اناجیل—تاریخ یا افسانہ؟
اناجیل—تاریخ یا افسانہ؟
انسانی تاریخ میں انقلاب برپا کر دینے والے نوجوان شخص، یسوع ناصری کی کہانی پوری دُنیا کے ہر معاشرے کا لازمی جُز ہے۔ یہ لوگوں کی رسمی اور غیررسمی تعلیم کا حصہ بھی ہے۔ بہتیرے لوگوں کے خیال میں اناجیل لازوال سچائیوں اور ضربُالامثال کا ماخذ ہیں جیسےکہ ”تمہارا کلام ہاں ہاں یا نہیں نہیں ہو۔“ (متی ۵:۳۷) بیشک، آپ کے والدین مسیحی تھے یا غیرمسیحی، انجیلی سرگزشتیں اُنکی سکھائی ہوئی باتوں کی بنیاد ضرور ہو سکتی ہیں۔
اناجیل نے یسوع کے لاکھوں مخلص پیروکاروں کے سامنے اُسے ایسے انداز میں پیش کِیا ہے کہ وہ نہ صرف اُس کیلئے دُکھ اُٹھانے بلکہ اپنی جان دینے کیلئے بھی تیار رہے ہیں۔ اناجیل نے ہمت، برداشت، ایمان اور اُمید کی بنیاد اور تحریک بھی فراہم کی ہے۔ لہٰذا، کیا آپ اس بات سے اتفاق نہیں کرینگے کہ ان سرگزشتوں کو محض تخیل سمجھ کر مسترد کرنے کیلئے کوئی ٹھوس ثبوت ضرور ہونا چاہئے؟ اگر کوئی اناجیل کے بیانات کی تاریخی حقیقت کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کرے تو کیا آپ انسانی سوچ اور رویے پر اِنکے عمیق اثر کے پیشِنظر کسی مدلل ثبوت کا مطالبہ نہیں کرینگے؟
ہم آپ کو اناجیل کی بابت کچھ خیالآفرین سوالات کا جائزہ لینے کی دعوت دیتے ہیں۔ آپ خود اس بات کا جائزہ لیجئے کہ اناجیل کا مطالعہ کرنے والے بعض لوگوں کی ان معاملات کی بابت کیا رائے ہے حالانکہ ان میں سے کچھ تو مسیحی بھی نہیں ہیں۔ بعدازاں، آپ حقائق پر مبنی اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔
توجہطلب سوالات
◆ کیا اناجیل ماہرانہ اختراع ہو سکتی ہیں؟
یسوع پر منعقد ہونے والے سیمینار کا بانی، رابرٹ فنک بیان کرتا ہے: ”متی، مرقس، لوقا اور یوحنا نے یسوع کی موت کے بعد فروغ پانے والے مسیحی اعتقاد کے مطابق ’مسیحا کی شخصیت کو ڈھال کر پیش کِیا۔‘ “ تاہم، اناجیل کی تحریر کے وقت ایسے بہت سے لوگ زندہ تھے جنہوں نے یسوع کا کلام سنا، اُسکے کاموں کو دیکھا اور اُسے اُسکی قیامت کے بعد دیکھا تھا۔ اُنہوں نے انجیلنویسوں پر کسی قسم کی جعلسازی کا الزام نہیں لگایا تھا۔
اب ذرا مسیح کی موت اور قیامت پر غور کیجئے۔ یسوع کی موت اور قیامت کی بابت معتبر بیانات صرف اناجیل ہی میں نہیں بلکہ قدیم کرنتھس کے نام پولس رسول کے پہلے خط میں بھی ملتے ہیں جو مسلمہ کلیسیائی کُتب کا حصہ ہے۔ اُس نے لکھا: ”مَیں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتابِمُقدس کے مطابق ہمارے گناہوں کے لئے مؤا۔ اور دفن ہؤا اور تیسرے دن کتابِمُقدس کے مطابق جی اُٹھا۔ اور کیفاؔ کو اور اُس کے بعد اُن بارہ کو دکھائی دیا۔ پھر پانچ سو سے زیادہ بھائیوں کو ایک ساتھ دکھائی دیا۔ جن میں سے اکثر اب تک موجود ہیں اور بعض سو گئے۔ پھر یعقوؔب کو دکھائی دیا۔ پھر سب رسولوں کو۔ اور سب سے پیچھے مجھ کو جو گویا ادھورے دنوں کی پیدایش ہوں دکھائی دیا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳-۸) یہ عینیشاہد یسوع کی زندگی کی بابت تاریخی حقائق کے متولی تھے۔
جدید ناقدین کے دعوے کے برعکس مسیحی یونانی صحائف میں کسی قسم کی اختراعیت کے آثار نہیں ملتے۔ البتہ، دوسری صدی س.ع. کی دستاویزات میں اسکے کچھ آثار ضرور نظر آتے ہیں۔ پس، رسولوں کی جماعت کے اثرورسوخ سے دُور علاقوں میں سچی مسیحیت سے برگشتگی کے فروغ پانے اعمال ۲۰:۲۸-۳۰۔
کی وجہ سے مسیح کی بابت غیرصحیفائی روایات منظرِعام پر آنے لگیں۔—◆ کیا اناجیل محض قصےکہانیاں ہو سکتی ہیں؟
مصنف اور ناقد سی. ایس. لوئس کے لئے اناجیل کو محض قصےکہانیاں سمجھنا مشکل تھا۔ اُس نے لکھا کہ ”ادبی مؤرخ کی حیثیت سے مجھے پورا یقین ہے کہ اناجیل کچھ بھی ہوں، مگر قصےکہانیاں نہیں ہیں۔ ان میں کوئی ایسا تصوراتی عنصر شامل نہیں جسکی بِنا پر یہ حکایات کے زمرے میں آئیں۔ . . . ہم یسوع کی زندگی کے بیشتر حصے سے ناواقف ہیں جسکی کہانیاں گھڑنے والے لوگ کبھی بھی گنجائش نہیں چھوڑینگے۔“ دلچسپی کی بات ہے کہ مؤرخ ایچ. جی. ویلز جو مسیحی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، تو بھی تسلیم کرتا ہے: ”چاروں [انجیلنویس] متفقہ طور پر ہمارے سامنے ایک نہایت پُختہ شخصیت کو پیش کرتے ہیں جسکی حقیقت پر اُنہیں کچھ شُبہ نہیں تھا۔“
آپ ذرا اس واقعہ پر ہی غور کیجئے جب یسوع اپنی قیامت کے بعد اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ کہانیاں گھڑنے کے ماہر کسی بھی شخص نے یہ تاثر ضرور دیا ہوتا کہ یسوع کی آمد نہایت دھومدھام سے ہوتی ہے اور وہ بڑی شانوشوکت کیساتھ ظاہر ہو کر یادگار خطبہ پیش کرتا ہے۔ اسکے برعکس، انجیلنویس اُسکی بابت بس اتنا کہتے ہیں کہ وہ آکر اپنے شاگردوں کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر اُن سے پوچھتا ہے: ”بچو! تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟“ (یوحنا ۲۱:۵) عالم گریگ ایسٹربروک نتیجہ اخذ کرتا ہے: ”ایسی تفصیلات کسی حقیقی سرگزشت میں ہی ہو سکتی ہیں، منگھڑت کہانی میں نہیں۔“
اناجیل کی تحریر کے وقت ربّیوں کا مروّجہ سخت طرزِتعلیم بھی اناجیل کو افسانہ قرار دینے کے الزام کو بےبنیاد ثابت کرتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق رٹے یا دہرائی کے عمل سے الفاظ کو حفظ کر لیا جاتا تھا۔ یہ حقیقت یسوع کے بیانات کی درست اور محتاط پیشکش کی حمایت کرتی ہے اور کسی بھی افسانہنگاری کی نفی کرتی ہے۔
◆ اگر اناجیل محض قصےکہانیاں ہی تھیں توپھر انہیں یسوع کی موت کے بعد اتنی جلدی کیسے مرتب کِیا جا سکتا تھا؟
دستیاب شہادتوں کے مطابق، اناجیل ۴۱ سے ۹۸ س.ع. کے دوران لکھی گئی تھیں۔ یسوع نے ۳۳ س.ع. میں وفات پائی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اُسکی سوانححیات اُسکی خدمتگزاری کے اختتام کے نسبتاً تھوڑے ہی عرصہ بعد مرتب کر لی گئی تھی۔ یہ بات بھی انجیلی بیانات کو قصےکہانیاں قرار دینے کے خلاف جاتی ہے۔ قصےکہانیوں کو فروغ پانے کیلئے وقت لگتا ہے۔ مثال کے طور پر قدیم یونانی شاعر ہومر کی الیئڈ اور آڈیسی کو ہی لے لیجئے۔ بعض کا خیال ہے کہ ان دونوں رزمیہ داستانوں کو فروغ پاکر مستقل شکل اختیار کرنے میں کئی سو سال لگے۔ اناجیل کی بابت کیا ہے؟
اپنی کتاب سیزر اینڈ کرائسٹ میں مؤرخ وِل ڈیورانٹ لکھتا ہے: ”چند سادہلوح انسانوں کا اتنی بارُعب اور سحرانگیز شخصیت، اتنی بلندپایہ اخلاقی تعلیمات اور انسانی اخوت کے اتنے پُرزور تصور کو تخلیق کر لینا اناجیل میں درج کسی بھی معجزے سے زیادہ حیرتانگیز معجزہ ہوگا۔ دو صدیوں تک شدید تنقید کے بعد بھی یسوع کی زندگی، کردار اور تعلیمات کا خاکہ معقول طور پر واضح ہے اور مغرب کے لوگوں کی تاریخ کا سب سے نمایاں پہلو ہے۔“
◆ کیا اناجیل میں بعدازاں ابتدائی مسیحی معاشرے کی ضروریات کے مطابق ردوبدل کِیا گیا تھا؟
بعض ناقدین اس بات پر مُصر ہیں کہ ابتدائی مسیحیوں کے سیاسی حالات انجیلنویسوں کی طرف سے یسوع کی کہانی میں ردوبدل کرنے کا سبب بنے۔ تاہم، اناجیل کے محتاط مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ایسا کوئی ردوبدل نہیں کِیا گیا تھا۔ اگر ابتدائی مسیحیوں کے فریب کی بِنا پر یسوع کے متعلق انجیلی سرگزشتوں میں ردوبدل کر دیا گیا تھا توپھر یہودیوں اور غیرقوموں کی بابت منفی باتیں ابھی تک اس متن میں کیوں موجود ہیں؟
اسکی ایک عمدہ مثال متی ۶:۵-۷ میں ملتی ہے جہاں یسوع کے ان الفاظ کا حوالہ پیش کِیا گیا ہے: ”جب تم دُعا کرو تو ریاکاروں کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادتخانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہو کر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اُنکو دیکھیں۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔“ واقعی، یہاں یہودی مذہبی پیشواؤں کی مذمت کی گئی ہے۔ یسوع نے مزید کہا: ”دُعا کرتے وقت غیرقوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سنی جائیگی۔“ یسوع کے بیانات کا اسطرح حوالہ دینے سے انجیلنویس زیادہ سے زیادہ نومُرید بنانے کی کوشش نہیں کر رہے تھے۔ وہ تو درحقیقت یسوع مسیح کی باتوں کو محض تحریر کر رہے تھے۔
اُن عورتوں کی بابت انجیلی سرگزشتوں کا بھی جائزہ لیں جو یسوع کی قبر پر گئیں اور اُسے خالی پایا۔ (مرقس ۱۶:۱-۸) گریگ ایسٹربروک کے مطابق، ”مشرقِوسطیٰ کے قدیمی معاشرے میں، عورتوں کی شہادت کو قطعاً معتبر نہیں سمجھا جاتا تھا: مثال کے طور پر، کسی عورت کو زناکار قرار دینے کے لئے دو مردوں کی گواہی کافی ہوتی تھی مگر کسی بھی عورت کی گواہی پر مرد کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا۔“ درحقیقت، یسوع کے اپنے شاگردوں نے بھی عورتوں کا یقین نہیں کِیا تھا! (لوقا ۲۴:۱۱) لہٰذا، دانستہ طور پر ایسی کہانی گھڑنا خلافِقیاس ہے۔
اعمال کی کتاب اور خطوط میں تمثیلوں کی عدم موجودگی اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ اناجیل میں درج تمثیلیں ابتدائی مسیحیوں کی اختراع نہیں بلکہ خود یسوع کی بیانکردہ ہیں۔ علاوہازیں، اناجیل اور خطوط کا محتاط موازنہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ پولس اور مسیحی صحائف کے دیگر مصنّفین کی باتوں کو نیا انگ دیکر یسوع سے منسوب نہیں کِیا گیا تھا۔ اگر ابتدائی مسیحیوں نے ایسا کِیا ہوتا توپھر خطوط میں درج تھوڑی بہت باتوں کے اناجیل میں ملنے کی بھی توقع کی جانی چاہئے۔ چونکہ ایسا نہیں ہے اسلئے ہم وثوق کیساتھ اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ انجیلی مواد درست اور مستند ہے۔
◆ اناجیل میں ظاہری تضادات کی بابت کیا ہے؟
عرصۂدراز سے ناقدین یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اناجیل میں بیشمار تضادات پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا، مؤرخ ڈیورانٹ نے اس سلسلے میں اناجیل کو تاریخی دستاویزات گردانتے ہوئے انکی واقعیتپسندانہ جانچ کرنے کی کوشش کی۔ اناجیل میں ظاہری تضادات کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ نتیجہ اخذ کرتا ہے: ”یہ تضادات نہایت معمولی نوعیت کے ہیں؛ جہاں تک بنیادی اور لازمی معلومات کا تعلق ہے تو اناجیلمتفقہ میں حیرانکُن حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے اور بصدقوثبات مسیح کی تصویرکشتی کرتی ہیں۔“
انجیلی سرگزشتوں میں ظاہری تضادات کو اکثر آسانی سے حل کِیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر: متی ۸:۵ بیان کرتی ہے کہ ”ایک صوبہدار [یسوع] کے پاس آیا اور اُسکی منت کرکے کہا“ کہ اُسکے نوکر کو شفا دے۔ لوقا ۷:۳ میں، ہم پڑھتے ہیں کہ صوبہدار نے ”یہودیوں کے کئی بزرگوں کو [یسوع] کے پاس بھیجا اور اُس سے درخواست کی کہ آکر میرے نوکر کو اچھا کر۔“ صوبہدار نے بزرگوں کو اپنے نمائندوں کے طور پر بھیجا تھا۔ جب متی یہ کہتا ہے کہ صوبہدار نے خود یسوع کی منت کی تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اُس نے اُن بزرگوں کے ذریعے درخواست کی تھی۔ اس مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ اناجیل میں مبیّنہ تضادات کو دُور کِیا جا سکتا ہے۔
مذہبی کُتب پر تنقید کرنے والوں کے اس دعوے کی بابت آپکا کیا خیال ہے کہ اناجیل حقیقی تاریخ کے معیار پر پورا نہیں اُترتیں؟ ڈیورانٹ مزید وضاحت کرتا ہے: ”مذہبی کُتب پر تنقید کرنے والے لوگ اپنی دریافتوں کے جوش میں نئے عہدنامے کی صحتوصداقت کو پرکھنے کیلئے اسقدر بےلوچ اصولوں کا اطلاق کرتے ہیں کہ اِن سے حمورابی، داؤد اور سقراط جیسی تاریخی شخصیات بھی افسانوی معلوم ہونے لگتی ہیں۔ اناجیلاربعہ کے مصنّفین نے تعصّبات اور مخصوص مذہبی نظریات کے باوجود ایسے واقعات—بادشاہی میں اعلیٰ مرتبوں کیلئے رسولوں کی تکرار، یسوع کی گرفتاری کے بعد فرار، پطرس کا انکار وغیرہ—بھی سپردِقلم کئے جنہیں کہانیاں گھڑنے کے ماہر حضرات نے ازحد پوشیدہ رکھا ہوتا۔ ان بیانات کو پڑھکر کوئی بھی شخص پسِپردہ کسی عالی وصف ہستی کے وجود کا انکار نہیں کر سکتا۔“
◆ کیا دورِحاضر کی مسیحیت اناجیل میں پیشکردہ یسوع کی نمائندگی کرتی ہے؟
یسوع پر منعقد ہونے والے سیمینار نے اعلان کِیا کہ اناجیل پر کی گئی تحقیق ”چرچ کونسل کی شرائط کی قید سے بالکل آزاد“ ہے۔ تاہم،
مؤرخ ویلز تسلیم کرتا ہے کہ اناجیل میں پیشکردہ یسوع کی تعلیمات اور مسیحی دُنیا کی تعلیمات میں زمینوآسمان کا فرق ہے۔ اُس نے لکھا: ”کوئی ایسا ثبوت دستیاب نہیں کہ یسوع کے رسولوں نے اُسکے مُنہ سے کبھی تثلیث کا لفظ بھی سنا ہو۔ . . . نہ ہی [یسوع] نے آسمان کی ملکہ، اسس کے روپ میں اپنی ماں مریم کی پرستش کرنے کا کوئی ذکر کِیا تھا۔ اُس نے آجکل کی مسیحی دُنیا کی پرستش کے تمام لوازمات کو نظرانداز کر دیا تھا۔“ لہٰذا، اناجیل کی قدروقیمت کو مسیحی دُنیا کی تعلیمات کی بِنا پر نہیں پرکھا جا سکتا۔آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟
مذکورہبالا نکات پر غور کرنے کے بعد آپ کس نتیجے پر پہنچے ہیں؟ کیا اس بات کا واقعی کوئی ٹھوس ثبوت ہے کہ اناجیل محض قصےکہانیاں ہیں؟ بہتیرے لوگ اناجیل کی صحتوصداقت کی بابت اُٹھائے گئے اعتراضات اور شکوک کو بےبنیاد اور غیرمدلل پاتے ہیں۔ ذاتی رائے قائم کرنے کیلئے آپکو کھلے ذہن کیساتھ اناجیل کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ (اعمال ۱۷:۱۱) جب آپ یسوع کی شخصیت کی عکاسی کے سلسلے میں اناجیل کی یکسانیت، دیانت اور صداقت پر غور کرینگے تو آپ قائل ہو جائینگے کہ یہ قصےکہانیاں نہیں ہو سکتیں۔ *
اگر آپ بائبل کا بغور جائزہ لیں اور اسکی مشورت کا اطلاق کریں تو آپ دیکھیں گے کہ یہ آپکی زندگی کو بہتر بنا دے گی۔ (یوحنا ۶:۶۸) یہ بات بالخصوص اناجیل میں درج یسوع کے اقوالِزریں پر صادق آتی ہے۔ سب سے بڑھکر، آپ ان سے یہ سیکھ سکتے ہیں کہ فرمانبردار نوعِانسان کے لئے ایک شاندار مستقبل کا وعدہ کِیا گیا ہے۔—یوحنا ۳:۱۶؛ ۱۷:۳، ۱۷۔
[فٹنوٹ]
^ پیراگراف 29 دی بائبل—گاڈز ورڈز اَور مینز؟ بُک کے ۵ تا ۷ ابواب اور بروشر سب لوگوں کیلئے ایک کتاب کو دیکھئے۔ یہ دونوں مطبوعات واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ نے شائع کی ہیں۔
[صفحہ ۷ پر بکس]
مستند وقائعنگاری کا ثبوت
چند سال قبل آسٹریلیا کے ایک نامہنگار اور بائبل کے سابق نقاد نے اعتراف کِیا: ”زندگی میں پہلی مرتبہ مَیں نے وہ کام کِیا جو عموماً کسی بھی وقائعنگار کا اوّلین فرض ہوتا ہے: مَیں نے اپنے جمعکردہ حقائق کی جانچ کی . . . اور یہ دیکھ کر میری حیرت کی کچھ انتہا نہ رہی کہ [انجیلی سرگزشتوں] سے مَیں نے جوکچھ پڑھا وہ کسی بھی طرح افسانہ یا فطرتپسندانہ تخیل نہیں تھا۔ یہ وقائعنگاری تھی۔ یہ غیرمعمولی واقعات کے بِلاواسطہ اور بالواسطہ بیانات تھے . . . وقائعنگاری کا اپنا ایک معیار ہے جس پر اناجیل بِلاحیلوحجت پورا اُترتی ہیں۔“
اسی طرح، آؤکلینڈ یونیورسٹی میں قدیم یونانوروم کی اَدبیات کے پروفیسر ای. ایم. بلیکلوک نے وضاحت کی: ”مَیں ایک مؤرخ ہوں۔ اَدبیات کے سلسلے میں میرا نقطۂنظر بھی مؤرخانہ ہے۔ لہٰذا، مَیں آپ کو وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ مسیح کی زندگی، موت اور قیامت کا ثبوت قدیم تاریخ کے بیشتر حقائق کی نسبت زیادہ مستند ہے۔“
[صفحہ ۸، ۹ پر نقشہ/تصویریں]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
فینیکے
گلیل
دریائےیردن
یہودیہ
[تصویریں]
”مسیح کی زندگی، موت اور قیامت کا ثبوت قدیم تاریخ کے بیشتر حقائق کی نسبت زیادہ مستند ہے۔“ پروفیسر ای. ایم. بلیکلوک
[تصویر کا حوالہ]
Background maps: Based on a map copyrighted by Pictorial
.Archive )Near Eastern History( Est. and Survey of Israel