سکتا ہے۔—یرمیاہ ۱۲:۳؛ ۱۷:۱۰۔
مثال کے طور پر، بہتیرے یہوواہ کے گواہ فطرتاً شرمیلے اور دوسروں کیساتھ زیادہ ملتےجلتے نہیں اور دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ ایسے لوگوں کیلئے گھربہگھر خوشخبری کی منادی کرنا بےحوصلہ کر دینے والا چیلنج ہو سکتا ہے۔ اسکے باوجود، خدا کی خدمت اور اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے کی خواہش سے تحریک پاکر ایسے شرمیلے لوگ بھی اپنے پڑوسیوں کے پاس جاکر بائبل کی بابت گفتگو کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ وہ شاید محسوس کریں کہ اُنہیں اس کام میں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ اپنی خوشی کھو بیٹھتے ہیں۔ اُنکا دل شاید کہے کہ اُنکی عوامی خدمتگزاری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تاہم، اپنی خدمت میں ایسے لوگوں کی حتیالمقدور کوشش سے یہوواہ یقیناً خوش ہوتا ہے۔ مزیدبرآں، وہ وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ سچائی کے بیج نشوونما پاکر پھل لائینگے۔—واعظ ۱۱:۶؛ مرقس ۱۲:۴۱-۴۴؛ ۲-کرنتھیوں ۸:۱۲۔
دیگر گواہ طویل علالت اور بڑھاپے کے ہاتھوں دِق ہیں۔ اُن کیلئے کنگڈم ہال میں اجلاسوں پر حاضر ہونا بہت مشکل اور پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔ منادی کے کام میں پیش آنے والے تجربات سننے سے اُنہیں یاد آ جاتا ہے کہ وہ کیا کِیا کرتے تھے اور اب بھی وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اگرچہ اُنکی معذوری اُنہیں کچھ کرنے کا موقع نہیں دیتی۔ ایسے لوگ جب کسی مشورت پر عمل نہیں کر پاتے تو وہ احساسِخطا سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ تاہم، یہوواہ اُنکی وفاداری اور برداشت کی بڑی قدر کرتا ہے۔ جب تک وہ وفادار رہتے ہیں وہ اُنکی وفاداری کو فراموش نہیں کرتا۔—زبور ۱۸:۲۵؛ ۳۷:۲۸۔
”اپنی دلجمعی کرنا“
عمررسیدہ ہونے تک یوحنا خدا کی فراخدلی کی بابت بہت کچھ سمجھ گیا ہوگا۔ آپکو یاد ہے کہ اُس نے لکھا: ”خدا ہمارے دل سے بڑا اور سب کچھ جانتا ہے۔“ مزیدبرآں، یوحنا ہمیں ”اپنی دلجمعی کرنے“ کا مشورہ بھی دیتا ہے۔ یوحنا کا اس بات سے کیا مطلب تھا؟
وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز کے مطابق جس یونانی اصطلاح کا ترجمہ ”دلجمعی“ کِیا گیا ہے اُسکا مطلب ”ترغیب قبول کرنا، غالب آنا یا آمادہ کرنا، مائل کرنا“ ہے۔ باالفاظِدیگر، اپنی دلجمعی کیلئے ہمیں اپنے دل کو یہ ایمان رکھنے پر آمادہ یا مائل کرنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ ہم سے محبت رکھتا ہے۔ کیسے؟
اس مضمون کے شروع میں جس فرٹس کا ذکر کِیا گیا اُس نے یہوواہ کے گواہوں کی ایک کلیسیا میں ۲۵ سال تک بطور بزرگ خدمت انجام دی اور یہ سمجھ لیا ہے کہ ذاتی مطالعہ اُسے یہوواہ کی محبت کا یقین دلا سکتا ہے۔ ”مَیں بڑے دھیان اور باقاعدگی سے بائبل اور اپنی مطبوعات کا مطالعہ کرتا ہوں۔
اس سے میری مدد ہوتی ہے کہ مَیں ماضی کی بجائے اپنے شاندار مستقبل پر نظریں جمائے رکھوں۔ بعضاوقات، میرا ماضی مجھ پر حاوی ہو جاتا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا مجھ جیسے شخص سے کبھی محبت کر ہی نہیں سکتا۔ لیکن عام طور پر مجھے لگتا ہے کہ باقاعدہ مطالعہ میرے دل کو تقویت بخشتا، ایمان کو بڑھاتا اور مجھے خوشی اور اطمینان برقرار رکھنے کے قابل بناتا ہے۔“سچ ہے کہ بائبل پڑھائی اور اس پر سوچبچار ہماری اصل صورتحال کو تو شاید نہ بدلیں۔ تاہم، یہ اپنی ذات کی بابت ہمارے نقطۂنظر کو ضرور بدل سکتا ہے۔ خدا کے کلام کو اپنے دل میں جاگزین کرنے سے اُسکی سوچ اپنانے میں ہماری مدد ہوتی ہے۔ مزیدبرآں، مطالعہ خدا کی فراخدلی کو زیادہ سے زیادہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ہم آہستہآہستہ اس بات کو قبول کرنے لگتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے بچپن کے ماحول اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہمیں قصوروار نہیں ٹھہراتا۔ وہ جانتا ہے کہ ہم اکثر ایسے جذباتی یا جسمانی بوجھوں تلے دب جاتے ہیں جو عموماً ہمارے پیداکردہ نہیں ہوتے اسلئے وہ بڑی محبت سے انکا لحاظ رکھتا ہے۔
مارگریٹ کی بابت کیا ہے جسکا شروع میں ذکر کِیا گیا تھا؟ جب اُس نے یہوواہ کی بابت سیکھ لیا تو بائبل کا مطالعہ اُس کیلئے نہایت مفید ثابت ہوا۔ فرٹس کی طرح اُسے بھی ایک باپ کے متعلق اپنے تصور کو بدلنا پڑا۔ دُعا نے مطالعے کے ذریعے سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنے میں مارگریٹ کی مدد کی۔ مارگریٹ بیان کرتی ہے کہ ”پہلے مَیں نے یہوواہ کو اپنا قریبی دوست سمجھا کیونکہ مجھے پُرمحبت باپ کی بجائے پُرمحبت دوستوں کی رفاقت کا زیادہ تجربہ تھا۔ رفتہرفتہ، مَیں اپنے احساسات، شکوشبہات، پریشانیوں اور مشکلات کا یہوواہ کے سامنے اظہار کرنا سیکھ گئی۔ مَیں اُس سے باربار دُعا کرتی تھی اور اُسکی بابت سیکھی ہوئی نئی باتوں کو ایک دوسرے کیساتھ مربوط کر کے اپنے ذہن میں نقش کرنے کی کوشش کرتی تھی۔ کچھ وقت کے بعد، یہوواہ کیلئے میرے احساسات اس حد تک بڑھ گئے کہ اب مجھے اُسے اپنا شفیق باپ تسلیم کرنے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آتی۔“
تمام پریشانی سے نجات
جب تک یہ فرسودہ بدکار نظام قائم ہے کوئی بھی پریشانیوں سے آزاد ہونے کی توقع نہیں کر سکتا۔ بعض مسیحیوں کیلئے اِسکا مطلب پریشانی یا اپنی بابت شکوک میں مبتلا ہونا اور مصیبت اُٹھانا ہو سکتا ہے۔ تاہم، ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارے نیک محرکات اور اُسکی خدمت میں ہماری محنت سے واقف ہے۔ اُس کے نام کے لئے دکھائی گئی محبت کو وہ کبھی فراموش نہیں کرے گا۔—عبرانیوں ۶:۱۰۔
تمام وفادار انسان مسیحائی بادشاہت کے تحت آنے والی نئی دُنیا میں شیطان کے نظام کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے کی توقع کر سکتے ہیں۔ یہ کیا ہی بڑی نجات ہوگی! پھر ہمارے سامنے یہوواہ کی فراخدلی کا ثبوت اَور بھی زیادہ نمایاں ہوگا۔ اُس وقت تک، ہم سب یقین رکھیں کہ ”خدا ہمارے دل سے بڑا اور سب کچھ جانتا ہے۔“—۱-یوحنا ۳:۲۰۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 8 نام بدل دئے گئے ہیں۔
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
یہوواہ ایک جابر حاکم نہیں بلکہ ایک پُرتپاک، فراخدل اور شفیق باپ ہے
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
خدا کے کلام کا مطالعہ اُسکی سوچ اپنانے میں ہماری مدد کرتا ہے