مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

‏”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر“‏

‏”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر“‏

‏”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر“‏

یہوواہ نے سموئیل نبی کو بتایا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ انسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِس لئےکہ انسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر [‏یہوواہ]‏ دل پر نظر کرتا ہے۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۶:‏۷‏)‏ نیز علامتی دل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے،‏ زبورنویس داؤد نے اپنے گیت میں یوں بیان کِیا:‏ ”‏تُو [‏یہوواہ]‏ نے میرے دل کو آزما لیا ہے۔‏ تُو نے رات کو میری نگرانی کی۔‏ تُو نے مجھے پرکھا اور کچھ کھوٹ نہ پایا۔‏“‏​—‏⁠زبور ۱۷:‏۳‏۔‏

جی‌ہاں،‏ یہوواہ ہماری شخصیت کو پرکھنے کے لئے ہمارے دل پر نگاہ کرتا ہے۔‏ (‏امثال ۱۷:‏۳‏)‏ پس معقول طور پر قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان یہ مشورت پیش کرتا ہے:‏ ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏ (‏امثال ۴:‏۲۳‏)‏ ہم اپنے علامتی دل کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟‏ امثال ۴ باب ہمیں اس سوال کا جواب دیتا ہے۔‏

باپ کی تربیت پر کان لگائیں

امثال کا چوتھا باب ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتا ہے:‏ ‏”‏اَے میرے بیٹو!‏ باپ کی تربیت پر کان لگاؤ اور فہم حاصل کرنے کے لئے توجہ کرو۔‏ کیونکہ مَیں تمکو اچھی تلقین کرتا ہوں۔‏ تم میری تعلیم کو ترک نہ کرنا۔‏“‏​‏—‏⁠امثال ۴:‏۱،‏ ۲‏۔‏

نوجوانوں کیلئے یہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے خداپرست والدین،‏ بالخصوص باپ کی پُختہ مشورت پر کان لگائیں۔‏ اپنے خاندان کی جسمانی اور روحانی ضروریات پورا کرنا اسکی صحیفائی ذمہ‌داری ہے۔‏ (‏استثنا ۶:‏۶،‏ ۷؛‏ ۱-‏تیمتھیس ۵:‏۸‏)‏ ایسی راہنمائی کے بغیر،‏ ایک نوجوان شخص کیلئے پختگی حاصل کرنا کتنا مشکل ہے!‏ لہٰذا کیا ایک بچے کو احترام کیساتھ اپنے والد کی تربیت کو قبول نہیں کرنا چاہئے؟‏

تاہم،‏ ایک ایسے نوجوان کی بابت کیا ہے جس کا باپ نہیں ہے جو اسے ہدایت دے؟‏ مثال کے طور پر گیارہ سالہ جاسن * ۴ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا۔‏ جب ایک مسیحی بزرگ نے اس سے پوچھا کہ اس کی زندگی کا سب سے پریشان‌کُن پہلو کونسا ہے تو اس نے فوراً جواب دیا:‏ ”‏مَیں باپ کی کمی محسوس کرتا ہوں۔‏ بعض‌اوقات مَیں اس بات سے بہت افسردہ ہو جاتا ہوں۔‏“‏ تاہم،‏ والدین کی ہدایت سے محروم نوجوانوں کیلئے تسلی‌بخش مشورت دستیاب ہے۔‏ جاسن اور اس کی طرح کے دیگر نوجوان مسیحی کلیسیا میں بزرگوں اور دیگر پُختہ اشخاص سے پدرانہ مشورت حاصل کر سکتے ہیں۔‏​—‏⁠یعقوب ۱:‏۲۷‏۔‏

اپنی تعلیم کی یاد تازہ کرتے ہوئے،‏ سلیمان بیان جاری رکھتا ہے:‏ ‏”‏مَیں بھی اپنے باپ کا بیٹا تھا اور اپنی ماں کی نگاہ میں نازک اور اکیلا لاڈلا۔‏“‏ ‏(‏امثال ۴:‏۳‏)‏ بادشاہ بدیہی طور پر اپنی پرورش کو بڑے شوق سے یاد کرتا ہے۔‏ پدرانہ مشورت کو سنجیدگی سے قبول کرنے والا ”‏اپنے باپ کا بیٹا،‏“‏ نوجوان سلیمان اپنے باپ داؤد کے ساتھ ایک پُرتپاک اور قریبی رشتہ رکھتا تھا۔‏ مزیدبرآں،‏ سلیمان،‏ ”‏اکیلا،‏“‏ یا لاڈلا تھا۔‏ ایک بچے کے لئے ایسے گھر میں پرورش پانا کتنا اہم ہے جہاں مشفقانہ اور کُھلے رابطے کی فضا پائی جاتی ہے!‏

حکمت اور فہم حاصل کریں

اپنے باپ کی مشفقانہ مشورت کو یاد کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏باپ نے مجھے سکھایا اور مجھ سے کہا میری باتیں تیرے دل میں رہیں۔‏ میرے فرمان بجا لا اور زندہ رہ۔‏ حکمت حاصل کر۔‏ فہم حاصل کر۔‏ بھولنا مت اور میرے مُنہ کی باتوں سے برگشتہ نہ ہونا۔‏ حکمت کو ترک نہ کرنا۔‏ وہ تیری حفاظت کرے گی۔‏ اُس سے محبت رکھنا۔‏ وہ تیری نگہبان ہوگی۔‏ حکمت افضل اصل ہے۔‏ پس حکمت حاصل کر۔‏ بلکہ اپنے تمام حاصلات سے فہم حاصل کر۔‏“‏​‏—‏⁠امثال ۴:‏۴-‏۷‏۔‏

حکمت ”‏افضل اصل“‏ کیوں ہے؟‏ حکمت کا مطلب علم‌وفہم کو ایسے طریقے سے کام میں لانا ہے جس سے اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں۔‏ علم​—‏⁠مشاہدےوتجربے یا پڑھائی‌ومطالعے سے حاصل ہونے والے حقائق سے شناسائی یا واقفیت​—‏⁠حکمت کی بنیاد ہے۔‏ لیکن اگر ہمارے پاس علم کا اچھا استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں ہے تو اس کی قدروقیمت بہت ہی کم ہوگی۔‏ ہمیں نہ صرف باقاعدگی سے بائبل اور ”‏دیانتدار اور عقلمند نوکر“‏ کی طرف سے فراہم‌کردہ بائبل پر مبنی مطبوعات پڑھنی چاہئیں بلکہ ان سے ہم جو کچھ سیکھتے ہیں اسکا اطلاق بھی کرنا چاہئے۔‏​—‏⁠متی ۲۴:‏۴۵‏۔‏

فہم حاصل کرنا بھی لازمی ہے۔‏ اس کے بغیر،‏ کیا ہم واقعی حقائق کے باہمی تعلق اور زیرِغور معاملے کی مکمل سمجھ حاصل کر سکتے ہیں؟‏ اگر ہم میں فہم کی کمی ہے تو ہم معاملات کی سمجھ اور بصیرت اور تمیز کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟‏ جی‌ہاں،‏ معاملے کی تہہ تک پہنچ کر درست نتیجہ اخذ کرنے کے قابل ہونے کے لئے ہمیں فہم کی ضرورت ہے۔‏​—‏⁠دانی‌ایل ۹:‏۲۲،‏ ۲۳‏۔‏

سلیمان یہ کہتے ہوئے اپنے باپ کی باتوں کو بیان کرنا جاری رکھتا ہے:‏ ‏”‏اُس [‏حکمت]‏ کی تعظیم کر۔‏ وہ تجھے سرفراز کریگی۔‏ جب تُو اُسے گلے لگائیگا وہ تجھے عزت بخشے گی۔‏ وہ تیرے سر پر زینت کا سہرا باندھے گی اور تجھ کو جمال کا تاج عطا کرے گی۔‏“‏ ‏(‏امثال ۴:‏۸،‏ ۹‏)‏ خدائی حکمت اس کی حفاظت کرتی ہے جو اسے قبول کرتا ہے۔‏ مزیدبرآں،‏ یہ اسے عزت اور زینت بخشتی ہے۔‏ پس،‏ آئیں حکمت حاصل کرنے کی حتی‌الوسع کوشش کریں۔‏

‏”‏تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ“‏

اپنے باپ کی تعلیم کو دہراتے ہوئے،‏ شاہِ‌اسرائیل آگے بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏اَے میرے بیٹے!‏ سُن اور میری باتوں کو قبول کر اور تیری زندگی کے دن بہت سے ہونگے۔‏ مَیں نے تجھے حکمت کی راہ بتائی ہے اور راہِ‌راست پر تیری راہنمائی کی ہے جب تُو چلیگا تیرے قدم کوتاہ نہ ہونگے اور اگر تُو دوڑے تو ٹھوکر نہ کھائیگا۔‏ تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔‏ اُسے جانے نہ دے۔‏ اُسکی حفاظت کر کیونکہ وہ تیری حیات ہے۔‏“‏​‏—‏⁠امثال ۴:‏۱۰-‏۱۳‏۔‏

اپنے باپ کا حقیقی بیٹا ہوتے ہوئے،‏ سلیمان نے سکھانے اور اصلاح کرنے والی مشفقانہ تربیت کی ضرور قدر کی ہوگی۔‏ متوازن تربیت کے بغیر،‏ ہم روحانی پختگی تک پہنچنے کی توقع اور اپنے معیارِزندگی کو بہتر بنانے کی اُمید کیسے کر سکتے ہیں؟‏ اگر ہم اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتے یا اگر ہم غلط نظریات کی اصلاح نہیں کرتے تو ہماری روحانی ترقی یقیناً برائےنام ہوگی۔‏ معقول تربیت خدائی چال‌چلن کا باعث ہوتی ہے اور یوں ”‏راہِ‌راست پر .‏ .‏ .‏ چلنے“‏ میں ہماری مدد کرتی ہے۔‏

ایک اَور طرح کی تربیت بھی ’‏عمر کی درازی‘‏ پر منتج ہوتی ہے۔‏ کیسے؟‏ یسوع مسیح نے کہا:‏ ”‏جو تھوڑے میں دیانتدار ہے وہ بہت میں بھی دیانتدار ہے اور جو تھوڑے میں بددیانت ہے وہ بہت میں بھی بددیانت ہے۔‏“‏ (‏لوقا ۱۶:‏۱۰‏)‏ کیا معمولی کاموں میں اپنی تربیت کرنا ہمارے لئے ایسے بڑے کاموں میں بھی اپنی تربیت کرنا آسان نہیں بنا دیتا جن پر ہماری زندگیوں کا انحصار ہو سکتا ہے؟‏ مثال کے طور پر اگر ہم اپنی آنکھ کی ’‏بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ‘‏ نہ کرنے کیلئے تربیت کرتے ہیں تو ہمارے لئے بداخلاقی کا شکار ہونے کا احتمال نہیں ہوگا۔‏ (‏متی ۵:‏۲۸‏)‏ قدرتی بات ہے کہ اس اصول کا اطلاق مردوزن دونوں پر ہوتا ہے۔‏ اگر ہم اپنے ذہنوں کی ’‏ہر ایک خیال کو قید کرنے‘‏ کیلئے تربیت کرتے ہیں تو ہمارے لئے اپنے قول‌وفعل میں سنگین خطا کرنے کا خدشہ بہت کم ہوگا۔‏​—‏⁠۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۵‏۔‏

یہ سچ ہے کہ تربیت کو قبول کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے اور یہ نہایت امتناعی معلوم ہو سکتی ہے۔‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۱۱‏)‏ تاہم،‏ دانشمند بادشاہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اگر ہم تربیت کو پکڑے رہتے ہیں تو ہم ترقی کی راہ پر گامزن رہینگے۔‏ جیسے موزوں تربیت ایک دوڑنے والے کو گِرے یا چوٹ لگے بغیر مستقل رفتار سے آگے بڑھنے دیتی ہے ویسے ہی تربیت کو پکڑے رہنا ہمیں ٹھوکر کھائے بغیر مناسب رفتار کیساتھ زندگی کی راہ پر گامزن رہنے میں مدد دیتی ہے۔‏ بیشک،‏ ہمیں اپنی راہ کا انتخاب کرتے وقت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔‏

‏”‏شریروں کے راستہ“‏ سے دُور رہیں

سلیمان سنگینی کو سمجھتے ہوئے خبردار کرتا ہے:‏ ‏”‏شریروں کے راستہ میں نہ جانا اور بُرے آدمیوں کی راہ میں نہ چلنا۔‏ اُس سے بچنا۔‏ اُسکے پاس سے نہ گذرنا۔‏ اُس سے مڑ کر آگے بڑھ جانا۔‏ کیونکہ وہ جب تک بُرائی نہ کر لیں سوتے نہیں۔‏ اور جب تک کسی کو گِرا نہ دیں اُنکی نیند جاتی رہتی ہے۔‏ کیونکہ وہ شرارت کی روٹی کھاتے اور ظلم کی مے پیتے ہیں۔‏“‏​‏—‏⁠امثال ۴:‏۱۴-‏۱۷‏۔‏

سلیمان ہمیں جن شریر لوگوں کے راستوں سے بچانا چاہتا ہے وہ اپنے بُرے کاموں کے سہارے زندہ رہتے ہیں۔‏ بُرے کام انکا کھانا پینا ہے۔‏ جبتک وہ مارپیٹ نہیں کر لیتے انہیں نیند نہیں آتی۔‏ وہ نہایت ہی بدذات ہیں!‏ کیا ہم ان کیساتھ میل‌جول رکھنے کیساتھ ساتھ واقعی اپنے دلوں کی حفاظت کر سکتے ہیں؟‏ آجکل تشدد کو نمایاں کرنے والی تفریح میں اُلجھ کر ”‏بُرے آدمیوں کی راہ میں .‏ .‏ .‏ چلنا“‏ کسقدر بیوقوفی ہے!‏ ٹیلی‌ویژن اور فلموں میں بےحس کر دینے والے شرانگیز مناظر کو مسلسل دیکھتے رہنے کی صورت میں شفیق اور دردمند بننے کی ہماری کوشش بیفائدہ ہوگی۔‏

روشنی میں رہیں

راہ کی پھر تمثیل استعمال کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے:‏ ‏”‏لیکن صادقوں کی راہ نُورِسحر کی مانند ہے جسکی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۴:‏۱۸‏)‏ بائبل مطالعے کا آغاز اور اسکی بیان‌کردہ باتوں کا اپنی زندگی میں اطلاق کرنا صبح کے دھندلکے میں سفر شروع کرنے کے مترادف ہو سکتا ہے۔‏ جب رات کا اندھیرا نیلگوں سحر کی شکل اختیار کرتا ہے تو کسی بھی چیز کو دیکھنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔‏ لیکن جب رفتہ‌رفتہ پَو پھٹتی ہے تو ہم اپنے اِردگِرد کی چیزوں کو پہچاننے لگتے ہیں۔‏ آخرکار جب سورج پوری آب‌وتاب سے چمکتا ہے تو ہمیں تمام چیزیں صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔‏ جی‌ہاں،‏ جب ہم صبر اور مستعدی کے ساتھ صحائف کا مطالعہ جاری رکھتے ہیں تو سچائی بتدریج ہم پر آشکارا ہوتی جاتی ہے۔‏ اگر ہمیں جھوٹے استدلال سے محفوظ رہنا ہے تو روحانی خوراک دل تک پہنچانا لازمی ہے۔‏

بائبل پیشینگوئیوں کے مطلب یا اہمیت کا بھی بتدریج انکشاف ہوتا ہے۔‏ جب یہوواہ کی پاک روح ان پر روشنی ڈالتی ہے اور یہ عالمی واقعات یا خدا کے لوگوں کے تجربات کی صورت میں پایۂ‌تکمیل کو پہنچتی ہیں تو یہ پیشینگوئیاں اَور زیادہ واضح ہو جاتی ہیں۔‏ انکی تکمیل کی بابت بےصبری سے قیاس‌آرائیاں کرنے کی بجائے ہمیں ’‏روشنی کے بتدریج بڑھنے‘‏ کے منتظر رہنے کی ضرورت ہے۔‏

لیکن جو لوگ روشنی میں چلنے سے انکار کرکے خدائی راہنمائی کو رد کر دیتے ہیں اُن کی بابت کیا ہے؟‏ ‏”‏شریروں کی راہ تاریکی کی مانند ہے،‏“‏ سلیمان بیان کرتا ہے۔‏ ‏”‏وہ نہیں جانتے کہ کن چیزوں سے اُن کو ٹھوکر لگتی ہے۔‏“‏ ‏(‏امثال ۴:‏۱۹‏)‏ شریر آدمی اس شخص کی مانند ہے جو یہ بات جانے بغیر اندھیرے میں ٹھوکر کھاتا ہے کہ اسے کس چیز سے ٹھوکر لگی ہے۔‏ جب بےدین لوگ اپنی ناراستی کی وجہ سے خوشحال دکھائی دیتے ہیں تو اُن کی یہ خوشحالی محض عارضی ہوتی ہے۔‏ ایسے لوگوں کے متعلق،‏ زبورنویس نے اپنے گیت میں یوں بیان کِیا:‏ ”‏یقیناً تُو [‏یہوواہ]‏ اُن کو پھسلنی جگہوں میں رکھتا ہے اور ہلاکت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔‏“‏​—‏⁠زبور ۷۳:‏۱۸‏۔‏

مستعدی برقرار رکھیں

شاہِ‌اسرائیل بیان جاری رکھتا ہے:‏ ‏”‏اَے میرے بیٹے!‏ میری باتوں پر توجہ کر۔‏ میرے کلام پر کان لگا۔‏ اُسکو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دے۔‏ اُسکو اپنے دل میں رکھ۔‏ کیونکہ جو اِسکو پا لیتے ہیں یہ اُنکی حیات اور اُنکے سارے جسم کی صحت ہے۔‏ اپنے دل کی خوب حفاظت کر کیونکہ زندگی کا سرچشمہ وہی ہے۔‏“‏​‏—‏⁠امثال ۴:‏۲۰-‏۲۳‏۔‏

سلیمان کی اپنی مثال دل کی حفاظت کرنے کی قدروقیمت کی تصدیق کرتی ہے۔‏ سچ ہے کہ اس نے اپنی جوانی میں خود کو اپنے باپ کا حقیقی ”‏بیٹا“‏ ثابت کِیا اور اپنے سنِ‌بلوغت میں یہوواہ کا وفادار رہا۔‏ تاہم،‏ بائبل بیان کرتی ہے:‏ ”‏جب سلیماؔن بڈھا ہو گیا تو اُس کی [‏غیرقوم]‏ بیویوں نے اُس کے دل کو غیرمعبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا دل [‏یہوواہ]‏ اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا جیسا اُس کے باپ داؔؤد کا دل تھا۔‏“‏ (‏۱-‏سلاطین ۱۱:‏۴‏)‏ مسلسل مستعدی کے بغیر تو اچھے سے اچھا دل بھی بُرائی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔‏ (‏یرمیاہ ۱۷:‏۹‏)‏ ہمیں خدا کے کلام کی یاددہانیوں کو اپنے دل میں رکھنا چاہئے۔‏ اس میں امثال ۴ باب میں فراہم کی جانے والی راہنمائی بھی شامل ہے۔‏

اپنے دل کی حالت کو جانچیں

کیا ہم اپنے علامتی دل کی کامیابی سے حفاظت کر رہے ہیں؟‏ ہم باطنی شخص کی حالت کو کیسے جان سکتے ہیں؟‏ یسوع مسیح نے بیان کِیا:‏ ”‏جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔‏“‏ (‏متی ۱۲:‏۳۴‏)‏ اس نے یہ بھی بیان کِیا:‏ ”‏بُرے خیال۔‏ خونریزیاں۔‏ زناکاریاں۔‏ حرامکاریاں۔‏ چوریاں۔‏ جھوٹی گواہیاں۔‏ بدگوئیاں دل ہی سے نکلتی ہیں۔‏“‏ (‏متی ۱۵:‏۱۹،‏ ۲۰‏)‏ جی‌ہاں،‏ ہمارے قول‌وفعل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے دل میں کیا بھرا ہے۔‏

موزوں طور پر،‏ سلیمان ہمیں نصیحت کرتا ہے:‏ ‏”‏کجگو مُنہ تجھ سے الگ رہے۔‏ دروغگو لب تجھ سے دُور ہوں۔‏ تیری آنکھیں سامنے ہی نظر کریں اور تیری پلکیں سیدھی رہیں۔‏ اپنے پاؤں کے راستہ کو ہموار بنا اور تیری سب راہیں قائم رہیں۔‏ نہ دہنے مڑ نہ بائیں اور پاؤں کو بدی سے ہٹا لے۔‏“‏​‏—‏⁠امثال ۴:‏۲۴-‏۲۷‏۔‏

سلیمان کی فہمائش کے پیشِ‌نظر،‏ ہمیں اپنے قول‌وفعل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔‏ اگر ہمیں اپنے دل کی حفاظت کرنی اور خدا کو خوش کرنا ہے تو کجروی اور مکاری کی باتوں سے بچنا ہوگا۔‏ (‏امثال ۳:‏۳۲‏)‏ لہٰذا،‏ ہمارے قول‌وفعل ہماری بابت کیا ظاہر کرتے ہیں ہمیں اسکی بابت دُعائیہ غوروخوض کرنا چاہئے۔‏ پس آئیے یہوواہ کی مدد کے طلبگار ہوں تاکہ اگر ہمیں کوئی بھی کمزوری دکھائی دے تو ہم اسکی اصلاح کر سکیں۔‏​—‏⁠زبور ۱۳۹:‏۲۳،‏ ۲۴‏۔‏

سب سے بڑھکر،‏ ’‏ہماری آنکھیں سیدھی رہیں۔‏‘‏ آئیے انہیں اپنے آسمانی باپ کی دل‌وجان سے خدمت بجا لانے کے نصب‌اُلعین پر مرتکز رکھیں۔‏ (‏کلسیوں ۳:‏۲۳‏)‏ جب آپ ذاتی طور پر ایسی درست روش پر چلتے ہیں تو دُعا ہے کہ یہوواہ آپکو آپ کی ”‏سب راہوں“‏ میں کامیاب کرے اور ”‏اپنے دل کی خوب حفاظت“‏ کرنے کی الہامی مشورت پر دھیان دینے کیلئے کثرت سے برکت دے۔‏

‏[‏فٹ‌نوٹ]‏

^ پیراگراف 7 اس کا اصلی نام نہیں۔‏

‏[‏صفحہ ۲۲ پر عبارت]‏

کیا آپ تشدد کو نمایاں کرنے والی تفریح سے گریز کرتے ہیں؟‏

‏[‏صفحہ ۲۱ پر تصویر]‏

تجربہ‌کار اشخاص کی مشورت سے فائدہ اُٹھائیں

‏[‏صفحہ ۲۳ پر تصویر]‏

تربیت آپ کی ترقی کی رفتار کو کم نہیں کرتی

‏[‏صفحہ ۲۴ پر تصویر]‏

بائبل کے مطالعہ میں مستقل‌مزاجی اختیار کریں