اناجیل—تنقید کا نشانہ
اناجیل—تنقید کا نشانہ
کیا یسوع مسیح کی پیدائش کی بابت اناجیل کے بیانات درست ہیں؟
کیا اُس نے پہاڑی وعظ پیش کِیا تھا؟
کیا یسوع واقعی جی اُٹھا تھا؟
کیا اُس نے واقعی یہ کہا تھا کہ ”راہ اور حق اور زندگی مَیں ہوں“؟—یوحنا ۱۴:۶۔
تقریباً ۸۰ علماء نے یسوع پر منعقد ہونے والے سیمینار میں اِس طرح کے معاملات پر بحث کی ہے جو ۱۹۸۵ سے سال میں دو مرتبہ منعقد ہوتا ہے۔ علماء کے اس گروہ نے ان سوالات کا عجیبوغریب طریقے سے جواب دیا۔ سیمینار کے شرکاء نے مختلف رنگوں کی پرچیوں کی مدد سے اناجیل میں یسوع سے منسوب
ہر بات پر اپنی رائے کا اظہار کِیا۔ لال رنگ کی پرچی اس خیال کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ بیان یقیناً یسوع ہی کا ہے۔ گلابی رنگ کی پرچی کا مطلب ہے کہ یہ بیان شاید یسوع کی کسی بات سے ملتاجلتا ہے۔ خاکستری رنگ کی پرچی سے مُراد ہے کہ اس بیان میں پائے جانے والے نظریات یسوع کی سوچ کے قریب تو ہیں مگر یہ بیان اُسکا نہیں ہے۔ کالے رنگ کی پرچی بالکل منفی مفہوم رکھتی ہے یعنی یہ بیان مابعدی روایات سے مشتق ہے۔اس طریقے سے یسوع پر منعقد ہونے والے سیمینار کے شرکاء نے مذکورہبالا چاروں سوالات کی تردید کر دی۔ دراصل، اُنہوں نے اناجیل میں یسوع سے منسوب ۸۲ فیصد باتوں کے سلسلے میں کالے رنگ کی پرچی ڈالی۔ اُنکے نزدیک، اناجیل اور دیگر تصانیف میں بیانکردہ یسوع سے متعلق صرف ۱۶ فیصد واقعات سچے ہیں۔
اناجیل پر ایسی تنقید کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہیمبرگ، جرمنی میں لسانیاتِمشرق کے پروفیسر، ہرمن رامائیر کی تحریرکردہ ۱۴۰۰ صفحات کی ایک دستاویز اُسکی موت کے بعد ۱۷۷۴ میں شائع ہوئی جس میں اناجیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس میں رامائیر نے اناجیل کی تاریخی حقیقت کے خلاف گہرے شکوک کا اظہار کِیا۔ اُسکے نتائج کی بنیاد لسانی تجزیہ اور یسوع کی زندگی کی بابت چار انجیلی سرگزشتوں میں پائے جانے والے مبیّنہ تضادات تھے۔ اُس وقت سے ناقدین نے اکثر اناجیل کی حقیقت کو مشکوک قرار دیا ہے جسکی وجہ سے کسی حد تک لوگوں کا ان کتابوں سے اعتماد ہی اُٹھ گیا ہے۔
یہ تمام علماء متفقہ طور پر ان انجیلی سرگزشتوں کو ایسا مذہبی تخیل سمجھتے ہیں جسے مختلف لوگوں نے فروغ دیا ہے۔ مُتشکِک علماء کی طرف سے اُٹھائے جانے والے عام سوال یہ ہیں: کیا ایسا ممکن ہے کہ اناجیلاربعہ کے مصنّفین کے اعتقادات حقائق پر اثرانداز ہوئے ہوں؟ کیا ابتدائی مسیحیوں کے سیاسی حالات نے اُنہیں یسوع کی سرگزشت میں کمیبیشی کرنے کی تحریک دی تھی؟ اناجیل کے کونسے حصے جھوٹ کی بجائے سچائی بیان کرتے ہیں؟
الحادی یا غیرمذہبی معاشرے میں پرورش پانے والے لوگوں کا یقین ہے کہ اناجیل سمیت پوری بائبل قصےکہانیوں پر مشتمل ہے۔ دیگر مسیحی دُنیا کی خونین، ظلموستم، لڑائیجھگڑوں سے پُر تاریخ اور بیدین طرزِزندگی سے دہشتزدہ ہیں۔ ایسے لوگوں کے نزدیک مسیحی دُنیا میں مُقدس سمجھی جانے والی کتابوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جن کتابوں نے اسقدر ریاکارانہ مذہب کو جنم دیا ہے اُن میں سوائے نِکمّی کہانیوں کے اَور کیا ہو سکتا ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ اناجیل کی تاریخی حقیقت کو مشکوک قرار دینے والے چند علماء کو اپنے ذہن میں ایسے ہی شکوک پیدا کرنے کی اجازت دینگے؟ جب آپ یہ سنتے ہیں کہ انجیلنویسوں نے منگھڑت کہانیوں سے کام لیا ہے تو کیا اس سے ان تحریروں پر آپکا اعتماد بھی ڈانوانڈول ہو جاتا ہے؟ کیا آپ کو مسیحی دُنیا کی بیدینی کے باعث اناجیل کی صحتوصداقت پر شک کرنا چاہئے؟ ہم آپ کو چند حقائق کا جائزہ لینے کی دعوت دیتے ہیں۔
[صفحہ ۴ پر تصویر]
اناجیل حقیقت ہیں یا افسانہ؟
[تصویر کا حوالہ]
Dover/The Doré Bible Illustrations/Jesus Walking on the Sea
Publications
[صفحہ ۳ پر تصویر کا حوالہ]
Background, pages 3-5 and 9: Courtesy of the Freer Gallery
.of Art, Smithsonian Institution, Washington, D.C