مواد فوراً دِکھائیں

مضامین کی فہرست فوراً دِکھائیں

اختیار والوں کی عزت کریں

اختیار والوں کی عزت کریں

اختیار والوں کی عزت کریں

‏”‏سب کی عزت کرو۔‏ برادری سے محبت رکھو۔‏ خدا سے ڈرو۔‏ بادشاہ کی عزت کرو۔‏“‏—‏۱-‏پطرس ۲:‏۱۷‏۔‏

۱،‏ ۲.‏ آجکل اختیار کی بابت لوگوں کا نظریہ کیا ہے؟‏ کیوں؟‏

‏”‏بچوں کو تمام حقوق حاصل ہیں۔‏ والدین کا بالکل احترام نہیں کِیا جاتا،‏“‏ ایک ماں کچھ یوں اظہارِافسوس کرتی ہے۔‏ ایک بہت بڑے سٹیکر پر لکھا ہوا تھا کہ ”‏اختیار کو للکارو۔‏“‏ یہ دو اظہارات آپکو آجکل مروّجہ رُجحان سے آگاہ کرتے ہیں۔‏ والدین،‏ اساتذہ،‏ آجروں اور حکومتی اہلکاروں کیلئے احترام کی کمی ساری دُنیا میں عام ہے۔‏

۲ بعض شاید کندھے اُچکاتے ہوئے کہیں کہ ’‏بااختیار اشخاص کسی طرح کی عزت کے لائق ہی نہیں ہیں۔‏‘‏ اکثراوقات،‏ اس حقیقت سے مُنہ موڑنا مشکل ہو سکتا ہے۔‏ ہمیں اکثر بدعنوان حکومتی اہلکاروں،‏ لالچی آجروں،‏ نااہل اساتذہ اور بدسلوکی کرنے والے والدین کی بابت خبریں سننے کو ملتی ہیں۔‏ خوشی کی بات ہے کہ مسیحی کلیسیا میں بااختیار اشخاص کیلئے زیادہ‌تر ایسا رُجحان نہیں پایا جاتا۔‏—‏متی ۲۴:‏۴۵-‏۴۷‏۔‏

۳،‏ ۴.‏ مسیحیوں کو اختیار والوں کی عزت کیوں کرنی چاہئے؟‏

۳ مسیحیوں کے طور پر،‏ ہمارے پاس دُنیاوی اختیار والوں کا احترام کرنے کی معقول وجہ ہے۔‏ پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت کی کہ ”‏اعلےٰ حکومتوں کے تابعدار رہیں کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔‏“‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱،‏ ۲،‏ ۵؛‏ ۱-‏پطرس ۲:‏۱۳-‏۱۵‏)‏ پولس نے خاندانی حلقے میں بھی بااختیار اشخاص کی فرمانبرداری کرنے کی جائز وجہ پیش کی:‏ ”‏اَے بیویو!‏ جیسا خداوند میں مناسب ہے اپنے شوہروں کے تابع رہو۔‏ اَے فرزندو!‏ ہر بات میں اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ خداوند میں پسندیدہ ہے۔‏“‏ (‏کلسیوں ۳:‏۱۸،‏ ۲۰‏)‏ کلیسیائی بزرگ ہماری عزت کے مستحق ہیں کیونکہ ’‏رُوح‌اُلقدس نے انہیں خدا کی کلیسیا کی گلّہ‌بانی کرنے کیلئے نگہبان مقرر کِیا ہے۔‏‘‏ (‏اعمال ۲۰:‏۲۸‏)‏ یہوواہ کیلئے احترام کی بِنا پر ہم انسانی اختیار کی عزت کرتے ہیں۔‏ تاہم،‏ یہ قدرتی امر ہے کہ یہوواہ کے اختیار کا احترام ہماری زندگیوں میں ہمیشہ مقدم ہونا چاہئے۔‏—‏اعمال ۵:‏۲۹‏۔‏

۴ یہوواہ کے اعلیٰ‌وبالا اختیار کو مدِنظر رکھتے ہوئے،‏ آئیے ہم ایسے اشخاص کی مثالوں پر غور کریں جن میں سے بعض نے تو اصحابِ‌اختیار کیلئے احترام دکھایا مگر بعض نے اُنہیں حقیر جانا۔‏

بےادبی ناپسندیدگی کا باعث بنتی ہے

۵.‏ میکل نے داؤد کیلئے کیسے بےادبی دکھائی اور اسکا انجام کیا ہوا؟‏

۵ داؤد بادشاہ کی تاریخ سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خداداد اختیار کو حقیر جاننے والے اشخاص کو کیسا خیال کرتا ہے۔‏ جب داؤد یروشلیم میں عہد کا صندوق لیکر آیا تو اس کی بیوی میکل نے ”‏داؔؤد بادشاہ کو خداوند کے حضور اُچھلتے اور ناچتے دیکھا۔‏ سو اُس نے اپنے دل ہی دل میں اُسے حقیر جانا۔‏“‏ میکل کو خاندانی سربراہ اور مُلک کے بادشاہ کے طور پر داؤد کے مرتبے کا لحاظ کرنا چاہئے تھا۔‏ مگر اس نے اپنے جذبات کا اظہار نہایت طنزآمیز لہجے میں کِیا:‏ ”‏اِؔسرائیل کا بادشاہ آج کیسا شاندار معلوم ہوتا تھا جس نے آج کے دن اپنے ملازموں کی لونڈیوں کے سامنے اپنے کو برہنہ کِیا جیسے کوئی بانکا بےحیائی سے برہنہ ہو جاتا ہے۔‏“‏ اس کے نتیجے میں میکل مرتے دم تک بےاولاد رہی۔‏—‏۲-‏سموئیل ۶:‏۱۴-‏۲۳‏۔‏

۶.‏ یہوواہ نے اپنے ممسوح کیلئے قورح کی بےادبی کو کیسا خیال کِیا؟‏

۶ خدا کی طرف سے مقررہ تھیوکریٹک پیشوائی کی عزت نہ کرنے کی ایک نمایاں مثال قورح ہے۔‏ ایک قہاتی ہونے کی وجہ سے اُسے خیمۂ‌اجتماع میں یہوواہ کی خدمت کرنے کا بڑا شرف حاصل تھا!‏ پھربھی،‏ اس نے اسرائیلیوں کیلئے خدا کے ممسوح پیشواؤں،‏ موسیٰ اور ہارون کی عیب‌جوئی کی۔‏ قورح نے اسرائیلیوں کے دیگر سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر بڑی گستاخی سے موسیٰ اور ہارون کو کہا:‏ ”‏جماعت کا ایک ایک آدمی مُقدس ہے اور [‏یہوواہ]‏ اُنکے بیچ میں رہتا ہے سو تم اپنے آپ کو [‏یہوواہ]‏ کی جماعت سے بڑا کیونکر ٹھہراتے ہو؟‏“‏ یہوواہ نے قورح اور اسکے حمایتیوں کے رویے کو کیسا خیال کِیا؟‏ خدا نے انکے اس فعل کو اپنی توہین سمجھا۔‏ اپنے تمام حمایتیوں کو زمین میں سماتے ہوئے دیکھنے کے بعد،‏ قورح اور دیگر ۲۵۰ سردار بھی یہوواہ کی طرف سے آنے والی آگ سے ہلاک ہو گئے۔‏—‏گنتی ۱۶:‏۱-‏۳،‏ ۲۸-‏۳۵‏۔‏

۷.‏ کیا ”‏افضل رسولوں“‏ کے پاس پولس کے اختیار پر نکتہ‌چینی کرنے کا کوئی جواز تھا؟‏

۷ پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا میں بھی تھیوکریٹک اختیار کی بےحرمتی کرنے والے اشخاص موجود تھے۔‏ کرنتھس کی کلیسیا میں ”‏افضل رسولوں“‏ نے پولس کے لئے نہایت گستاخانہ رویے کا مظاہرہ کِیا۔‏ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کی تقریری صلاحیت پر تنقید کی:‏ ”‏جب خود موجود ہوتا ہے تو کمزور سا معلوم ہوتا ہے اور اُسکی تقریر لچر ہے۔‏“‏ (‏۲-‏کرنتھیوں ۱۰:‏۱۰؛‏ ۱۱:‏۵‏)‏ پولس کے ایک اچھا مقرر ہونے یا نہ ہونے سے قطع‌نظر،‏ ایک رسول کی حیثیت سے اُسکا واجب احترام کِیا جانا چاہئے تھا۔‏ لیکن کیا پولس کی تقریر واقعی لچر تھی؟‏ بائبل میں درج اس کے عوامی خطاب شہادت دیتے ہیں کہ وہ کتنا قائل کر لینے والا مقرر تھا۔‏ ”‏یہودیوں [‏کے]‏ سب .‏ .‏ .‏ مسئلوں سے واقف،‏“‏ ہیرودیس اگِرپا دوم کیساتھ پولس کی ایک مختصر سی بات‌چیت نے بادشاہ کو یہ کہنے کی حد تک قائل کر لیا تھا:‏ ”‏تُو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کرکے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے“‏!‏ (‏اعمال ۱۳:‏۱۵-‏۴۳؛‏ ۱۷:‏۲۲-‏۳۴؛‏ ۲۶:‏۱-‏۲۸‏)‏ پھربھی،‏ کرنتھس کے افضل رسولوں نے اس پر الزام لگایا کہ اس کی تقریر لچر ہے!‏ یہوواہ نے انکے رویے کو کیسا خیال کِیا؟‏ افسس کی کلیسیا کے نگہبانوں کے نام پیغام میں،‏ یسوع مسیح نے اُن لوگوں کی تعریف کی جنہوں نے ایسے اشخاص کی پیروی کرنے سے انکار کر دیا ’‏جو خود کو رسول کہتے تھے مگر تھے نہیں۔‏‘‏—‏مکاشفہ ۲:‏۲‏۔‏

ناکاملیت کے باوجود احترام

۸.‏ داؤد نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ ساؤل کو یہوواہ کی طرف سے ملے ہوئے اختیار کا احترام کرتا ہے؟‏

۸ بائبل میں ایسے لوگوں کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے اپنے اختیار کا ناجائز یا غلط استعمال کرنے والے اشخاص کیلئے بھی احترام کا مظاہرہ کِیا۔‏ داؤد ایک ایسا ہی عمدہ نمونہ تھا۔‏ ساؤل بادشاہ،‏ داؤد کی کامرانیوں پر حسد کرنے کی وجہ سے اسے قتل کرنے کے درپے تھا حالانکہ وہ محض اُسکا خادم تھا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۱۸:‏۸-‏۱۲؛‏ ۱۹:‏۹-‏۱۱؛‏ ۲۳:‏۲۶‏)‏ تاہم،‏ ساؤل کو قتل کرنے کے مواقع ملنے کے باوجود،‏ داؤد نے کہا:‏ ”‏[‏یہوواہ]‏ نہ کرے کہ مَیں اپنے مالک سے جو [‏یہوواہ]‏ کا ممسوح ہے اَیسا کام کروں کہ اپنا ہاتھ اُس پر چلاؤں اِسلئےکہ وہ [‏یہوواہ]‏ کا ممسوح ہے۔‏“‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۳-‏۶؛‏ ۲۶:‏۷-‏۱۳‏)‏ داؤد جانتا تھا کہ ساؤل غلط ہے لیکن اُس نے یہ معاملہ یہوواہ کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا کہ وہی اُسکا انصاف کریگا۔‏ (‏۱-‏سموئیل ۲۴:‏۱۲،‏ ۱۵؛‏ ۲۶:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ اس نے ساؤل کے سامنے یا اُسکی پیٹھ پیچھے اُسکی بُرائی نہ کی۔‏

۹.‏ (‏ا)‏ساؤل کی طرف سے بدسلوکی کا سامنا کرتے ہوئے داؤد نے کیسا محسوس کِیا؟‏ (‏ب)‏ ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ داؤد ساؤل کیلئے حقیقی احترام رکھتا تھا؟‏

۹ کیا داؤد تکلیف‌دہ تجربات سے گزرنے کے باعث پریشان ہوا تھا؟‏ داؤد نے یہوواہ سے فریاد کی:‏ ”‏تُندخو لوگ میری جان کے خواہاں ہوئے ہیں۔‏“‏ (‏زبور ۵۴:‏۳‏)‏ اس نے یہوواہ کے حضور اپنا دل انڈیل دیا:‏ ”‏اَے میرے خدا!‏ مجھے میرے دُشمنوں سے چھڑا۔‏ .‏ .‏ .‏ اَے [‏یہوواہ]‏!‏ میری خطا یا میرے گناہ کے بغیر زبردست لوگ میرے خلاف اکٹھے ہوتے ہیں۔‏ وہ مجھ بےقصور پر دوڑ دوڑ کر تیار ہوتے ہیں میری کمک کے لئے جاگ اور دیکھ!‏“‏ (‏زبور ۵۹:‏۱-‏۴‏)‏ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کِیا ہے کہ آپ نے کسی بااختیار شخص کے خلاف کوئی غلط کام نہیں کِیا لیکن پھربھی وہ آپ کیلئے مشکلات کھڑی کرتا رہتا ہے؟‏ داؤد کسی بھی طرح ساؤل کیلئے احترام دکھانے میں ناکام نہیں ہوا تھا۔‏ ساؤل کی موت پر خوشی منانے کی بجائے داؤد یوں نوحہ کرتا ہے:‏ ”‏ساؔؤل اور یونتنؔ اپنے جیتے جی عزیز اور دل‌پسند تھے .‏ .‏ .‏ وہ عقابوں سے تیز اور شیرببروں سے زورآور تھے۔‏ اَے اِؔسرائیل کی بیٹیو!‏ ساؔؤل پر رو۔‏“‏ (‏۲-‏سموئیل ۱:‏۲۳،‏ ۲۴‏)‏ اگرچہ ساؤل نے داؤد کیساتھ بُرا سلوک کِیا توبھی یہوواہ کے ممسوح کیلئے حقیقی احترام کی کیا ہی عمدہ مثال!‏

۱۰.‏ پولس نے گورننگ باڈی کے خداداد اختیار کا احترام کرنے میں کونسا عمدہ نمونہ قائم کِیا اور اسکا نتیجہ کیا نکلا؟‏

۱۰ ہم مسیحی دَور میں بھی خداداد اختیارات کا احترام کرنے والوں کی شاندار مثالیں پاتے ہیں۔‏ ذرا پولس کی مثال پر ہی غور کیجئے۔‏ اس نے پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا کی گورننگ باڈی کے فیصلوں کیلئے احترام ظاہر کِیا۔‏ جب پولس نے یروشلیم کا آخری دورہ کِیا تو گورننگ باڈی نے اسے اپنے آپکو رسمی طور پر پاک کرنے کا مشورہ دیا تاکہ لوگوں پر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ موسوی شریعت کا مخالف نہیں ہے۔‏ پولس یہ سوچ سکتا تھا:‏ ’‏جب میری زندگی خطرے میں تھی تو انہی بھائیوں نے مجھے پہلے یروشلیم چھوڑنے کیلئے کہا تھا۔‏ اب یہی مجھ سے سرِعام یہ ثابت کرانا چاہتے ہیں کہ مَیں موسوی شریعت کا پیرو ہوں۔‏ مَیں تو گلتیوں کو اپنے خط میں یہ مشورہ بھی دے چکا ہوں کہ شریعت کی پابندی کرنا ضروری نہیں ہے۔‏ مجھے ہیکل جاتا ہوا دیکھ کر دوسرے اس غلط‌فہمی کا شکار ہو جائینگے کہ مَیں مختونوں کیساتھ مِل گیا ہوں۔‏‘‏ تاہم،‏ پولس نے بدیہی طور پر ایسا نہیں سوچا تھا۔‏ پہلی صدی کی گورننگ باڈی کی مشورت پر عمل کرنے سے کسی بھی طرح مسیحی اصولوں کی خلاف‌ورزی نہیں ہوتی تھی اسلئے پولس نے احترام کیساتھ اس مشورت پر عمل کِیا۔‏ اسکا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ پولس کو مشتعل یہودیوں کے حملے سے تو بچا لیا گیا مگر بعدازاں اُسے دو سال تک قیدخانہ میں رہنا پڑا۔‏ انجام‌کار،‏ اس سب سے خدا کی مرضی پوری ہوئی۔‏ پولس نے قیصریہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے سامنے گواہی دی اور اسکے بعد اُسے قیصر کے سامنے گواہی دینے کیلئے حکومت کے خرچے پر روم لیجایا گیا۔‏—‏اعمال ۹:‏۲۶-‏۳۰؛‏ ۲۱:‏۲۰-‏۲۶؛‏ ۲۳:‏۱۱؛‏ ۲۴:‏۲۷؛‏ گلتیوں ۲:‏۱۲؛‏ ۴:‏۹،‏ ۱۰‏۔‏

کیا آپ احترام دکھاتے ہیں؟‏

۱۱.‏ ہم دُنیاوی حکام کیلئے احترام کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟‏

۱۱ کیا آپ بااختیار اشخاص کیلئے واجب احترام دکھاتے ہیں؟‏ مسیحیوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ”‏سب کا حق ادا کرو۔‏ .‏ .‏ .‏ جسکی عزت کرنا چاہئے اُسکی عزت کرو۔‏“‏ واقعی،‏ ”‏اعلےٰ حکومتوں“‏ کی تابعداری میں نہ صرف ٹیکس ادا کرنا بلکہ اپنے کردار اور گفتار سے ان حکومتوں کے لئے عزت دکھانا بھی شامل ہے۔‏ (‏رومیوں ۱۳:‏۱-‏۷‏)‏ ظالم حکومتی اہلکاروں کا سامنا کرتے وقت ہمیں کیسا ردِعمل ظاہر کرنا چاہئے؟‏ ریاستِ‌چیاپس،‏ میکسیکو میں ایک علاقے کے حکام نے کچھ مذہبی تہواروں میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ۵۷ یہوواہ کے گواہ خاندانوں کی زمینوں پر قبضہ کر لیا۔‏ صاف‌ستھرے لباس میں ملبّس گواہوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے منعقد ہونے والے اجلاسوں میں ہمیشہ عزت‌واحترام کیساتھ گفتگو کی۔‏ ایک سال بعد،‏ فیصلہ ان کے حق میں ہو گیا۔‏ انکے رویے نے بعض مشاہدین کے احترام کو اس حد تک جیت لیا کہ وہ بھی یہوواہ کے گواہ بننا چاہتے تھے!‏

۱۲.‏ ایک بیوی کیلئے اپنے بےایمان شوہر کیلئے ”‏گہرا احترام“‏ دکھانا کیوں اہم ہے؟‏

۱۲ آپ خاندان میں خداداد اختیار کے لئے کیسے احترام ظاہر کر سکتے ہیں؟‏ دُکھ اُٹھانے کے سلسلے میں یسوع کے نمونے پر بات‌چیت کرنے کے بعد،‏ پطرس رسول نے کہا:‏ ”‏اَے بیویو!‏ تم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابع رہو۔‏ اِسلئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں توبھی تمہارے پاکیزہ چال‌چلن اور خوف [‏”‏گہرے احترام،‏“‏ این‌ڈبلیو‏]‏ کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیوی کے چال‌چلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔‏“‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۱،‏ ۲؛‏ افسیوں ۵:‏۲۲-‏۲۴‏)‏ پطرس یہاں ایک بیوی کی طرف سے ”‏گہرے احترام“‏ کیساتھ اپنے شوہر کی تابعداری کرنے کے پہلو کو اُجاگر کرتا ہے اگرچہ بعض شوہر ایسا احترام حاصل کرنے کے بالکل لائق نہیں ہوتے۔‏ ایک بیوی کا بااحترام رویہ اس کے بےایمان شوہر کے دل کو جیت سکتا ہے۔‏

۱۳.‏ بیویاں اپنے شوہروں کی عزت کیسے کر سکتی ہیں؟‏

۱۳ ان آیات کے سیاق‌وسباق میں،‏ پطرس ہماری توجہ سارہ کے نمونے پر دلاتا ہے جس کا شوہر،‏ ابرہام ایمان کی ایک غیرمعمولی مثال تھا۔‏ (‏رومیوں ۴:‏۱۶،‏ ۱۷؛‏ گلتیوں ۳:‏۶-‏۹؛‏ ۱-‏پطرس ۳:‏۶‏)‏ کیا بےایمان شوہروں کی بیویوں کی نسبت ایماندار شوہروں کی بیویوں کو اُنکی کم عزت کرنی چاہئے؟‏ اگر آپ اپنے شوہر کیساتھ کسی معاملے پر متفق نہیں ہیں تو ایسی صورت میں آپ کیا کرینگی؟‏ اس ضمن میں یسوع کی پیش‌کردہ اس مشورت کا عام اطلاق کِیا جا سکتا ہے:‏ ”‏جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اُسکے ساتھ دو کوس چلا جا۔‏“‏ ‏(‏متی ۵:‏۴۱‏)‏ کیا آپ اپنے شوہر کی خواہشات کے مطابق عمل کرنے سے اس کا احترام کرتی ہیں؟‏ اگر یہ مشکل دکھائی دے تو اسکے سامنے اپنے احساسات کا اظہار کریں۔‏ کبھی بھی یہ اندازہ نہ لگائیں کہ وہ آپکے احساسات سے واقف ہے۔‏ لیکن جب آپ اُسکے سامنے اپنی خواہشات کا اظہار کرتی ہیں تو ہمیشہ عزت‌واحترام کیساتھ بات کریں۔‏ بائبل ہمیں نصیحت کرتی ہے:‏ ”‏تمہارا کلام ہمیشہ ایسا پُرفضل اور نمکین ہو کہ تمہیں ہر شخص کو مناسب جواب دینا آ جائے۔‏“‏—‏کلسیوں ۴:‏۶‏۔‏

۱۴.‏ والدین کی عزت کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟‏

۱۴ بچوں کیلئے کیا مشورہ ہے؟‏ خدا کا کلام حکم دیتا ہے:‏ ”‏اَے فرزندو!‏ خداوند میں اپنے ماں باپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔‏ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر (‏یہ پہلا حکم ہے جسکے ساتھ وعدہ بھی ہے)‏۔‏“‏ (‏افسیوں ۶:‏۱-‏۳‏)‏ غور کریں کہ والدین کی فرمانبرداری کو ’‏اپنے ماں باپ کی عزت‘‏ کرنے کے مترادف ٹھہرایا گیا ہے۔‏ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”‏عزت“‏ کِیا گیا ہے وہ ”‏اعزاز بخشنے“‏ یا ”‏قدروقیمت کا حامل قرار دینے“‏ کا مفہوم رکھتا ہے۔‏ لہٰذا،‏ فرمانبرداری والدین کی طرف سے وضع‌کردہ ایسے اصولوں کی بےدلی کیساتھ پابندی کرنے سے زیادہ کا تقاضا کرتی ہے جو شاید آپکی نظر میں نامعقول ہوں۔‏ خدا آپ سے اپنے والدین اور انکی راہنمائی کی عزت‌وتوقیر کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔‏—‏امثال ۱۵:‏۵‏۔‏

۱۵.‏ والدین سے غلطیاں سرزد ہونے کی صورت میں بھی بچے اُن کیلئے احترام کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‏

۱۵ اگر والدین کے کسی کام کی وجہ سے آپکی نظروں میں اُنکی عزت کم ہو جاتی ہے تو پھر کیا ہو؟‏ انکے نقطۂ‌نظر سے تمام معاملات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔‏ کیا انہوں نے آپ کو ”‏پیدا“‏ اور آپ کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کِیا؟‏ (‏امثال ۲۳:‏۲۲‏)‏ کیا انہوں نے آپ پر اپنی محبت نچھاور نہیں کی؟‏ (‏عبرانیوں ۱۲:‏۷-‏۱۱‏)‏ اپنے والدین سے احترام اور حلم کیساتھ بات کرتے ہوئے اپنے احساسات کا اظہار کریں۔‏ اگر اُنکا جوابی‌عمل آپکو پسند نہیں آتا توبھی گستاخانہ لہجے میں بات کرنے سے اجتناب برتیں۔‏ (‏امثال ۲۴:‏۲۹‏)‏ یاد کریں کہ ساؤل بادشاہ کے خدائی مشورت سے منحرف ہو جانے کے باوجود داؤد نے اُس کیلئے احترام برقرار رکھا۔‏ اپنے جذبات پر قابو پانے کیلئے یہوواہ سے مدد کی درخواست کریں۔‏ ”‏اپنے دل کا حال اُسکے سامنے کھول دو،‏“‏ داؤد نے کہا۔‏ ”‏خدا ہماری پناہ‌گاہ ہے۔‏“‏—‏زبور ۶۲:‏۸؛‏ نوحہ ۳:‏۲۵-‏۲۷‏۔‏

پیشواؤں کی عزت کریں

۱۶.‏ ہم جھوٹے اُستادوں اور فرشتوں کے نمونوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟‏

۱۶ کلیسیائی بزرگ اگرچہ رُوح‌اُلقدس سے مقرر ہوتے ہیں توبھی ناکامل ہونے کے باعث اُن سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔‏ (‏زبور ۱۳۰:‏۳؛‏ واعظ ۷:‏۲۰؛‏ اعمال ۲۰:‏۲۸؛‏ یعقوب ۳:‏۲‏)‏ نتیجتاً،‏ مسیحی کلیسیا کے بعض ارکان بزرگوں سے مطمئن نہیں ہوتے۔‏ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کلیسیا میں کوئی کام درست طریقے سے نہیں کِیا جا رہا یا ہمیں اسکا گمان ہی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ہمیں کیسا ردِعمل دکھانا چاہئے؟‏ پہلی صدی کے جھوٹے اُستادوں اور فرشتوں کے درمیان اس فرق پر غور کیجئے:‏ ”‏وہ [‏جھوٹے اُستاد]‏ گستاخ اور خودرای ہیں اور عزت‌داروں پر لعن‌طعن کرنے سے نہیں ڈرتے۔‏ باوجودیکہ فرشتے جو طاقت اور قدرت میں اُن سے بڑے ہیں خداوند کے سامنے اُن پر لعن‌طعن کے ساتھ نالش نہیں کرتے۔‏“‏ (‏۲-‏پطرس ۲:‏۱۰-‏۱۳‏)‏ جھوٹے اُستاد تو ”‏عزت‌داروں“‏—‏پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا میں بااختیار بزرگ—‏پر لعن‌طعن کرتے تھے مگر فرشتوں نے بھائیوں کے درمیان نفاق کا سبب بننے والے جھوٹے اُستادوں پر لعن‌طعن نہیں کی تھی۔‏ انسانوں سے زیادہ اختیار اور انصاف کی سمجھ رکھنے والے فرشتے کلیسیا میں واقع ہونے والی باتوں سے آگاہ تھے۔‏ تاہم،‏ یہوواہ کا احترام کرنے کی وجہ سے اُنہوں نے اُسی کو عدالت کرنے دی۔‏—‏عبرانیوں ۲:‏۶،‏ ۷؛‏ یہوداہ ۹‏۔‏

۱۷.‏ ایسے مسائل سے نپٹتے وقت آپکا ایمان کیا کردار ادا کرتا ہے جن میں آپ سمجھتے ہیں کہ بزرگوں کی غلطی ہے؟‏

۱۷ اگر کوئی معاملہ متوقع طریقے سے نہیں بھی سلجھایا جاتا تو کیا ہمیں مسیحی کلیسیا کے زندہ سردار،‏ یسوع مسیح پر ایمان نہیں رکھنا چاہئے؟‏ کیا وہ اپنی عالمگیر کلیسیا میں رُونما ہونے والی باتوں سے آگاہ نہیں ہے؟‏ کیا ہمیں اس بات کا لحاظ نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ تمام معاملات کو احسن طریقے سے نپٹانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟‏ واقعی،‏ ’‏ہم اپنے پڑوسی پر الزام لگانے والے کون ہوتے ہیں؟‏‘‏ (‏یعقوب ۴:‏۱۲؛‏ ۱-‏کرنتھیوں ۱۱:‏۳؛‏ کلسیوں ۱:‏۱۸‏)‏ کیوں نہ اپنی ساری فکریں اپنی دُعاؤں میں یہوواہ کے حضور پیش کریں؟‏

۱۸،‏ ۱۹.‏ اگر آپ کے خیال میں کسی بزرگ نے غلطی کی ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟‏

۱۸ انسانی ناکاملیت کے باعث،‏ مشکلات یا مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔‏ ممکن ہے کہ بعض‌اوقات ایک بزرگ سے بھی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جو دوسروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتی ہے۔‏ ایسی صورتحال میں جلدبازی سے کام لینا مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اِسے مزید بگاڑ دے گا۔‏ روحانی بصیرت رکھنے والے اشخاص یہوواہ کا انتظار کریں گے کہ وہ اپنے وقت اور اپنے طریقے سے معاملات سلجھائے اور ضروری تنبیہ کرے۔‏—‏۲-‏تیمتھیس ۳:‏۱۶؛‏ عبرانیوں ۱۲:‏۷-‏۱۱‏۔‏

۱۹ اگر کوئی بات آپکو پریشان کر رہی ہے تو پھر آپ کو کیا کرنا چاہئے؟‏ کلیسیا میں دوسروں کیساتھ بات کرنے کی بجائے کیوں نہ بڑے احترام کیساتھ بزرگوں سے ہی مدد کی درخواست کی جائے؟‏ نکتہ‌چینی کے بغیر وضاحت کریں کہ آپ اس سے کیسے متاثر ہوئے ہیں۔‏ اُن کیساتھ ہمیشہ ’‏ہمدردی‘‏ سے پیش آئیں اور رازونیاز کی باتوں میں بھی احترام برقرار رکھیں۔‏ (‏۱-‏پطرس ۳:‏۸‏)‏ طنزآمیز باتوں کا سہارا لینے کی بجائے انکی مسیحی پختگی پر بھروسا کریں۔‏ مہربانہ انداز میں پیش کی جانے والی صحیفائی حوصلہ‌افزائی کو خوشی سے قبول کریں۔‏ علاوہ‌ازیں،‏ اگر مزید اصلاحی اقدام اُٹھانے کی ضرورت محسوس ہو تو یہوواہ پر توکل رکھیں کہ وہ درست اور جائز کارروائی کرنے کیلئے بزرگوں کی راہنمائی کریگا۔‏—‏گلتیوں ۶:‏۱۰؛‏ ۲-‏تھسلنیکیوں ۳:‏۱۳‏۔‏

۲۰.‏ ہم اگلے مضمون میں کس بات پر غور کرینگے؟‏

۲۰ تاہم،‏ اختیار والوں کی عزت‌واحترام کے سلسلے میں ایک اَور غورطلب پہلو ابھی باقی ہے۔‏ کیا بااختیار اشخاص پر اپنے ماتحتوں کی عزت کرنا فرض نہیں ہے؟‏ آئیے اگلے مضمون میں اس بات کا جائزہ لیں۔‏

آپ کیسے جواب دینگے؟‏

‏• ہمارے پاس اختیار والوں کی عزت کرنے کی کونسی معقول وجہ ہے؟‏

‏• یہوواہ اور یسوع خداداد اختیار کا احترام نہ کرنے والے اشخاص کو کیسا خیال کرتے ہیں؟‏

‏• ہمارے پاس بااختیار اشخاص کا احترام کرنے والوں کی کونسی عمدہ مثالیں ہیں؟‏

‏• اگر کسی بااختیار شخص سے بظاہر کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟‏

‏[‏مطالعے کے سوالات]‏

‏[‏صفحہ ۱۲ پر تصویر]‏

سارہ نے ابرہام کے اختیار کا گہرا احترام کرنے سے خوشی حاصل کی

‏[‏صفحہ ۱۳ پر تصویر]‏

میکل خاندانی سربراہ اور بادشاہ کے طور پر داؤد کا احترام کرنے میں ناکام رہی

‏[‏صفحہ ۱۵ پر تصویر]‏

‏”‏[‏یہوواہ]‏ نہ کرے کہ مَیں .‏ .‏ .‏ اپنا ہاتھ اُس پر چلاؤں اسلئے کہ وہ [‏یہوواہ]‏ کا ممسوح ہے“‏

‏[‏صفحہ ۱۶ پر تصویر]‏

کیوں نہ اپنی ساری فکریں اپنی دُعاؤں میں یہوواہ کے حضور پیش کریں؟‏