مجھے شرمیلےپن پر قابو پانے میں مدد ملی
میری کہانی میری زبانی
مجھے شرمیلےپن پر قابو پانے میں مدد ملی
از روت ایل. ایلرک
مَیں ایک پادری کے گھر کے دروازے پر دلبرداشتہ ہو کر رونے لگی۔ اس نے واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کے پہلے صدر چارلس ٹی. رسل پر کئی جھوٹے الزام لگائے تھے۔ آئیے مَیں آپ کو بتاؤں کہ مَیں نے اپنی جوانی میں ہی لوگوں کے گھروں میں اسطرح کیوں جانا شروع کر دیا۔
مَیں نے نبراسکا، یو.ایس.اے. میں ایک فارم پر ۱۹۱۰ میں ایک کٹر مذہبی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ہمارا خاندان ہر صبح اور شام کھانے کے بعد ملکر بائبل پڑھتا تھا۔ میرے والد ہمارے فارم سے تقریباً چھ کلومیٹر دُور وِنسائیڈ کے چھوٹے سے قصبے میں، میتھوڈسٹ چرچ کے سنڈے سکول کے نگران تھے۔ ہمارے پاس ایک بگھی تھی جس کی کھڑکیوں پر پردے لگے ہوئے تھے تاکہ ہم شدید سردی کے باوجود اتوار کی صبح چرچ جا سکیں۔
جب مَیں تقریباً آٹھ سال کی تھی تو میرے چھوٹے بھائی کو پولیو ہو گیا اور امی اسے علاج کیلئے قریبی ریاست لووا کے ہسپتال میں لے گئیں۔ راتدن کی نگہداشت کے باوجود، میرا بھائی وہیں فوت ہو گیا۔ تاہم، اسی دوران، لووا میں امی کی ملاقات ایک بائبل سٹوڈنٹس—یہوواہ کے گواہ اُس وقت اسی نام سے پہچانے جاتے تھے—سے ہوئی۔ انکی کئی بار گفتگو ہوئی اور امی اس خاتون کیساتھ بائبل سٹوڈنٹس کے چند اجلاسوں پر بھی گئیں۔
جب امی گھر واپس آئیں تو اپنے ساتھ واچ ٹاور سوسائٹی کی شائعکردہ سٹڈیز ان دی سکرپچرز کی کئی جِلدیں لے آئیں۔ اُنہوں نے جلد ہی اس بات کو پہچان لیا کہ بائبل سٹوڈنٹس کی تعلیم سچی ہے اور انسانی جان کی غیرفانیت اور شریروں کے ابدی عذاب کی تعلیم جھوٹی ہے۔—پیدایش ۲:۷؛ واعظ ۹:۵، ۱۰؛ حزقیایل ۱۸:۴۔
تاہم، میرے والد اس سے نہایت برہم تھے اور امی کو بائبل سٹوڈنٹس کے اجلاسوں پر حاضر ہونے سے منع کرتے تھے۔ وہ مجھے اور میرے بڑے بھائی کلارنس کو باقاعدگی سے چرچ لیجاتے رہے۔ لیکن میرے والد کی غیرموجودگی
میں، امی ہمارے ساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا کرتی تھیں۔ اسطرح، ہم بچوں کو بائبل سٹوڈنٹس اور اپنے چرچ کی تعلیمات کا موازنہ کرنے کا اچھا موقع مِل جاتا تھا۔کلارنس اور مَیں باقاعدگی سے سنڈے سکول جاتے تھے اور وہ اکثر اپنی اُستانی سے ایسے سوال پوچھتا جنکا وہ جواب نہیں دے پاتی تھی۔ گھر واپس آکر ہم سب کچھ اپنی امی کو بتاتے اور یوں ان موضوعات پر کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہتی۔ آخرکار، مَیں نے چرچ جانا چھوڑ دیا اور امی کیساتھ بائبل سٹوڈنٹس کے اجلاسوں پر حاضر ہونا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر بعد کلارنس بھی ہمارے ساتھ جانے لگا۔
شرمیلےپن پر قابو پانا
امی اور مَیں ستمبر ۱۹۲۲ میں، سیدر پوائنٹ اوہائیو میں بائبل سٹوڈنٹس کے یادگار کنونشن پر حاضر ہوئیں۔ وہ بہت بڑا بینر ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے جس پر ۰۰۰،۱۸ سے زائد حاضرین کے نام واچ ٹاور سوسائٹی کے اُس وقت کے صدر جوزف ایف. رتھرفورڈ کا یہ پیغام درج تھا: ”بادشاہ اور بادشاہت کا اشتہار دو۔“ مَیں اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئی اور دوسروں کو خدا کی بادشاہتی خوشخبری سنانے کی فوری ضرورت کو محسوس کِیا۔—متی ۶:۹، ۱۰؛ ۲۴:۱۴۔
سن ۱۹۲۲ سے لیکر ۱۹۲۸ میں منعقد ہونے والے کنونشنوں پر، سلسلہوار قراردادیں منظور کی گئیں اور بعدازاں ان پیغامات کو اشتہارات کی شکل میں شائع کِیا گیا جنہیں بائبل سٹوڈنٹس نے ساری دُنیا میں لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کِیا۔ اپنے دُبلےپن اور پھرتی کی بدولت مَیں نے بھی ان طبعشُدہ پیغامات کو جلد ہی گھرگھر تقسیم کر دیا۔ مجھے اس کام میں واقعی بڑا لطف آیا۔ تاہم، ذاتی طور پر لوگوں کے گھروں میں جا کر اُنہیں خدا کی بادشاہت کی بابت بتانا ایک فرق بات تھی۔
دراصل، مَیں اتنی شرمیلی تھی کہ ہر سال جب امی اپنے بہت سارے رشتہداروں کو گھر میں مدعو کرتیں تو مَیں اُنکے سامنے جانے سے بھی گھبراتی تھی۔ مَیں اپنے بیڈروم میں ہی بیٹھی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ، جب امی سارے خاندان کی تصویر لینا چاہتی تھیں تو انہوں نے مجھے باہر بلایا۔ مَیں ان میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی اسلئے جب انہوں نے مجھے میرے کمرے سے گھسیٹ کر باہر نکالا تو مَیں رو پڑی۔
تاہم، ایک دن مَیں نے پُرعزم ہو کر بیگ میں کچھ بائبل لٹریچر ڈالا۔ میرے دل میں باربار یہی آ رہا تھا کہ ”یہ کام میرے لئے ناممکن ہے“ مگر اگلے ہی لمحے میں خود کو یہ کہہ کر سمجھاتی کہ ”مجھے ہر حال میں یہ کام کرنا ہے۔“
آخرکار، مَیں منادی کیلئے نکل پڑی۔ مَیں اسی بات سے خوش تھی کہ کمازکم مَیں نے اس کام کے لئے گھر سے نکلنے کی ہمت تو کی۔ اگرچہ مَیں بہت گھبرائی ہوئی تھی توبھی، کام مکمل کر لینے کے بعد میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ تقریباً اسی وقت میری ملاقات متذکرہبالا پادری سے ہوئی جس کے گھر سے مَیں روتی ہوئی چلی آئی تھی۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ مَیں یہوواہ کی مدد سے لوگوں کے گھروں میں جا کر اُن سے گفتگو کرنے کے قابل ہو گئی جس نے میری خوشی کو دوبالا کر دیا۔ لہٰذا، مَیں نے ۱۹۲۵ میں، یہوواہ کے حضور اپنی مخصوصیت کی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیا۔کُلوقتی خدمتگزاری کا آغاز
جب مَیں ۱۸ سال کی ہوئی تو مَیں نے اپنی خالہ سے ورثے میں ملے ہوئے پیسوں سے ایک کار خرید کر کُلوقتی پائنیر خدمت شروع کر دی۔ مَیں نے دو سال بعد، ۱۹۳۰ میں ایک اَور پائنیر کیساتھ ملکر منادی کی ایک تفویض قبول کر لی۔ اس وقت تک کلارنس بھی پائنیر خدمت شروع کر چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس نے بروکلن، نیو یارک میں یہوواہ کے گواہوں کے عالمی ہیڈکوارٹر، بیتایل میں خدمت کرنے کی دعوت قبول کر لی۔
اسی دوران ہمارے والدین میں علیٰحدگی ہو گئی، لہٰذا امی اور مَیں نے ملکر ٹریلر گاڑی والا گھر بنایا اور پائنیر خدمت شروع کر دی۔ یہ ریاستہائےمتحدہ میں بڑی کسادبازاری کا دَور تھا۔ پائنیر خدمت جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا مگر ہم نے بھی اسے ترک نہ کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔ ہم بائبل لٹریچر کے عوض مرغیاں، انڈے، سبزیاں، پُرانی بیٹریاں اور ناکارہ ایلومینیم لے لیتے تھے۔ پُرانی بیٹریوں اور ایلومینیم کو فروخت کرنے سے ہم کار کیلئے پیٹرول خریدنے کے علاوہ دیگر اخراجات بھی پورے کر لیتے تھے۔ مَیں نے پیسے بچانے کیلئے کار کو گریس دینا اور تیل بدلی کرنا بھی سیکھ لیا۔ یہوواہ نے اپنے وعدے کے مطابق ہر مشکل پر غالب آنے میں ہماری مدد کی۔—متی ۶:۳۳۔
مشنری تفویضات کیلئے روانگی
مجھے سن ۱۹۴۶ میں، ساؤتھ لانسنگ، نیو یارک کے قریب واقع واچٹاور بائبل سکول آف گلئیڈ کی ساتویں کلاس میں حاضر ہونے کی دعوت دی گئی۔ اس وقت تک مجھے اور امی کو پائنیر خدمت کرتے ہوئے ۱۵ سال سے زائد عرصہ ہو گیا تھا لیکن پھربھی، وہ میرے لئے مشنری خدمت کی تربیت حاصل کرنے کی راہ میں رکاوٹ بننا نہیں چاہتی تھیں۔ لہٰذا، انہوں نے گلئیڈ سکول میں حاضر ہونے کے شرف کو قبول کرنے کیلئے میری حوصلہافزائی کی۔ فارغالتحصیل ہونے کے بعد پیریہ، الینوئز کی رہنے والی مارتھا ہس میری ساتھی بنی۔ بیرونِملک تفویض کے انتظار کے دوران ہمیں دیگر دو ساتھیوں کیساتھ، ایک سال کیلئے کلیولینڈ، اوہائیو تعینات کِیا گیا۔
یہ تفویض ۱۹۴۷ میں حاصل ہوئی۔ مجھے اور مارتھا کو ہوائی تعینات کِیا گیا۔ چونکہ ان جزائر میں مستقل رہائش کی اجازت بآسانی مل جاتی تھی اس لئے امی بھی ہونولولو کے شہر میں ہمارے قریب آ کر رہنے لگیں۔ امی کی صحت خراب رہنے کی وجہ سے، مَیں اپنی مشنری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اُن کی دیکھبھال بھی کرتی تھی۔ مَیں ۱۹۵۶ میں، ہوائی میں، ۷۷ سال کی عمر میں اپنی امی کی وفات تک اُنکی دیکھبھال کرتی رہی۔ جب ہم ہوائی آئے تھے تو اس وقت یہاں ۱۳۰ گواہ تھے لیکن امی کی وفات تک یہاں گواہوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو گئی تھی اسلئے یہاں مشنریوں کی اب کوئی ضرورت نہیں تھی۔
اس کے بعد مجھے اور مارتھا کو واچ ٹاور سوسائٹی کی طرف سے ایک خط موصول ہؤا جس میں ہمیں جاپان کے لئے تفویض کی پیشکش کی گئی تھی۔ ہماری پہلی فکر یہ تھی کہ آیا اس عمر میں ہم جاپانی زبان سیکھ پائینگی۔ میری عمر ۴۸ سال تھی اور مارتھا مجھ سے صرف چار سال چھوٹی تھی۔ تاہم، ہم نے اس معاملے کو یہوواہ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور تفویض قبول کر لی۔
نیو یارک شہر کے یانکی سٹیڈیم اور پولو گراؤنڈز میں ۱۹۵۸ کے بینالاقوامی کنونشن کے فوراً بعد، ہم بحری جہاز سے ٹوکیو روانہ ہو گئیں۔ یوکوہاما کی بندرگاہ کے نزدیک، ہمیں سمندری طوفان کا بھی تجربہ ہوا اور یہیں ہماری ملاقات ڈان اور
میبل ہاسلیٹ، لائیڈ اور میلبا بیری اور دیگر مشنریوں سے ہوئی۔ اس وقت جاپان میں صرف ۱۲۴،۱ گواہ تھے۔ہم نے فوراً ہی جاپانی زبان کا مطالعہ اور گھربہگھر کی خدمتگزاری میں شرکت کرنا شروع کر دیا۔ ہم نے اپنی جاپانی پیشکش کو انگریزی حروفِتہجی میں لکھ لیا جسے ہم آسانی سے پڑھ سکتی تھیں۔ لوگ اکثر جواب میں کہتے، ”یوروشئی دیسو“ یا ”کیکو دیسو“ جنکا مطلب ہے، ”یہ ٹھیک ہے“ یا ”یہ اچھا ہے۔“ لیکن ہم کبھی بھی لوگوں کی دلچسپی کا تعیّن نہیں کر پاتی تھیں کیونکہ ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے بھی یہی الفاظ استعمال کئے جاتے تھے۔ صحیح مطلب کا انحصار کسی شخص کے لہجے یا چہرے کے تاثرات پر ہوتا تھا۔ انہیں سمجھنے میں ہمیں کافی وقت لگا۔
میرے دل کو گرما دینے والے تجربات
مَیں ابھی تک زبان سیکھ نہیں پائی تھی لیکن اسکے باوجود، ایک دن مَیں متسوبشی کے رہائشی علاقے میں گئی جہاں میری ملاقات ایک ۲۰سالہ خاتون سے ہوئی۔ اس نے بہت جلد بائبل کا علم سیکھ کر ۱۹۶۶ میں بپتسمہ لے لیا۔ ایک سال بعد اس نے پائنیر خدمت شروع کر دی اور جلد ہی اسے سپیشل پائنیر بنا دیا گیا۔ اس وقت سے وہ اپنی اس خدمت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اُس نے اپنی جوانی سے لیکر اب تک کُلوقتی خدمت کیلئے جس جذبے کیساتھ اپنا وقت اور توانائی صرف کی ہے اُس سے ہمیشہ میری حوصلہافزائی ہوئی ہے۔
غیرمسیحی معاشرے میں رہنے والے لوگوں کیلئے بائبل سچائی کی حمایت کرنا بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ تاہم، ہزاروں لوگوں نے اس مسئلے پر قابو پایا ہے جن میں میرے بائبل مطالعے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے گھروں سے بدھمت اور شنتومت کی الطاروں کو ہٹا دیا ہے حالانکہ جاپان میں انہیں گھروں میں رکھنے کا بڑا رواج ہے۔ نئے اشخاص کیلئے ایسا کرنا بڑی حوصلے کی بات ہوتی ہے کیونکہ بعضاوقات رشتےدار ایسے کاموں کو نامناسب طور پر مُتوَفّی آباؤاجداد کی بےحُرمتی قرار دیتے ہیں۔ انکے جرأتمندانہ کام اُن ابتدائی مسیحیوں کی یاد اعمال ۱۹:۱۸-۲۰۔
دلاتے ہیں جنہوں نے جھوٹی پرستش سے تعلق رکھنے والی چیزیں تلف کر دی تھیں۔—مجھے یاد ہے کہ مَیں ایک خانہدار بیوی کیساتھ مطالعہ کرتی تھی جو اپنے خاندان کو لیکر ٹوکیو سے کسی دوسرے شہر میں منتقل ہونا چاہتی تھی۔ وہ نئے گھر میں منتقل ہونا چاہتی تھی جو بُتپرستانہ چیزوں سے بالکل پاک ہو۔ اس نے اپنے شوہر کو اپنی خواہشات سے آگاہ کِیا اور اس نے بخوشی تعاون کِیا۔ اس نے خوشی کیساتھ مجھے اسکی بابت بتایا لیکن پھر اسے یاد آیا کہ اس نے تو ماربل کا ایک بڑا اور مہنگا گلدان بھی پیک کر لیا ہے جو اس نے یہ سن کر خریدا تھا کہ اس کے گھر میں ہونے سے گھر میں خوشی آتی ہے۔ اُسے چونکہ شک ہو گیا کہ یہ بھی جھوٹی پرستش سے منسلک ہے اسلئے اس نے اس گلدان کو ہتھوڑی سے توڑ کر پھینک دیا۔
اس عورت اور دیگر لوگوں کو خوشی کے ساتھ جھوٹی پرستش سے تعلق رکھنے والی مہنگی چیزوں کو اپنے گھروں سے دُور کرکے یہوواہ کی خدمت میں نئی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے دیکھنا میرے لئے انتہائی بااجر، تسکینبخش تجربہ ثابت ہوا ہے۔ مَیں ہر وقت یہوواہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مَیں جاپان میں ۴۰ سے بھی زیادہ سالوں تک مشنری خدمت انجام دینے کے قابل ہوئی ہوں۔
زمانۂجدید کے ”معجزات“
جب مَیں ۷۰ سے بھی زیادہ برسوں پر محیط اپنی کُلوقتی خدمت پر نگاہ ڈالتی ہوں تو یہ مجھے زمانۂجدید کے کسی بھی معجزے سے کم دکھائی نہیں دیتے۔ ایک شرمیلی نوجوان لڑکی کے طور پر، مَیں نے یہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مَیں اپنی ساری زندگی لوگوں کے پاس بادشاہتی پیغام لیکر جانے میں صرف کر دونگی جسے بیشتر تو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ پھربھی، مَیں نہ صرف خود اس کام میں کامیاب ہوئی ہوں بلکہ مَیں نے اگر ہزاروں کو نہیں تو سینکڑوں کو ایسی ہی کامیابی حاصل کرتے ضرور دیکھا ہے۔ نیز وہ اس کام میں اسقدر اثرآفرین ثابت ہوئے ہیں کہ جب مَیں ۱۹۵۸ میں جاپان آئی تھی تو اس وقت یہاں ایک ہزار سے کچھ ہی زیادہ گواہ تھے مگر آجکل یہ تعداد ۰۰۰،۲۲،۲ سے زیادہ ہو گئی ہے!
جب مارتھا اور مَیں شروع میں جاپان آئیں تو ہمیں ٹوکیو برانچ آفس میں رکھا گیا۔ سن ۱۹۶۳ میں ایک چھ منزلہ برانچ عمارت اس مقام پر تعمیر کی
گئی اور ہم اس وقت سے اسی میں رہ رہی ہیں۔ نومبر ۱۹۶۳ میں اس عمارت کی مخصوصیت کے موقع پر ہمارے برانچ اوورسیئر، لائیڈ بیری کی تقریر پر حاضر ۱۶۳ لوگوں میں ہم بھی شامل تھیں۔ اُس وقت جاپان میں گواہوں کی تعداد ۰۰۰،۳ تک پہنچ چکی تھی۔بادشاہتی منادی کے کام کو اتنی تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھنا ہمارے لئے نہایت مسرتبخش ثابت ہوا ہے، ۱۹۷۲ میں جب ہماری تعداد ۰۰۰،۱۴ ہو گئی تو نومازو کے شہر میں برانچ کیلئے ایک بڑی عمارت تعمیر کی گئی۔ لیکن ۱۹۸۲ تک جاپان میں بادشاہتی پبلشروں کی تعداد ۰۰۰،۶۸ سے بھی زائد ہو گئی جسکی وجہ سے ٹوکیو سے کوئی ۸۰ کلومیٹر دُور ابینا کے شہر میں پہلے سے کہیں بڑی برانچ عمارت تعمیر کی گئی۔
اسی دوران، ٹوکیو کے وسط میں برانچ عمارت کو ازسرِنو تعمیر کِیا گیا۔ بعدازاں، اسے مشنری ہوم بنا دیا گیا جہاں جاپان میں ۴۰ یا ۵۰ یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے خدمت انجام دینے والے ۲۰ سے زائد مشنری آکر رہنے لگے جن میں مَیں اور میری پُرانی ساتھی مارتھا ہس بھی شامل تھیں۔ ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر اور اس کی نرس بیوی بھی رہتے ہیں۔ وہ بڑی شفقت کے ساتھ ہماری صحت کا خیال رکھتے ہیں۔ حال ہی میں، سٹاف میں ایک اَور نرس کا اضافہ کِیا گیا ہے اور مسیحی بہنیں دن کے دوران نرس کی مدد کے لئے آتی ہیں۔ ابینا سے بیتایل خاندان کے دو رُکن باری باری کھانا پکانے اور گھر صاف کرنے کے لئے آتے ہیں۔ واقعی، یہوواہ نے ہمارے ساتھ بہت بھلائی کی ہے۔—زبور ۳۴:۸، ۱۰۔
طویل عرصے سے خدمت کرنے والے ہم مشنری جس عمارت میں اب رہتے ہیں اسکی مخصوصیت کے ۳۶ سال بعد، پچھلے نومبر میں میری مشنری زندگی میں ایک بہت خاص بات رُونما ہوئی۔ نومبر ۱۳، ۱۹۹۹ کو مَیں ۳۷ ممالک سے آنے والے سینکڑوں پُرانے گواہوں سمیت، ابینا میں واچ ٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی کی جاپان برانچ کی توسیعی عمارات کی مخصوصیت پر حاضر ہونے والے ۴۸۶،۴ لوگوں میں شامل تھی۔ اس وقت برانچ خاندان میں تقریباً ۶۵۰ لوگ ہیں۔
جب مَیں نے ڈرتے ڈرتے گھربہگھر بائبل کا پیغام سنانا شروع کِیا تب سے لیکر اب تک تقریباً ۸۰ سال کے دوران یہوواہ مجھے تقویت دیتا رہا ہے۔ اس نے میرے شرمیلےپن پر غالب آنے میں میری مدد کی ہے۔ میرا پُختہ یقین ہے کہ یہوواہ اپنے اوپر بھروسا رکھنے والے کسی بھی شخص کو یہانتک کہ میری طرح کے انتہائی شرمیلے اشخاص کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔ مَیں نے اپنے خدا یہوواہ کی بابت اجنبیوں سے بات کرنے میں نہایت اطمینانبخش زندگی کا تجربہ کِیا ہے!
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
امی اور کلارنس کیساتھ جو بیتایل سے ہمیں ملنے کیلئے آیا ہوا تھا
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
ہماری کلاس کے ارکان ساؤتھ لانسنگ، نیو یارک کے قریب گلئیڈ سکول کے باغیچے میں مطالعہ کرتے ہوئے
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
بائیں: ہوائی میں مَیں، مارتھا ہس اور میری امی
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
دائیں: ہمارے ٹوکیو مشنری ہوم کے ارکان
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
نیچے: اپنی پُرانی ساتھی مارتھا ہس کیساتھ
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
ابینا میں ہماری بڑی برانچ عمارتوں کی گزشتہ نومبر میں مخصوصیت ہوئی